اے زندگی تو روٹھ گئی
ہم کچھ جذباتی قسم کے لوگ ہیں چاہتے ہیں تو جوش سے نفرت کرتے ہیں تو جوش سے
وہ یقینا ایک خوب صورت شام ہوگی،کتابوں کو پڑھنے والے اورلکھنے والے ایک جگہ جمع تھے،کتابیں فروخت ہورہی تھیں اور یہ خیال تو فروغ پا ہی چکا ہے کہ انٹرنیٹ کے اس دورمیں بھی کتاب بینی کے اپنے ہی فوائد ہیں۔اسی خیال کے درپیش یہ میلہ سجاتھا بڑے بڑے لکھاری اور حکومتی نمایندے بھی اس میلے میں پیش پیش تھے۔
عہدے داروں نے بڑی میلے کی خاطر تواضع کی خاطر شان سے بارہ فٹ اونچا اسٹیج بنوایا، ایک ایسا اسٹیج جو دیکھنے میں بظاہر زمین سے خاصا اونچا دکھائی دے رہا تھا لیکن در حقیقت یہ ایک ایسا طویل بڑا سا کمرہ تھا جو پہلی منزل کی اونچائی پر تھا جس کے ارد گرد کوئی دیوار،کوئی حفاظتی جنگلا نہ بناتھا۔ البتہ اوپر تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں ضرور تھیں اور اوپر جانے والے نیچے والوں کو دیکھا نہیں کرتے بس چڑھے چلے جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ اسلام آباد میں ہونے والے اس میلے میں ہوا۔ فرزانہ ناز ایک نوجوان شاعرہ اور اینکر اور پیارے پیارے دو بچوں کی ماں بھی تھیں اپنی کتاب وفاقی وزیر احسن اقبال کو پیش کرنے اسی بلند پہلے مالے پر تعمیر کردہ اسٹیج پر چڑھیں لیکن جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے کہ سیاسی جلسے ہویا اسکول کالج کی تقریبات اگر رن پڑ جائے تو پھر کوئی نظر نہیں آتا اور اس میلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ فرزانہ ناز اسی دھکم پیل کا نشانہ بنی اور بغیر کسی حفاظتی جنگلے والے اسٹیج پر وہ اپنا آپ بچا نہ سکیں اور پہلی منزل جیسے اسٹیج سے زمین پر آگریں اور اس طرح زخمی ہوئیں کہ پھر زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ (آمین)
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عمران خان کی سیاسی جلسے میں اپنا توازن نہ برقرار رکھ سکے لیکن خدا نے انھیں بچالیا، اس سے پہلے بھی خان صاحب اسٹیج پر سے ایسا گرے کہ لوگوں کو گمان گزرا کہ شاید عمران خان ماضی کی کوئی کہانی بن جائیںگے لیکن خدا کی قدرت کہ وہ بچ گئے یہ ان کے چاہنے والوں کی دعاؤں کا اثر اور رب العزت کی مہربانی تھی لیکن اسکرین پر بار بار چلنے والی اسی حادثے کی ویڈیو نے دکھایا کہ کس طرح زیادہ لوگوں کی کرین پر موجودگی نے توازن کو بگاڑدیا اور یوں خان صاحب کھلونے کی مانند اوپر سے نیچے گر پڑے، صرف یہی نہیں بلکہ خانصاحب کے جلسے میں ایک کارکن اسٹیج سے اسی دھکم پیل میں زمین پر گر پڑا، فیس بک پر یہ پوسٹ بھی دیکھی گئی تھی اس سے کچھ اور پہلے چلیے جب عاطف اسلم کے ایک کنسرٹ میں جو خواتین کے کسی کالج کی جانب سے الحمرا میں منعقد تھا لیکن سیکیورٹی وجوہ کی خاطر بڑے گیٹ کی بجائے چھوٹے گیٹ کو اس طرح کنسرٹ کے اختتام پر کھولا کہ لڑکیوں میں بھگدڑ مچ گئی، معصوم لڑکیاں زخمی بھی ہوئیں اور اپنی جان سے بھی گئیں۔
