کون جیتا ہے تیرا وعدہ وفا ہونے تک
اگر کوئی حکمران خود چل کر ان کے پاس آگیا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ واقعی عوامی نمایندہ ہے
عوام کے ہر دلعزیز، ہمدرد، عوامی امنگوں سے آگاہ، ان کی حرمت کے لیے ہر وقت حاضر اور ہر مشکل عوام کی خاطر برداشت کرنے والے (یہ سب پاناما کیس اور وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے سے واضح ہو چکا ہے) طبقہ خواص کے نمایندے حکمران کی عوام دوستی کا اظہار ان کے شدید گرمی میں جیکب آباد (جو ملک کا گرم ترین علاقہ ہے) میں 14 اپریل کو عوام سے ملاقات اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے خود چل کر ان کے پاس آنے سے بخوبی ہوتا ہے مگر عوام پھر عوام اور خواص پھر خواص ہیں اس کا احساس عوام کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
اگر کوئی حکمران خود چل کر ان کے پاس آگیا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ واقعی عوامی نمایندہ ہے۔ بہر حال حکمران اور عوام کے درمیان فرق کی اس حد کو عبور کرنا عوام کو کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ عوام ہوں یا حکمران سب کو اپنی اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ سو ہمارے حکمران جو آج کل سندھ کے عشق میں کچھ یوں مبتلا ہوئے ہیں کہ مجنوں، فرہاد اور رانجھا وغیرہ کے عشق پر پانی پھیر دیا ہے۔
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں کے مصدق۔ مطلب یہ کہ اپنے پر تعیش اور سرد ایوان سے نکل کر وہ اسمبلی کے ایئر کنڈیشن ہال تک آنے کی زحمت بھی کبھی کبھی بوقت ذاتی ضرورت ہی فرماتے ہیں وہ ان شدید گرم ایام میں جیکب آباد کے عوام سے ملنے کے لیے اتنے مضطرب و بے چین ہوئے کہ چند دن موسم کی سختی کو نرمی میں تبدیل ہونے کا بھی انتظار نہ کرسکے۔ ''بھلا عاشق کو معشوق سے ملے بنا کیسے کل پڑسکتی ہے'' والا معاملہ جو تھا۔ چنانچہ حضور تشریف لائے اور عوام سے بالمشافہ ملاقات فرمائی۔ اب ہم تو اس ملاقات عاشق و معشوق میں حائل نہیں، جو موجود تھے ان ہی کے ذریعے یہ خبریں ہم تک بھی پہنچی کہ عوام کی خواص سے ملاقات کے لیے جو جلسہ گاہ سجائی گئی تھی اس میں عوام عوامی جگہ اور خواص خاص جگہ یعنی چبوترے (اسٹیج) پر تشریف فرما تھے۔
جیکب آباد کوئی کراچی جیسا بڑا، لاہور جیسا صاف ستھرا اور خوبصورت شہر تو ہے نہیں اور نہ اس کی آبادی بڑے شہروں جتنی ہے لہٰذا خواص کے لیے جو چبوترہ بنایا گیا تھا اس پر صرف پندرہ افراد کی گنجائش تھی جن میں دو چار حکمران کے ہمراہی اور محافظ اور کچھ شہر کے معززین۔ اب عوام تو معزز ہو نہیں سکتے، چاہے وہ کتنے ہی عالی نسب، با کردار، حق حلال کی کمانے والے یعنی دوسروں کے مال اور حق پر ہاتھ صاف نہ کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں، خیر چھوڑیے اس کو۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں تشریف فرما پندرہ معززین کے مقام اور وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے تین طاقتور (پاور فل) اے سی نصب کیے گئے تھے، جب کہ عوام جن کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار تھی کے لیے پورے جلسہ گاہ میں ایک پنکھا بھی نہ تھا۔
یہی نہیں عوام کو آغاز جلسے سے کئی گھنٹے قبل جلسہ گاہ پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جب شہر کا ہر فرد جلسہ گاہ پہنچ گیا تو پنڈال کو خالی کراکے تقریباً تین گھنٹے حفاظتی چیکنگ کی گئی اور عوام کو دوبارہ اندر جانے کی اجازت ملی۔ یہ ملاقاتِ عاشق و معشوقین دو پہر ایک بجے سے چار بجے تک جاری رہی۔ ہجر کے ماروں کے لیے یہ مختصر ملاقات تسلی بخش تو نہیں ہوسکتی مگر پیار کرنے والوں کے درمیان سماج کی ''روایتی دیوار'' کا ذکر زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ سو وہ رسم یہاں بھی بنا ہی گئی۔ لہٰذا روایت کا احترام کرتے ہوئے ظالم سماج کے بجائے ظالم موسم کی دیوار حائل کی گئی۔ یوں بھی عوام کے لیے پنکھوں کا بندوبست کرنا انتظامیہ پر بھاری بوجھ ثابت ہوتا۔ چنانچہ عوام بے چاروں پر اس شدید گرمی میں یہ ''مختصر'' ملاقات بھی گراں ثابت ہوئی اور کئی کی حالت بگڑگئی۔
