یادوں کی کہکشاں

حشمت سہیل کی یادوں میں بڑا حصہ ان کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے دورکا ہے

''یادوں کی کہکشاں'' سید حشمت سہیل کی خود نوشت نہیں ہے، یاسمین سہیل نے ان سے سن کر مرتب کی ہے۔ یہ کچھ آپ بیتی اورکچھ جگ بیتی ہے۔

حشمت سہیل کا یوپی میں فتح پورکے ایک گاؤں شاہ پور سے تعلق ہے۔ ان کے والد برٹش آرمی میں اچھے عہدے پر تھے۔ والدہ کا انتقال اتنی کم عمری میں ہوگیا تھا کہ انھیں ان کی صورت بھی یاد نہیں رہی تھی۔ پرائمری کلاس سے کالج تک لکھنو میں تعلیم حاصل کی، پھرکانپور میں انگریزی اور اردو میں ایم اے کیا اور قانون کی ڈگری حاصل کرکے وہیں وکالت شروع کردی۔ شادی ہوئی، تین بچے بھی ہوئے مگر نہ جیے۔ 1985ء میں ایک شپنگ کمپنی کے قانونی مشیر ہوکر دبئی چلے گئے۔کراچی آکر یاسمین زہرہ سے شادی کی۔ حشمت شاعر ہیں اور یاسمین بھی اچھا علمی ذوق رکھتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا ہے پھر گرین کارڈ مل گیا اور امریکا آگئے۔

حشمت سہیل کی زندگی کے یہ مختلف دور ہیں۔ اب یہ شکاگو میں رہتے ہیں، بیوی بچوں کے ساتھ اور وہاں کی ادبی سرگرمیوں میں فعال ہیں،اپنی تخلیقات سے ممتاز ہیں۔

حشمت سہیل کی یادوں میں بڑا حصہ ان کے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے دورکا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب انسیت تھی، قناعت تھی اورفراغت، ان کے دوستوں میں ہندو بھی اسی طرح تھے جس طرح مسلمان۔ ایک لڑکا کندن لال تو ان کا بڑا ہی قریبی دوست تھا وہ ایک مشہورجیوتشی کا لڑکا تھا اور جب یہ انٹر میں تھے تو اس نے یہ پیشگوئی کردی تھی کہ تم پچاس سال کی عمر پوری ہونے کے بعد ایک نئی زندگی شروع کروگے اور سات سمندر پار کرکے ایک ملک جاؤگے۔اس دورکے قصے بہت دلچسپ ہیں جو حشمت سہیل نے مزے لے لے کر ''یادوں کی کہکشاں'' میں بیان کیے ہیں۔

ایک واقعہ بتاتے ہیں کہ ''ہمارے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر ایک پرانی آبادی تھی۔اس میں ایک پرانی عمارت کے کھنڈر تھے۔ ان کھنڈروں میں لوگ دن میں بھی جانے سے گریزکرتے تھے کیونکہ ان کے متعلق عجیب داستانیں مشہور تھیں۔ یہاں ایک یکے والے کا کچا مکان تھا۔اس کی بیوی دائی کا کام کرتی تھی۔ ایک دن یکے والے کی بیوی گھر میں کھانا پکا رہی تھی۔

اس کی بھاوج پاس ہی بیٹھی تھی۔ اسے دیوار پر ایک بہت پھولے پیٹ کی موٹی سی چھپکلی نظر آئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی نند سے کہا ''لو ایک اورگاہک تمہارے لیے آیا ہے'' یکے والی کی بیوی نے چھپکلی کو دیکھا اور ہنستے ہوئے زور سے کہا ''میں دائی ہوں۔ ضرورت پڑے تو مجھے بلالینا'' پھر دونوں ہنسنے لگیں۔ کئی دن بعد رات کو دائی کے گھر پر دستک ہوئی۔ شوہر نے نکل کر دیکھا کہ ایک ڈولی رکھی ہوئی ہے۔ دو لمبے قد کے آدمی کھڑے ہیں۔ ایک نے آہستہ سے کہا ''دائی کی ضرورت ہے، جلدی بھیج دیجیے'' اس نے اندر جاکر بیوی کو بتایا۔

