بہت رولیے آئیے قہقہے لگائیں
زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ دکھ اور خلا کے درمیان پنڈولم ہے
ISLAMABAD:
آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر بار بار پڑھ لیں، پوری تاریخ میں آپ کے سامنے دو کردار بار بار سامنے آئیں گے، ایک باکرداروں کی حاکمیت اور دوسری بدکرداروں کی حکمرانی۔ روز ویلٹ کہتا ہے ''کردار، کسی فرد یا کسی قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن عامل ہوتا ہے''۔ اب یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے کہ آپ کے نصیب میں کون آتے ہیں۔
اگر آپ کو باکرداروں کی حاکمیت نصیب ہوجاتی ہے تو آپ کی زندگی آرام و سکون سے گزرتی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو بدکرداروں کی حکمرانی نصیب ہوجاتی ہے تو پھر وہ ہی سب کچھ آپ کے ساتھ ہوتا ہے جو آج کل آپ کے ساتھ ہورہا ہے۔ پہلے تو ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ساتھ جی بھر کے رو لیتے ہیں، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ہمارے دل ہی پھٹ جائیں۔ اس لیے کہ ہم بہت ضبط کر چکے ہیں، بہت دکھ سہہ چکے ہیں، بہت تکلیفیں اٹھا چکے ہیں، بہت برداشت کر چکے ہیں۔
خیال رہے ہم سب گوشت پوشت کے بنے ہوئے ہیں، پتھر یا لکڑی کے نہیں۔ جیسا ہومر نے کہا تھا، ذہن میں رہے ہمارے احساسات سیمنٹ کے بنے ہوئے نہیں ہیں، ہمارے جذبات بجری نہیں ہیں، ہماری سوچیں اینٹیں نہیں ہیں، اور نہ ہی ہمارے جگر لوہے کے ہیں۔ اس لیے آؤ خوب روتے ہیں، چیخے چلاتے ہیں، خوب آہ و گریہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ جو دکھ، غم اور تکلیفیں ہیں، یہ کبھی بھی کسی کو معاف نہیں کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ تیزاب کاکام کرتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس کبھی وقت ہو تو کوئی دیا جلا کر اپنے آپ کو دیکھ لینا، تم سب آہستہ آہستہ گھل رہے ہو، پگھل رہے ہو، تم سب اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے مار رہے ہو۔
آئیں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اس حال پر پہنچانے والے خود کس حال میں ہیں، ان کے حال کو جاننے کے لیے ہمیں پہلے عظیم فلسفی آرتھر شوپنہار کی کہی گئی بات کو سمجھنا ہوگا، وہ کہتا ہے ''انسان بنیادی طور پر دکھ کی مخلوق ہے، وہ زندگی بھر ایک کے بعد دوسری شے کو حاصل کرنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے اور اپنی خواہشوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا ہے، مگر جوں ہی کوئی خواہش پوری ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ کوئی خواہش پوری ہونے سے خوفناک بوریت پیدا ہوتی ہے، ایک خلا سا جنم لیتا ہے، یوں جیون ناقابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے، انسان اس سے تنگ آکر ایک اور جدوجہد شروع کردیتا ہے، زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ دکھ اور خلا کے درمیان پنڈولم ہے، اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زندگی خواہش سے بوریت تک جدو جہد ہے''۔ جب کہ حضرت سلیمان کہتے ہیں ''میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا، میرا قیام یروشلم میں تھا، میں نے اپنی تمام زندگی علم و حکمت اور دانش کی تلاش میں گزاری اور کائنات کی ہر شے کا علم حاصل کیا، یہ کڑی راہ خدا نے صرف آدم کے لیے بنائی ہے، میں نے روئے ارض کی ہر شے کی حقیقت دیکھی اور جانی ہے، یقین کرو سب مایا، نظر کا فریب اور روح کا کرب ہے، میں نے نہایت مسرت و انبساط سے خود سے کہا تھا کہ میں ان سب انسانوں سے زیادہ دانا اور قابل ہوں، یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد ہے، میں نے علم و حکمت کی تحصیل میں تمام عمر صرف کی اور اس اثنا میں حماقت، جنون اور پاگل پن کا سراغ بھی لگایا، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ سب کچھ روح کا بوجھ اور دل کا الم ہے اور کچھ نہیں۔
میں نے دل میں کہا کہ کیوں نہ خوشی اور فرحت کا تجربہ کیا جائے، چنانچہ میں نے راحت و مسرت کی راہ اپنالی، لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ بھی مایا کہ سوا کچھ نہ تھی، میں نے ہنسی مذاق میں پناہ ڈھونڈی، لیکن اسے بھی محض پاگل پن پایا، میں نے عیش کو آزمایا لیکن پھر بھی اپنے دل کو حکمت و دانائی سے خالی نہ ہونے دیا، ہمیشہ غلط کاری سے دامن بچایا، حتیٰ کہ میں یہ دیکھنے اور جاننے کے قابل ہوگیا کہ زیر آسمان بنی آدم کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا، نیک کیا ہے اور بد کیا، اور اسے کون سی راہ عمل اپنانی چاہیے۔
میں نے اپنے اس شعور سے بے حد فائدہ اٹھایا، عظیم الشان محلات تعمیر کیے، میں نے پانی کے وسیع و عریض تالاب بنوائے جن سے میں اپنے باغات کو سیراب کرتا تھا، میرے پاس لاتعداد خادم اور کنیزیں تھیں، بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوتے تھے، میرے پاس کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے مویشی تھے، جو یروشلم میں ہر کسی سے زیادہ تھے، سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے، لذت میرے گھر کی لونڈی تھی، بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی وہ تمنا کرسکتا ہے، میرے پاس موجود تھیں، میرے دل کی کوئی آرزو، کوئی حسرت، تشنہ تکمیل نہیں تھی، لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے''۔
چونکہ ہم بہت رو لیے ہیں، اس لیے آئیں اب قہقہے لگائیں، جشن منائیں، کیونکہ ہمیں تکلیف، دکھ اور اذیت میں مبتلا کرنے والے ہم سے زیادہ دکھ، تکلیف اور اذیت میں ہیں۔ یہ سب کے سب بقول شوپنہار دکھ کی مخلوق ہیں، یہ سب کے سب عذاب میں مبتلا ہیں، ظاہر ہے ان کے پاس حضرت سلیمان سے زیادہ تو ہے نہیں اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ جب حضرت سلیمان اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ سب کچھ مایا ہے تو ہمارے ان ننھے منے چھوٹے چھوٹے سے امیرو کبیر لوگوں کا غرور، اکڑ، شان و شوکت، جھوٹی آن و بان دیکھ کر انسان قہقہے نہیں لگائے تو پھر کیا کرے۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کے پاس حضرت سلیمان جیسا نہ تو علم ہے اور نہ ہی عقل و دانش اور نہ ہی سمجھ بوجھ۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں آؤ قہقہے لگاؤ، جشن مناؤ، ہمارے ملک کے بدکرداروں پر، ان کے عذاب میں مبتلا ہونے پر، ان کی تکلیف اور دکھ پر۔ کیونکہ سب کچھ مایا ہے، یہ لوٹ مار، کرپشن، کمیشن سے حاصل کردہ روپوں پیسوں کے ڈھیر جلد ہی ختم ہوجائیں گے، پھر یہ کس منہ سے ہمارے پاس آئیں گے۔ یہ بھی یاد رہے وہ جو اوپر بیٹھا ہے کبھی بھی کسی بھی گناہگار کو معاف نہیں کرتا ہے اور اس کا حساب اور احتساب کمال کا ہوتا ہے۔
آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر بار بار پڑھ لیں، پوری تاریخ میں آپ کے سامنے دو کردار بار بار سامنے آئیں گے، ایک باکرداروں کی حاکمیت اور دوسری بدکرداروں کی حکمرانی۔ روز ویلٹ کہتا ہے ''کردار، کسی فرد یا کسی قوم کی زندگی میں ایک فیصلہ کن عامل ہوتا ہے''۔ اب یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے کہ آپ کے نصیب میں کون آتے ہیں۔
اگر آپ کو باکرداروں کی حاکمیت نصیب ہوجاتی ہے تو آپ کی زندگی آرام و سکون سے گزرتی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو بدکرداروں کی حکمرانی نصیب ہوجاتی ہے تو پھر وہ ہی سب کچھ آپ کے ساتھ ہوتا ہے جو آج کل آپ کے ساتھ ہورہا ہے۔ پہلے تو ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ساتھ جی بھر کے رو لیتے ہیں، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ہمارے دل ہی پھٹ جائیں۔ اس لیے کہ ہم بہت ضبط کر چکے ہیں، بہت دکھ سہہ چکے ہیں، بہت تکلیفیں اٹھا چکے ہیں، بہت برداشت کر چکے ہیں۔
خیال رہے ہم سب گوشت پوشت کے بنے ہوئے ہیں، پتھر یا لکڑی کے نہیں۔ جیسا ہومر نے کہا تھا، ذہن میں رہے ہمارے احساسات سیمنٹ کے بنے ہوئے نہیں ہیں، ہمارے جذبات بجری نہیں ہیں، ہماری سوچیں اینٹیں نہیں ہیں، اور نہ ہی ہمارے جگر لوہے کے ہیں۔ اس لیے آؤ خوب روتے ہیں، چیخے چلاتے ہیں، خوب آہ و گریہ کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ جو دکھ، غم اور تکلیفیں ہیں، یہ کبھی بھی کسی کو معاف نہیں کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ تیزاب کاکام کرتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس کبھی وقت ہو تو کوئی دیا جلا کر اپنے آپ کو دیکھ لینا، تم سب آہستہ آہستہ گھل رہے ہو، پگھل رہے ہو، تم سب اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے مار رہے ہو۔
آئیں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اس حال پر پہنچانے والے خود کس حال میں ہیں، ان کے حال کو جاننے کے لیے ہمیں پہلے عظیم فلسفی آرتھر شوپنہار کی کہی گئی بات کو سمجھنا ہوگا، وہ کہتا ہے ''انسان بنیادی طور پر دکھ کی مخلوق ہے، وہ زندگی بھر ایک کے بعد دوسری شے کو حاصل کرنے کی خاطر ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے اور اپنی خواہشوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتا ہے، مگر جوں ہی کوئی خواہش پوری ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ کوئی خواہش پوری ہونے سے خوفناک بوریت پیدا ہوتی ہے، ایک خلا سا جنم لیتا ہے، یوں جیون ناقابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے، انسان اس سے تنگ آکر ایک اور جدوجہد شروع کردیتا ہے، زندگی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ دکھ اور خلا کے درمیان پنڈولم ہے، اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زندگی خواہش سے بوریت تک جدو جہد ہے''۔ جب کہ حضرت سلیمان کہتے ہیں ''میں نہ صرف مبلغ دین تھا بلکہ اسرائیل کا بادشاہ تھا، میرا قیام یروشلم میں تھا، میں نے اپنی تمام زندگی علم و حکمت اور دانش کی تلاش میں گزاری اور کائنات کی ہر شے کا علم حاصل کیا، یہ کڑی راہ خدا نے صرف آدم کے لیے بنائی ہے، میں نے روئے ارض کی ہر شے کی حقیقت دیکھی اور جانی ہے، یقین کرو سب مایا، نظر کا فریب اور روح کا کرب ہے، میں نے نہایت مسرت و انبساط سے خود سے کہا تھا کہ میں ان سب انسانوں سے زیادہ دانا اور قابل ہوں، یروشلم میں میرے پاس سب سے زیادہ دولت اور جائیداد ہے، میں نے علم و حکمت کی تحصیل میں تمام عمر صرف کی اور اس اثنا میں حماقت، جنون اور پاگل پن کا سراغ بھی لگایا، لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ سب کچھ روح کا بوجھ اور دل کا الم ہے اور کچھ نہیں۔
میں نے دل میں کہا کہ کیوں نہ خوشی اور فرحت کا تجربہ کیا جائے، چنانچہ میں نے راحت و مسرت کی راہ اپنالی، لیکن پھر کیا ہوا؟ وہ بھی مایا کہ سوا کچھ نہ تھی، میں نے ہنسی مذاق میں پناہ ڈھونڈی، لیکن اسے بھی محض پاگل پن پایا، میں نے عیش کو آزمایا لیکن پھر بھی اپنے دل کو حکمت و دانائی سے خالی نہ ہونے دیا، ہمیشہ غلط کاری سے دامن بچایا، حتیٰ کہ میں یہ دیکھنے اور جاننے کے قابل ہوگیا کہ زیر آسمان بنی آدم کے لیے اچھا کیا ہے اور برا کیا، نیک کیا ہے اور بد کیا، اور اسے کون سی راہ عمل اپنانی چاہیے۔
میں نے اپنے اس شعور سے بے حد فائدہ اٹھایا، عظیم الشان محلات تعمیر کیے، میں نے پانی کے وسیع و عریض تالاب بنوائے جن سے میں اپنے باغات کو سیراب کرتا تھا، میرے پاس لاتعداد خادم اور کنیزیں تھیں، بلکہ نوکر چاکر میرے گھر میں پیدا ہوتے تھے، میرے پاس کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے مویشی تھے، جو یروشلم میں ہر کسی سے زیادہ تھے، سونے اور چاندی کے انبار اس کے علاوہ تھے، لذت میرے گھر کی لونڈی تھی، بنی آدم کو زندگی میں جو جو آسائشیں فراہم ہوسکتی ہیں یا جن کی وہ تمنا کرسکتا ہے، میرے پاس موجود تھیں، میرے دل کی کوئی آرزو، کوئی حسرت، تشنہ تکمیل نہیں تھی، لیکن یقین کرو سب کچھ مایا ہے''۔
چونکہ ہم بہت رو لیے ہیں، اس لیے آئیں اب قہقہے لگائیں، جشن منائیں، کیونکہ ہمیں تکلیف، دکھ اور اذیت میں مبتلا کرنے والے ہم سے زیادہ دکھ، تکلیف اور اذیت میں ہیں۔ یہ سب کے سب بقول شوپنہار دکھ کی مخلوق ہیں، یہ سب کے سب عذاب میں مبتلا ہیں، ظاہر ہے ان کے پاس حضرت سلیمان سے زیادہ تو ہے نہیں اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ جب حضرت سلیمان اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ سب کچھ مایا ہے تو ہمارے ان ننھے منے چھوٹے چھوٹے سے امیرو کبیر لوگوں کا غرور، اکڑ، شان و شوکت، جھوٹی آن و بان دیکھ کر انسان قہقہے نہیں لگائے تو پھر کیا کرے۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ ان کے پاس حضرت سلیمان جیسا نہ تو علم ہے اور نہ ہی عقل و دانش اور نہ ہی سمجھ بوجھ۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں آؤ قہقہے لگاؤ، جشن مناؤ، ہمارے ملک کے بدکرداروں پر، ان کے عذاب میں مبتلا ہونے پر، ان کی تکلیف اور دکھ پر۔ کیونکہ سب کچھ مایا ہے، یہ لوٹ مار، کرپشن، کمیشن سے حاصل کردہ روپوں پیسوں کے ڈھیر جلد ہی ختم ہوجائیں گے، پھر یہ کس منہ سے ہمارے پاس آئیں گے۔ یہ بھی یاد رہے وہ جو اوپر بیٹھا ہے کبھی بھی کسی بھی گناہگار کو معاف نہیں کرتا ہے اور اس کا حساب اور احتساب کمال کا ہوتا ہے۔