میاں صاحب مولانااور علامہ
لانگ مار چ اور دھرنے کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں،منقسم اپوزیشن نوازشریف کی قیادت میں انتخابات سے قبل متحد ضرور ہوگئی۔
علامہ طاہر القادری نے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کرنے کی نوید سنائی تو ہمیں خوش فہمی تھی کہ میاں نواز شریف لانگ مارچ اور پانچ روزہ' کامیاب' دھرنے پر شرکاء کو استقامت اور ڈاکٹرصاحب کو'یزیدیوں' کے سامنے بے مثال شجاعت پر نہ صرف خراج تحسین پیش کریںگے بلکہ انھیں گلے سے لگائیں گے،ہاتھوں کوبوسہ دیں گے اورماضی کی تلخیوں کو بھلا کر محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم کی طرح تحریک منہاج القران کی رکنیت کا فارم پُر کردیں گے ۔
مگر ہماری یہ خوش فہمی اس وقت مایوسی میں ڈھل گئی جب میاںصاحب نے نہایت خوشگوار موڈ میں فرمایا ' میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ ۔'میاں صاحب اگر اتنا ہی کہہ کر بس کرجاتے تو ہمیں صبر آجاتا مگرآپ جو ٹھہرے ڈاکٹر صاحب کے سابقہ مرید، اُن جیسی قادرالکلامی نہ سہی جذبات کا اظہار تو بہرحال آتاہی ہے لہٰذا مزید ارشاد فرمایا''حکومت گرانے گئے تھے بڑی مشکل سے عزت بچاکر آئے ۔ ''دراصل ، میاں صاحب سے ہماری خوش گمانی کی بنیاد پیر اور مرید کے درمیان ماضی کے وہ خوشگوار تعلقات تھے جنھیںدیکھ کر لاہوری اش اش کر اٹھتے تھے ۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ نہ مرشد' خودی 'کا درس دے رہے تھا نہ مرید 'پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرے 'کا خواہشمند تھا لہٰذا تعلقات میں دراڑ آئی تو راز کی باتیں بھی شہ سرخیاں بننے لگیں ۔پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو مرید نے سعودی عرب کی راہ لی اور پیر صاحب دارالاسلام سے کینیڈا ہجرت کرگئے ۔
ویسے ڈاکٹرطاہر القادری کا معاملہ بھی عجیب ہے بقول مظفر وارثی'خواہش امام خمینی بننے کی تھی اور انداز رضا شاہ پہلوی جیسے تھے۔'خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔میاں صاحب نے لانگ مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کہا سو کہا لیکن ہمیں اصل گلہ اپنے مولانافضل الرحمان سے ہے ،اپنے اس لیے کہ مولانا سے ہماری عقیدت خاصی پرانی ہے،لہٰذا اب وہ پرائے نہیں لگتے ۔مولانا سے ہماری اس عقیدت کو اس وقت 'گرین کارڈ'بھی مل گیا جب سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ 'مولانا فضل الرحمان متاثر کن شخصیت کے مالک ہیںـ'یار دوستوں نے وکی لیکس کے حوالے دے دے کر ہمیں مولانا کے خلاف قائل کرنے کی بڑی کوشش کی مگر ہم نے اسے یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے کر صاف مسترد کردیا۔
دراصل،علامہ طاہر القادری اگر ایک نکتے پر گھنٹوں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو مولانا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت کے مالک ہیں ۔اس کا اندازہ ہمیںپہلی بار اُس وقت بھی ہوا جب 2006 میں حافظ حسین احمد نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مولانا کے مستعفی ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔وہی حافظ حسین احمد جنہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایوان ِصدر میں تشریف فرما صدر رفیق تارڑ کی حالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا تھا:'میں رفیق تھا کسی اور کا، مجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔'مگر انھی حافظ صاحب نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تو امیر جمعیت علمائے اسلام(ف) نے ارشاد فرمایا'حافظ حسین احمد نے امام سے پہلے سلام پھیر لیا ہے۔'اب آپ ہی بتایے بھلا اتنا جامع تبصرہ مولانا کے سوا اورکون کرسکتا تھا۔
مگر شکوہ ہمیں یہ ہے کہ آپ نے اپنی جادو بیانی کا مظاہرہ لانگ مارچ کے روح رواں علامہ طاہر القادری کے خلاف کیوں کیا؟آخر سرد موسم میں بلٹ اور بم پروف کنٹینر میں بیٹھ کر ملک و قوم کا مقدمہ جس دیدہ دلیر ی سے حضرت لڑرہے تھے تو وہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی لیکن آپ تو میاں صاحب سے بھی دوہاتھ آگے نکل گئے اور صاف کہہ دیا ''طاہر القادری مسلمانو ں کے جے سالک ہیں۔'' کون جے سالک؟ہم تو ان کے بارے میں بس اتناہی جانتے ہیں کہ آپ بے نظیر دور میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیر رہے ہیں۔افغانستان پر امریکا نے حملہ کیا توبادشاہی مسجد کے سامنے خود کو پنجرے میں قید کرلیا۔علامہ اقبال کی برسی پر تقریبات کا انعقاد نہ ہوا تو وفاقی حکومت سے ناراض ہوگئے اور شاعر مشرق کی ناقدری پر بینر اُٹھائے تن تنہا احتجاج پر نکل کھڑے ہوئے۔