ہم کچھ جذباتی قسم کے لوگ ہیں چاہتے ہیں تو جوش سے، نفرت کرتے ہیں تو جوش سے۔ پیٹتے ہیں تو سب کچھ بھول کر، اس قدر درگت بناتے ہیں کہ بندے کی سانس تک اکھڑجاتی ہے،کوئی ہمیں بے وقوف بناکر جنگلی بیلوں کی طرح ہنکاکر لے جاتا ہے اور ہم آنکھ بند کرکے اس کے پیچھے چلے جاتے ہیں جیسے کسی نہایت ضروری کام سے جارہے ہیں اس کے بعد کیا ہوگا یا ہونا چاہیے اس کی قطعاً فکر نہیں کرتے اور سچ مچ حیوان ہی بن جاتے ہیں اور اس کے بعد افسوس، دکھ اور آہ رہ جاتی ہے۔
فرزانہ ناز ایسی ہی بے رحمی اور حیوانیت کی نذر ہوگئی ہیں۔ میں ، میرا اور میرے اپنے اس تصور نے کسی دوسرے کے وجود کو کچھ سمجھا ہی نہیں اور نہایت بے قدری سے دھکم پیل کا نشانہ بنایا، ہم ان کتوں کی جانب ہی ذرا دیرکو دیکھیں جو اپنے مالک کے غذا کھانے والے برتنوں کی تقسیم کو بڑے سکون سے ہوتا دیکھ کر بھی صرف دُم ہلانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مالک اطمینان سے سارے برتن لائن سے سب کے سامنے رکھتا ہے۔ جانور اپنے نفس کو کنٹرول کرتے یہ سب دیکھتا ہے اور پھر مالک اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک مخصوص اشارہ کرتا ہے تو تمام کتے اپنے آگے کے برتن میں منہ ڈال کرکھاتے ہیں۔ نہ لڑائی نہ جھگڑا نہ دھکم پیل سب اپنے اپنے برتنوں کو پہچانتے ہوئے کسی کے نوالے کی جانب بھی نہیں دیکھتے۔ ماہ رمضان آرہا ہے ، آپ نے اس مقدس مہینے میں راشن لینے کے لیے سیڑھیوں پر موجود غریب خواتین کے بھگدڑ کے باعث روندے جانے کی دردناک خبریں تو پڑھیں ہونگی۔
جب عمران خان اسٹیج سے گرے تھے تو لوگوں نے ہزاروں سوال اٹھائے تھے کہ یوں ہونا چاہیے اور یوں نہیں، خان صاحب ایک عام عوام نہ تھے بلکہ خاص مقام رکھنے والے لیڈر ہیں لیکن اس حادثے کے بعد بھی کسی کا کچھ نہ بگڑا اور یوں ہی چلتا رہا ایک بڑا حادثہ جس کی ویڈیو بار بار ٹی وی چینلز پر چلی لیکن اتنے بڑے حادثے کے بعد اب اسلام آباد میں ایسا ہونا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے یہاں ماضی سے سبق سیکھنا بنتا جارہاہے اگر ایسا نہ ہوا تو فرزانہ کی تو اوپر والے کی جانب سے موت اسی وقت مقرر تھی لیکن اس حماقت سے تو بچا جاسکتا تھا۔
ہمارے یہاں بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کروائے جاتے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کو مدعوکیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا اور نہ ہی عمل کیا جاتا کہ خدانخواستہ کی حادثے یا کسی اور وجہ سے ہونے والی ہڑبونگ سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ یہ پڑھنے میں شاید بہت معمولی سا سوال محسوس ہو لیکن درحقیقت اس کا وزن بہت بھاری ہے ہم بہت سے دکھ، آنسوؤں اورغم کے طوفان کو اپنی عقلمندی اوراچھی سوچ سے نمٹ سکتے ہیں۔ خدارا تقریبات جلسے جلوس اور دیگر فنکشنز میں حفاظتی گھیروںکا خیال رکھا جائے، جس کا ہماری زندگی میں نہایت اہم مقام ہے۔ فرزانہ نازاپنی شاعری کی کتاب تو شاید احسن اقبال کے ذہن سے محو ہوجاتی لیکن آپ کا اس طرح زندگی سے روٹھ جانا، انھیں ساری زندگی یاد رہے گا۔
