ٹویٹ
ہمارے ملک کی بھی عجیب کہانی ہے ۔ہم آزاد تو ہوئے مگر ہماری بیساکھیاں ہم سے نہ گئیں
ISLAMABAD:
ہمارے ملک کی بھی عجیب کہانی ہے ۔ہم آزاد تو ہوئے مگر ہماری بیساکھیاں ہم سے نہ گئیں۔ گھوم پھر کے قصہ پھر وہیں پر۔ ایک طرف سیاستدان ہیں جو جمہوریت کے دعویدار تو ہیں مگر جمہو ریت ان سے سنبھل نہیں رہی۔ اور دوسری طرف آمریتوں کی طویل داستان ہے جو ماضی بنی تو ہے مگر اْس کی باقیات ابھی تک نہیںگئیں۔
مارا کون گیا؟ ٹویٹ ۔ اب ٹویٹ بیچارے کا کیا قصور۔
قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
وہ اتنے سادہ تھے کہ گِرہ کو ٹویٹ تک ہی محدود رکھا مگر غالب کو یہ پتا تھا کہ کیا وہ کہیںگے جواب میں ۔ ٹویٹ تو بہانا تھا ۔ قاصد کے ہاتھ میںکاغذکے معنی کچھ نہیں ہوتے کاغذ پر لکھی تحریر درکار ہوتی ہے ۔ آئی ایس پی آر اگر ٹویٹ نہ کرتی سارے ابلاغ عامہ کو فیکس کرتی تو کیا قصور پھر فیکس کا ہوتا ۔ ہمارے چوہدری نثار صاحب بنیادی طور پر سوشل میڈیا سے نالاں ہیں۔ کرے کوئی اور بْھگتے کوئی اور ۔ اَدھورا نوٹیفیکیشن آپ نکالیں اور قصور ان کا ہوا جو کہ مکمل نوٹیفیکیشن کے طلبگار ہیں۔ نیم حکیم خطرہء جاں۔
معاملہ بلکل صاف صاف یہ ہے جمہوریت ہے کہ بالغ نہیں ہوئی تو ماجرہ یہی ہے نا ں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے! چلیں مان لیجیئے جو آئین میں ہے وہی روا رہے گا ۔
فوج سول حکومت کے ماتحت ہے اور اْسے ماتحت ہی ہونا چاہیے۔ پھر کیا ہوگا؟ یہی نا کہ نواز شریف، اردوگان کی طرح امیر المومنین بننے کی کوشش کریں گے۔وہ 1998میں کیا کر رہے تھے۔ تو جنرل مشرف پھر کیا کرتے ۔ نواز شریف اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کے لیے غلطی پر غلطیاں جمع کرتے گئے۔
بات اتنی مختصر۔۔۔
اس کے بعد سول قیادت نے ہوش کے ناخن لیے۔ چارٹر آف ڈیماکریسی بنااور وہ چلا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلسل تیسری دفعہ عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جمہوریت کا پودا تنا ور نہیںہوا، مگر جڑ پکڑ چکا ہے ۔
ڈی چوک پر کیا ہوا؟ اتنا طویل دھرنا مگر پہلی بار دو بڑی پارٹیاں یعنی -N PMLاور PPPاور دوسری بڑی نہ صحیع پر اہم پارٹیاں بھی جمہوریت پر واضح رہیں۔ خان صاحب بھی اب کی بار اچھے خاصے سنجیدہ سیاستدان کی جھلک دِ کھا رہے ہیں ۔
جمہوریت کے لیے یہ کبھی بھی بہتر نہ ہوگا کہ اب کی بار بڑی پارٹیوں پر خاندانی اجارہ داری ہو۔ پارٹی ایک فرد کے گِرد گھومے، جو پارٹی میں اْس فرد کا وفادار نہیں،اْس کے لیے پھر کوئی جگہ نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے پاور ہاوئسز ہیں اور بڑا چقمق اور کشش ان کے لیے ہے پھر یہ بڑا خاندان یہ سب اقتدار کے گرد گھومتے ہیں اور اقتدار ان کے گِرد ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کتنے جیالے تھے پپلز پارٹی کے۔ شمع بْجھی تو پروانے بھی چلے گئے۔وہ مہ خانے ہی گئے جہاں کبھی رِِِند ہوا کرتے تھے۔ اب چمچوں کے جْھرمٹ ہیں اور صاحب سمجھتے ہیںکہ وہ بھٹوز کا تسلسل ہیں ۔