مولانا کے کہنے کا مطلب تھا کہ عیسائیوں میں جو مقام جے سالک کو حاصل ہے وہی مرتبہ علامہ طاہرالقادری کا مسلمانوں میں ہے ۔عالم اسلام میں ڈاکٹر صاحب کے مقام ومرتبہ کے تعین کے بعد مولانا نے مزید ارشاد فرمایا 'طاہر القادری یزید کے ساتھی بن کر کربلا سے نکل گئے۔'ہمارا تو خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان کامیاب مذاکرات کو علامہ کی سیاسی فتح سے تعبیر کریں گے مگر مولانا بھلا یہ اعتراف کیوں کرتے؟ویسے سب سے اچھے وزیر داخلہ رحمان ملک رہے ، سب کچھ کہنے کہ بعد فرمایا 'قادری صاحب بڑے بھائی ہیں ،پرانی باتوں پر مٹی ڈالیں ۔'چلیں ملک صاحب کو چوہدری شجاعت کی رفاقت کا کچھ تو فائدہ ہوا،کم از کم مٹی ڈالنا تو سیکھی۔
اب سوال یہ ہے کہ طاہر القادری صاحب کو لانگ مارچ سے کیا حاصل ہوا؟ان کے مطالبات تو بہرحال تسلیم نہیں ہوئے ،جس حکومت کو انھوں نے برطرف کیا تھا اور جن وزراء کو وہ سابق قرار دے رہے تھے ،انھی سے مذاکرات کرنا پڑے اسی لیے بعض حاسدین ان مذاکرات کو 'مذاق رات'سے بھی تعبیر کررہے ہیں۔جس اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیے کو ڈاکٹر صاحب اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں اس کی آئینی حیثیت کیا ہے ؟الیکشن کمیشن بھی قادری حکومت معاہدے میں رکاوٹ بن گیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ عوامی نمایندگی ایکٹ کے تحت امیدواروں کی جانچ پڑتال کی مدت ایک ماہ تک بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ،متعدد آرٹیکلز میں ترمیم کرنا پڑیں گی،تو کیا ڈاکٹر صاحب آئینی ترامیم کے لیے ایک اور لانگ مارچ کریں گے ؟تو پھر اربوں روپے کے اخراجات اور ہزاروں افراد کے چار روز تک بلاشبہ پرامن دھرنے سے حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ ہمارے نزدیک تو لانگ مار چ اور دھرنے کا اور کوئی فائدہ ہوا یا نہ ہوا مگر گزشتہ پانچ سال سے منقسم اپوزیشن میاں نوازشریف کی قیادت میں انتخابات سے قبل متحد ضرور ہوگئی ہے اور ہمارے نزدیک دھرنے کی اصل کامیابی یہی ہے ۔
مگر ہماری یہ خوش فہمی اس وقت مایوسی میں ڈھل گئی جب میاںصاحب نے نہایت خوشگوار موڈ میں فرمایا ' میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا پلے نئیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ ۔'میاں صاحب اگر اتنا ہی کہہ کر بس کرجاتے تو ہمیں صبر آجاتا مگرآپ جو ٹھہرے ڈاکٹر صاحب کے سابقہ مرید، اُن جیسی قادرالکلامی نہ سہی جذبات کا اظہار تو بہرحال آتاہی ہے لہٰذا مزید ارشاد فرمایا''حکومت گرانے گئے تھے بڑی مشکل سے عزت بچاکر آئے ۔ ''دراصل ، میاں صاحب سے ہماری خوش گمانی کی بنیاد پیر اور مرید کے درمیان ماضی کے وہ خوشگوار تعلقات تھے جنھیںدیکھ کر لاہوری اش اش کر اٹھتے تھے ۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ نہ مرشد' خودی 'کا درس دے رہے تھا نہ مرید 'پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرے 'کا خواہشمند تھا لہٰذا تعلقات میں دراڑ آئی تو راز کی باتیں بھی شہ سرخیاں بننے لگیں ۔پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو مرید نے سعودی عرب کی راہ لی اور پیر صاحب دارالاسلام سے کینیڈا ہجرت کرگئے ۔
ویسے ڈاکٹرطاہر القادری کا معاملہ بھی عجیب ہے بقول مظفر وارثی'خواہش امام خمینی بننے کی تھی اور انداز رضا شاہ پہلوی جیسے تھے۔'خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔میاں صاحب نے لانگ مارچ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کہا سو کہا لیکن ہمیں اصل گلہ اپنے مولانافضل الرحمان سے ہے ،اپنے اس لیے کہ مولانا سے ہماری عقیدت خاصی پرانی ہے،لہٰذا اب وہ پرائے نہیں لگتے ۔مولانا سے ہماری اس عقیدت کو اس وقت 'گرین کارڈ'بھی مل گیا جب سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ 'مولانا فضل الرحمان متاثر کن شخصیت کے مالک ہیںـ'یار دوستوں نے وکی لیکس کے حوالے دے دے کر ہمیں مولانا کے خلاف قائل کرنے کی بڑی کوشش کی مگر ہم نے اسے یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے کر صاف مسترد کردیا۔
