گیٹ وے آف ایشیاء کراچی
محرومیوں کے احساس نے اس شہرکو مایوس کیا ہے
شہرکراچی کے دعویدار تو بہت لیکن ذمے دار اتنے ہی کم اوردعو ے بھی کچھ دینے سے متعلق نہیں بلکہ یکطرفہ ٹریفک کی طرح اس شہر سے وصول اور حصول ہی کے ہیں ۔ یہ شہر ماں کی گود کی طرح وقتا فوقتا سب ہی کواپنی آغوش میں سمیٹتا رہا ہے۔ ایک جانب تو بہت بڑی آبادی معاشی وسائل کی تلاش میں یہاں کا رخ کرتی رہی ہے جن میں زیادہ ترکا رجحان صرف محنت کرکے کمانے اور اپنے پیچھے اپنے علاقوں کے گھروں میں رہ جانیوالوں کا پیٹ پالنا ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے اس شہرکوصرف دفتر ہی سمجھا جب کہ اس سے وہ وابستگی محسوس نہیں کی جو اپنے گھرسے ہوتی ہے۔
اس شہر میں بسنے کے بعد ان کی ضروریات تو پوری ہوتی رہیں لیکن ذمے داری کسی نے نہیں اٹھائی یوں سارا بوجھ اس شہر پرآگیا پھر مسائل کے اسباب پیدا ہونے شروع ہوئے جس میں پانی کی کمی، کنڈوں کے ذیعے بجلی کا حصول، بے ربط کچی آبادیوں کا بسایا جانا، نکاسی آب کا گنجائش سے زیادہ دباؤ بڑھنے سے ماحول میں غلاظت کا نمایاں ہونا، آمدورفت کے غیرمنظم طریقے اوربیماریوں نے گھیرا تواسپتال بھرگئے سرکاری اسپتالوں کی صورتحال دیکھیں توکراچی کے مقامی مریض کم اور پورے ملک سے آنیوالے مریضوں کی تعداد سے اسپتال بھر ے نظرآتے ہیں جب کچی آبادیوں میں اضافہ ہوا تو ضرورت مند محنت مزدوری کرنیوالوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد یا گروہوں نے بھی خاموشی سے انھی علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں بھی بنالیں۔اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ نے اس شہرکے نظم وضبط کوغیر متوازن کرنا شروع کردیا۔
دوسری جانب اس شہرکوغیر متوازن کرنے کا ایک زاویہ اوربھی ہے یہاں کے انفرا اسٹریکچر کی تباہی اور بنیادی خدوخال میں تبدیلی کے ذمے دار دیہی علا قوں کے حکمراں اورکوٹہ سسٹم کی بدولت باہر سے کثیر تعدا د میں چھوٹے بڑے انتظامی عہدوں پر معمور ہیں یہ تمام لوگ اپنے مقامی علا قوں میں عوام کے مسائل کو حل نہ کرسکنے کی وجہ سے سارا دباؤ کراچی شہر پر منتقل کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑھتی آبادی کا انتقال عمل میں آتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں بڑی تعداد میں لوگوں کے جعلی شناختی کارڈ جاری کرکے نہ صر ف غیرپاکستانیوں کو یہاں رہنے کی گنجائش دی گئی جس سے نظام ہی ڈگمگا گیا پھر اس کیسا تھ ہی سیاسی نقل مکانی نے بھی اپنا کردارادا کیا جس کے پس پردہ یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ ہر صورت مقامی آبادی کو اقلیت میںتبدیل کردیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کراچی کا رجسٹرڈ ووٹر ہی کراچی کو OWN کر نیوالا شہری ہے۔
