سرکاری جامعات روبہ زوال ہیں
سرکاری جامعات معیاری درس گاہیں تصور کی جاتی ہیں جس کی اسناد بھی بلا شک وشبہ تسلیم کی جاتی ہیں۔
طلبہ کا تعلیمی سفر کا آغاز کرتے ہوئے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق بہتر سے بہتر اسکول میں داخل کرایا جائے۔
اس ضمن میں اگرچہ سرکاری اسکولوں سے اعلٰی طبقوں کے مہنگے اسکولوں تک ان کے سامنے مختلف راستے موجود ہوتے ہیں، تاہم سرکاری اسکولوں کی صورت حال دیکھ کر وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ان کے بچے وہاں پڑھیں، وہاں جتنے بھی بچے پڑھتے ہیں وہ سب بہ امر مجبوری ہی وہاں آتے ہیں، لہٰذا متوسط طبقہ اپنے تئیں کسی ''اچھے'' نجی اسکول کا ہی انتخاب کرتا ہے تاکہ جیسی تیسی تعلیم کے ساتھ کم سے کم ''پیلے اسکول'' کی چھاپ سے بھی بچا جا سکے۔
اسکول کے بعد جب کالج کا مرحلہ آتا ہے تو نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد نجی کالجوں کے بجائے سرکاری کالجوں کا رخ کرتی ہے، لیکن سرکاری اسکولوں کی طرح سرکاری کالجوں میں آنے والوں کا یہ سودا بھی مجبوری کا ہی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ نجی کالجوں کی بھاری فیسیں برداشت نہیں کر سکتے، وہ صرف اپنے معاشی مسائل کے باعث ہی سرکاری کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں، یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ طالب علم جامعہ کے درجے پر پہنچتے ہیں تو ان کی ترجیح سرکاری جامعہ ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کو ناقابل قبول سمجھنے والے مجبوراً سرکاری کالجوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن تیسرے مرحلے میں معاشی مجبوری سے قطع نظر ان کے پاس سرکاری جامعہ کے سوا گویا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا اور وہ بہ صد خوشی سرکاری جامعہ کا انتخاب کرتے ہیں۔
وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی نجی جامعہ کے تعلیمی اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ اس سے قطع نظر یہ ان کے سامنے ایک معیاری موقع ہوتا ہے۔ اس ہی خیال کے پیش نظر بہت سے مہنگے اسکولوں اور کالجوں کے فارغ التحصیل طلبہ کی بھی پہلی خواہش سرکاری جامعہ ہی ہوتی ہے، کیوں کہ یہ اعلٰی تعلیمی کمیشن سے منسلک ایک معیاری درس گاہ تصور کی جاتی ہے، جس کی اسناد بھی بلا شک وشبہ تسلیم کی جاتی ہیں۔
چند برس پیش تر ملکی جامعات کی ترقی کی خاطر اعلا تعلیمی کمیشن قائم کیا گیا، جس کا مقصد عالمی سطح پر ملکی جامعات کا معیار اور مقام بہتر بنانا تھا، کیوں کہ دنیا بھر کی بہترین جامعات کی فہرست میں ہماری ایک بھی جامعہ شامل نہیں۔ اعلا تعلیمی کمیشن نے تحقیق اور معیار کے تعلق سے مختلف جامعات پر خصوصی نظر رکھی اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن پھر وفاق میں محکمہ تعلیم کے خاتمے کے بعد سرکاری جامعات مشکلات کا شکار ہونے لگی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ایک طرف ان کی گرانٹ میں کمی کر دی گئی ہے، دوسری طرف ہر سال ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، جس سے جامعات کی مالی حالت اور ابتر ہو گئی ہے۔
شدید مالی بحران کے سبب جامعہ کراچی میں گزشتہ تین سال سے تحقیق کرنے والے طلبہ کی مالی اعانت کا سلسلہ بھی شدید متاثر ہے، جس سے تحقیق کا عمل مشکلات کا شکار ہے۔
پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے سالانہ اخراجات ان کے مضمون اور موضوع کی مناسبت سے پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے سالانہ تک ہوتے ہیں۔ پہلے منتخب طلبہ کے لیے ان اخراجات میں ایچ ای سی کی جانب سے مکمل معاونت فراہم کی جاتی تھی، جب کہ اب یہ سلسلہ خاصا محدود ہو چکا ہے۔
بہت سی سرکاری جامعات ایسی بھی ہیں جو کالج سے ترقی دے کر جامعہ کے درجے پر پہنچی ہیں۔ مالی مسائل کے ساتھ ساتھ انہیں اعلا تعلیم اور معیار کے حوالے سے بھی شدید مسائل درپیش ہیں۔ صرف ایک حکم کے ذریعے کسی کالج کو جامعہ نہیں بنایا جاسکتا! اس کے لیے مکمل ایسے وسائل مہیا کرنے ہوتے ہیں جو اسے پہلے مرحلے میں کم سے کم کسی کالج سے تو متمیز کر سکیں۔ مثال کے طور پر 2002ء میں طویل جدوجہد کے بعد تاریخی اردو کالج کو ''جامعہ اردو'' کا درجہ تو دے دیا گیا لیکن ایک عشرہ گزر جانے کے باوجود بہت سی سہولیات سے محروم ہے۔ اردو کالج کو جامعہ بنانے سے یہ ہوا کہ کالج کے اساتذہ اب جامعہ کے استاد بن گئے، مگر ان کے لیے جامعہ کے حوالے سے اعلا طریقہ تدریس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسے پی ایچ ڈی اساتذہ کی بھی کمی کا سامنا رہا۔ آج بھی جامعہ کے مختلف شعبہ جات کے پاس اپنے کتب خانے تک موجود نہیں۔ ساتھ ہی تحقیق کی صورت حال بھی غیر تسلی بخش ہے۔
سرکاری جامعات کے یہ تمام مسائل براہ راست ان کے معیار پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اساتذہ حلقوں کی جانب سے جامعہ کراچی جیسے ادارے میں بھی اب طبقاتی تفریق کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، جس سے اب یہ صرف متوسط اور نچلے طبقے کی ہی جامعہ بنتی دکھائی دے رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں سرکاری اسکولوں اور سرکاری کالجوں کی زبوں حالی کے بعد سرکاری جامعات بھی اس ہی صورت حال کا شکار نہ ہو جائیں۔
جامعہ کراچی کے سابق طلبہ مدد کریں، ڈاکٹر شکیل خان
جامعہ کراچی کے فنانشل ایڈ آفس کے نگراں پروفیسر ڈاکٹر شکیل خان نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ حیاتیاتی سائنس میں سب سے مہنگی تحقیق خرد حیاتیات میں ہے، چوں کہ اس میں تحقیق کا محور جراثیم ہوتے ہیں۔ ان کی افزائش کے لیے استعمال ہونے والے لوازمات خاصے مہنگے ہیں۔ اس ضمن میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ اگر ڈالر کی قیمت میں بیس سے تیس فی صد اضافہ ہو تو مقامی سطح پر ان کے نرخ سو فی صد بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے حل کے لیے ہم یہ لوازمات براہ راست درآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے پاس بروقت سرمایہ نہ ہو تو پھر ہمیں مجبوراً یہیں سے مہنگے لوازمات ہی لینا پڑتے ہیں کیوں کہ باہر سے منگوانے کی صورت میں ہمیں پہلے سے منصوبہ بندی اور تمام حکمت عملی طے کرنا پڑتی ہے۔ جامعہ کراچی میں تعلیمی وظائف کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ طلبہ کو اس سلسلے میں اب خاصی دشواریوں کا سامنا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل طالب علم اگر یہاں سے حاصل شدہ تعلیم کے ذریعے معاش حاصل کر رہے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس جانب بھی متوجہ ہوں اور اپنی بساط کے مطابق طلبہ کی مدد کریں اور ساتھ ہی اپنے اطمینان کے لیے اس کے مصرف پر بھی نظر رکھیں کہ ان کی دی گئی رقم صحیح استعمال میں آ رہی ہے یا نہیں۔ اگر یہاں کسی طالب علم کے نام پیسہ آتا ہے تو پھر آخر میں اس طالب علم سے بھی تصدیق کی جاتی ہے کہ آیا اس نے اس سے استفادہ کیا یا نہیں۔
