مزدوروں کی حالت زار
محکمہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں محنت کشوں کی تعداد 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم مئی (محنت کشوں کا عالمی دن) آگیا ہے۔ ہم ستر سال سے مزدوروں کا یہ عالمی دن دیکھ بھی رہے ہیں اور منا بھی رہے ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کرنا اور ان میں اپنے حقوق و فرائض کے حوالے سے آگہی پیدا کرنا ہے۔ دنیا میں مزدور حقوق سے متعلق تحریک زیادہ پرانی نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں برصغیر پاک و ہند میں پہلے سے موجود مزدور قوانین کو ہی اپنا لیا گیا تھا اس کے بعد ان میں ترامیم کے ساتھ ساتھ نئی قانون سازی بھی کی جاتی رہی۔ لیکن ان روایتی یا وراثتی قوانین میں ترامیم اور نئے بنائے جانے والے قوانین جو وقتاً فوقتاً رائج کیے جاتے رہے، عصری ضرورتوں اور زمینی حقائق کو صحیح طور پر مدنظر نہ رکھے جانے یا باالفاظ دیگر وقتی ضرورت اور عزائم کو مقدم رکھنے کی وجہ سے اور ان کے موثر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے جس کے نتیجے میں صنعتی امن بھی متاثر ہوا مزدوروں کے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے چلے گئے اداروں کو نقصان پہنچا ٹریڈ یونین ازم کو نقصان پہنچا اور اس میں سیاسی گروہی و ذاتی مفادات اور لسانیت نے بھی جڑیں پکڑ لیں اور عزم کی جگہ سیاسی، گروہی و ذاتی عزائم نے لے لی۔
ستر کا عشرہ یونین سازی اور مزدور سرگرمیوں کے لحاظ سے بڑا نمایاں رہا جس دوران یونینز کی تعداد سیکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ مزدور یونینز میں اجماعتی سودے کاری کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہوا۔ یونینز کی فیڈریشنز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ان کی ممبر شپ بڑھی لیکن بدقسمتی سے توازن قائم نہ رہنے کی وجہ سے صنعتی امن درہم برہم ہوا، ہڑتالیں، تالابندیاں ہوئیں، مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں، اداروں سے محنت کشوں کی چھانٹیاں ہوئیں، پھر نجکاری کا کاری وار شروع ہوا جس سے بے روزگاری اور محنت کشوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا، حالانکہ نجکاری کا بنیادی مقصد غیر منافع بخش اور بیمار اداروں کا نجی تحویل میں دینا تھا لیکن اس کے برعکس منافع بخش اور حساس قومی اداروں تک کی نجکاری کی گئی، جس سے نہ صرف محنت کشوں کے بلکہ مجموعی طور پر ملک و قوم کے مفادات کو نقصان پہنچا۔ ٹھیکیداری اور کنٹریکٹ سسٹم اور محنت کشوں کے مفادات کے برخلاف قانون سازی نے محنت کشوں کا مزید استحصال کیا۔
محکمہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں محنت کشوں کی تعداد 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہے جس کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ افراد کی ہے۔ انھیں قانون کے مطابق تنخواہ و مراعات فراہم کرنا EOBI اور سوشل سیکیورٹی جیسے فلاحی اداروں میں رجسٹرڈ کرانا دیگر سرکاری کھاتوں میں اس کا اندراج کرا کے محنت کشوں کو معاشی تحفظ فراہم کرنا اس نظام کی مانیٹرنگ کرنا بالترتیب آجر، متعلقہ حکومتی اداروں اور محکمہ محنت کی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ تمام محنت کشوں کے حقوق کی پامالی میں برابر کے شریک ہیں ان متعلقہ اداروں کے افسران محنت کشوں کو ان کے جائز قانونی حقوق دلوانے کے بجائے ذاتی مفادات سمیٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی میں اربوں روپے کے کرپشن کے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ برسہا برس سے کام کرنے والے ملازمین کا محکمہ محنت، سوشل سیکیورٹی اور EOBI میں اندراج نہیں ہے جس کی وجہ سے محنت کش معاشی عدم تحفظ کا شکار اور اپنے بنیادی قانونی حقوق سے محروم ہیں کم ازکم 14,000 روپے ماہانہ تنخواہ کے قانون کی بڑے پیمانے پر کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ملک کے طول و ارض میں ایک محنت کش کو 6,000 تا 10,000 تک تنخواہ دی جا رہی ہے ان سے اضافی کام بھی لیا جاتا ہے حالانکہ اضافی اوقات میں کام لینے پر قانونی طور پر دو گنا ادائیگی کی پابندی لازمی ہے۔
