عالمی اُفق پر ہولناک سائے

پاکستان کو نہایت دور اندیشی اور سی پیک کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا

anisbaqar@hotmail.com

شاید دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک دنیا میں اتنے ہولناک جنگ کے سائے منڈلاتے نظر نہ آئے جتنا کہ گزشتہ چند ماہ سے پُر ہول جنگی حالات سامنے آرہے ہیں اور اقوام متحدہ بے بس سی نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل شام کی جنگ حلب کی تباہی کے بعد دنیا نے کچھ سکھ کا سانس لیا تھا کہ دوبارہ امریکا نے ایک جنگی جنوں کا رنگ جمایا تاکہ اس کے اتحادیوں کو جو مایوسی ہوئی ہے ذرا اُن کا حوصلہ بلند ہو اور اس کے اثرات ایسے ہی ہوئے۔ روس اور امریکا اپنے تئیں بہت دیکھ بھال کر وار کرتے ہیں کہ ان کے حملے کے عالمی اثرات کیا اور کس حد تک اثر انداز ہوںگے۔ مگر جب چھوٹے اور کمزور ممالک جن کا انحصار دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو تو منظر کس قدر پیچیدہ ہوتا ہے۔

اس کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا میں پاکستانی سفیر جناب عزیز احمد نے کہا کہ امریکا اور چین کے بہتر اور اچھے سیاسی تعلقات سے پاکستان کو بہت آسانیاں میسر آتی ہیں۔ بقول ان کے (Better US China ties Create Better Opportunities For Pakistan) یعنی ''امریکا اور چین کے باہمی اچھے تعلقات پاکستان کے لیے خوش آیند ہیں۔'' آخر یہ کون سی ایسی بات ہے کہ ایک تیسرے ملک کی پالیسی پاک چین تعلقات کے لیے بہتر نہ ہو تو پاکستان کے لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ خصوصاً ایسے موقع پر جب دنیا ایک سرد جنگ کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ اس موقع کو کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں سلامتی کونسل میں روس اور امریکا میں سرد جنگ کی کشمکش میں عرب خطے میں رونما ہونے والی سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم پر روس نے کئی قراردادیں ویٹو کی ہیں اور ان میں چین عالمی سرد جنگ میں روس کے ساتھ رہا ہے۔

چونکہ روس اور چین سی پیک کے بنیادی شراکت دار ہیں اس لیے یہ دونوں ممالک امریکا کے خلاف متحدہ محاذ بنائے ہوئے ہیں اور اب رفتہ رفتہ چین بھی دنیا میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خصوصاً اس موقع پر جب شمالی کوریا (DPRK) نے اپنا جوہری پروگرام بند نہیں کیا ہے امریکا کی لگائی ہوئی تمام پابندیوں سے بھی ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کے موقف میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی بلکہ کم جان عن کا موقف اور مضبوط ہوگیا ہے اور ان کا کہناہے کہ امریکی بحری بیڑہ کو جزیرہ نما کوریا میں غرق کردیںگے اس موقع پر چین اور روس یکساں موقف رکھتے ہیں۔

آخری خبریں آنے تک ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا کے صدر نے اپنے ایک بیان میں صدر ٹرمپ کی شدید مذمت کی اور کہاکہ اسرائیل میں امریکا نے ایٹمی اسلحہ کے ذخائر دبا رکھے ہیں۔ آخر یہ کیا عالمی موقف ہے اور دوہرا معیار ہے۔ نہ صرف اسرائیل اور شمالی کوریا بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں پاکستان کا موقف مشکلات کا شکار ہے۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی نے یکم مئی کو ایک خبر نشر کی جس میں یمن پر داعش کے اور سعودی عرب کا مشترکہ موقف بیان کیا گیا ہے اور ان کے پس پشت امریکی حمایت ہے اور سابق صدر منصور ہادی کے حامی اور یمن میں داعش کے کمانڈر قاسم الرمی کے حوالے سے خبر نشر کی گئی ہے۔ اس عالمی پیچیدہ صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں بھی شدید اختلافات ہیں۔ خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد ان کی کیبنٹ میں متنازع شخصیت بنتے جارہے ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف پیر بس اور ٹرمپ کے داماد(Jared) جیریڈ کے مابین شدید اختلافات ہیں اور کوئی واضح اور ہم وزن عالمی پالیسی کے امکانات بہت کم ہیں اس لیے بھی مسٹر ٹرمپ عالمی صورت حال پر روسی پالیسی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

جس کی وجہ سے نیو کلیئر وار شروع کرنے سے امریکا قاصر ہے۔ جاپان پر جب امریکا نے ایٹمی حملہ جنگ عظیم دوئم میں کیا تھا تو عالمی صورت حال اس کے موقف کی حامی تھی اور روس اس کا اتحادی تھا۔ لہٰذا امریکا اور اس کے اتحادیوں کا اس موقع پر ساتھ دینا پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا کیونکہ رفتہ رفتہ چین کی سیاست پاکستان کے عوام کے دلوں میں گھر کرچکی ہے اور ٹرمپ کی سیاست عالمی امور پر کمزور ہے کیونکہ سیاست میں تسلسل کا فقدان ہے صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ آزاد کردستان پارٹی (PKK) جو امریکی اسلحہ سے لیس ہے اور جنہوں نے داعش کو شمالی عراق سے بھگایا ہے طیب اِردوان نے اس پر حملہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ امریکا اس پارٹی کو مدد دینے کی سوچ رہا ہے جو کہ مارکسی نظریات کی حامل ہے جس کے خواتین ونگ نے داعش کو مار بھگایا تھا۔


