معمہ جو حل نہیں ہوا
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیوز لیک محض ایک سیکیورٹی ایشو نہیں ہے
پانامہ کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے بعد نیوز لیک کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی آ گئی ہے۔ یہ رپورٹ اگرچہ باضابطہ طور پر پبلک نہیں کی گئی، لیکن اس کی بنیادی سفارشات اُڑتی اُڑتی ذرایع ابلاغ تک پہنچ چکی ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کا متنازعہ نوٹی فیکیشن بھی آ چکا ہے، جس کو فوج نے نامکمل قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ مگر یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ان ساری چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ بھی لیا جائے، پھر بھی نیوز لیک کا معما ، معما ہی رہتا ہے۔
حکومتی نوٹی فیکیشن میں جن لوگوں کو ' ملزم' قرار دے کر عہدوں سے فارغ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں اتناہی معلوم ہوسکا ہے کہ وہ 'متنازعہ خبر' کی اشاعت نہ رکوا سکے تھے، جو اس کیس میں کوئی بنیادی بات نہیں۔ بنیادی بات اس کیس کی یہ ہے کہ 'متنازعہ خبر' اگر یکسر جھوٹی تھی تو کس کے اشارے پر گھڑی گئی اور اگر ایسی کوئی بات ہوئی تھی تو اس کو ایک خاص رخ دے کرکس کے ایما پر اور کس کی وساطت سے سرل المیڈا نامی رپورٹر تک پہنچایا گیا۔
یہ خبر گھڑی گئی یا افشا کی گئی، دونوں صورتوں میں نظریں جس جانب اٹھ رہی ہیں، وہ سب جانتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کایہ کہنا انتہائی بچکانہ بات ہے کہ جی ایسے کون سے 'قومی راز' افشا ہوگئے ہیں، ایک خبر ہی تو شایع ہوئی ہے۔ عرض یہ ہے کہ 'قومی راز' کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ضرور ایٹم بم کے بٹن کے بارے میں ہی کوئی بات ہو گی تو وہ 'قومی راز' کہلائے گی۔ ریاست کے اعلیٰ سطح کے حساس اجلاس، جن میں وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت مملکت کے تمام اہم عہدے دار موجود ہوں، ان میں قومی سلامتی سے متعلق حساس امور پر بات چیت بھی قومی راز ہی سمجھی جاتی ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیوز لیک محض ایک سیکیورٹی ایشو نہیں ہے۔ اورحکومت پاکستان اس بارے میں اگر ابہام دور نہیں کرتی تو بیرونی دنیا میں اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ پاکستان ایک ایسی غیر ذمے دار ایٹمی ریاست ہے ، جو قومی سلامتی کے اپنے ایک اجلاس کی کارروائی بھی محفوظ کرنے کی اہل نہیں ہے۔اورتنہا حکومت کی اہلیت پر نہیں، فوج کی پیشہ ورانہ قابلیت پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
نیوزلیک پر آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے حالانکہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، حالات کا جائزہ لیں تو سمجھ آجاتی ہے ۔ بادی النظر میں جس طرح حکومت نے سوچ سمجھ کر'نامکمل نوٹی فیکیشن' جاری کیا،اسی طرح فوج نے بھی سوچ سمجھ کر ہی یہ ٹویٹ کیا۔ نیوز لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے کچھ پہلے اکتوبر 2016ء میں ظہور پذیر ہوا ۔ بیانیہ اس کا یہ تھا کہ سول حکومت تو دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون کرنا چاہتی ہے، لیکن فوج تعاون نہیں کر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ذرایع ابلاغ نے مذکورہ خبر کو پاکستان کے خلاف خوب اچھالا۔ حکومت اور فوج دونوں کی طرف سے اس خبر کی صحت سے انکار کیا گیا، لیکن بات بہت آگے نکل گئی تھی۔
