پاک بھارت بات چیت میں امریکا کی دلچسپی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کا ورلڈ ویو رفتہ رفتہ دنیا پر کھلتا جارہا ہے
لاہور:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کا ورلڈ ویو رفتہ رفتہ دنیا پر کھلتا جارہا ہے ۔ صدر ٹرمپ امن عالم کو لاحق خطرات ، امریکا سے دوستی کے نئے تقاضوں ، ''پہلے امریکا'' کی حکمت عملی کی گردان، اقتصادی کایا پلٹ ، اپنے معاشی محرومیوں سے دوچار امریکی طبقات کی داد رسی اور مختلف خطوں کے علاقائی تنازعات سے نمٹنے کے لیے اب تک جتنے گرجدار اور تہلکہ خیز بیانات دے چکے ہیں۔
ان کا انتظامی و سفارتی سیاق وسباق اب ایک عملیت پسندانہ، ذمے دارانہ اور دور رس نتائج پر مبنی عالمی امن کے نئے منظرنامہ کی تشکیل کرتا دکھائی دیتا ہے جب کہ اسی تناظر میں امریکا نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث پاکستان اور بھارت پر براہ راست مذاکرات پر ایک بار پھر زور دیا ہے۔تام اس ضمن میں امریکی دلچسپی کا محور بھارت کو نتیجہ خیز بات چیت کی میز پر لانا ہوگا ، پاکستانی نجی ٹی وی سے بات چیت میں امریکی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس امریکی پیشکش یا صائب پیغام کا بھارتی حکومت تک پہنچنا ضروری ہے جسے جنگی جنون اور براہموس میزائل کے تجربوں سے فرصت نہیں، بھارت نے خطے میں جنگی جنون کو جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز زمین سے زمین تک مارکرنے والے براہموس میزائل کا تجربہ کیا۔
بھارتی میڈیا نے دفاعی ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر درست وار کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے چند روز قبل اگنی تھری بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ بھارت امن پسندی کا ثبوت دے ، احساس کرے کہ لائن آف کنٹرول اور وادی کشمیر کی اندوہ ناک صورتحال بھارتی جنگجویانہ مہم جوئی کے باعث ہوئی ہے اس کا امریکا ہی کوئی حل نکال سکتا ہے، ثالثی سے قبل ٹرمپ ٹیم پاک بھارت اعتماد سازی کا ماحول ہموار کرنے کی تگ ودو کرکے دو طرفہ جامع مذاکرات کے امکان کو از سر نو حقیقت کا روپ دے سکتی ہے ، لیکن اس کے لیے ٹرمپ کو اسی جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسا وہ شمالی کوریا، روس امریکا جاسوسی اور انتخابی مداخلت کے مسئلہ اور گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں فلسطینی صدر عباس محمود سے ملاقات کی شکل میں کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے اسرائیل اور فلسطین سے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، وہ بھارت کو بھی اسی اسٹریم میں لائیں، مودی ، ٹرمپ اور نواز شریف کو کشمیریوں کے ہمرکاب مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا چاہیے، اسی عزم کی ضرورت برصغیر کی سیاسی صورتحال کو بدل سکتی ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ناگزیر ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ خطے کا رستا ہوا زخم ہے۔
ادھر یونیسکو نے بیت المقدس پراسرائیل کو قابض قرار دے دیا ، جب کہ کشمیر بھی مقبوضہ وادی ہے ۔ خود کئی بھارتی دانشور اور تجزیہ کار کشمیر کے فوجی حل کے خلاف ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہیں تو تنازعات کے خاتمہ کی امریکی پالیسی کا آغاز پاک بھارت کثیر جہتی مصالحت اور کشمیر ایشو پر منصفانہ حل سے کرسکتے ہیں۔ نئی امریکی پالیسی اسی امر کی عکاسی کرتی ہے جس کے تحت وہ عالمی امن کے قیام کو لاحق خطرات کا ادراک کرتے ہوئے چین ، شمالی کوریا، جاپان ، روس اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا کوئی حل تلاش کرنے کا مشن ان کا متحرک ایجنڈہ ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات وہ تسلیم کرتے ہیںکہ عملی تعاون ہی پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان رپورٹس کو دیکھ چکے ہیںاور مزید معلومات کے لیے بھارت اور پاکستان کی حکومتوںسے رابطہ کیا جائے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے خطے کے امن اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے مشروط اقدامات کا انتظار ہے جب کہ بھارتی حکومت نے مخاصمانہ طرز عمل کی انتہا کردی ہے ، مثلاً گزشتہ روز انتہاپسندوں کے دباؤ میں آکر دورے پرگئے ہوئے پاکستانی اسکولوں کے 50 سے زائد طالب علموں اور اساتذہ کو واپس لاہور بھیج دیا، پاکستانی طلبا کو بھارتی پولیس نے اپنی نگرانی میں واہگہ بارڈر پہنچایا۔ یہ جمہوریت کی توہین اور سیکولرازم کا ڈھکوسلہ ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بھارت نے ایل او سی پر اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت اور ان کی لاشیں مسخ کرنے سے متعلق پاکستان کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی پرکشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے بھارت اور پاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزورگروپ کے اپنے دوستوں سے اس حوالے سے چیک کر لیا ہے اور جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی اطلاعات کے بارے میں تاحال بھارتی حکام کی طرف سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
