نواز شریف کی نئی حکمت عملی
سارے سیاستدان مل کر بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتے
مجھے محترم وزیر اعظم سے اختلاف ہے کہ سو گیدڑ بھی آجائیں تو شیر اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ اتنے زیادہ گیدڑ دیکھ کر یقیناً شیر کا دل للچائے گا۔ اس کی بھوک جاگے گی۔ وہ شکار کا سوچے گا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اگر سو گیدڑ بھی آجائیں تب بھی شیر اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ شیر گیدڑوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔
البتہ اگر شیر بہت بوڑھا ہوچکا ہو جو شکار کرنے کے قابل نہ رہے وہ شائد اپنی جگہ کھڑا رہے۔لیکن اگر گیدڑوں کو یہ پتہ چل جائے کہ شیر بوڑھا ہو چکا ہے اور حملہ نہیں کر سکتا تو وہ مل کر شیر پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے ایک جگہ کھڑا رہنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے مثال سے تھوڑا اختلاف ہے ۔
ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ سارے سیاستدان مل کر بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتے۔ اس کے لیے آئین و قانون میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے یا تو اسے عدالت سے نااہل دلوانا ہو گا یا قومی اسمبلی سے عدم اعتماد منظور کروانی ہو گی۔ تیسرا تو کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے اگر وزیر اعظم سیاسی گیدڑوں کی بات کر رہے تھے اور خود کو شیر کہہ رہے تھے تو یہ الگ بات ہے۔ تاہم اس حوالہ سے بھی صورتحال دلچسپ ہے کیونکہ میاں نواز شریف بے شک میدان سیاست کے شیر ہیں لیکن وہ اس وقت ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں وہ خود کسی کا بھی شکار نہیں کر سکتے۔ انھیں صرف خود کو بچانا ہے۔ اگر وہ اس وقت بچ گئے تو پھر ان کا حملہ کرنے کا وقت آئے گا۔ اور انھیں اس بات کا اندازہ ہے کہ سیاست میں مشکل وقت میں بچ جانا ہی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں یا سیاسی مشکلات میں جس قدر بھی اضافہ ہو جائے میاں نواز شریف استعفیٰ دینے یا وقت سے پہلے انتخاب کروانے کے کسی موڈ میں نہیں ہیں۔ لوڈ شیڈنگ ان کے پاؤں کی زنجیر ہے۔ شائد سینیٹ کے انتخابات کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ مضبوط سوچ موجود ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے انتخابات نہیں کروانے چاہیے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ کل کیا ہو کون جانے۔ لیکن پھر بھی میاں نواز شریف کے پاؤں کی زنجیر لوڈ شیڈنگ ہے۔ اگر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سامنے نہ ہو تو میاں نواز شریف اس وقت بھی انتخابات کروانے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن انھیں اندازہ ہے کہ پانامہ سے تو نبٹا جا سکتا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ سے نہیں نبٹا جا سکے گا۔
سیاست نا ممکن کو ممکن اور ممکن کو نا ممکن بنانے کا کھیل ہے۔ جب سندھ اسمبلی سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی میں نے تب بھی کہا تھا کہ سندھ سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف قرارداد منظور کروا کر آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو راستہ دیا ہے کہ وہ اپنے حق میں جتنی چاہیں قراردادیں منظور کروا لیں۔ اس کے بعد بلوچستان، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے میاں نواز شریف کے حق میں کسی بھی وقت قرارداد منظور ہو سکتی ہے۔ سینیٹ سے بھی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور ہونے کے بعد عمران خان نے خوب بغلیں بجائیں اور پیپلزپارٹی کو داد بھی دی۔ یہ عمران خان کی سیاست کے کھیل میں طفل مکتب ہونے کی نشانی تھی کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ کو محفوظ راستہ دے رہی ہے۔ یہ کھیل میاں نواز شریف جیت جائیں گے۔