اہل کراچی باشعور ہونے کے ساتھ سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ اسی شہرکے باسیوں نے ماضی بعید میں حکومتوں کے تختے الٹے اورساتھ ہی ان سازشوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو ملک کے لیے زہر قاتل تھیں۔ 1983 اور 84 میں بھی ایسے چہروں سے نقاب کھینچ لیے جومذہب کے نام ونہاد نعروں کے ساتھ عوام کو مذہبی منافرت کے ذریعے گمراہی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔کراچی کے عوام نے ہی ان سازشوں سے نبرد آزما ہوکر ثابت کردیاکہ یہاں کے عوام شعیہ، سنی، ہندو، سکھ اورعیسا ئی کے تنازعات سے بالاتر ہوکرسوچتے ہیں لیکن اس وقت مہلک بیماری کی طرح کچھ طاقتیں اسے سیاسی اکھاڑہ بنانے کے لیے کوشاں نظرآتی ہیں۔
یہ ہی حال چند تجزیہ نگاروں کے مشاہدے کا ہے کہ وہ ظاہر ی سطح پر نظر ر کھ کر قیاس آرائی کو حقیقی منظر بتاتے ہیں جب کہ وہ انتخابی نتائج کو نسلی ولسانی ہی قراردے ر ہے ہیںاوران کی نظرگہرائی وگیرائی تک نہیں جارہی جو منتخب نمایندوں کی کا میا بی کا اصل سبب رہی ہے چونکہ تحقیق دقت طلب ہوتی ہے لہٰذا وہ بہترسمجھتے ہیں۔ جو مذہبی جماعتوں کوکراچی میں اتارنے کے فرمائشی تجزیے تحریرکررہے ہیں اورکراچی کی سیاست پرایک خاص نقطہ نظر پیش کرکے آزاد سوچ ر کھنے والی عوام کو فرقہ واریت کی جانب دھکیلنے کی مذموم کوششوں میں مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں جب کہ کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ جیسے سمندر کے قر یب کی زمین ایک حد تک ہی اپنے اندر پانی جذب کر سکتی ہے، اس کے بعد کا پانی مٹی کیسا تھ مل کرکیچڑ اوردلدل بننے لگتا ہے۔
محرومیوں کے احساس نے اس شہرکو مایوس کیا ہے، عوا م نے ہمیشہ ناانصافی کو تو بردا شت کیا لیکن جبرکو ہرگزقبول نہیں کیا۔ یہ شہر اپنی کثیرآبادی اور بتدریج بڑھتے وسیع وعریض رقبے اورمیٹروپولیٹن شہرکے طور پرایک انفرادی حیثیت کامالک ہے، مختلف ثقافتوں اور رنگ ونسل کی وجہ سے امتیازی اہمیت کا حامل ہونے کے علاوہ اپنے ساتھ کی جانیوالی کئی ناانصافیوں کے باوجود بین الاقوا می شہرکہلاتا ہے۔
پہلا بڑا سنگین ظلم تو دارالخلافہ کی منتقلی پھر بین الا قوامی پروازوں کے رخ کا موڑدیا جانا ۔حالیہ سال میں بھی جب پریمیئر کے نام سے قومی ائیرلائن کی پروازیں شروع کی گئیں تو اس میں بھی کراچی کو نظراندازکیا گیاجب کہ یہ شہر چند سالو ں میں ایشیاء کا گیٹ وے بن جائے گا لہٰذا اس کی حیثیت کومدنظر رکھتے ہوئے وفاق کی جانب سے جب فیصلے کیے جائیں تو یہ سونا اگلنے والا شہر پورے ملک کومزید بہترطریقے پر سیراب کرسکے گا۔
اب میدان سیاست میں اترنے والے کچھ نومولود سیاسی سپاہی اوربرسہا برس سے غیرمنتخب اورمستردکیے ہوئے خود کو کراچی کی آواز بناکر پیش کررہے ہیں اورکراچی کے مسائل کے ذریعے ذرایع ابلاغ میں آنے کی ایک سنسنی خیز جستجو میں مبتلا نظرآتے ہیں۔ پریس کلب کے باہر یا مصروف ترین شاہراہو ں پر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالتے ہوئے غیرمنطقی قسم کے نعروں کے بینر اٹھائے یہ احتجاجی مناظر میڈیا کو تو مصروف ر کھ سکتے ہیں لیکن کراچی کے شعور سے لبریزعوام کے ذہنوں کو بدلنے میں کامیابی حاصل کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ 2016 میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں عوا م نے ان لو گوں کو منتخب کیاجنہیں 1987 سے کرتے چلے آرہے تھے۔اس کی کئی وجوہات ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ اپنے درمیان انھی لوگوں کوکھڑا پاتے ہیں جو ان کے ا صلی حقیقی نمایندے ہیں۔