بیوی نے سامان لیا اور جاکر ڈولی میں بیٹھ گئی۔ آدھے گھنٹے بعد ڈولی ایک بڑے دروازے کے سامنے رکی، دائی اترکر اندر گئی۔ ایک عورت نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ چراغ کی مدھم روشنی میں ایک اونچے پلنگ پر ایک عورت چادر اوڑھے لیٹی تھی۔ دائی نے دیکھا گرم پانی اور دوسرا ضروری سامان موجود تھا۔ اس نے اپنا کام شروع کردیا۔کچھ دیر بعد بچے کی پیدائش ہوگئی۔ وہ بچہ بالکل چھپکلی کی شکل کا تھا۔ دائی نے چونک کر عورت کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولی ''تم ہی نے تو مجھ سے کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر مجھے بلالینا'' دائی کے سارے بدن میں تھر تھری ہونے لگی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور باہرکی طرف لپکی۔ کمرے کے باہر وہ دوسری عورت کھڑی تھی۔

اس نے کہا ''ذرا ٹھہرو! اپنی مزدوری تو لیتی جاؤ'' پھر پاس ہی پڑی کوئلے کے ڈھیر میں سے مٹھی بھر کوئلے اٹھاکر اس کی گود میں ڈال دیے۔ دائی لڑکھڑاتی ہوئی گھر سے باہر آئی اور ڈولی میں تقریباً گر پڑی۔ راستے میں اس نے کوئلے نکال کر پھینک دیے۔ ڈولی گھر پہنچی تو یہ اس میں سے نکل کر اندر آئی اور دھم سے گر کر بے ہوش ہوگئی۔ بہت تیز بخار چڑھا۔ دوسرے دن جب بخار کم ہوا تو گھر والوں کو داستان سنائی۔ دوپٹے میں کوئلے کہ جو چند چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اب بھی پڑے ہوئے تھے وہ دن کی روشنی میں خوب چمک رہے تھے۔ شوہرکوکچھ شک ہوا۔ اس نے شہر میں جاکر جوہریوں کو دکھائے۔ معلوم ہوا کہ ہیرے ہیں۔ اب کیا تھا یکے والے کے دن پھر گئے۔ کچے مکان کی جگہ شاندار حویلی بن گئی۔ یکے والے نے یکہ چلانا اور بیوی نے دائی گری کو خیرباد کہا۔ عیش سے رہنے لگے۔سید حشمت سہیل اپنے والد کو میاں کہتے تھے وہ بہت دیندار آدمی تھے۔


حشمت کہتے ہیں ''میاں جھاڑ پھونک تو نہیں کرتے تھے لیکن مختلف دعائیں معلوم تھیں۔ ایک واقعہ ایسا ہوا جس کی توجیہ میں نہیں کرسکتا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہم اپنی ننھال میں رہتے تھے۔گرمیوں میں ہم کھلی چھت پر سوتے تھے۔ پیچھے تالاب تھا اور دیوار سے ملا ہوا بیری کا درخت تھا جس کی شاخیں چھت کی منڈیر سے جھانکتی تھیں۔ مشہور تھا کہ اس پیڑ پر ایک چڑیل رہتی ہے۔ایک بار میری چچازاد بہن اسے دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ کئی دن بخار آیا۔ پھر ایک دن میری والدہ کی آنکھ کھلی تو دیکھا کوئی عورت بال پھیلائے درخت سے جھانک رہی ہے۔ والدہ نے میاں کو بلایا، میاں نے دیکھا توکچھ دکھائی نہیں دیا۔ دوسرے دن میاں نے عشا کی نماز کے بعد ایک دعا پڑھی اور انگلی سے اس طرف حصار باندھ دیا اورکہہ دیا کہ وہ اب نظر نہیں آئی گی۔ اس واقعے کے چھ ماہ بعد ہمارے جلیل نانا کے پیرگورکھپور سے ان کے یہاں تشریف لائے۔