برسہا برس سے کام کرنے والے محنت کشوں کو نہ کوئی تقرری نامہ دیا جاتا ہے نہ ہی کسی قسم کی مراعات دی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حفاظتی انتظامات اور حفاظتی آلات تک ناپید ہوتے ہیں کسی حادثے میں موت یا معذوری کی صورت میں مزدوروں کی کچھ نہیں ملتا ہے۔ خصوصاً سیمنٹ، کھاد ، ٹیکسٹائل، پلاسٹک اور اسٹیل کی صنعت سے وابستہ محنت کش مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کی تو نسلیں بھی مقروض اور غلام پیدا ہوتی ہیں۔
چائلڈ لیبر اور اسٹریٹ چلڈرن بھی ایک معاشرتی المیہ ہے گھریلو ملازمین پر سفاکانہ تشدد کا رجحان بھی روز افزوں ہے، پہلے تو یہ سلسلہ جاگیرداروں اور وڈیروں تک محیط تھا، اب معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بااثر طبقے میں بھی یہ روش پیدا ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر، وکلا، صنعت کار اپنے گھریلو ملازمین پر بہیمانہ تشدد کر رہے ہیں کچھ عرصہ قبل ایک جج کی بیوی کی جانب سے اپنی گھریلو ملازمہ بچی طیبہ پر روح فرسا تشدد کا کیس سامنے آیا تھا جس کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کی ہے گزشتہ روز طیبہ تشدد کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ حکومت نے بچوں کے تحفظ اور چائلڈ لیبر کے خلاف بل تیار کرلیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ مجوزہ بل کی نقول تمام فریقین کو فراہم کرے اور بل پر سول سوسائٹی کی رائے بھی لی جائے اور آیندہ سماعت پر عدالت کو اس سے آگاہ کرے۔
مزدور نمائندوں کو ہر قانون سازی پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس پر ان سے مشاورت نہیں کی گئی، انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا یا پھر ان کی پیش کردہ سفارشات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ قانون اور پالیسیاں حکومت، آجر اور اجیر کے نمایندوں کے باہمی اشتراک سے بنائی جاتی ہیں حکومت بات چیت اور اظہار خیال کے لیے تینوں فریقین کی کانفرنسیں بھی منعقد کرتی رہتی ہے اسے مزدور نمایندوں کی رائے کا احترام اور ان کی پیش کردہ سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی قانون کو تمام فریقین کا اعتماد اور تائید حاصل ہو پاکستان میں محنت کشوں کا سب سے زیادہ استحصال محکمہ محنت کرتا ہے جس کو اختیار ہے اور اس کی ذمے داری بھی ہے کہ کسی بھی صنعت میں جاکر وہاں مزدوروں کی تعداد، کام کے حالات کار، حفاظتی اقدامات، تنخواہوں کا ریکارڈ اور مختلف لیبر قوانین میں دیے گئے معیارات کو چیک کرے، ان پر عمل کروائے اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ لیکن اس کی توجہ اس جانب بالکل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے اور آج تک جرم کا کوئی مرتکب یا ان کے کنٹرولنگ ادارے کے کسی فرد کو کوئی سزا نہیں ملی مزدور رہنماؤں کی سیاسی وابستگی اور پیشہ ورانہ لیڈر شپ نے بھی محنت کشوں کے مفادات کو اجتماعی نقصان پہنچایا ہے۔
مزدور قوانین میں جہاں محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے وہیں اس میں بہت سی قباحتیں بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے محنت کش اپنے قانونی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں مثلاً یہ کہ اول تو وہ اپنے حقوق سے ناآشنا ہوتے ہیں ان کے سماجی تعلقات کم ہوتے ہیں وکلا کی فیس برداشت نہیں کرسکتے۔
عام وکلا مزدور قوانین مزدور عدالتوں اور ان کے طریقہ کار سے آگاہ نہیں ہوتے جس کا نقصان مزدوروں کو پہنچتا ہے دوسری جانب آجر کے پاس تجربہ کار پروفیشنل وکلا کی خدمات ہوتی ہیں دیگر قوانین کے برعکس مزدور کے لیے اپنی ملازمت کو بچانے کے لیے اسٹے آرڈر کا اختیار نہیں ہوتا ہے دوران مقدمہ اس کی تنخواہ کورٹ میں جمع کرانے کا بھی کوئی آپشن نہیں ہوتا جیساکہ کرایہ داری کے مقدمات میں کرایہ عدالت میں جمع کرانے کا آپشن ہوتا ہے۔
اگر ایک ملازم اپنے ریٹائرمنٹ یا واجبات کے لیے عدالت جاتا ہے تو طویل تر عدالتی کارروائی اور پھر اپیل در اپیل کی صورت میں اس کے زندہ رہنے کے امکانات ہی معدوم ہوجاتے ہیں۔ ایک بے روزگار ملازم اگر اپنے واجبات وصول کرلے تو اس کے مقدمے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی کئی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک محنت کش کو اپنے جائز حقوق سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ مزدوروں کے حالات کار اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں اور انھیں انصاف اسی وقت مل سکتا ہے جب حکومت دیانت داری اور خوف خدا کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے۔