کراچی اوردیگر سندھ کے شہر ی علا قوں کے ووٹرز میں سندھی، مہاجر، پختون، پنجابی، بلوچی، سکھ، عیسائی، ہندو، مسلمان سب ہی تھے اورجن نمایندوں کو منتخب کیا گیا ان میں بھی مختلف قومیتوں ومذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو منتخب کیا، ان میں ہیر سوہو، اشفاق منگی، نثار پہنور (سندھی) ، محمدعلی بروہی، نبیل گبول (بلوچ )، خواجہ سہیل منصور، میاںعتیق، طاہرہ آصف (پنجابی)، ڈاکٹر فوزیہ حمید (ہندکو)، منور لال،دیوان چندچاؤلہ، سنجے پروانی (ہندو)، عارف مسیح (کرسچن ) بیرسٹر محمدعلی سیف (پختون) ودیگر افراد شامل رہے لہٰذا یہ کہنا اورتحریرکرنا کہ کراچی میں لسانی یا نسلی سیاست غالب رہی غلط ہے۔
میں ایک بارپھرکہنا چاہوں گی کہ کراچی کے اصل سیاسی حقائق کو نظراندازکرکے ما ضی کی مذہبی جماعتوں کی رہنمائی کو رہنما کے طور پر سامنے آنے کے مشورے دراصل چلے ہوئے کارتوس کو آزمانے کی کوشش ہیں ۔ان جماعتوں کے پس منظر وہتھکنڈوں سے کراچی کے عوام اوراہل دانش اچھی طرح وا قف ہیں۔
گزارش یہ ہی ہے کہ سب اپنے اپنے علاقے اور گھرکی پرواہ کریں۔ کراچی کے دردکوسمیٹنا اور واویلا کرنے کے بجائے جمہوریت کی پختگی کے لیے اور شہرکو شورش سے پاک ر کھنے کے خاطر پارلیمانی اداروں کو آزادا نہ طور پر آئینی وقانونی اندازمیں کام کرنے کے مواقعے میسرآنا جمہوری انداز میں ضروری ہیں جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہو سکے۔
اس شہر میں بسنے کے بعد ان کی ضروریات تو پوری ہوتی رہیں لیکن ذمے داری کسی نے نہیں اٹھائی یوں سارا بوجھ اس شہر پرآگیا پھر مسائل کے اسباب پیدا ہونے شروع ہوئے جس میں پانی کی کمی، کنڈوں کے ذیعے بجلی کا حصول، بے ربط کچی آبادیوں کا بسایا جانا، نکاسی آب کا گنجائش سے زیادہ دباؤ بڑھنے سے ماحول میں غلاظت کا نمایاں ہونا، آمدورفت کے غیرمنظم طریقے اوربیماریوں نے گھیرا تواسپتال بھرگئے سرکاری اسپتالوں کی صورتحال دیکھیں توکراچی کے مقامی مریض کم اور پورے ملک سے آنیوالے مریضوں کی تعداد سے اسپتال بھر ے نظرآتے ہیں جب کچی آبادیوں میں اضافہ ہوا تو ضرورت مند محنت مزدوری کرنیوالوں کے علاوہ جرائم پیشہ افراد یا گروہوں نے بھی خاموشی سے انھی علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں بھی بنالیں۔اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ نے اس شہرکے نظم وضبط کوغیر متوازن کرنا شروع کردیا۔