''تیری کج ادائی سے ہار کر
شبِِ انتظار چلی گئی''
مجھے جمہوریت کا بستر سمٹتا ہو نظر نہیں آرہا ہاں لیکن میاں صاحب جو بھی ہیں وہ عوام کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ اْن کو وہ کچھ ملنا چاہیے جواْن کا حق ہے۔ یہ بات یقیناً ٹویٹ پر کرنے والی نہیں تھی ۔ نہ اِس کا فیکس ہوتا نہ پریس ریلیز۔ یہ بات ملٹری قیادت پِسِ پردہ کرتی تو بہترتھا ۔
آج کل اخباروں میں کیا نہیں چھپتا ۔ اْسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا پر عیاں ہے کہ ہماری جمہوریت ابھی بالغ نہیں ہوئی ۔ یہ سب کچھ اْسی مظہر کی شکل ہے جو بنی ہے وہ چاہے National security breach کی شکل میں ہو یا کوئی اور۔۔۔۔
ْ میاں صاحب کی تاریخ اِ ن تلخ حقیقتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِداروں سے جھگڑنا اْن کی گْھٹی میں شامل ہے۔ تھوڑے سنبھلے تو تھے مگر پھر لگتا ہے کہ اِن پر کچھ اثر ہوا ہے۔خبر چلی نہیں تھی اخبار میں ، خبر جان بْوجھ کر چلائی گئی تھی ۔ اس کے پیچھےMotive کیا تھا؟ یہ میاں صاحب ہی تھے نہ، جو اْسامہ کو یہاں لے کے آئے تھے۔
لشکر جھنگوی کے جلسوں میں یا الیکشن اتحاد میں کون تھا ؟ سعودی عرب سے کس کے گہرے تعلقات ہیں ۔ اس ساری حقیقت کو یوں مختصر کیجیے کہ ہم سب بلواسطہ یا بلا واسطہ ضیاء الحق کا تسلسل تھے اب نہیں ہیں۔ اور اب تو ہم تیزی سے بہت آگے آگئے ہیں مگر دوسری طرف حقیقیت یہ بھی ہے کہ حالات بھی بہت تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔ بہر حال جو کچھ بھی ہے اس بار الیکشن کی نظر ہے۔
کسی'' عزیز ہم وطنوں'' کی اسکرپٹ کی تیاری میں نہیں۔ میاں صاحب ڈاڈے ہیں ساری سِول بیورو کریسی اْن کے ہاتھ میں ہے۔ الیکشن پر وہ اپنے بہت دیرینہ اثرات چھوڑ سکتے ہیں ۔ اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہو تا تو پیپلز پارٹی بھی اْن کے ساتھ ہوتی ۔ لیکن پیپلز پارٹی اْس حد تک پست ہوئی ہے کہ اگر وہ جمہوریت کے خلاف بھی کچھ ہوا تو بھی وہ چْپ رہیں گے ۔ قوال ہیں عمران خان اور ہمنوا ہیں پیپلز پارٹی والے ۔ کل تک یہ نعرے دیتے تھے اور آجکل دوسروں کے نعرے اپنے بنا لیتے ہیں ۔ اصلی چہرے پر نقلی ماسک چڑھا لیے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں یہ خود جمہوریت ہیں اور ایسی کوئی جمہوریت جس میں وہ نہ ہوں وہ آمریت ہو گی ۔ ہم سمجھتے ہیں جتنا جلدی یہ ماضی بنیں جمہوریت کی جِلا اور بقا اْس میں ہوگی۔