اس ضمن میں اگرچہ سرکاری اسکولوں سے اعلٰی طبقوں کے مہنگے اسکولوں تک ان کے سامنے مختلف راستے موجود ہوتے ہیں، تاہم سرکاری اسکولوں کی صورت حال دیکھ کر وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ان کے بچے وہاں پڑھیں، وہاں جتنے بھی بچے پڑھتے ہیں وہ سب بہ امر مجبوری ہی وہاں آتے ہیں، لہٰذا متوسط طبقہ اپنے تئیں کسی ''اچھے'' نجی اسکول کا ہی انتخاب کرتا ہے تاکہ جیسی تیسی تعلیم کے ساتھ کم سے کم ''پیلے اسکول'' کی چھاپ سے بھی بچا جا سکے۔
اسکول کے بعد جب کالج کا مرحلہ آتا ہے تو نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد نجی کالجوں کے بجائے سرکاری کالجوں کا رخ کرتی ہے، لیکن سرکاری اسکولوں کی طرح سرکاری کالجوں میں آنے والوں کا یہ سودا بھی مجبوری کا ہی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ نجی کالجوں کی بھاری فیسیں برداشت نہیں کر سکتے، وہ صرف اپنے معاشی مسائل کے باعث ہی سرکاری کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں، یہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ طالب علم جامعہ کے درجے پر پہنچتے ہیں تو ان کی ترجیح سرکاری جامعہ ہوتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کو ناقابل قبول سمجھنے والے مجبوراً سرکاری کالجوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن تیسرے مرحلے میں معاشی مجبوری سے قطع نظر ان کے پاس سرکاری جامعہ کے سوا گویا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا اور وہ بہ صد خوشی سرکاری جامعہ کا انتخاب کرتے ہیں۔
وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی نجی جامعہ کے تعلیمی اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ اس سے قطع نظر یہ ان کے سامنے ایک معیاری موقع ہوتا ہے۔ اس ہی خیال کے پیش نظر بہت سے مہنگے اسکولوں اور کالجوں کے فارغ التحصیل طلبہ کی بھی پہلی خواہش سرکاری جامعہ ہی ہوتی ہے، کیوں کہ یہ اعلٰی تعلیمی کمیشن سے منسلک ایک معیاری درس گاہ تصور کی جاتی ہے، جس کی اسناد بھی بلا شک وشبہ تسلیم کی جاتی ہیں۔
چند برس پیش تر ملکی جامعات کی ترقی کی خاطر اعلا تعلیمی کمیشن قائم کیا گیا، جس کا مقصد عالمی سطح پر ملکی جامعات کا معیار اور مقام بہتر بنانا تھا، کیوں کہ دنیا بھر کی بہترین جامعات کی فہرست میں ہماری ایک بھی جامعہ شامل نہیں۔ اعلا تعلیمی کمیشن نے تحقیق اور معیار کے تعلق سے مختلف جامعات پر خصوصی نظر رکھی اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن پھر وفاق میں محکمہ تعلیم کے خاتمے کے بعد سرکاری جامعات مشکلات کا شکار ہونے لگی ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ایک طرف ان کی گرانٹ میں کمی کر دی گئی ہے، دوسری طرف ہر سال ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، جس سے جامعات کی مالی حالت اور ابتر ہو گئی ہے۔
شدید مالی بحران کے سبب جامعہ کراچی میں گزشتہ تین سال سے تحقیق کرنے والے طلبہ کی مالی اعانت کا سلسلہ بھی شدید متاثر ہے، جس سے تحقیق کا عمل مشکلات کا شکار ہے۔
پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے سالانہ اخراجات ان کے مضمون اور موضوع کی مناسبت سے پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے سالانہ تک ہوتے ہیں۔ پہلے منتخب طلبہ کے لیے ان اخراجات میں ایچ ای سی کی جانب سے مکمل معاونت فراہم کی جاتی تھی، جب کہ اب یہ سلسلہ خاصا محدود ہو چکا ہے۔
