اشرافیہ کی غیر اشرافیاں
اشرافیہ کس قدر خالص ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو جلسوں کی تقاریر اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز دیکھ لیں
جب قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ڈان لیکس کے بارے میں وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے تعلق سے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی لاعلمی کے جواب میں ان کے استعفی کا مطالبہ کیا تو وزارتِ داخلہ کے ترجمان کی جانب سے ردِعمل سامنے آیا۔اس ردِعمل میں ایک پیرا کچھ یوں ہے۔
''بعض لوگ اپنے ماضی سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ مگر لگتا ہے خورشید شاہ اخلاقی و ذہنی اعتبار سے وہیں کھڑے ہیں جہاں1970ء کے عشرے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ملازمت کے دوران کھڑے تھے۔ (یعنی میٹر ریڈر)۔ وزیرِ داخلہ کے پاس فضول اور غیر منطقی بیانات پر غور کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی ایسی بے جا بکواس کا جواب دینے کی خواہش ''۔
واہ واہ۔ سرکاری ردِعمل میں ماشااللہ کیا زبان استعمال کی گئی اور وہ بھی قائدِ حزبِ اختلاف کے بارے میں اور ان کی سابق ملازمت کو کس طرح بطور طعنہ استعمال کیا گیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقات کے ذہنوں میں ادنیٰ درجے کی ملازمتوں پر فائز لوگوں کے لیے کیسے ادنیٰ خیالات تاحیات قیام پذیر رہتے ہیں۔یعنی ایک میٹر ریڈر اخلاقی و ذہنی اعتبار سے گھٹیا ہی رہے گا بھلے وہ قائدِ حزبِ اختلاف ہی کیوں نہ بن جائے۔اب میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ زیادہ گھٹیا کون ہے ؟ طعنہ دینے والا یا طعنہ کھانے والا ؟
اگر پاکستان پر حکمران اشرافیہ واقعی بلیو بلڈ ہوتی تو پھر اس کی زبان بھی اشرافی ہی ہوتی۔مگر اشرافی منصب کی دعوے داری کی قلعی کسی اور شے سے کھلے نہ کھلے زبان سے ضرور کھل جاتی ہے۔ویسے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔
اشرافیہ کس قدر خالص ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو جلسوں کی تقاریر اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز دیکھ لیں۔ ذرا سی تنقید ہوئی نہیں کہ ناقد کے کپڑے اترنے شروع ہوئے نہیں۔ایک دوسرے کے لیے چور ، ڈاکو ، لٹیرے ، زانی ، یہودی، ہندو کی اولاد، نمک حرام ، مراثی، نو دولتئے، ماں اور بہنوں کے طعنے اور خواتین پر ذومعنی فقرے۔ کبھی ایسی گفتگو بدتمیزی، فحش کلامی، لچر پن، بازارو، نیچ حرکت اور گھر کی ناقص تربیت کے دائرے میں آتی تھی مگر آج یہ اشرافیہ کی روز مرہ ہے۔کبھی عوام اشرافیہ کی زبان اپنانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب یہاں سے وہاں تک گلیاری مساوات کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ان کے سائے تلے ایک اور نسل اپنا سفر شروع کر رہی ہے۔جانے وہ اس لسانی و لفظیاتی ذخیرے کو کس لیول تک لے جائے گی۔
ایسا نہیں کہ اصل اشرافیہ کا وجود نہیں مگر وہ اب آپ کو کسی سیاسی جماعت یا ہجوم میں دکھائی نہیں دیتی۔یہ مٹھی بھر اشرافیہ یا تو اپنے اردگرد کی زبوں حالی سے تھک ہار کر خود رفتہ رفتہ لاتعلق ہو چکی ہے یا لاتعلق بنا دی گئی ہے۔ دونوں صورتوںمیں نشست و برخواست اور آدابِ کلام کے تہذیبی ربط کو شدید نقصان پہنچا ہے۔آج ریاست کے تمام شعبے اور ان کی فیصلہ سازی ایسی اشرافیہ کے نرغے میں ہے جو نہ علم دوست ہے اور نہ ہی تہذیب دوست۔یہ اشرافیہ کسی تمدنی ارتقا کی نہیں بلکہ طاقت کی پیداوار ہے۔ بھلے وہ طاقت جسمانی ہو کہ راتوں رات کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والی سیاسی یا معاشی قوت ہو۔
