سیاست کی دکان اورایشوز کی بہتات

126دنوں کا دھرنا اور پھر ایک سال سے زائدعرصے پر مبنی پاناما اسکینڈل جو ہنوز اُن کی سیاست کا گرما گرم ایشو بنا ہوا ہے

mnoorani08@gmail.com

سیاست بھی عجب کھیل ہے۔کبھی نہ رکنے والااور نہ تھمنے والا۔مادر پدرآزاد، بے ہنگم اور لاپرواہ۔ محبت اور جنگ کی طرح ہر چیزاِس میں جائز۔ نہ کوئی متعین اُصول اور نہ کوئی مخصوص ضابطے۔ جس کا جو جی چاہے وہ کہہ گزرے اورکر گزرے۔ جس پر اہے کوئی تہمت لگادی اورجس کی چاہے پگڑی اُچھال دی، مگر ہاں اِن سب کے لیے حالات کا سازگار اور جمہوریت کا ہونا بہت ضروری اورلازمی ہے۔ غیرجمہوری دور میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ اِس کھیل کے سارے منجھے ہوئے مایا نازکھلاڑی اور چیمپئن اُس دور میں پتہ نہیں کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔

پھر کئی سال بعد ڈر ڈرکے وہ اپنے بلوں سے اُس وقت باہر آنا شروع ہوتے ہیںجب حکمراں ڈکٹیٹر ویسے ہی کمزور پڑچکا ہوتا ہے۔گرتی ہوئی دیوارکو ایک ہلکا سا دھکا دے کر وہ اپنا نام جمہوریت کے لیے جدوجہد اور قربانی دینے والوں میںشمارکرنے لگتے ہیں۔ہم نے اپنے یہاں ہر غیر جمہوری دور میں ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔جب بھی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے ایک منتخب اور آئینی حکومت کا تختہ اُلٹا تو اُسے کسی بھی جانب سے کوئی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا۔ بلکہ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔سب نے نئے حکمرانوں کی مدح سرائی اورتعریف و توصیف میں خوب قصیدے لکھے ۔غلط اور ہزیمت خوردہ صدر کو دس دس بار منتخب کر وا نے کے اعلانات کیے۔ یہ اور بات ہے کہ اُن کے جانے کے بعد لعن طعن میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

البتہ آئین و دستور کے مطابق منتخب ہونے والی جمہوری حکومتوں کو پہلے دن ہی سے اپنے مخالفوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ملک میں صرف ایک ٹی وی چینل تھا اور وہ بھی صرف حکومت وقت کا ترجمان۔ لیکن اب جب سے سیکڑوں نجی چینلز ملکی ہواؤں اور فضاؤں میںاپنی نشریات بکھیرنے لگے ہیںاپوزیشن پارٹیوں کے تومزے ہوگئے ہیں۔ اُنہیں اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں کسی مشکل اور دقت کا سامنا نہیں ہوتا۔وہ جب چاہیں کوئی بیان داغ دیتے ہیں اور وہ منٹوں میں دنیاکے کونے کونے میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر بھی اگر تشفی نہ ہوتا توسر شام کسی ٹاک شومیں بیٹھ کروہ اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال سکتے ہیں۔وہاںجو الزام لگانا چاہے بلا تحقیق لگالیتا ہے۔

یہ اب دوسرے فریق کی ذمے داری ہے کہ وہ اُس کی تردید کرتا پھرے۔الزام لگانے کے لیے کسی پیشگی تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔بس جس وقت ذہن نے اُکسایا، خیالات اور تفکرات کو الفاظ کا جامہ پہنادیاگیا۔یہاں کاکوئی نظام اورکوئی قانون الزام لگانے والے کی سرزنش نہیں کرسکتا ۔خود عدالتوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہر الزام اور تہمت پر سوموٹو لے کر کارروائی کرتی پھریں۔ حال ہی میں تحریک ِ انصاف کے سربراہ نے جن ڈھکے چھپے لہجوں میںیہ الزام تراشی کی کہ پاناما کیس میں چپ رہنے کے لیے اُنہیں حمزہ شریف کی جانب سے کسی دوسرے شخص کے ذریعے 10ارب روپوں کی پیشکش کی گئی تھی تو اُن کامقصد صرف حکمرانوں ہی کو ہدفِ تنقید بنانا ہرگز نہیں تھا بلکہ درپردہ اِس کی آڑ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں پر بھی شک وشبہات کی دھول اُڑانا مقصود تھا، مگر بے چاری عدلیہ یہ زہر بھی خاموشی کے ساتھ پی گئی۔


ہماری پارلیمنٹ میں ویسے توقائدِ حزب اختلاف کا عہدہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہے لیکن پی ٹی آئی بھی خود کو اِس عہدے کا اصل اہل سجھتی اور جانتی ہے۔اُس کے بقول باقی تمام جماعتیں تو جمہوریت کی آڑ میں حکومت کی دوست اور وفادار بنی ہوئی ہیں۔اِسی خیال سے اُس نے گزشتہ چار سالوں میں کسی لمحے بھی اپنا یہ کردار کسی اور جماعت کو ادا کرنے دیا ہی نہیں۔وہ تنہا یہ کردار بڑی جانفشانی سے نبھاتی چلی آ رہی ہے۔ اُس کے نزدیک حکومت کو چین سے کام نہ کرنے دینا ہی اپوزیشن کا اصل کردار ہوتا ہے اور وہ اپنے اِس مشن میں کسی حد تک ضرور کامیاب بھی ہوئی ہے۔ صرف ایک ابتدائی سال اُن نے خاموشی سے میاں صاحب کو چین سے گزارنے دیاتھامگر پھر 2014ء سے وہ مسلسل سڑکوں کی سیاست کی امین بنی ہوئی ہے۔