لیکن کھیل تو بدل گیا ہے۔ اب تو سندھ اسمبلی نے عمران خان کے خلاف بھی قرارداد منظور کر لی ہے۔ یہ قرارداد سندھ اسمبلی میں کمزور سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے پیش کی۔ ایم کیوایم نے حمائت کی ۔ پیپلزپارٹی نے خاموش رہ کر منظوری کی راہ ہموار کی۔ اور اس طرح سندھ اسمبلی سے عمران خان کے خلاف قرار داد منظور ہو گئی ہے۔ اگر اب پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قومی اسمبلی سے بھی عمران خان کے خلاف قراردادیں منظور ہو گئیں تو کیا ہو گا۔ کیا عمران خان کہیں گے کہ میں اپنے خلاف قراردادیں منظور کرنے والی اسمبلیوں کو نہیں مانتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب یہی اسمبلیاں آپ کی مرضی کا کام کریں تو یہ آپ کو قبول ہیں ۔ اور جب یہ آپ کی مرضی کا کام نہ کریں تو یہ آپ کو قبول نہیں ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے خلاف قراداد منظور کرنے والی اسمبلی اور قرارداد جمہوری ہے تو عمران خان کے خلاف منظور ہونے والی قرارداد اور اسمبلی بھی جمہوری ہے۔
ویسے بھی یہ قرارداد ایک مرتبہ پھر عمران خان پر واضح کر رہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کے خلاف تمام سیاسی قیادت متحد ہے۔ پیپلزپارٹی بھی ان کے ساتھ کوئی مشترکہ سیاست نہیں دیکھ رہی۔ ورنہ پیپلزپارٹی اس قرارداد کا راستہ روک سکتی تھی۔ یہ آصف زرداری کی جانب سے عمران خان کو جواب ہے ۔ اگر اسی طرح پیپلزپارٹی نے عمران خان کے خلاف قراردادوں کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی راستہ بنا دیا تو کیا ہو گا۔یہ عمران خان کے لیے کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سندھ اسمبلی سے عمران خان کے خلاف قرارداد کیوں منظور کروائی ہے۔اگر میاں نواز شریف کے گیدڑ اور شیر والے بیان اور سندھ اسمبلی کی قرارداد کو ملا کر پڑھا جائے تو حکمران جماعت کی نئی سیاسی حکمت عملی نظر آجاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس سے پہلے دفاعی کھیل کھیل رہی تھی۔ موٹو گینگ عمران خان پر حملہ کرتا تھا۔ لیکن میاں نواز شریف خود خاموش رہتے تھے۔ تاہم اب سیاسی حکمت عملی بدل گئی ہے۔ میاں نواز شریف خود میدان میں آگئے ہیں۔ نواز شریف نے مزید خاموش رہنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان کے مطابق اگر سیاسی ماحول خراب ہوتا ہے تو ماحول کو ٹھیک رکھنا صرف ان کی ذمے داری نہیں ہے۔
اب میاں نواز شریف کی ٹیم میں بھی وہی رہے گا جو ان کی رفتار سے چلے گا۔ یہ خاموش وزراء کی فوج ظفر موج سے میاں نواز شریف بہت ناراض ہیں۔ شائد وزراء پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ محکموں میں کارکردگی دکھانے کا وقت گزر گیا ہے۔ اب میدان سیاست میں وہی رہے گا جو مخالف پر حملہ کرے گا۔ خاموشی کا وقت گزر گیا ہے۔
اب مسلم لیگ (ن) خود ماحول کو گرم کرنے کے موڈ میں آگئی ہے۔میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی کو الیکشن کے گیئر میں ڈال دیا ہے ۔ اگر ستمبر اکتوبر میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے اور نئے منصوبے بروقت مکمل ہو جائیں تو وہ انتخابات کی طرف جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے تیاری شروع کر دی گئی ہے۔لیکن منصوبہ ساز کہہ رہے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے میں مارچ آجائے گا۔ اس لیے میاں نواز شریف کو انتظار کرنا ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس سیاسی ہلہ گلہ کرنے والا ورکر نہیں ہے۔ اس کی یوتھ ونگ بھی بوڑھی ہو چکی ہے۔ اور اس نے ایم ایس ایف کو ختم کر دیا ہوا ہے۔ نئے خون اور نوجوان خون کے پارٹی میںآنے کے راستے کافی سالوں سے بند تھے اور اب نوجوان خون کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔نواز شریف کو بھی شائد نوجوان خون کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے اگر میاں نواز شریف سیاسی ماحول کو گرم کرنا چاہتے ہیں، دفاعی سے جارحانہ حکمت عملی میں جانا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ موجود بوڑھے اور سنجیدہ ساتھیوں سے بھی جان چھڑانی ہو گی۔ نئی ٹیم بنانا ہو گی۔ اور شائد اس کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ اب ن لیگ میں وہی بچے گا جس کے لہجہ میں گرج ہو گی۔