اس اشرافیہ کی ترجیح سماج کو تہذیبی اعتبار سے آگے بڑھانااور رول ماڈل بننا نہیں بلکہ کہنی مار کے ہر قیمت پر خود کو آگے رکھنا اور دوسروں کو دبانا اور کچلنا ہے۔اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر اشرافی بننے والے نفسیاتی اعتبار سے کس قدر غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ان کی جان اپنی بقا کی فکر سے ہی نہیں چھوٹتی چے جائیکہ وہ سماجی اقدار کے تحفظ و ترقی کے بارے میں سوچ پائیں اور زبان و بیان میںعلمیت و بہتری پیدا کر سکیں۔
اشرافیہ کو کبھی خود سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اشرافیہ ہے۔اس کا روزمرہ ، گفتگو ، موضوعات ، لہجے کا دھیما پن نشست و برخواست اور دوسروں سے سلوک سب کچھ بتا دیتا ہے۔
مگر نئی نئی اشرافیہ کو بہرحال چیخ چیخ کر اپنا تعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے خالی سڑکوں پر فراریاں اور بی ایم ڈبلیوز دوڑانا پڑتی ہیں۔چالان کرنے والے یا تلاشی لینے والے کو تھپڑ مار کے اپنی طاقت ثابت کرنا پڑتی ہے۔وہ دلیل کی طاقت سے نابلد اورمدِ مقابل کو بلند آہنگ کے حربے سے خاموش کرا دینے کے ہنر سے ہی واقف ہوتی ہے۔چونکہ طاقت کی ہی پیداوار ہوتی ہے لہذا اپنے سے مضبوط کے آگے جھک جانا اور کمزور کو جھکا لینا ہی اس کی فطرت ہے۔البتہ اگر کوئی خالص اشرافی ہو تو اس کی زنبیل میں کوئی نہ کوئی ایک آدھ اصول یا آدرش ضرور ایسا ہوتا ہے جس کے تحفظ کے لیے وقت آنے پر نتائج سے بے نیاز ڈٹ بھی سکتا ہے۔
اگر اشرافی زبوں حالی دیکھنی ہو تو آج کے علما کے زبان و بیان ، قول و فعل ، نشست و برخواست ، بود و باش دیکھ لیں اور اس بابت گذرے کل کے علما کے قصے پڑھ لیں۔جناح اور نہرو کا سیاسی رکھ رکھاؤ اور زبان و بیان کسی سے سن لیں اور نواز شریف ، زرداری ، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ وغیرہ کا اندازِ زندگی و اظہار بچشم دیکھ لیں۔وہ بھی اشرافی تھے اور یہ بھی خود کو اشرافی سمجھتے ہیں اور کہلوانے پر بھی بضد ہیں۔
مچھلی ہمیشہ سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے ، دم تو آخر میں خراب ہوتی ہے۔ جب یہی نئی نویلی غیر اشرافی اشرافیہ برداشت ، بھائی چارے ، ہم آہنگی اور تہذیبی اقدار کی گوہار دیتی ہے تو اس کے منہ سے جھڑنے والے ہر ایسے پھول کو عوام تازہ لطیفہ سمجھ کے گھر لے آتے ہیں۔
ہم کتنے اشرافی ہیں ؟ اس کا اندازہ مجھے استنبول میں چار روز گلیوں بازاروں میں پیدل گھوم کر ہوا۔اس دوران مجھے ایک بھی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا کہ دو راہ گیر سرِ بازار ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوں ، گالم گلوچ میں مبتلا ہوں یا چیخ چیخ کر مخاطب کر رہے ہوں۔ایک بار میںتھک کے نیلی مسجد کے بیرونی باغیچے میں سستانے کے لیے سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔برابر والے بنچ پر ایک بوڑھا ترک اخبار پڑھ رہا تھا۔ہم دونوں نے رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔اس نے رسماً پوچھا کہاں سے آئے ہو میں نے کہا پاکستان سے۔
گر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟ اس نے ہمہ تن گوش ہونے کے لیے اخبار تہہ کر کے گود میں رکھ لیا۔ میں نے کہا چار دن سے اسی لاکھ آبادی کے اس شہر میں گھوم رہا ہوں۔اس دوران سڑک پر لڑائی جھگڑا یا ایک دوسرے پر چیخنے کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔کیا ترکوں کو غصہ نہیں آتا ؟ ترک بزرگ ہنسنے لگا۔بالکل آتا ہے اور جب آتا ہے تو بہت برا آتا ہے۔مگر یہ بات آپ کی درست ہے کہ ہم بات بات پر نہیں لڑتے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑنا اور سرِ بازار چیخنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وجہ شائد یہ ہو کہ ترک بحیثیتِ قوم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔غلاموں کا چونکہ خود پر ہی بس چلتا ہے لہذا وہ بات بے بات ایک دوسرے پر اپنی فرسٹریشن نکالتے رہتے ہیں۔میری سمجھ میں تو یہی سبب آرہا ہے۔ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔
''بعض لوگ اپنے ماضی سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ مگر لگتا ہے خورشید شاہ اخلاقی و ذہنی اعتبار سے وہیں کھڑے ہیں جہاں1970ء کے عشرے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ملازمت کے دوران کھڑے تھے۔ (یعنی میٹر ریڈر)۔ وزیرِ داخلہ کے پاس فضول اور غیر منطقی بیانات پر غور کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی ایسی بے جا بکواس کا جواب دینے کی خواہش ''۔
واہ واہ۔ سرکاری ردِعمل میں ماشااللہ کیا زبان استعمال کی گئی اور وہ بھی قائدِ حزبِ اختلاف کے بارے میں اور ان کی سابق ملازمت کو کس طرح بطور طعنہ استعمال کیا گیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکمران طبقات کے ذہنوں میں ادنیٰ درجے کی ملازمتوں پر فائز لوگوں کے لیے کیسے ادنیٰ خیالات تاحیات قیام پذیر رہتے ہیں۔یعنی ایک میٹر ریڈر اخلاقی و ذہنی اعتبار سے گھٹیا ہی رہے گا بھلے وہ قائدِ حزبِ اختلاف ہی کیوں نہ بن جائے۔اب میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ زیادہ گھٹیا کون ہے ؟ طعنہ دینے والا یا طعنہ کھانے والا ؟
اگر پاکستان پر حکمران اشرافیہ واقعی بلیو بلڈ ہوتی تو پھر اس کی زبان بھی اشرافی ہی ہوتی۔مگر اشرافی منصب کی دعوے داری کی قلعی کسی اور شے سے کھلے نہ کھلے زبان سے ضرور کھل جاتی ہے۔ویسے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔
اشرافیہ کس قدر خالص ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو جلسوں کی تقاریر اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز دیکھ لیں۔ ذرا سی تنقید ہوئی نہیں کہ ناقد کے کپڑے اترنے شروع ہوئے نہیں۔ایک دوسرے کے لیے چور ، ڈاکو ، لٹیرے ، زانی ، یہودی، ہندو کی اولاد، نمک حرام ، مراثی، نو دولتئے، ماں اور بہنوں کے طعنے اور خواتین پر ذومعنی فقرے۔ کبھی ایسی گفتگو بدتمیزی، فحش کلامی، لچر پن، بازارو، نیچ حرکت اور گھر کی ناقص تربیت کے دائرے میں آتی تھی مگر آج یہ اشرافیہ کی روز مرہ ہے۔کبھی عوام اشرافیہ کی زبان اپنانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اب یہاں سے وہاں تک گلیاری مساوات کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ان کے سائے تلے ایک اور نسل اپنا سفر شروع کر رہی ہے۔جانے وہ اس لسانی و لفظیاتی ذخیرے کو کس لیول تک لے جائے گی۔
ایسا نہیں کہ اصل اشرافیہ کا وجود نہیں مگر وہ اب آپ کو کسی سیاسی جماعت یا ہجوم میں دکھائی نہیں دیتی۔یہ مٹھی بھر اشرافیہ یا تو اپنے اردگرد کی زبوں حالی سے تھک ہار کر خود رفتہ رفتہ لاتعلق ہو چکی ہے یا لاتعلق بنا دی گئی ہے۔ دونوں صورتوںمیں نشست و برخواست اور آدابِ کلام کے تہذیبی ربط کو شدید نقصان پہنچا ہے۔آج ریاست کے تمام شعبے اور ان کی فیصلہ سازی ایسی اشرافیہ کے نرغے میں ہے جو نہ علم دوست ہے اور نہ ہی تہذیب دوست۔یہ اشرافیہ کسی تمدنی ارتقا کی نہیں بلکہ طاقت کی پیداوار ہے۔ بھلے وہ طاقت جسمانی ہو کہ راتوں رات کسی بھی ذریعے سے حاصل ہونے والی سیاسی یا معاشی قوت ہو۔
اس اشرافیہ کی ترجیح سماج کو تہذیبی اعتبار سے آگے بڑھانااور رول ماڈل بننا نہیں بلکہ کہنی مار کے ہر قیمت پر خود کو آگے رکھنا اور دوسروں کو دبانا اور کچلنا ہے۔اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر اشرافی بننے والے نفسیاتی اعتبار سے کس قدر غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ان کی جان اپنی بقا کی فکر سے ہی نہیں چھوٹتی چے جائیکہ وہ سماجی اقدار کے تحفظ و ترقی کے بارے میں سوچ پائیں اور زبان و بیان میںعلمیت و بہتری پیدا کر سکیں۔
