الامان والحذر
اب مغربی طرز فکر میں ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے
یہ بات ایک اصول بن چکی ہے اور سراپا صداقت تسلیم کی جاتی ہے کہ دوست کا دوست، دوست اور دشمن کا دشمن آپ کا بھی دشمن ہوتا ہے۔ اسی سے یہ صداقت بھی نکلتی ہے کہ اگر آپ کا دشمن کسی فرد کی تعریف میں رطب اللسان ہے تو یقیناً اس کے پس پشت کوئی سازش ہو گی۔ یہ شخص دشمن کے کام کا شخص ہے دشمن اس سے کام لینا چاہتا ہے۔ آپ کے خلاف؟ آپ کے نظریے اور عقائد کے خلاف، یا آپ کے ایمان و ایقان کے خلاف۔ تبھی تو وہ اس فرد کی تعریف کر رہا ہے۔
دراصل یہ دشمن کی دوستی کا رنگ ہے۔ دشمن اسی سے دوستی کرتا، نبھاتا اور برتتا ہے جس کو آپ کے خلاف نبرد آزما کرنا ہو۔ وہ اصولاً آپ کے دشمن کا دوست ہے۔
اب پوری مغربی دنیا کو دیکھ لیجیے۔ وہ اسلام سے خوف زدہ ہے مسلمان اس کے دشمن ہوں یا نہ ہوں انھوں نے ان کو اپنا دشمن بنا لیا ہے، فرض کر لیا ہے۔ اب اس دشمن سے نمٹنے کا طریقہ کار انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہی نرم چارہ تلاش کیا جائے، ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کے بدلے میں ان پر نوازشات کی بارش کی جائے۔
یہ طریقہ کار مغربی استعمارکا آزمودہ ہے اس لیے اہل مغرب اس کو بہ آسانی اور بڑی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ اقوام مشرق کی غلامی کے دنوں میں وہ اسی طریقہ کار سے کام لے کر ہم ہی میں سے اپنے کام کے آدمی چن لیتے اور ان سے وہ کام لے لیتے جو خود انھیں کرنا ہوتا۔ اس کے بدلے میں ان بدنصیبوں کو خان بہادر، شمس العلما اور سر کے خطابات سے نوازا جاتا، ان کی تکریم کی جاتی اور انھیں اپنے معاشرے میں مصنوعی عزت و توقیر دلوائی جاتی۔
کبھی کبھی اندازہ غلط بھی ہو جاتا۔ خطاب کسی سر پر غلط سج جاتا۔ وہ شخص یا تو اپنی مرضی کرتا رہتا، یا پھر مغرب کے املا کرائے ہوئے خطوط پر گامزن ہی نہ ہوتا۔ ایسے جاندار لوگ بھی ہوتے ہیں مگر خال خال۔ دنیوی عزت و توقیر اور حکمران وقت کی ملاقات سے ملنے والے مفادات اتنے دل کش اور فریب نظر ہوتے ہیں کہ ان سے بچ نکلنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے اور یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
مگر اہل مغرب کا تجربہ ہے کہ یہ حربہ بڑا کارآمد ہے، اس لیے وہ اب بھی اسے اپنائے ہوئے ہیں اور اس کو بروئے کار لا کر مطلوبہ نتائج بحسن و خوبی حاصل کر رہے ہیں۔
اب دنیا ترقی کر گئی ہے۔ پھیل گئی ہے، اس لیے واردات کے طریقوں اور اس کے دائرے میں بھی وسعت ہوئی ہے۔کسی کو بلا کر آئی ایم ایف میں اعلیٰ عہدے پر سرفرازکیا جاتا ہے تو کسی کے کارناموں پر انعامات کی بارش کی جاتی ہے اور ایک نارمل انسان دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔
ہمارا تو وہ بدنصیب ملک ہے جہاں وزراء اور وزیراعظم نہ صرف مغربی لیڈروں کی سفارش پر لیے جاتے ہیں بلکہ درآمد بھی کیے جاتے ہیں کہ یہ لوگ مغرب کی چاکری کر کے اس قابل ہو گئے ہیں کہ ہمارے حکمراں بنائے جائیں تا کہ وہ مغرب کے مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔
اب مغربی طرز فکر میں ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے، اب وہ دیسی وائسرائے درآمد کرنے کے بجائے عوام الناس کی طرف ملتفت ہوئے ہیں اور مسلم معاشرے میں ایسے افراد کی نشوونما اور پرورش فرما رہے ہیں جو آزاد خیال اور آوارہ فکر ہوں تا کہ اس آزاد خیالی کی آڑ میں وہ اسلام کے خلاف استعمال ہو سکیں، عقیقہ ان کا بلاگرز کے نام پر ہوا ہے۔ یہ اول فول ہی نہیں بکتے بلکہ اسلام کے بنیادی معتقدات، اسلامی احکام اور یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں بھی جو کچھ چاہے کہہ سکیں ان کی ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں ان کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور یہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ اسلام یا پیغمبر اسلام کے خلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی برداشت کرنا ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہاں کے ایک صحافی یامین رشید ہیں۔ وہ مالدیپ کے ''مزاج سے ناآشنا'' سیاست دانوں پر جملہ بازی کرتے اور ان کے خلاف لکھتے رہے ہیں، مگر انھوں نے اپنے بلاگ میں جس کا نام انھوں نے ''دی ڈیلی پے نِک'' رکھا ہے مذہب اور اسلامی عقائد کے سلسلے میں متنازعہ مواد شایع کرنا شروع کیا۔ ان کے بلاگ کے حامیوں اور زیر اثر لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
یہ شخص 2015ء میں بھی جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔ اپنی نام نہاد ''آزاد خیالی'' کے سبب مالدیپ کے راسخ العقیدہ معاشرے میں اس پر جان لیوا حملوں کی کوشش بھی کی گئی مگر ناکام رہی۔ البتہ اس بار اس پر کامیاب حملہ کیا گیا۔ اس پر خنجر سے کئی وار کیے گئے اور وہ اپنے فلیٹ میں نیم جان پایا گیا۔ یامین رشید کو اسپتال لے جایا گیا جہاں جا کر وہ دم توڑ گیا۔ مالدیپ میں اس سے قبل گزشتہ پانچ سالوں میں تین اور صحافی اسی نام نہاد ''آزاد خیالی'' کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خیال رہے کہ یامین رشید پچھلے دنوں لندن سے واپس آیا تھا جہاں اسے ایک ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
آخر وہ کیا کارگزاری ہوتی ہے جس کے باعث اہل مغرب کسی شخص کو ایوارڈ دیتے ہیں اور یہ ایوارڈ یافتہ لوگ اپنے اپنے معاشروں میں نفرت کی علامت بن جاتے ہیں۔
اب اہل مغرب کا ہتھیار ایوارڈ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم اس سے خوف زدہ ہیں آخر یہ ایوارڈ کن لوگوں کو عنایت کیے جاتے ہیں۔
ہماری ایک اور لاڈلی بچی پر تو یہ لوگ ایوارڈز کی بارش کر رہے ہیں اور ایوارڈ کی اس یورش کے سبب ہمیں خیال ہوتا ہے اتنے زیادہ ایوارڈز کہیں مبالغہ تو نہیں اور کیا اہل مغرب ان ایوارڈز سے آگے چل کر کوئی کام تو نہیں لینا چاہتے۔ (الحذر و الامان)
دراصل یہ دشمن کی دوستی کا رنگ ہے۔ دشمن اسی سے دوستی کرتا، نبھاتا اور برتتا ہے جس کو آپ کے خلاف نبرد آزما کرنا ہو۔ وہ اصولاً آپ کے دشمن کا دوست ہے۔
اب پوری مغربی دنیا کو دیکھ لیجیے۔ وہ اسلام سے خوف زدہ ہے مسلمان اس کے دشمن ہوں یا نہ ہوں انھوں نے ان کو اپنا دشمن بنا لیا ہے، فرض کر لیا ہے۔ اب اس دشمن سے نمٹنے کا طریقہ کار انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہی نرم چارہ تلاش کیا جائے، ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کے بدلے میں ان پر نوازشات کی بارش کی جائے۔
یہ طریقہ کار مغربی استعمارکا آزمودہ ہے اس لیے اہل مغرب اس کو بہ آسانی اور بڑی کامیابی سے استعمال کرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ اقوام مشرق کی غلامی کے دنوں میں وہ اسی طریقہ کار سے کام لے کر ہم ہی میں سے اپنے کام کے آدمی چن لیتے اور ان سے وہ کام لے لیتے جو خود انھیں کرنا ہوتا۔ اس کے بدلے میں ان بدنصیبوں کو خان بہادر، شمس العلما اور سر کے خطابات سے نوازا جاتا، ان کی تکریم کی جاتی اور انھیں اپنے معاشرے میں مصنوعی عزت و توقیر دلوائی جاتی۔
کبھی کبھی اندازہ غلط بھی ہو جاتا۔ خطاب کسی سر پر غلط سج جاتا۔ وہ شخص یا تو اپنی مرضی کرتا رہتا، یا پھر مغرب کے املا کرائے ہوئے خطوط پر گامزن ہی نہ ہوتا۔ ایسے جاندار لوگ بھی ہوتے ہیں مگر خال خال۔ دنیوی عزت و توقیر اور حکمران وقت کی ملاقات سے ملنے والے مفادات اتنے دل کش اور فریب نظر ہوتے ہیں کہ ان سے بچ نکلنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے اور یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