البتہ اگر شیر بہت بوڑھا ہوچکا ہو جو شکار کرنے کے قابل نہ رہے وہ شائد اپنی جگہ کھڑا رہے۔لیکن اگر گیدڑوں کو یہ پتہ چل جائے کہ شیر بوڑھا ہو چکا ہے اور حملہ نہیں کر سکتا تو وہ مل کر شیر پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس لیے ایک جگہ کھڑا رہنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے مثال سے تھوڑا اختلاف ہے ۔
ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ سارے سیاستدان مل کر بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لے سکتے۔ اس کے لیے آئین و قانون میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے لیے یا تو اسے عدالت سے نااہل دلوانا ہو گا یا قومی اسمبلی سے عدم اعتماد منظور کروانی ہو گی۔ تیسرا تو کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے اگر وزیر اعظم سیاسی گیدڑوں کی بات کر رہے تھے اور خود کو شیر کہہ رہے تھے تو یہ الگ بات ہے۔ تاہم اس حوالہ سے بھی صورتحال دلچسپ ہے کیونکہ میاں نواز شریف بے شک میدان سیاست کے شیر ہیں لیکن وہ اس وقت ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں وہ خود کسی کا بھی شکار نہیں کر سکتے۔ انھیں صرف خود کو بچانا ہے۔ اگر وہ اس وقت بچ گئے تو پھر ان کا حملہ کرنے کا وقت آئے گا۔ اور انھیں اس بات کا اندازہ ہے کہ سیاست میں مشکل وقت میں بچ جانا ہی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ حالات جتنے بھی خراب ہو جائیں یا سیاسی مشکلات میں جس قدر بھی اضافہ ہو جائے میاں نواز شریف استعفیٰ دینے یا وقت سے پہلے انتخاب کروانے کے کسی موڈ میں نہیں ہیں۔ لوڈ شیڈنگ ان کے پاؤں کی زنجیر ہے۔ شائد سینیٹ کے انتخابات کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ مضبوط سوچ موجود ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے انتخابات نہیں کروانے چاہیے کیونکہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ کل کیا ہو کون جانے۔ لیکن پھر بھی میاں نواز شریف کے پاؤں کی زنجیر لوڈ شیڈنگ ہے۔ اگر لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سامنے نہ ہو تو میاں نواز شریف اس وقت بھی انتخابات کروانے کے موڈ میں ہیں۔ لیکن انھیں اندازہ ہے کہ پانامہ سے تو نبٹا جا سکتا ہے لیکن لوڈ شیڈنگ سے نہیں نبٹا جا سکے گا۔
سیاست نا ممکن کو ممکن اور ممکن کو نا ممکن بنانے کا کھیل ہے۔ جب سندھ اسمبلی سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف قرارداد منظور کی گئی تھی میں نے تب بھی کہا تھا کہ سندھ سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف قرارداد منظور کروا کر آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو راستہ دیا ہے کہ وہ اپنے حق میں جتنی چاہیں قراردادیں منظور کروا لیں۔ اس کے بعد بلوچستان، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے میاں نواز شریف کے حق میں کسی بھی وقت قرارداد منظور ہو سکتی ہے۔ سینیٹ سے بھی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور ہونے کے بعد عمران خان نے خوب بغلیں بجائیں اور پیپلزپارٹی کو داد بھی دی۔ یہ عمران خان کی سیاست کے کھیل میں طفل مکتب ہونے کی نشانی تھی کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ کو محفوظ راستہ دے رہی ہے۔ یہ کھیل میاں نواز شریف جیت جائیں گے۔