ہمارے ملک کی بھی عجیب کہانی ہے ۔ہم آزاد تو ہوئے مگر ہماری بیساکھیاں ہم سے نہ گئیں۔ گھوم پھر کے قصہ پھر وہیں پر۔ ایک طرف سیاستدان ہیں جو جمہوریت کے دعویدار تو ہیں مگر جمہو ریت ان سے سنبھل نہیں رہی۔ اور دوسری طرف آمریتوں کی طویل داستان ہے جو ماضی بنی تو ہے مگر اْس کی باقیات ابھی تک نہیںگئیں۔
مارا کون گیا؟ ٹویٹ ۔ اب ٹویٹ بیچارے کا کیا قصور۔
قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
وہ اتنے سادہ تھے کہ گِرہ کو ٹویٹ تک ہی محدود رکھا مگر غالب کو یہ پتا تھا کہ کیا وہ کہیںگے جواب میں ۔ ٹویٹ تو بہانا تھا ۔ قاصد کے ہاتھ میںکاغذکے معنی کچھ نہیں ہوتے کاغذ پر لکھی تحریر درکار ہوتی ہے ۔ آئی ایس پی آر اگر ٹویٹ نہ کرتی سارے ابلاغ عامہ کو فیکس کرتی تو کیا قصور پھر فیکس کا ہوتا ۔ ہمارے چوہدری نثار صاحب بنیادی طور پر سوشل میڈیا سے نالاں ہیں۔ کرے کوئی اور بْھگتے کوئی اور ۔ اَدھورا نوٹیفیکیشن آپ نکالیں اور قصور ان کا ہوا جو کہ مکمل نوٹیفیکیشن کے طلبگار ہیں۔ نیم حکیم خطرہء جاں۔
معاملہ بلکل صاف صاف یہ ہے جمہوریت ہے کہ بالغ نہیں ہوئی تو ماجرہ یہی ہے نا ں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے! چلیں مان لیجیئے جو آئین میں ہے وہی روا رہے گا ۔
فوج سول حکومت کے ماتحت ہے اور اْسے ماتحت ہی ہونا چاہیے۔ پھر کیا ہوگا؟ یہی نا کہ نواز شریف، اردوگان کی طرح امیر المومنین بننے کی کوشش کریں گے۔وہ 1998میں کیا کر رہے تھے۔ تو جنرل مشرف پھر کیا کرتے ۔ نواز شریف اقتدار پر مکمل قبضہ کرنے کے لیے غلطی پر غلطیاں جمع کرتے گئے۔
بات اتنی مختصر۔۔۔
اس کے بعد سول قیادت نے ہوش کے ناخن لیے۔ چارٹر آف ڈیماکریسی بنااور وہ چلا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلسل تیسری دفعہ عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جمہوریت کا پودا تنا ور نہیںہوا، مگر جڑ پکڑ چکا ہے ۔
ڈی چوک پر کیا ہوا؟ اتنا طویل دھرنا مگر پہلی بار دو بڑی پارٹیاں یعنی -N PMLاور PPPاور دوسری بڑی نہ صحیع پر اہم پارٹیاں بھی جمہوریت پر واضح رہیں۔ خان صاحب بھی اب کی بار اچھے خاصے سنجیدہ سیاستدان کی جھلک دِ کھا رہے ہیں ۔
جمہوریت کے لیے یہ کبھی بھی بہتر نہ ہوگا کہ اب کی بار بڑی پارٹیوں پر خاندانی اجارہ داری ہو۔ پارٹی ایک فرد کے گِرد گھومے، جو پارٹی میں اْس فرد کا وفادار نہیں،اْس کے لیے پھر کوئی جگہ نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے پاور ہاوئسز ہیں اور بڑا چقمق اور کشش ان کے لیے ہے پھر یہ بڑا خاندان یہ سب اقتدار کے گرد گھومتے ہیں اور اقتدار ان کے گِرد ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کتنے جیالے تھے پپلز پارٹی کے۔ شمع بْجھی تو پروانے بھی چلے گئے۔وہ مہ خانے ہی گئے جہاں کبھی رِِِند ہوا کرتے تھے۔ اب چمچوں کے جْھرمٹ ہیں اور صاحب سمجھتے ہیںکہ وہ بھٹوز کا تسلسل ہیں ۔