مگر اہل مغرب کا تجربہ ہے کہ یہ حربہ بڑا کارآمد ہے، اس لیے وہ اب بھی اسے اپنائے ہوئے ہیں اور اس کو بروئے کار لا کر مطلوبہ نتائج بحسن و خوبی حاصل کر رہے ہیں۔
اب دنیا ترقی کر گئی ہے۔ پھیل گئی ہے، اس لیے واردات کے طریقوں اور اس کے دائرے میں بھی وسعت ہوئی ہے۔کسی کو بلا کر آئی ایم ایف میں اعلیٰ عہدے پر سرفرازکیا جاتا ہے تو کسی کے کارناموں پر انعامات کی بارش کی جاتی ہے اور ایک نارمل انسان دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔
ہمارا تو وہ بدنصیب ملک ہے جہاں وزراء اور وزیراعظم نہ صرف مغربی لیڈروں کی سفارش پر لیے جاتے ہیں بلکہ درآمد بھی کیے جاتے ہیں کہ یہ لوگ مغرب کی چاکری کر کے اس قابل ہو گئے ہیں کہ ہمارے حکمراں بنائے جائیں تا کہ وہ مغرب کے مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔
اب مغربی طرز فکر میں ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے، اب وہ دیسی وائسرائے درآمد کرنے کے بجائے عوام الناس کی طرف ملتفت ہوئے ہیں اور مسلم معاشرے میں ایسے افراد کی نشوونما اور پرورش فرما رہے ہیں جو آزاد خیال اور آوارہ فکر ہوں تا کہ اس آزاد خیالی کی آڑ میں وہ اسلام کے خلاف استعمال ہو سکیں، عقیقہ ان کا بلاگرز کے نام پر ہوا ہے۔ یہ اول فول ہی نہیں بکتے بلکہ اسلام کے بنیادی معتقدات، اسلامی احکام اور یہاں تک کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں بھی جو کچھ چاہے کہہ سکیں ان کی ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں ان کو ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ملک مالدیپ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور یہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ اسلام یا پیغمبر اسلام کے خلاف کسی قسم کی ہرزہ سرائی برداشت کرنا ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہاں کے ایک صحافی یامین رشید ہیں۔ وہ مالدیپ کے ''مزاج سے ناآشنا'' سیاست دانوں پر جملہ بازی کرتے اور ان کے خلاف لکھتے رہے ہیں، مگر انھوں نے اپنے بلاگ میں جس کا نام انھوں نے ''دی ڈیلی پے نِک'' رکھا ہے مذہب اور اسلامی عقائد کے سلسلے میں متنازعہ مواد شایع کرنا شروع کیا۔ ان کے بلاگ کے حامیوں اور زیر اثر لوگوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔
یہ شخص 2015ء میں بھی جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔ اپنی نام نہاد ''آزاد خیالی'' کے سبب مالدیپ کے راسخ العقیدہ معاشرے میں اس پر جان لیوا حملوں کی کوشش بھی کی گئی مگر ناکام رہی۔ البتہ اس بار اس پر کامیاب حملہ کیا گیا۔ اس پر خنجر سے کئی وار کیے گئے اور وہ اپنے فلیٹ میں نیم جان پایا گیا۔ یامین رشید کو اسپتال لے جایا گیا جہاں جا کر وہ دم توڑ گیا۔ مالدیپ میں اس سے قبل گزشتہ پانچ سالوں میں تین اور صحافی اسی نام نہاد ''آزاد خیالی'' کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خیال رہے کہ یامین رشید پچھلے دنوں لندن سے واپس آیا تھا جہاں اسے ایک ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
آخر وہ کیا کارگزاری ہوتی ہے جس کے باعث اہل مغرب کسی شخص کو ایوارڈ دیتے ہیں اور یہ ایوارڈ یافتہ لوگ اپنے اپنے معاشروں میں نفرت کی علامت بن جاتے ہیں۔
اب اہل مغرب کا ہتھیار ایوارڈ بن چکا ہے۔ اس لیے ہم اس سے خوف زدہ ہیں آخر یہ ایوارڈ کن لوگوں کو عنایت کیے جاتے ہیں۔
ہماری ایک اور لاڈلی بچی پر تو یہ لوگ ایوارڈز کی بارش کر رہے ہیں اور ایوارڈ کی اس یورش کے سبب ہمیں خیال ہوتا ہے اتنے زیادہ ایوارڈز کہیں مبالغہ تو نہیں اور کیا اہل مغرب ان ایوارڈز سے آگے چل کر کوئی کام تو نہیں لینا چاہتے۔ (الحذر و الامان)