لیکن کھیل تو بدل گیا ہے۔ اب تو سندھ اسمبلی نے عمران خان کے خلاف بھی قرارداد منظور کر لی ہے۔ یہ قرارداد سندھ اسمبلی میں کمزور سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے پیش کی۔ ایم کیوایم نے حمائت کی ۔ پیپلزپارٹی نے خاموش رہ کر منظوری کی راہ ہموار کی۔ اور اس طرح سندھ اسمبلی سے عمران خان کے خلاف قرار داد منظور ہو گئی ہے۔ اگر اب پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قومی اسمبلی سے بھی عمران خان کے خلاف قراردادیں منظور ہو گئیں تو کیا ہو گا۔ کیا عمران خان کہیں گے کہ میں اپنے خلاف قراردادیں منظور کرنے والی اسمبلیوں کو نہیں مانتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب یہی اسمبلیاں آپ کی مرضی کا کام کریں تو یہ آپ کو قبول ہیں ۔ اور جب یہ آپ کی مرضی کا کام نہ کریں تو یہ آپ کو قبول نہیں ہیں۔ اگر میاں نواز شریف کے خلاف قراداد منظور کرنے والی اسمبلی اور قرارداد جمہوری ہے تو عمران خان کے خلاف منظور ہونے والی قرارداد اور اسمبلی بھی جمہوری ہے۔
ویسے بھی یہ قرارداد ایک مرتبہ پھر عمران خان پر واضح کر رہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کے خلاف تمام سیاسی قیادت متحد ہے۔ پیپلزپارٹی بھی ان کے ساتھ کوئی مشترکہ سیاست نہیں دیکھ رہی۔ ورنہ پیپلزپارٹی اس قرارداد کا راستہ روک سکتی تھی۔ یہ آصف زرداری کی جانب سے عمران خان کو جواب ہے ۔ اگر اسی طرح پیپلزپارٹی نے عمران خان کے خلاف قراردادوں کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی راستہ بنا دیا تو کیا ہو گا۔یہ عمران خان کے لیے کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سندھ اسمبلی سے عمران خان کے خلاف قرارداد کیوں منظور کروائی ہے۔اگر میاں نواز شریف کے گیدڑ اور شیر والے بیان اور سندھ اسمبلی کی قرارداد کو ملا کر پڑھا جائے تو حکمران جماعت کی نئی سیاسی حکمت عملی نظر آجاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس سے پہلے دفاعی کھیل کھیل رہی تھی۔ موٹو گینگ عمران خان پر حملہ کرتا تھا۔ لیکن میاں نواز شریف خود خاموش رہتے تھے۔ تاہم اب سیاسی حکمت عملی بدل گئی ہے۔ میاں نواز شریف خود میدان میں آگئے ہیں۔ نواز شریف نے مزید خاموش رہنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان کے مطابق اگر سیاسی ماحول خراب ہوتا ہے تو ماحول کو ٹھیک رکھنا صرف ان کی ذمے داری نہیں ہے۔
اب میاں نواز شریف کی ٹیم میں بھی وہی رہے گا جو ان کی رفتار سے چلے گا۔ یہ خاموش وزراء کی فوج ظفر موج سے میاں نواز شریف بہت ناراض ہیں۔ شائد وزراء پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ محکموں میں کارکردگی دکھانے کا وقت گزر گیا ہے۔ اب میدان سیاست میں وہی رہے گا جو مخالف پر حملہ کرے گا۔ خاموشی کا وقت گزر گیا ہے۔
اب مسلم لیگ (ن) خود ماحول کو گرم کرنے کے موڈ میں آگئی ہے۔میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی کو الیکشن کے گیئر میں ڈال دیا ہے ۔ اگر ستمبر اکتوبر میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے اور نئے منصوبے بروقت مکمل ہو جائیں تو وہ انتخابات کی طرف جانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے تیاری شروع کر دی گئی ہے۔لیکن منصوبہ ساز کہہ رہے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے میں مارچ آجائے گا۔ اس لیے میاں نواز شریف کو انتظار کرنا ہو گا۔
مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس سیاسی ہلہ گلہ کرنے والا ورکر نہیں ہے۔ اس کی یوتھ ونگ بھی بوڑھی ہو چکی ہے۔ اور اس نے ایم ایس ایف کو ختم کر دیا ہوا ہے۔ نئے خون اور نوجوان خون کے پارٹی میںآنے کے راستے کافی سالوں سے بند تھے اور اب نوجوان خون کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔نواز شریف کو بھی شائد نوجوان خون کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے اگر میاں نواز شریف سیاسی ماحول کو گرم کرنا چاہتے ہیں، دفاعی سے جارحانہ حکمت عملی میں جانا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ موجود بوڑھے اور سنجیدہ ساتھیوں سے بھی جان چھڑانی ہو گی۔ نئی ٹیم بنانا ہو گی۔ اور شائد اس کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ اب ن لیگ میں وہی بچے گا جس کے لہجہ میں گرج ہو گی۔