عوام کے ہر دلعزیز حکمران جن کے عوامی خدمت کے کارناموں سے عوام ان کو سینے سے لگاکر پر خلوص دعائیں دینے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ وہ عوام کے درمیان جانے کس سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے سندھ کے پانچ اضلاع کے چھ سو سے زائد پولیس اہلکار پورے وقت موجود رہے اور پانچوں اضلاع کے ایس ایس پیز بھی حفاظتی فرائض پر مامور رہے۔ عوامی مقبولیت کی یہ صورت حال ہم جیسے کوڑ مغز افراد کے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ اس میں قصور حکمرانوں کا نہیں ہماری چھوٹی کھوپڑی کا ہی ہوسکتا ہے۔
عوام کو چھ ماہ سے کم مدت میں بجلی کے بحران سے نجات دینے والے، عوام کے ہر بچے کو مفت لازمی تعلیم فراہم کرنے والے، دہلیز پر انصاف مہیا کرنے والے چار سال سے عوام کو سنہرے خواب دکھا دکھاکر کار سرکار بخوبی (اپنی حد تک) چلارہے ہیں۔ حکومت سندھ پر تنقید کرکے محض لاہور کو بنا سنوار کے (قومی ورثے اور لاہور کی تاریخی حیثیت کو دائر پر لگا کر) سی پیک کا ڈھنڈورا پیٹ کر دنیا کی ہر خوبی اس منصوبے اور ملک کے ہر مسئلے کا حل جس میں پوشیدہ ہے مگر ہمارے دانشور (خدا ہی ان کو سمجھے) طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ایک صاحب کو جانے کیا الہام ہوگیا ہے کہ اب ہم برطانیہ و امریکا کی غلامی کے بعد جس کا طوق گلے میں ڈالنے والے ہیں۔ ایک صاحب کو خدشہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جنسی معاشرے میں ڈھل جائے گا اب ان کو کون سمجھائے کہ ہمارا معاشرہ پہلے ہی ہمارا نہیں رہا تھا۔ یہ ہم حکمرانوں کی ملک سنوارو کی جد وجہد سے جانے کہاں نکل آئے، یقین جانیے ہم تو سرکار کے عوامی خدمات پر لکھنے بیٹھے تھے پر قلم جانے کدھر بھٹک گیا۔ مگر جب پوری قوم ملک، ایوان، ادارے اور سارے ذمے داران ہی بھٹکے ہوئے ہوں تو کوئی قلم کو کیسے قابو میں رکھ سکتا ہے؟ ویسے وزیراعظم نے جیکب آباد میں بھی ٹھٹھہ کی طرز پر بڑے بڑے وعدے کیے ہیں مگر وہاں کیا ہوا، کیا ہو گا؟ جب ہوگا دیکھا جائے گا۔ ہمارے حکمران شاعر سے صد فی صد متفق ہیں کہ ''وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا''۔
اگر کوئی حکمران خود چل کر ان کے پاس آگیا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ واقعی عوامی نمایندہ ہے۔ بہر حال حکمران اور عوام کے درمیان فرق کی اس حد کو عبور کرنا عوام کو کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ عوام ہوں یا حکمران سب کو اپنی اپنی حد میں رہنا چاہیے۔ سو ہمارے حکمران جو آج کل سندھ کے عشق میں کچھ یوں مبتلا ہوئے ہیں کہ مجنوں، فرہاد اور رانجھا وغیرہ کے عشق پر پانی پھیر دیا ہے۔
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں کے مصدق۔ مطلب یہ کہ اپنے پر تعیش اور سرد ایوان سے نکل کر وہ اسمبلی کے ایئر کنڈیشن ہال تک آنے کی زحمت بھی کبھی کبھی بوقت ذاتی ضرورت ہی فرماتے ہیں وہ ان شدید گرم ایام میں جیکب آباد کے عوام سے ملنے کے لیے اتنے مضطرب و بے چین ہوئے کہ چند دن موسم کی سختی کو نرمی میں تبدیل ہونے کا بھی انتظار نہ کرسکے۔ ''بھلا عاشق کو معشوق سے ملے بنا کیسے کل پڑسکتی ہے'' والا معاملہ جو تھا۔ چنانچہ حضور تشریف لائے اور عوام سے بالمشافہ ملاقات فرمائی۔ اب ہم تو اس ملاقات عاشق و معشوق میں حائل نہیں، جو موجود تھے ان ہی کے ذریعے یہ خبریں ہم تک بھی پہنچی کہ عوام کی خواص سے ملاقات کے لیے جو جلسہ گاہ سجائی گئی تھی اس میں عوام عوامی جگہ اور خواص خاص جگہ یعنی چبوترے (اسٹیج) پر تشریف فرما تھے۔