عہدے داروں نے بڑی میلے کی خاطر تواضع کی خاطر شان سے بارہ فٹ اونچا اسٹیج بنوایا، ایک ایسا اسٹیج جو دیکھنے میں بظاہر زمین سے خاصا اونچا دکھائی دے رہا تھا لیکن در حقیقت یہ ایک ایسا طویل بڑا سا کمرہ تھا جو پہلی منزل کی اونچائی پر تھا جس کے ارد گرد کوئی دیوار،کوئی حفاظتی جنگلا نہ بناتھا۔ البتہ اوپر تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں ضرور تھیں اور اوپر جانے والے نیچے والوں کو دیکھا نہیں کرتے بس چڑھے چلے جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ اسلام آباد میں ہونے والے اس میلے میں ہوا۔ فرزانہ ناز ایک نوجوان شاعرہ اور اینکر اور پیارے پیارے دو بچوں کی ماں بھی تھیں اپنی کتاب وفاقی وزیر احسن اقبال کو پیش کرنے اسی بلند پہلے مالے پر تعمیر کردہ اسٹیج پر چڑھیں لیکن جیسا کہ ہمارے ملک میں ہوتا آیا ہے کہ سیاسی جلسے ہویا اسکول کالج کی تقریبات اگر رن پڑ جائے تو پھر کوئی نظر نہیں آتا اور اس میلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ فرزانہ ناز اسی دھکم پیل کا نشانہ بنی اور بغیر کسی حفاظتی جنگلے والے اسٹیج پر وہ اپنا آپ بچا نہ سکیں اور پہلی منزل جیسے اسٹیج سے زمین پر آگریں اور اس طرح زخمی ہوئیں کہ پھر زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ (آمین)
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ عمران خان کی سیاسی جلسے میں اپنا توازن نہ برقرار رکھ سکے لیکن خدا نے انھیں بچالیا، اس سے پہلے بھی خان صاحب اسٹیج پر سے ایسا گرے کہ لوگوں کو گمان گزرا کہ شاید عمران خان ماضی کی کوئی کہانی بن جائیںگے لیکن خدا کی قدرت کہ وہ بچ گئے یہ ان کے چاہنے والوں کی دعاؤں کا اثر اور رب العزت کی مہربانی تھی لیکن اسکرین پر بار بار چلنے والی اسی حادثے کی ویڈیو نے دکھایا کہ کس طرح زیادہ لوگوں کی کرین پر موجودگی نے توازن کو بگاڑدیا اور یوں خان صاحب کھلونے کی مانند اوپر سے نیچے گر پڑے، صرف یہی نہیں بلکہ خانصاحب کے جلسے میں ایک کارکن اسٹیج سے اسی دھکم پیل میں زمین پر گر پڑا، فیس بک پر یہ پوسٹ بھی دیکھی گئی تھی اس سے کچھ اور پہلے چلیے جب عاطف اسلم کے ایک کنسرٹ میں جو خواتین کے کسی کالج کی جانب سے الحمرا میں منعقد تھا لیکن سیکیورٹی وجوہ کی خاطر بڑے گیٹ کی بجائے چھوٹے گیٹ کو اس طرح کنسرٹ کے اختتام پر کھولا کہ لڑکیوں میں بھگدڑ مچ گئی، معصوم لڑکیاں زخمی بھی ہوئیں اور اپنی جان سے بھی گئیں۔