دوسری جانب اس شہرکوغیر متوازن کرنے کا ایک زاویہ اوربھی ہے یہاں کے انفرا اسٹریکچر کی تباہی اور بنیادی خدوخال میں تبدیلی کے ذمے دار دیہی علا قوں کے حکمراں اورکوٹہ سسٹم کی بدولت باہر سے کثیر تعدا د میں چھوٹے بڑے انتظامی عہدوں پر معمور ہیں یہ تمام لوگ اپنے مقامی علا قوں میں عوام کے مسائل کو حل نہ کرسکنے کی وجہ سے سارا دباؤ کراچی شہر پر منتقل کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں بڑھتی آبادی کا انتقال عمل میں آتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں بڑی تعداد میں لوگوں کے جعلی شناختی کارڈ جاری کرکے نہ صر ف غیرپاکستانیوں کو یہاں رہنے کی گنجائش دی گئی جس سے نظام ہی ڈگمگا گیا پھر اس کیسا تھ ہی سیاسی نقل مکانی نے بھی اپنا کردارادا کیا جس کے پس پردہ یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ ہر صورت مقامی آبادی کو اقلیت میںتبدیل کردیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کراچی کا رجسٹرڈ ووٹر ہی کراچی کو OWN کر نیوالا شہری ہے۔
اہل کراچی باشعور ہونے کے ساتھ سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ اسی شہرکے باسیوں نے ماضی بعید میں حکومتوں کے تختے الٹے اورساتھ ہی ان سازشوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو ملک کے لیے زہر قاتل تھیں۔ 1983 اور 84 میں بھی ایسے چہروں سے نقاب کھینچ لیے جومذہب کے نام ونہاد نعروں کے ساتھ عوام کو مذہبی منافرت کے ذریعے گمراہی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔کراچی کے عوام نے ہی ان سازشوں سے نبرد آزما ہوکر ثابت کردیاکہ یہاں کے عوام شعیہ، سنی، ہندو، سکھ اورعیسا ئی کے تنازعات سے بالاتر ہوکرسوچتے ہیں لیکن اس وقت مہلک بیماری کی طرح کچھ طاقتیں اسے سیاسی اکھاڑہ بنانے کے لیے کوشاں نظرآتی ہیں۔
یہ ہی حال چند تجزیہ نگاروں کے مشاہدے کا ہے کہ وہ ظاہر ی سطح پر نظر ر کھ کر قیاس آرائی کو حقیقی منظر بتاتے ہیں جب کہ وہ انتخابی نتائج کو نسلی ولسانی ہی قراردے ر ہے ہیںاوران کی نظرگہرائی وگیرائی تک نہیں جارہی جو منتخب نمایندوں کی کا میا بی کا اصل سبب رہی ہے چونکہ تحقیق دقت طلب ہوتی ہے لہٰذا وہ بہترسمجھتے ہیں۔ جو مذہبی جماعتوں کوکراچی میں اتارنے کے فرمائشی تجزیے تحریرکررہے ہیں اورکراچی کی سیاست پرایک خاص نقطہ نظر پیش کرکے آزاد سوچ ر کھنے والی عوام کو فرقہ واریت کی جانب دھکیلنے کی مذموم کوششوں میں مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں جب کہ کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ جیسے سمندر کے قر یب کی زمین ایک حد تک ہی اپنے اندر پانی جذب کر سکتی ہے، اس کے بعد کا پانی مٹی کیسا تھ مل کرکیچڑ اوردلدل بننے لگتا ہے۔
محرومیوں کے احساس نے اس شہرکو مایوس کیا ہے، عوا م نے ہمیشہ ناانصافی کو تو بردا شت کیا لیکن جبرکو ہرگزقبول نہیں کیا۔ یہ شہر اپنی کثیرآبادی اور بتدریج بڑھتے وسیع وعریض رقبے اورمیٹروپولیٹن شہرکے طور پرایک انفرادی حیثیت کامالک ہے، مختلف ثقافتوں اور رنگ ونسل کی وجہ سے امتیازی اہمیت کا حامل ہونے کے علاوہ اپنے ساتھ کی جانیوالی کئی ناانصافیوں کے باوجود بین الاقوا می شہرکہلاتا ہے۔