126دنوں کا دھرنا اور پھر ایک سال سے زائدعرصے پر مبنی پاناما اسکینڈل جو ہنوز اُن کی سیاست کا گرما گرم ایشو بنا ہوا ہے اور جو شاید اگلے انتخابات تک یونہی چلتا رہے گا نہ صرف میاں صاحب کو تھکا رہا ہے بلکہ خود اُن کی اپنی مقبولیت کے لیے بھی مضرِاور ضرر رساں ثابت ہو رہا ہے۔ پہلے دھاندلی والے ایشوکو اُنہوں نے قوم کے لیے ''ڈیفائننگ مومنٹ'' یعنی فیصلہ کن گھڑی قرار دیا اورپھر پاناما اسکینڈل کوبھی اِسی نام سے مشہورومعروف کیا مگر نتیجہ وہی یعنی صفرکاصفر۔ نہ پچھلی تحریک کے نتیجے میں آیندہ ہونے والی ممکنہ دھاندلی کے سدباب کے لیے کسی اُصول اور ضابطوں پر ابھی تک اتفاق رائے ہو پایا ہے اور نہ پاناما اسکینڈل پر شور شرابے سے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ نہ کرپشن کا کوئی تابوت نکلا ہے اور نہ مستقبل میںصاف اور شفاف الیکشنوں کی کوئی اُمید بنی ہے۔

ایک بار پھر اپنی یہ بات یہاں دہراؤں گا کہ کسی بھی نیک مقصد کے لیے خلوص نیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جس دھاندلی کے ایشوکو تحریک کا رنگ دیکر ہلہ گلہ مچایاگیا تھا وہ جوڈیشل کمیشن کے مطابق منظم اور طے شدہ دھاندلی تھی ہی نہیں۔ پس ِ پردہ کسی ا سکرپٹ رائٹرزکی ایماء پر انتظامی کوتاہیوں اور غلطیوں کو باقاعدہ منظم دھاندلی کاالزام دیکر ملک کے اندرجس افراتفری پیداکرنے کا پلان تیار کیاگیا تھا وہ ہمارے سابق آرمی چیف راحیل شریف اور جمہوریت پسند جماعتوں کی مدد سے ناکام و نامراد قرار پایا۔بالکل اِسی طرح ملک سے کرپشن کے خاتمے کی حالیہ جدوجہد کے پیچھے بھی کچھ اورعوامل کارفرما ہیں۔اِس ساری تحریک کامقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔

ملک میں اگر آج 12ارب کی روزانہ کرپشن ہورہی ہے تواِس میں ہمارے سارے محکمے اورادارے ملوث ہیں۔پولیس، کسٹم، ایف آئی اے اورنجانے کون کون سے ادارے اپنااپنا کام دکھا رہے ہیں۔کسی ایک فریق کو الزام نہیں دیاجاسکتا ہے۔آج کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ ہورہی ہے تو اِس میں بھی ہر شخص اپنا اپنا ہنر اور جوہر دکھا رہا ہے۔دبئی کے رئیل اسٹیٹ کاروبار میںبھی اگر یہاں سے غیر قانونی سرمایہ کاری کی گئی تووہ بھی ہمارے امیر اور صاحبِ حیثیت خاندانوں کی جانب سے کی گئی۔خود خان صاحب کے ارد گرد ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اثرو رسوخ استعمال کرکے بڑے بڑے قرضے معاف کروائے اور آج اربوں اور کھربوں کی مالیت کی جائیداد کے مالک ومختار بنے ہوئے ہیں۔لیکن یہ خان صاحب کی مجبوری ہے کہ وہ اُن کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے کیونکہ اُن کے جلسے جلوسوں کے تما م اخراجات و ہی لوگ اٹھاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ نہ حکومت اور نہ اپوزیشن اِ س ملک سے کرپشن کا نیک نیتی اور خلوصِ دل سے خاتمہ چاہتی ہے۔پاناما اسکینڈل یاپھرکوئی اور ایشوکرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کا نہ پہلے حصہ تھا اور نہ آیندہ ہوگا۔یہ بس ایک سیاسی اسٹنٹ ہے۔ خود کو اگلے الیکشنوں تک زندہ اور متحرک رکھنے کی کوشش۔ اور اُن کی اِس کوشش میں بہت سے لوگوں کی روٹی روزی بھی لگی ہوئی ہے۔ہرروز شام سویرے تمام ٹی وی چینلوں پر اپوزیشن کی جانب سے اُٹھائے گئے ہر ایشو پر بحث و تکراراور تجزیے اور تبصرے،خدشات اور امکانات، غیبی اور الہامی معلومات اور رازہائے درونِ پردہ کے انکشافات ہماری سیاست کا وہ حصہ بن چکے ہیں جن کو سنے بغیرہمیں چین بھی نہیں آتا۔عدلیہ کے فیصلوںسے قبل ہی فیصلے کے مضمرات، مندراجات اور خدوخال کا بتادینا اور پھر نتیجہ برعکس آنے پر مایوسی کے عالم میںاول فول بکنا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے۔ہمیں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے ہر وقت کسی نہ کسی ایشو کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں ایسے ایشوزکی بڑی بہتات اور فراوانی ہے۔ پھر بھی اگر کبھی کوئی ایشو نہ ملے تو ہم خود ہی کوئی نیا ایشوگڑھ لیتے ہیں۔
Load Next Story