بہت سی سرکاری جامعات ایسی بھی ہیں جو کالج سے ترقی دے کر جامعہ کے درجے پر پہنچی ہیں۔ مالی مسائل کے ساتھ ساتھ انہیں اعلا تعلیم اور معیار کے حوالے سے بھی شدید مسائل درپیش ہیں۔ صرف ایک حکم کے ذریعے کسی کالج کو جامعہ نہیں بنایا جاسکتا! اس کے لیے مکمل ایسے وسائل مہیا کرنے ہوتے ہیں جو اسے پہلے مرحلے میں کم سے کم کسی کالج سے تو متمیز کر سکیں۔ مثال کے طور پر 2002ء میں طویل جدوجہد کے بعد تاریخی اردو کالج کو ''جامعہ اردو'' کا درجہ تو دے دیا گیا لیکن ایک عشرہ گزر جانے کے باوجود بہت سی سہولیات سے محروم ہے۔ اردو کالج کو جامعہ بنانے سے یہ ہوا کہ کالج کے اساتذہ اب جامعہ کے استاد بن گئے، مگر ان کے لیے جامعہ کے حوالے سے اعلا طریقہ تدریس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسے پی ایچ ڈی اساتذہ کی بھی کمی کا سامنا رہا۔ آج بھی جامعہ کے مختلف شعبہ جات کے پاس اپنے کتب خانے تک موجود نہیں۔ ساتھ ہی تحقیق کی صورت حال بھی غیر تسلی بخش ہے۔
سرکاری جامعات کے یہ تمام مسائل براہ راست ان کے معیار پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اساتذہ حلقوں کی جانب سے جامعہ کراچی جیسے ادارے میں بھی اب طبقاتی تفریق کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، جس سے اب یہ صرف متوسط اور نچلے طبقے کی ہی جامعہ بنتی دکھائی دے رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں سرکاری اسکولوں اور سرکاری کالجوں کی زبوں حالی کے بعد سرکاری جامعات بھی اس ہی صورت حال کا شکار نہ ہو جائیں۔
جامعہ کراچی کے سابق طلبہ مدد کریں، ڈاکٹر شکیل خان
جامعہ کراچی کے فنانشل ایڈ آفس کے نگراں پروفیسر ڈاکٹر شکیل خان نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ حیاتیاتی سائنس میں سب سے مہنگی تحقیق خرد حیاتیات میں ہے، چوں کہ اس میں تحقیق کا محور جراثیم ہوتے ہیں۔ ان کی افزائش کے لیے استعمال ہونے والے لوازمات خاصے مہنگے ہیں۔ اس ضمن میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ اگر ڈالر کی قیمت میں بیس سے تیس فی صد اضافہ ہو تو مقامی سطح پر ان کے نرخ سو فی صد بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے حل کے لیے ہم یہ لوازمات براہ راست درآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے پاس بروقت سرمایہ نہ ہو تو پھر ہمیں مجبوراً یہیں سے مہنگے لوازمات ہی لینا پڑتے ہیں کیوں کہ باہر سے منگوانے کی صورت میں ہمیں پہلے سے منصوبہ بندی اور تمام حکمت عملی طے کرنا پڑتی ہے۔ جامعہ کراچی میں تعلیمی وظائف کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ طلبہ کو اس سلسلے میں اب خاصی دشواریوں کا سامنا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل طالب علم اگر یہاں سے حاصل شدہ تعلیم کے ذریعے معاش حاصل کر رہے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس جانب بھی متوجہ ہوں اور اپنی بساط کے مطابق طلبہ کی مدد کریں اور ساتھ ہی اپنے اطمینان کے لیے اس کے مصرف پر بھی نظر رکھیں کہ ان کی دی گئی رقم صحیح استعمال میں آ رہی ہے یا نہیں۔ اگر یہاں کسی طالب علم کے نام پیسہ آتا ہے تو پھر آخر میں اس طالب علم سے بھی تصدیق کی جاتی ہے کہ آیا اس نے اس سے استفادہ کیا یا نہیں۔