قیام پاکستان کے بعد یہاں برصغیر پاک و ہند میں پہلے سے موجود مزدور قوانین کو ہی اپنا لیا گیا تھا اس کے بعد ان میں ترامیم کے ساتھ ساتھ نئی قانون سازی بھی کی جاتی رہی۔ لیکن ان روایتی یا وراثتی قوانین میں ترامیم اور نئے بنائے جانے والے قوانین جو وقتاً فوقتاً رائج کیے جاتے رہے، عصری ضرورتوں اور زمینی حقائق کو صحیح طور پر مدنظر نہ رکھے جانے یا باالفاظ دیگر وقتی ضرورت اور عزائم کو مقدم رکھنے کی وجہ سے اور ان کے موثر اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وہ مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے جس کے نتیجے میں صنعتی امن بھی متاثر ہوا مزدوروں کے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے چلے گئے اداروں کو نقصان پہنچا ٹریڈ یونین ازم کو نقصان پہنچا اور اس میں سیاسی گروہی و ذاتی مفادات اور لسانیت نے بھی جڑیں پکڑ لیں اور عزم کی جگہ سیاسی، گروہی و ذاتی عزائم نے لے لی۔
ستر کا عشرہ یونین سازی اور مزدور سرگرمیوں کے لحاظ سے بڑا نمایاں رہا جس دوران یونینز کی تعداد سیکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ مزدور یونینز میں اجماعتی سودے کاری کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہوا۔ یونینز کی فیڈریشنز کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ان کی ممبر شپ بڑھی لیکن بدقسمتی سے توازن قائم نہ رہنے کی وجہ سے صنعتی امن درہم برہم ہوا، ہڑتالیں، تالابندیاں ہوئیں، مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں، اداروں سے محنت کشوں کی چھانٹیاں ہوئیں، پھر نجکاری کا کاری وار شروع ہوا جس سے بے روزگاری اور محنت کشوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا، حالانکہ نجکاری کا بنیادی مقصد غیر منافع بخش اور بیمار اداروں کا نجی تحویل میں دینا تھا لیکن اس کے برعکس منافع بخش اور حساس قومی اداروں تک کی نجکاری کی گئی، جس سے نہ صرف محنت کشوں کے بلکہ مجموعی طور پر ملک و قوم کے مفادات کو نقصان پہنچا۔ ٹھیکیداری اور کنٹریکٹ سسٹم اور محنت کشوں کے مفادات کے برخلاف قانون سازی نے محنت کشوں کا مزید استحصال کیا۔
محکمہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں محنت کشوں کی تعداد 5 کروڑ 83 لاکھ سے زائد ہے جس کی بڑی تعداد ملازمت پیشہ افراد کی ہے۔ انھیں قانون کے مطابق تنخواہ و مراعات فراہم کرنا EOBI اور سوشل سیکیورٹی جیسے فلاحی اداروں میں رجسٹرڈ کرانا دیگر سرکاری کھاتوں میں اس کا اندراج کرا کے محنت کشوں کو معاشی تحفظ فراہم کرنا اس نظام کی مانیٹرنگ کرنا بالترتیب آجر، متعلقہ حکومتی اداروں اور محکمہ محنت کی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ تمام محنت کشوں کے حقوق کی پامالی میں برابر کے شریک ہیں ان متعلقہ اداروں کے افسران محنت کشوں کو ان کے جائز قانونی حقوق دلوانے کے بجائے ذاتی مفادات سمیٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی میں اربوں روپے کے کرپشن کے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ برسہا برس سے کام کرنے والے ملازمین کا محکمہ محنت، سوشل سیکیورٹی اور EOBI میں اندراج نہیں ہے جس کی وجہ سے محنت کش معاشی عدم تحفظ کا شکار اور اپنے بنیادی قانونی حقوق سے محروم ہیں کم ازکم 14,000 روپے ماہانہ تنخواہ کے قانون کی بڑے پیمانے پر کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ملک کے طول و ارض میں ایک محنت کش کو 6,000 تا 10,000 تک تنخواہ دی جا رہی ہے ان سے اضافی کام بھی لیا جاتا ہے حالانکہ اضافی اوقات میں کام لینے پر قانونی طور پر دو گنا ادائیگی کی پابندی لازمی ہے۔
برسہا برس سے کام کرنے والے محنت کشوں کو نہ کوئی تقرری نامہ دیا جاتا ہے نہ ہی کسی قسم کی مراعات دی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حفاظتی انتظامات اور حفاظتی آلات تک ناپید ہوتے ہیں کسی حادثے میں موت یا معذوری کی صورت میں مزدوروں کی کچھ نہیں ملتا ہے۔ خصوصاً سیمنٹ، کھاد ، ٹیکسٹائل، پلاسٹک اور اسٹیل کی صنعت سے وابستہ محنت کش مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والوں کی تو نسلیں بھی مقروض اور غلام پیدا ہوتی ہیں۔