جیکب آباد کوئی کراچی جیسا بڑا، لاہور جیسا صاف ستھرا اور خوبصورت شہر تو ہے نہیں اور نہ اس کی آبادی بڑے شہروں جتنی ہے لہٰذا خواص کے لیے جو چبوترہ بنایا گیا تھا اس پر صرف پندرہ افراد کی گنجائش تھی جن میں دو چار حکمران کے ہمراہی اور محافظ اور کچھ شہر کے معززین۔ اب عوام تو معزز ہو نہیں سکتے، چاہے وہ کتنے ہی عالی نسب، با کردار، حق حلال کی کمانے والے یعنی دوسروں کے مال اور حق پر ہاتھ صاف نہ کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں، خیر چھوڑیے اس کو۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں تشریف فرما پندرہ معززین کے مقام اور وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے تین طاقتور (پاور فل) اے سی نصب کیے گئے تھے، جب کہ عوام جن کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار تھی کے لیے پورے جلسہ گاہ میں ایک پنکھا بھی نہ تھا۔
یہی نہیں عوام کو آغاز جلسے سے کئی گھنٹے قبل جلسہ گاہ پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جب شہر کا ہر فرد جلسہ گاہ پہنچ گیا تو پنڈال کو خالی کراکے تقریباً تین گھنٹے حفاظتی چیکنگ کی گئی اور عوام کو دوبارہ اندر جانے کی اجازت ملی۔ یہ ملاقاتِ عاشق و معشوقین دو پہر ایک بجے سے چار بجے تک جاری رہی۔ ہجر کے ماروں کے لیے یہ مختصر ملاقات تسلی بخش تو نہیں ہوسکتی مگر پیار کرنے والوں کے درمیان سماج کی ''روایتی دیوار'' کا ذکر زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ سو وہ رسم یہاں بھی بنا ہی گئی۔ لہٰذا روایت کا احترام کرتے ہوئے ظالم سماج کے بجائے ظالم موسم کی دیوار حائل کی گئی۔ یوں بھی عوام کے لیے پنکھوں کا بندوبست کرنا انتظامیہ پر بھاری بوجھ ثابت ہوتا۔ چنانچہ عوام بے چاروں پر اس شدید گرمی میں یہ ''مختصر'' ملاقات بھی گراں ثابت ہوئی اور کئی کی حالت بگڑگئی۔
عوام کے ہر دلعزیز حکمران جن کے عوامی خدمت کے کارناموں سے عوام ان کو سینے سے لگاکر پر خلوص دعائیں دینے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ وہ عوام کے درمیان جانے کس سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے سندھ کے پانچ اضلاع کے چھ سو سے زائد پولیس اہلکار پورے وقت موجود رہے اور پانچوں اضلاع کے ایس ایس پیز بھی حفاظتی فرائض پر مامور رہے۔ عوامی مقبولیت کی یہ صورت حال ہم جیسے کوڑ مغز افراد کے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ اس میں قصور حکمرانوں کا نہیں ہماری چھوٹی کھوپڑی کا ہی ہوسکتا ہے۔
عوام کو چھ ماہ سے کم مدت میں بجلی کے بحران سے نجات دینے والے، عوام کے ہر بچے کو مفت لازمی تعلیم فراہم کرنے والے، دہلیز پر انصاف مہیا کرنے والے چار سال سے عوام کو سنہرے خواب دکھا دکھاکر کار سرکار بخوبی (اپنی حد تک) چلارہے ہیں۔ حکومت سندھ پر تنقید کرکے محض لاہور کو بنا سنوار کے (قومی ورثے اور لاہور کی تاریخی حیثیت کو دائر پر لگا کر) سی پیک کا ڈھنڈورا پیٹ کر دنیا کی ہر خوبی اس منصوبے اور ملک کے ہر مسئلے کا حل جس میں پوشیدہ ہے مگر ہمارے دانشور (خدا ہی ان کو سمجھے) طرح طرح کے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ایک صاحب کو جانے کیا الہام ہوگیا ہے کہ اب ہم برطانیہ و امریکا کی غلامی کے بعد جس کا طوق گلے میں ڈالنے والے ہیں۔ ایک صاحب کو خدشہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جنسی معاشرے میں ڈھل جائے گا اب ان کو کون سمجھائے کہ ہمارا معاشرہ پہلے ہی ہمارا نہیں رہا تھا۔ یہ ہم حکمرانوں کی ملک سنوارو کی جد وجہد سے جانے کہاں نکل آئے، یقین جانیے ہم تو سرکار کے عوامی خدمات پر لکھنے بیٹھے تھے پر قلم جانے کدھر بھٹک گیا۔ مگر جب پوری قوم ملک، ایوان، ادارے اور سارے ذمے داران ہی بھٹکے ہوئے ہوں تو کوئی قلم کو کیسے قابو میں رکھ سکتا ہے؟ ویسے وزیراعظم نے جیکب آباد میں بھی ٹھٹھہ کی طرز پر بڑے بڑے وعدے کیے ہیں مگر وہاں کیا ہوا، کیا ہو گا؟ جب ہوگا دیکھا جائے گا۔ ہمارے حکمران شاعر سے صد فی صد متفق ہیں کہ ''وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا''۔