فوج کے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ حکومت سے اس امر کی تحقیقات کا مطالبہ کرے کہ اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی اجلاس کی اندرونی کارروائی کو کس نے ایک خاص رخ دے کر شایع کرایا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خاں نے اس مسئلہ پر پہلی جو پریس کانفرنس کی، اس میں دعویٰ کیا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، وہ ذاتی طور پر ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں، جو غیر ذمے داری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ آیندہ چند روز میں وہ اس بارے میں قوم کوبھی آگاہ کردیںگے۔ اکتوبر کے آخر میں وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید کو وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک ریٹائرڈ جج عامر رضا کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنا دی گئی۔اس اثنا میں جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوگئے۔ حکومت نے یہ سمجھا کہ نیوز لیک کا قصہ بھی رفت گزشت ہوچکا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ظاہراً یہ اتفاق ہے کہ پچھلے ماہ اپریل میں پانامہ کیس کا عدالتی فیصلہ آیا اور اسی ماہ کے آخر میں نیوز لیک کی انکوائری رپورٹ بھی حکومت کو موصول ہوگئی۔ لیکن حقیقتاًایسا نہیں ہے ، اندر کی بات یہی ہے کہ انکوائری کمیشن کی سفارشات جو بھی ہوں، اس کی رپورٹ میں نیوزلیک سے منسلک بنیادی ان بنیادی سوالات کاکوئی جواب نہیں ہے کہ ملکی سلامتی کے خلاف متنازعہ خبرکس کے ایما پر گھڑ ی گئی، یا توڑ مروڑ کے شایع کرائی۔ متنازعہ خبر کی انکوائری کے لیے بننے والی کمیٹی کی مبینہ سفارشات پر متنازعہ نوٹیفکیشن جاری کرکے حکومت نے تنازع کو مزید الجھا دیا۔
آئی ایس پی آر کا ٹویٹ اس پرایک طرح سے غم وغصہ کا اظہار ہے، جو سمجھ میں آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کی طرح نیوز لیک رپورٹ کی براہ راست زد بھی وزیراعظم نوازشریف پر نہیں پڑ رہی؛ لیکن یہ حقیقت واقعہ بھی اپنی جگہ ہے اوروزیراعظم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ پانامہ کیس کی عدالتی فیصلے کی طرح نیوز لیک کی انکوائری رپورٹ نے بھی ان کی مشکلات کو ، بجائے کم کرنے کے، مزید بڑھادیا ہے۔ شاعر نے کہا تھا،
اک اور دریاکا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراترا تو میں نے دیکھا
حکومتی نوٹی فیکیشن میں جن لوگوں کو ' ملزم' قرار دے کر عہدوں سے فارغ کیا گیا ہے، ان کے بارے میں اتناہی معلوم ہوسکا ہے کہ وہ 'متنازعہ خبر' کی اشاعت نہ رکوا سکے تھے، جو اس کیس میں کوئی بنیادی بات نہیں۔ بنیادی بات اس کیس کی یہ ہے کہ 'متنازعہ خبر' اگر یکسر جھوٹی تھی تو کس کے اشارے پر گھڑی گئی اور اگر ایسی کوئی بات ہوئی تھی تو اس کو ایک خاص رخ دے کرکس کے ایما پر اور کس کی وساطت سے سرل المیڈا نامی رپورٹر تک پہنچایا گیا۔
یہ خبر گھڑی گئی یا افشا کی گئی، دونوں صورتوں میں نظریں جس جانب اٹھ رہی ہیں، وہ سب جانتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کایہ کہنا انتہائی بچکانہ بات ہے کہ جی ایسے کون سے 'قومی راز' افشا ہوگئے ہیں، ایک خبر ہی تو شایع ہوئی ہے۔ عرض یہ ہے کہ 'قومی راز' کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ضرور ایٹم بم کے بٹن کے بارے میں ہی کوئی بات ہو گی تو وہ 'قومی راز' کہلائے گی۔ ریاست کے اعلیٰ سطح کے حساس اجلاس، جن میں وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت مملکت کے تمام اہم عہدے دار موجود ہوں، ان میں قومی سلامتی سے متعلق حساس امور پر بات چیت بھی قومی راز ہی سمجھی جاتی ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیوز لیک محض ایک سیکیورٹی ایشو نہیں ہے۔ اورحکومت پاکستان اس بارے میں اگر ابہام دور نہیں کرتی تو بیرونی دنیا میں اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ پاکستان ایک ایسی غیر ذمے دار ایٹمی ریاست ہے ، جو قومی سلامتی کے اپنے ایک اجلاس کی کارروائی بھی محفوظ کرنے کی اہل نہیں ہے۔اورتنہا حکومت کی اہلیت پر نہیں، فوج کی پیشہ ورانہ قابلیت پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