چائلڈ لیبر اور اسٹریٹ چلڈرن بھی ایک معاشرتی المیہ ہے گھریلو ملازمین پر سفاکانہ تشدد کا رجحان بھی روز افزوں ہے، پہلے تو یہ سلسلہ جاگیرداروں اور وڈیروں تک محیط تھا، اب معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بااثر طبقے میں بھی یہ روش پیدا ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر، وکلا، صنعت کار اپنے گھریلو ملازمین پر بہیمانہ تشدد کر رہے ہیں کچھ عرصہ قبل ایک جج کی بیوی کی جانب سے اپنی گھریلو ملازمہ بچی طیبہ پر روح فرسا تشدد کا کیس سامنے آیا تھا جس کا سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کی ہے گزشتہ روز طیبہ تشدد کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ حکومت نے بچوں کے تحفظ اور چائلڈ لیبر کے خلاف بل تیار کرلیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ مجوزہ بل کی نقول تمام فریقین کو فراہم کرے اور بل پر سول سوسائٹی کی رائے بھی لی جائے اور آیندہ سماعت پر عدالت کو اس سے آگاہ کرے۔
مزدور نمائندوں کو ہر قانون سازی پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس پر ان سے مشاورت نہیں کی گئی، انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا یا پھر ان کی پیش کردہ سفارشات کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ قانون اور پالیسیاں حکومت، آجر اور اجیر کے نمایندوں کے باہمی اشتراک سے بنائی جاتی ہیں حکومت بات چیت اور اظہار خیال کے لیے تینوں فریقین کی کانفرنسیں بھی منعقد کرتی رہتی ہے اسے مزدور نمایندوں کی رائے کا احترام اور ان کی پیش کردہ سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی قانون کو تمام فریقین کا اعتماد اور تائید حاصل ہو پاکستان میں محنت کشوں کا سب سے زیادہ استحصال محکمہ محنت کرتا ہے جس کو اختیار ہے اور اس کی ذمے داری بھی ہے کہ کسی بھی صنعت میں جاکر وہاں مزدوروں کی تعداد، کام کے حالات کار، حفاظتی اقدامات، تنخواہوں کا ریکارڈ اور مختلف لیبر قوانین میں دیے گئے معیارات کو چیک کرے، ان پر عمل کروائے اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے۔ لیکن اس کی توجہ اس جانب بالکل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے اور آج تک جرم کا کوئی مرتکب یا ان کے کنٹرولنگ ادارے کے کسی فرد کو کوئی سزا نہیں ملی مزدور رہنماؤں کی سیاسی وابستگی اور پیشہ ورانہ لیڈر شپ نے بھی محنت کشوں کے مفادات کو اجتماعی نقصان پہنچایا ہے۔
مزدور قوانین میں جہاں محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے وہیں اس میں بہت سی قباحتیں بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے محنت کش اپنے قانونی حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں مثلاً یہ کہ اول تو وہ اپنے حقوق سے ناآشنا ہوتے ہیں ان کے سماجی تعلقات کم ہوتے ہیں وکلا کی فیس برداشت نہیں کرسکتے۔
عام وکلا مزدور قوانین مزدور عدالتوں اور ان کے طریقہ کار سے آگاہ نہیں ہوتے جس کا نقصان مزدوروں کو پہنچتا ہے دوسری جانب آجر کے پاس تجربہ کار پروفیشنل وکلا کی خدمات ہوتی ہیں دیگر قوانین کے برعکس مزدور کے لیے اپنی ملازمت کو بچانے کے لیے اسٹے آرڈر کا اختیار نہیں ہوتا ہے دوران مقدمہ اس کی تنخواہ کورٹ میں جمع کرانے کا بھی کوئی آپشن نہیں ہوتا جیساکہ کرایہ داری کے مقدمات میں کرایہ عدالت میں جمع کرانے کا آپشن ہوتا ہے۔
اگر ایک ملازم اپنے ریٹائرمنٹ یا واجبات کے لیے عدالت جاتا ہے تو طویل تر عدالتی کارروائی اور پھر اپیل در اپیل کی صورت میں اس کے زندہ رہنے کے امکانات ہی معدوم ہوجاتے ہیں۔ ایک بے روزگار ملازم اگر اپنے واجبات وصول کرلے تو اس کے مقدمے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی کئی قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک محنت کش کو اپنے جائز حقوق سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ مزدوروں کے حالات کار اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں اور انھیں انصاف اسی وقت مل سکتا ہے جب حکومت دیانت داری اور خوف خدا کے ساتھ اپنا کردار ادا کرے۔