اشرافیہ کو کبھی خود سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اشرافیہ ہے۔اس کا روزمرہ ، گفتگو ، موضوعات ، لہجے کا دھیما پن نشست و برخواست اور دوسروں سے سلوک سب کچھ بتا دیتا ہے۔
مگر نئی نئی اشرافیہ کو بہرحال چیخ چیخ کر اپنا تعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے خالی سڑکوں پر فراریاں اور بی ایم ڈبلیوز دوڑانا پڑتی ہیں۔چالان کرنے والے یا تلاشی لینے والے کو تھپڑ مار کے اپنی طاقت ثابت کرنا پڑتی ہے۔وہ دلیل کی طاقت سے نابلد اورمدِ مقابل کو بلند آہنگ کے حربے سے خاموش کرا دینے کے ہنر سے ہی واقف ہوتی ہے۔چونکہ طاقت کی ہی پیداوار ہوتی ہے لہذا اپنے سے مضبوط کے آگے جھک جانا اور کمزور کو جھکا لینا ہی اس کی فطرت ہے۔البتہ اگر کوئی خالص اشرافی ہو تو اس کی زنبیل میں کوئی نہ کوئی ایک آدھ اصول یا آدرش ضرور ایسا ہوتا ہے جس کے تحفظ کے لیے وقت آنے پر نتائج سے بے نیاز ڈٹ بھی سکتا ہے۔
اگر اشرافی زبوں حالی دیکھنی ہو تو آج کے علما کے زبان و بیان ، قول و فعل ، نشست و برخواست ، بود و باش دیکھ لیں اور اس بابت گذرے کل کے علما کے قصے پڑھ لیں۔جناح اور نہرو کا سیاسی رکھ رکھاؤ اور زبان و بیان کسی سے سن لیں اور نواز شریف ، زرداری ، عمران خان اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ وغیرہ کا اندازِ زندگی و اظہار بچشم دیکھ لیں۔وہ بھی اشرافی تھے اور یہ بھی خود کو اشرافی سمجھتے ہیں اور کہلوانے پر بھی بضد ہیں۔
مچھلی ہمیشہ سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے ، دم تو آخر میں خراب ہوتی ہے۔ جب یہی نئی نویلی غیر اشرافی اشرافیہ برداشت ، بھائی چارے ، ہم آہنگی اور تہذیبی اقدار کی گوہار دیتی ہے تو اس کے منہ سے جھڑنے والے ہر ایسے پھول کو عوام تازہ لطیفہ سمجھ کے گھر لے آتے ہیں۔
ہم کتنے اشرافی ہیں ؟ اس کا اندازہ مجھے استنبول میں چار روز گلیوں بازاروں میں پیدل گھوم کر ہوا۔اس دوران مجھے ایک بھی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا کہ دو راہ گیر سرِ بازار ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوں ، گالم گلوچ میں مبتلا ہوں یا چیخ چیخ کر مخاطب کر رہے ہوں۔ایک بار میںتھک کے نیلی مسجد کے بیرونی باغیچے میں سستانے کے لیے سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔برابر والے بنچ پر ایک بوڑھا ترک اخبار پڑھ رہا تھا۔ہم دونوں نے رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔اس نے رسماً پوچھا کہاں سے آئے ہو میں نے کہا پاکستان سے۔
گر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟ اس نے ہمہ تن گوش ہونے کے لیے اخبار تہہ کر کے گود میں رکھ لیا۔ میں نے کہا چار دن سے اسی لاکھ آبادی کے اس شہر میں گھوم رہا ہوں۔اس دوران سڑک پر لڑائی جھگڑا یا ایک دوسرے پر چیخنے کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔کیا ترکوں کو غصہ نہیں آتا ؟ ترک بزرگ ہنسنے لگا۔بالکل آتا ہے اور جب آتا ہے تو بہت برا آتا ہے۔مگر یہ بات آپ کی درست ہے کہ ہم بات بات پر نہیں لڑتے۔دراصل چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑنا اور سرِ بازار چیخنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وجہ شائد یہ ہو کہ ترک بحیثیتِ قوم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔غلاموں کا چونکہ خود پر ہی بس چلتا ہے لہذا وہ بات بے بات ایک دوسرے پر اپنی فرسٹریشن نکالتے رہتے ہیں۔میری سمجھ میں تو یہی سبب آرہا ہے۔ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