ترجمان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔ انھوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس معاملے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم اس بات کی ضرورت پر زور دیتے رہیں گے کہ فریقین کو مسئلے کو پرامن حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔اب بھی وقت ہے کہ بھارتی حکومت بات چیت کا راستہ اختیار کرے اسی میںخطے کی کثیر جہتی سلامتی پوشیدہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کا ورلڈ ویو رفتہ رفتہ دنیا پر کھلتا جارہا ہے ۔ صدر ٹرمپ امن عالم کو لاحق خطرات ، امریکا سے دوستی کے نئے تقاضوں ، ''پہلے امریکا'' کی حکمت عملی کی گردان، اقتصادی کایا پلٹ ، اپنے معاشی محرومیوں سے دوچار امریکی طبقات کی داد رسی اور مختلف خطوں کے علاقائی تنازعات سے نمٹنے کے لیے اب تک جتنے گرجدار اور تہلکہ خیز بیانات دے چکے ہیں۔
ان کا انتظامی و سفارتی سیاق وسباق اب ایک عملیت پسندانہ، ذمے دارانہ اور دور رس نتائج پر مبنی عالمی امن کے نئے منظرنامہ کی تشکیل کرتا دکھائی دیتا ہے جب کہ اسی تناظر میں امریکا نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث پاکستان اور بھارت پر براہ راست مذاکرات پر ایک بار پھر زور دیا ہے۔تام اس ضمن میں امریکی دلچسپی کا محور بھارت کو نتیجہ خیز بات چیت کی میز پر لانا ہوگا ، پاکستانی نجی ٹی وی سے بات چیت میں امریکی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن اس امریکی پیشکش یا صائب پیغام کا بھارتی حکومت تک پہنچنا ضروری ہے جسے جنگی جنون اور براہموس میزائل کے تجربوں سے فرصت نہیں، بھارت نے خطے میں جنگی جنون کو جاری رکھتے ہوئے گزشتہ روز زمین سے زمین تک مارکرنے والے براہموس میزائل کا تجربہ کیا۔
بھارتی میڈیا نے دفاعی ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر درست وار کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے چند روز قبل اگنی تھری بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ بھارت امن پسندی کا ثبوت دے ، احساس کرے کہ لائن آف کنٹرول اور وادی کشمیر کی اندوہ ناک صورتحال بھارتی جنگجویانہ مہم جوئی کے باعث ہوئی ہے اس کا امریکا ہی کوئی حل نکال سکتا ہے، ثالثی سے قبل ٹرمپ ٹیم پاک بھارت اعتماد سازی کا ماحول ہموار کرنے کی تگ ودو کرکے دو طرفہ جامع مذاکرات کے امکان کو از سر نو حقیقت کا روپ دے سکتی ہے ، لیکن اس کے لیے ٹرمپ کو اسی جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے جیسا وہ شمالی کوریا، روس امریکا جاسوسی اور انتخابی مداخلت کے مسئلہ اور گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں فلسطینی صدر عباس محمود سے ملاقات کی شکل میں کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے اسرائیل اور فلسطین سے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، وہ بھارت کو بھی اسی اسٹریم میں لائیں، مودی ، ٹرمپ اور نواز شریف کو کشمیریوں کے ہمرکاب مذاکراتی عمل میں شامل کیا جانا چاہیے، اسی عزم کی ضرورت برصغیر کی سیاسی صورتحال کو بدل سکتی ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ناگزیر ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ خطے کا رستا ہوا زخم ہے۔
ادھر یونیسکو نے بیت المقدس پراسرائیل کو قابض قرار دے دیا ، جب کہ کشمیر بھی مقبوضہ وادی ہے ۔ خود کئی بھارتی دانشور اور تجزیہ کار کشمیر کے فوجی حل کے خلاف ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہیں تو تنازعات کے خاتمہ کی امریکی پالیسی کا آغاز پاک بھارت کثیر جہتی مصالحت اور کشمیر ایشو پر منصفانہ حل سے کرسکتے ہیں۔ نئی امریکی پالیسی اسی امر کی عکاسی کرتی ہے جس کے تحت وہ عالمی امن کے قیام کو لاحق خطرات کا ادراک کرتے ہوئے چین ، شمالی کوریا، جاپان ، روس اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا کوئی حل تلاش کرنے کا مشن ان کا متحرک ایجنڈہ ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ بات وہ تسلیم کرتے ہیںکہ عملی تعاون ہی پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان رپورٹس کو دیکھ چکے ہیںاور مزید معلومات کے لیے بھارت اور پاکستان کی حکومتوںسے رابطہ کیا جائے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے خطے کے امن اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے مشروط اقدامات کا انتظار ہے جب کہ بھارتی حکومت نے مخاصمانہ طرز عمل کی انتہا کردی ہے ، مثلاً گزشتہ روز انتہاپسندوں کے دباؤ میں آکر دورے پرگئے ہوئے پاکستانی اسکولوں کے 50 سے زائد طالب علموں اور اساتذہ کو واپس لاہور بھیج دیا، پاکستانی طلبا کو بھارتی پولیس نے اپنی نگرانی میں واہگہ بارڈر پہنچایا۔ یہ جمہوریت کی توہین اور سیکولرازم کا ڈھکوسلہ ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بھارت نے ایل او سی پر اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت اور ان کی لاشیں مسخ کرنے سے متعلق پاکستان کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی پرکشیدگی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے بھارت اور پاکستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزورگروپ کے اپنے دوستوں سے اس حوالے سے چیک کر لیا ہے اور جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی اطلاعات کے بارے میں تاحال بھارتی حکام کی طرف سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
ترجمان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر مناسب توجہ نہیں دے رہے۔ انھوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس معاملے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم اس بات کی ضرورت پر زور دیتے رہیں گے کہ فریقین کو مسئلے کو پرامن حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔اب بھی وقت ہے کہ بھارتی حکومت بات چیت کا راستہ اختیار کرے اسی میںخطے کی کثیر جہتی سلامتی پوشیدہ ہے۔