ہم کچھ جذباتی قسم کے لوگ ہیں چاہتے ہیں تو جوش سے، نفرت کرتے ہیں تو جوش سے۔ پیٹتے ہیں تو سب کچھ بھول کر، اس قدر درگت بناتے ہیں کہ بندے کی سانس تک اکھڑجاتی ہے،کوئی ہمیں بے وقوف بناکر جنگلی بیلوں کی طرح ہنکاکر لے جاتا ہے اور ہم آنکھ بند کرکے اس کے پیچھے چلے جاتے ہیں جیسے کسی نہایت ضروری کام سے جارہے ہیں اس کے بعد کیا ہوگا یا ہونا چاہیے اس کی قطعاً فکر نہیں کرتے اور سچ مچ حیوان ہی بن جاتے ہیں اور اس کے بعد افسوس، دکھ اور آہ رہ جاتی ہے۔
فرزانہ ناز ایسی ہی بے رحمی اور حیوانیت کی نذر ہوگئی ہیں۔ میں ، میرا اور میرے اپنے اس تصور نے کسی دوسرے کے وجود کو کچھ سمجھا ہی نہیں اور نہایت بے قدری سے دھکم پیل کا نشانہ بنایا، ہم ان کتوں کی جانب ہی ذرا دیرکو دیکھیں جو اپنے مالک کے غذا کھانے والے برتنوں کی تقسیم کو بڑے سکون سے ہوتا دیکھ کر بھی صرف دُم ہلانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مالک اطمینان سے سارے برتن لائن سے سب کے سامنے رکھتا ہے۔ جانور اپنے نفس کو کنٹرول کرتے یہ سب دیکھتا ہے اور پھر مالک اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک مخصوص اشارہ کرتا ہے تو تمام کتے اپنے آگے کے برتن میں منہ ڈال کرکھاتے ہیں۔ نہ لڑائی نہ جھگڑا نہ دھکم پیل سب اپنے اپنے برتنوں کو پہچانتے ہوئے کسی کے نوالے کی جانب بھی نہیں دیکھتے۔ ماہ رمضان آرہا ہے ، آپ نے اس مقدس مہینے میں راشن لینے کے لیے سیڑھیوں پر موجود غریب خواتین کے بھگدڑ کے باعث روندے جانے کی دردناک خبریں تو پڑھیں ہونگی۔
جب عمران خان اسٹیج سے گرے تھے تو لوگوں نے ہزاروں سوال اٹھائے تھے کہ یوں ہونا چاہیے اور یوں نہیں، خان صاحب ایک عام عوام نہ تھے بلکہ خاص مقام رکھنے والے لیڈر ہیں لیکن اس حادثے کے بعد بھی کسی کا کچھ نہ بگڑا اور یوں ہی چلتا رہا ایک بڑا حادثہ جس کی ویڈیو بار بار ٹی وی چینلز پر چلی لیکن اتنے بڑے حادثے کے بعد اب اسلام آباد میں ایسا ہونا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ہمارے یہاں ماضی سے سبق سیکھنا بنتا جارہاہے اگر ایسا نہ ہوا تو فرزانہ کی تو اوپر والے کی جانب سے موت اسی وقت مقرر تھی لیکن اس حماقت سے تو بچا جاسکتا تھا۔
ہمارے یہاں بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد کروائے جاتے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کو مدعوکیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا اور نہ ہی عمل کیا جاتا کہ خدانخواستہ کی حادثے یا کسی اور وجہ سے ہونے والی ہڑبونگ سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ یہ پڑھنے میں شاید بہت معمولی سا سوال محسوس ہو لیکن درحقیقت اس کا وزن بہت بھاری ہے ہم بہت سے دکھ، آنسوؤں اورغم کے طوفان کو اپنی عقلمندی اوراچھی سوچ سے نمٹ سکتے ہیں۔ خدارا تقریبات جلسے جلوس اور دیگر فنکشنز میں حفاظتی گھیروںکا خیال رکھا جائے، جس کا ہماری زندگی میں نہایت اہم مقام ہے۔ فرزانہ نازاپنی شاعری کی کتاب تو شاید احسن اقبال کے ذہن سے محو ہوجاتی لیکن آپ کا اس طرح زندگی سے روٹھ جانا، انھیں ساری زندگی یاد رہے گا۔