دستورکے مطابق دوسرے گھروں میں بھی ان کی دعوت ہوئی۔ میاں نے بھی ایک دن ان کی دعوت کی۔ خاندان کے بزرگوں کو بھی بلایا۔کھانا اسی کھلی چھت پر کھایا گیا۔ کھانے کے بعد جب پیر صاحب ہاتھ دھو رہے تھے تو انھوں نے میاں سے پوچھا،کیا اس طرف کوئی قید ہے۔ میاں نے کہا، یہاں نہ تھانہ ہے نہ کچہری، قید ہونے کا کیا مطلب۔ پیر صاحب نے بیری کے درخت کی طرف اشارہ کرکے کہا، ادھر سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کوئی قید ہے۔ تب میاں نے چڑیل کا واقعہ بتایا پیر صاحب بولے، آپ نے چاروں طرف سے حصار کرکے اسے بند کردیا ہے۔ ایک طرف کا راستہ تو کھول دیں تاکہ وہ چلی جائے میاں نے کہا، مجھے بند کرنا تو آتا ہے کھولنا نہیں آتا۔ اس پر پیر صاحب نے میاں کو کھولنے کی دعا بتائی اورکہا دعا پڑھ کر انگلی سے باہر کی طرف اشارہ کردیں، اس کے لیے راستہ کھل جائے گا۔

سید حشمت سہیل بتاتے ہیں ''ہمارے ہاں شادیوں میں اﷲ میاں کے نام پر رحم (کچے چاول کا حلوہ) اور پانچ گلگلے مسجد میں رکھے جاتے تھے، بارہ ربیع الاول کو شیرینی پر فاتحہ دی جاتی تھی، بڑے پیر صاحب کے نام پر دیگ میں پلاؤ پکتاتھا، رجب میں کونڈے بھرے جاتے تھے، شب برأت میں حلوہ بنتاتھا، محرم میں کھچڑا پکتا تھا''

حشمت صاحب نے مزاروں کے کتبے بھی جو ان کی نظر سے گزرے بیان کیے ہیں۔ بتاتے ہیں ایک صاحب کسی کو سلام وغیرہ نہیں کرتے مجھے وہ جب کسی قبرستان سے گزرتے تھے تو بہ آواز بلند کہتے تھے ''لیٹے رہیے، لیٹے رہیے، سب خیریت ہے'' ان کی قبر پر کسی نے یہی جملہ لکھ دیا، ایک حاکم صاحب تھے انھوں نے اپنی قبر پر لکھوادیا ''اوقاتِ فاتحہ شام 4 بجے سے 6 بجے تک''

اپنی وکالت کے زمانے کا ایک واقعہ حشمت سہیل نے اور بیان کیا ہے۔کانپور میں ایک صاحب تھے کریم خان۔ اچھی حیثیت کے مالک، صاحب ذوق، ایک دن وہ کچہری میں ان کے پاس آئے اور ایک نوٹس انھیں دکھایا، معلوم ہوا کہ ان کی بیگم نے طلاق مانگی ہے۔ خان صاحب نے کہاکہ اس کا جواب لکھ بھیجیے کہ میں طلاق نہیں دوںگا۔ حشمت سہیل نے جواب بھیج دیا۔ کئی لوگ بیچ میں پڑے مگر میاں بیوی میں صلح صفائی نہ ہوسکی، ایک دن خان صاحب صبح صبح کچہری میں ان کے پاس پہنچ گئے اور بتایا کہ ان کی بیوی آج اپنے وکیل کے ساتھ خلع کا مقدمہ دائرکرنے عدالت آرہی ہیں۔ پھر وہ ان کے ساتھ فیملی کورٹ کی طرف گئے وہاں خان صاحب کی بیگم اپنے وکیل کے ساتھ کھڑی تھیں۔ خان صاحب نے حشمت سہیل سے ایک سادہ کا کاغذ مانگا۔ انھوں نے دے دیا خان صاحب نے پورے صفحے پر یہ شعر لکھ کر بیگم کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

آبرو جنس گراں ہے کہیں بیکار نہ جائے

تم جو چاہو تو یہ سودا سر بازار نہ جائے

بیگم نے پڑھا ایک نظرخان صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی درخواست پھاڑ کر پھینک دی۔
Load Next Story