''تیری کج ادائی سے ہار کر
شبِِ انتظار چلی گئی''
مجھے جمہوریت کا بستر سمٹتا ہو نظر نہیں آرہا ہاں لیکن میاں صاحب جو بھی ہیں وہ عوام کے منتخب وزیر اعظم ہیں۔ اْن کو وہ کچھ ملنا چاہیے جواْن کا حق ہے۔ یہ بات یقیناً ٹویٹ پر کرنے والی نہیں تھی ۔ نہ اِس کا فیکس ہوتا نہ پریس ریلیز۔ یہ بات ملٹری قیادت پِسِ پردہ کرتی تو بہترتھا ۔
آج کل اخباروں میں کیا نہیں چھپتا ۔ اْسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا پر عیاں ہے کہ ہماری جمہوریت ابھی بالغ نہیں ہوئی ۔ یہ سب کچھ اْسی مظہر کی شکل ہے جو بنی ہے وہ چاہے National security breach کی شکل میں ہو یا کوئی اور۔۔۔۔
ْ میاں صاحب کی تاریخ اِ ن تلخ حقیقتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِداروں سے جھگڑنا اْن کی گْھٹی میں شامل ہے۔ تھوڑے سنبھلے تو تھے مگر پھر لگتا ہے کہ اِن پر کچھ اثر ہوا ہے۔خبر چلی نہیں تھی اخبار میں ، خبر جان بْوجھ کر چلائی گئی تھی ۔ اس کے پیچھےMotive کیا تھا؟ یہ میاں صاحب ہی تھے نہ، جو اْسامہ کو یہاں لے کے آئے تھے۔
لشکر جھنگوی کے جلسوں میں یا الیکشن اتحاد میں کون تھا ؟ سعودی عرب سے کس کے گہرے تعلقات ہیں ۔ اس ساری حقیقت کو یوں مختصر کیجیے کہ ہم سب بلواسطہ یا بلا واسطہ ضیاء الحق کا تسلسل تھے اب نہیں ہیں۔ اور اب تو ہم تیزی سے بہت آگے آگئے ہیں مگر دوسری طرف حقیقیت یہ بھی ہے کہ حالات بھی بہت تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔ بہر حال جو کچھ بھی ہے اس بار الیکشن کی نظر ہے۔
کسی'' عزیز ہم وطنوں'' کی اسکرپٹ کی تیاری میں نہیں۔ میاں صاحب ڈاڈے ہیں ساری سِول بیورو کریسی اْن کے ہاتھ میں ہے۔ الیکشن پر وہ اپنے بہت دیرینہ اثرات چھوڑ سکتے ہیں ۔ اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہو تا تو پیپلز پارٹی بھی اْن کے ساتھ ہوتی ۔ لیکن پیپلز پارٹی اْس حد تک پست ہوئی ہے کہ اگر وہ جمہوریت کے خلاف بھی کچھ ہوا تو بھی وہ چْپ رہیں گے ۔ قوال ہیں عمران خان اور ہمنوا ہیں پیپلز پارٹی والے ۔ کل تک یہ نعرے دیتے تھے اور آجکل دوسروں کے نعرے اپنے بنا لیتے ہیں ۔ اصلی چہرے پر نقلی ماسک چڑھا لیے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں یہ خود جمہوریت ہیں اور ایسی کوئی جمہوریت جس میں وہ نہ ہوں وہ آمریت ہو گی ۔ ہم سمجھتے ہیں جتنا جلدی یہ ماضی بنیں جمہوریت کی جِلا اور بقا اْس میں ہوگی۔