دراصل،علامہ طاہر القادری اگر ایک نکتے پر گھنٹوں بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو مولانا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت کے مالک ہیں ۔اس کا اندازہ ہمیںپہلی بار اُس وقت بھی ہوا جب 2006 میں حافظ حسین احمد نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مولانا کے مستعفی ہونے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیا۔وہی حافظ حسین احمد جنہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایوان ِصدر میں تشریف فرما صدر رفیق تارڑ کی حالت پر کچھ یوں تبصرہ کیا تھا:'میں رفیق تھا کسی اور کا، مجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔'مگر انھی حافظ صاحب نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تو امیر جمعیت علمائے اسلام(ف) نے ارشاد فرمایا'حافظ حسین احمد نے امام سے پہلے سلام پھیر لیا ہے۔'اب آپ ہی بتایے بھلا اتنا جامع تبصرہ مولانا کے سوا اورکون کرسکتا تھا۔
مگر شکوہ ہمیں یہ ہے کہ آپ نے اپنی جادو بیانی کا مظاہرہ لانگ مارچ کے روح رواں علامہ طاہر القادری کے خلاف کیوں کیا؟آخر سرد موسم میں بلٹ اور بم پروف کنٹینر میں بیٹھ کر ملک و قوم کا مقدمہ جس دیدہ دلیر ی سے حضرت لڑرہے تھے تو وہ کوئی معمولی بات تو نہ تھی لیکن آپ تو میاں صاحب سے بھی دوہاتھ آگے نکل گئے اور صاف کہہ دیا ''طاہر القادری مسلمانو ں کے جے سالک ہیں۔'' کون جے سالک؟ہم تو ان کے بارے میں بس اتناہی جانتے ہیں کہ آپ بے نظیر دور میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیر رہے ہیں۔افغانستان پر امریکا نے حملہ کیا توبادشاہی مسجد کے سامنے خود کو پنجرے میں قید کرلیا۔علامہ اقبال کی برسی پر تقریبات کا انعقاد نہ ہوا تو وفاقی حکومت سے ناراض ہوگئے اور شاعر مشرق کی ناقدری پر بینر اُٹھائے تن تنہا احتجاج پر نکل کھڑے ہوئے۔
مولانا کے کہنے کا مطلب تھا کہ عیسائیوں میں جو مقام جے سالک کو حاصل ہے وہی مرتبہ علامہ طاہرالقادری کا مسلمانوں میں ہے ۔عالم اسلام میں ڈاکٹر صاحب کے مقام ومرتبہ کے تعین کے بعد مولانا نے مزید ارشاد فرمایا 'طاہر القادری یزید کے ساتھی بن کر کربلا سے نکل گئے۔'ہمارا تو خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان کامیاب مذاکرات کو علامہ کی سیاسی فتح سے تعبیر کریں گے مگر مولانا بھلا یہ اعتراف کیوں کرتے؟ویسے سب سے اچھے وزیر داخلہ رحمان ملک رہے ، سب کچھ کہنے کہ بعد فرمایا 'قادری صاحب بڑے بھائی ہیں ،پرانی باتوں پر مٹی ڈالیں ۔'چلیں ملک صاحب کو چوہدری شجاعت کی رفاقت کا کچھ تو فائدہ ہوا،کم از کم مٹی ڈالنا تو سیکھی۔
اب سوال یہ ہے کہ طاہر القادری صاحب کو لانگ مارچ سے کیا حاصل ہوا؟ان کے مطالبات تو بہرحال تسلیم نہیں ہوئے ،جس حکومت کو انھوں نے برطرف کیا تھا اور جن وزراء کو وہ سابق قرار دے رہے تھے ،انھی سے مذاکرات کرنا پڑے اسی لیے بعض حاسدین ان مذاکرات کو 'مذاق رات'سے بھی تعبیر کررہے ہیں۔جس اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیے کو ڈاکٹر صاحب اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں اس کی آئینی حیثیت کیا ہے ؟الیکشن کمیشن بھی قادری حکومت معاہدے میں رکاوٹ بن گیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ عوامی نمایندگی ایکٹ کے تحت امیدواروں کی جانچ پڑتال کی مدت ایک ماہ تک بڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ،متعدد آرٹیکلز میں ترمیم کرنا پڑیں گی،تو کیا ڈاکٹر صاحب آئینی ترامیم کے لیے ایک اور لانگ مارچ کریں گے ؟تو پھر اربوں روپے کے اخراجات اور ہزاروں افراد کے چار روز تک بلاشبہ پرامن دھرنے سے حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ ہمارے نزدیک تو لانگ مار چ اور دھرنے کا اور کوئی فائدہ ہوا یا نہ ہوا مگر گزشتہ پانچ سال سے منقسم اپوزیشن میاں نوازشریف کی قیادت میں انتخابات سے قبل متحد ضرور ہوگئی ہے اور ہمارے نزدیک دھرنے کی اصل کامیابی یہی ہے ۔