پہلا بڑا سنگین ظلم تو دارالخلافہ کی منتقلی پھر بین الا قوامی پروازوں کے رخ کا موڑدیا جانا ۔حالیہ سال میں بھی جب پریمیئر کے نام سے قومی ائیرلائن کی پروازیں شروع کی گئیں تو اس میں بھی کراچی کو نظراندازکیا گیاجب کہ یہ شہر چند سالو ں میں ایشیاء کا گیٹ وے بن جائے گا لہٰذا اس کی حیثیت کومدنظر رکھتے ہوئے وفاق کی جانب سے جب فیصلے کیے جائیں تو یہ سونا اگلنے والا شہر پورے ملک کومزید بہترطریقے پر سیراب کرسکے گا۔
اب میدان سیاست میں اترنے والے کچھ نومولود سیاسی سپاہی اوربرسہا برس سے غیرمنتخب اورمستردکیے ہوئے خود کو کراچی کی آواز بناکر پیش کررہے ہیں اورکراچی کے مسائل کے ذریعے ذرایع ابلاغ میں آنے کی ایک سنسنی خیز جستجو میں مبتلا نظرآتے ہیں۔ پریس کلب کے باہر یا مصروف ترین شاہراہو ں پر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالتے ہوئے غیرمنطقی قسم کے نعروں کے بینر اٹھائے یہ احتجاجی مناظر میڈیا کو تو مصروف ر کھ سکتے ہیں لیکن کراچی کے شعور سے لبریزعوام کے ذہنوں کو بدلنے میں کامیابی حاصل کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ 2016 میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں عوا م نے ان لو گوں کو منتخب کیاجنہیں 1987 سے کرتے چلے آرہے تھے۔اس کی کئی وجوہات ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ اپنے درمیان انھی لوگوں کوکھڑا پاتے ہیں جو ان کے ا صلی حقیقی نمایندے ہیں۔
کراچی اوردیگر سندھ کے شہر ی علا قوں کے ووٹرز میں سندھی، مہاجر، پختون، پنجابی، بلوچی، سکھ، عیسائی، ہندو، مسلمان سب ہی تھے اورجن نمایندوں کو منتخب کیا گیا ان میں بھی مختلف قومیتوں ومذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو منتخب کیا، ان میں ہیر سوہو، اشفاق منگی، نثار پہنور (سندھی) ، محمدعلی بروہی، نبیل گبول (بلوچ )، خواجہ سہیل منصور، میاںعتیق، طاہرہ آصف (پنجابی)، ڈاکٹر فوزیہ حمید (ہندکو)، منور لال،دیوان چندچاؤلہ، سنجے پروانی (ہندو)، عارف مسیح (کرسچن ) بیرسٹر محمدعلی سیف (پختون) ودیگر افراد شامل رہے لہٰذا یہ کہنا اورتحریرکرنا کہ کراچی میں لسانی یا نسلی سیاست غالب رہی غلط ہے۔
میں ایک بارپھرکہنا چاہوں گی کہ کراچی کے اصل سیاسی حقائق کو نظراندازکرکے ما ضی کی مذہبی جماعتوں کی رہنمائی کو رہنما کے طور پر سامنے آنے کے مشورے دراصل چلے ہوئے کارتوس کو آزمانے کی کوشش ہیں ۔ان جماعتوں کے پس منظر وہتھکنڈوں سے کراچی کے عوام اوراہل دانش اچھی طرح وا قف ہیں۔
گزارش یہ ہی ہے کہ سب اپنے اپنے علاقے اور گھرکی پرواہ کریں۔ کراچی کے دردکوسمیٹنا اور واویلا کرنے کے بجائے جمہوریت کی پختگی کے لیے اور شہرکو شورش سے پاک ر کھنے کے خاطر پارلیمانی اداروں کو آزادا نہ طور پر آئینی وقانونی اندازمیں کام کرنے کے مواقعے میسرآنا جمہوری انداز میں ضروری ہیں جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہو سکے۔