نیوزلیک پر آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر بڑی لے دے ہو رہی ہے حالانکہ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، حالات کا جائزہ لیں تو سمجھ آجاتی ہے ۔ بادی النظر میں جس طرح حکومت نے سوچ سمجھ کر'نامکمل نوٹی فیکیشن' جاری کیا،اسی طرح فوج نے بھی سوچ سمجھ کر ہی یہ ٹویٹ کیا۔ نیوز لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے کچھ پہلے اکتوبر 2016ء میں ظہور پذیر ہوا ۔ بیانیہ اس کا یہ تھا کہ سول حکومت تو دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاون کرنا چاہتی ہے، لیکن فوج تعاون نہیں کر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی ذرایع ابلاغ نے مذکورہ خبر کو پاکستان کے خلاف خوب اچھالا۔ حکومت اور فوج دونوں کی طرف سے اس خبر کی صحت سے انکار کیا گیا، لیکن بات بہت آگے نکل گئی تھی۔
فوج کے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ حکومت سے اس امر کی تحقیقات کا مطالبہ کرے کہ اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی اجلاس کی اندرونی کارروائی کو کس نے ایک خاص رخ دے کر شایع کرایا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خاں نے اس مسئلہ پر پہلی جو پریس کانفرنس کی، اس میں دعویٰ کیا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، وہ ذاتی طور پر ان لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں، جو غیر ذمے داری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ آیندہ چند روز میں وہ اس بارے میں قوم کوبھی آگاہ کردیںگے۔ اکتوبر کے آخر میں وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید کو وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک ریٹائرڈ جج عامر رضا کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنا دی گئی۔اس اثنا میں جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوگئے۔ حکومت نے یہ سمجھا کہ نیوز لیک کا قصہ بھی رفت گزشت ہوچکا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ظاہراً یہ اتفاق ہے کہ پچھلے ماہ اپریل میں پانامہ کیس کا عدالتی فیصلہ آیا اور اسی ماہ کے آخر میں نیوز لیک کی انکوائری رپورٹ بھی حکومت کو موصول ہوگئی۔ لیکن حقیقتاًایسا نہیں ہے ، اندر کی بات یہی ہے کہ انکوائری کمیشن کی سفارشات جو بھی ہوں، اس کی رپورٹ میں نیوزلیک سے منسلک بنیادی ان بنیادی سوالات کاکوئی جواب نہیں ہے کہ ملکی سلامتی کے خلاف متنازعہ خبرکس کے ایما پر گھڑ ی گئی، یا توڑ مروڑ کے شایع کرائی۔ متنازعہ خبر کی انکوائری کے لیے بننے والی کمیٹی کی مبینہ سفارشات پر متنازعہ نوٹیفکیشن جاری کرکے حکومت نے تنازع کو مزید الجھا دیا۔
آئی ایس پی آر کا ٹویٹ اس پرایک طرح سے غم وغصہ کا اظہار ہے، جو سمجھ میں آتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کی طرح نیوز لیک رپورٹ کی براہ راست زد بھی وزیراعظم نوازشریف پر نہیں پڑ رہی؛ لیکن یہ حقیقت واقعہ بھی اپنی جگہ ہے اوروزیراعظم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ پانامہ کیس کی عدالتی فیصلے کی طرح نیوز لیک کی انکوائری رپورٹ نے بھی ان کی مشکلات کو ، بجائے کم کرنے کے، مزید بڑھادیا ہے۔ شاعر نے کہا تھا،
اک اور دریاکا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراترا تو میں نے دیکھا