داعش اور کردوں کا معاملہ ایک طرف جب کہ دوسری جانب الخیلا مارکل جرمنی کی چانسلر نے یمن کے مسئلے پر اپنا موقف شاہ سلمان کی آمد پر واضح کیا ہے کہ وہ یمن کے مسئلے کا جنگی حل نہیں چاہتیں، وہ پر امن اور اقوام متحدہ کا حل چاہتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیٹو میں اس مسئلے پر اتفاق رائے نہیں جب کہ جرمنی سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے مگر اس نے اس شرط پر اسلحہ فروخت کیا کہ وہ یمن کے خلاف استعمال نہ ہوگا۔ جب کہ اسلامی اتحادی فوج اسلحہ کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہے اور سعودی تاریخ میں پہلی مرتبہ بجٹ میں منفی رقوم قوم خزانہ سے لی گئی ہے۔ اس کا تذکرہ (RT) آر ٹی نیوز نے کیا ہے اور ساتھ ہی یہ واضح کیا ہے کہ او پیک کو زبردست معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ ایران اور عراق نے کم قیمت پر عالمی مارکیٹ میں اپنا خام تیل فروخت کرنا شروع کردیا ہے۔

جب کہ سعودی عرب کو یمن کی جنگ کا سامنا ہے اور اربوں روپے اسلامی اتحاد کی فوج کے جنگی اخراجات ہیں اور اتحادیوں میں بھی بہت سے ایسے ایشو ہیں جن پر تمام ممالک ماسوا خلیجی ریاستوں کے مکمل اتفاق نہیں ہے جس سے اسلامی اتحادی فوج کی ساکھ مجروح ہورہی تھی۔ خصوصاً اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک شرائط عائد کررہے ہیں جب کہ روس اور چین کے اتحادیوں میں واضح اتفاق ہے۔ کیونکہ پہلی مرتبہ سعودی عرب کو ملک کے ہزاروں لوگوں کو روزگار کا مسئلہ درپیش آگیا ہے۔ اس لیے وہ سولر انرجی (سورج کی توانائی) پر کام کر رہا ہے جب کہ سعودی عرب کو روزانہ 4,86000 بیریل کی پروڈکشن کو جاری رکھنا ہے اور وہ بھی تیل کی موجودہ قیمت پر، اس لیے اب دو محاذوں پر سعودی عرب کو توجہ دینی پڑ رہی ہے۔ اس بات کا انکشاف روسی خبر رساں ایجنسی کی تحریر میں ہے۔ لہٰذا اوپیک (Opec) کو کڑے وقتوں کا معاشی بحران کا سامنا ہے جب کہ ترکی خود جو اسلامی اتحاد کی فوج کا ہراول دستہ ہے وہ خود اندرونی اور بیرونی خلفشار میں مبتلا ہے۔

بقول ترکی کے صدر کے وہ ٹرمپ پر کھلم کھلا الزام لگا رہے ہیں کہ داعش نے شام کے جن علاقوں کو خالی کیا ہے وہ امریکی اسلحہ سے لیس ہیں اور ان کا 80 فی صد علاقوں پر قبضہ ہے لہٰذا ترکی کے صدر جو الزام مسٹر ٹرمپ پر لگارہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ داعش پسپا ہوتے ہوئے ٹینک اور بڑا اسلحہ چھوڑ کے بھاگے تھے اور یہ کردش ملیشیا (KPP)کے پاس چلا گیا اور جن مارکسی لیڈیز گروپ نے داعش سے علاقہ خالی کرایا اس پر ترکی گاہے بہ گاہے ہوائی حملہ تو کرسکتا ہے مگر زمینی حملے کی تاب اس میں نہیں ہے کیونکہ کرد گروپ 1970 سے مسلسل زمین کے لیے کوشاں تھے۔ داعش النصرہ اور دیگر جہادیوں نے شام کے جن علاقوں کو خالی کیا ہے وہ زیادہ تر ترکی کے دامن سے قریب ہیں اور ترکی ان کے خلاف ہے ان چند ماہ کے دوران ترکی نے پی کے کے کے خلاف صرف ایک ہوائی حملہ کیا ہے اور زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔

ایسی صورت میں جب ایک طرف شمالی کوریا کا مسئلہ ہے دوسری جانب ترکی اور تیسرا اہم ایشو جو سرپہ کھڑا ہے یمن کا محاذ ہے پاکستان کو نہایت دور اندیشی اور سی پیک کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا۔ جب کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی گفتگو تو یہ تین طرفہ موضوعات پاکستان کو کس طرف کھینچ سکتے ہیں۔ اب جو صورتحال سامنے ہے پہلے مسٹر بش کے ساتھ برطانیہ کھڑا تھا مگر اب امریکا ہزاروں میل دور سے اپنے اتحادیوں کو ایٹمی جنگ کی طرف لے جارہے ہیں۔

مگر امید ہے کہ عین موقع پر کوریا کی جنگ سکون کا سانس لے گی اور کم جونگ ال روس یا چین کی جانب سے گفتگو میں پہل کریںگے کیونکہ ڈی پی آر کے (DPRK)کے صدر ایک سخت قسم کے کامریڈ ہیں اور کم ال سنگ کے پوتے ہیں کہ اگر 50 کی دہائی میں اقوام متحدہ نے جنگی معاملات طے نہ کیے ہوتے تو آج جنوبی کوریا کا وجود مشکل تھا بہر حال ہر صورت میں جنگ خصوصاً ایٹمی جنگ عالم انسانیت کے لیے ایک ہولناکی سے کم نہ ہوگی اور ان تمام ایشوز پر پاکستان کا غیر جانبدارانہ پہلو نمایاں ہونا ضروری ہے اور پراکسی وار کا کوئی پہلو ایشو چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ہم سے دور رہنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ موقع کی نزاکت کے قومی مفاد میں فیصلے کریںگے تاکہ ارض پاک محفوظ رہے۔
Load Next Story