صحافی کالونی کے پلاٹ
آج کل سیاست میں افراتفری اور شدید اضطراب پایا جارہا ہے
KIEV:
آج کل سیاست میں افراتفری اور شدید اضطراب پایا جارہا ہے۔ ہر جگہ پاناما لیکس کی ہنگامہ آرائی ہے اور عوام اس بچگانہ کھیل کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور ہماری سیاست اس پوائنٹ پر قائم ہے کہ ہم آج بھی عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی قوت برداشت جواب دیتی جارہی ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ ہر معاشرے میں نیکیاں اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی جتنی تیزی سے برائیاں پھیلتی ہیں۔
آج ہمارے وطن میں خوشحال اور غریب اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ہر ایک زبان پر صرف ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اب ایمانداری کا زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے معاشرے میں جو حیثیت ایک امیر ترین طبقے کی ہے، غریب اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اچھا معاشرہ ہی لوگوں کی شخصیات کی تعمیر کرتا ہے۔
غربت اور افلاس آج سے 25 سال پہلے غریب کے لیے ہوتی تھی، مگر آج تو اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس بھی اس کے شکنجے میں پھنس چکی ہے اور پھر جب ایسی باتیں پیدا ہوجائیں تو عزم و حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔ کوئی بھی کسی کی خدمت کو اعتراف کمال کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہاں جب حقوق کی بات کی جائے تو کرتا دھرتا ایک بے ہنگم واویلا ضرور مچاتے ہیں۔
وقتاً فوقتاً جائز حقوق دینے کی بات تو کی جاتی ہے، پھر قرعہ اندازی ان کے نام نکلتی ہے جو حوصلے کا واویلا مچاتے ہیں۔ مسائل سے درپیش لوگ وقتی خوشی ضرور مناتے ہیں پھر ان کی آرزوئیں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک دوست نے کہاکہ آپ نے پانامالیکس کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، میں انھیں کیا بتاتا کہ بھائی یہ عوام کا مسئلہ نہیں، جو کرپشن ہونی تھی وہ ہوچکی۔ ہاں اس کا مختصر جواب ضرور دوںگا کہ تمام پاکستانی سیاست دانوں سمیت سب بالکل خاموشی سے 2018 کے الیکشن کا انتظار کریں، آگے کچھ بھی نہیں ہے۔
آج کا موضوع میرے لیے تو بہت تکلیف دہ ہے کہ آج سے 21 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جو شخص 30 برس کا تھا وہ آج 51 برس کا ہو گیا۔ نجانے کتنے گورنر اور وزیراعلیٰ آئے، جو صحافیوں کو سب سے عظیم شخصیت کہتے رہے، صرف زبانی کلامی قناعت کا درس بھی دیتے رہے، خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔
یاد رہے کہ ارکان کراچی پریس کلب کو ہاکس بے صحافی کالونی کے پلاٹ 1996 میں الاٹ کیے گئے تھے، 21 سال گزرچکے، مگر آج تک صحافیوں کو تعمیرات کی اجازت نہیں ملی، جو تمام تر ادائیگی کے بعد اپنی دستاویزات مکمل کرچکے ہیں۔ حالیہ گورنر اور وزیراعلیٰ صوبائی وزیر بلدیات ذرا غور فرمائیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی 17 مارچ کو اپنے حکم میں ایل ڈی اے کی طرف سے تعمیرات اور دستاویزات کے اجرا روکے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اب راقم آتا ہے ان 21 برسوں کی طرف۔ یہ ہماری سندھ کی قیادت کے لیے لائق تعزیر ہونا چاہیے کہ تم تو زندہ ہو مگر نجانے کتنے محترم اور عزیز صحافی ان پلاٹس کا انتظار کرتے رب کی طرف لوٹ گئے۔ اب بھلا بتایئے کہ ان کی بیوہ میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ بقایاجات ادا کرسکیں۔ یہ مقدس اسمبلی کم از کم ایسے مرحوم صحافیوں کے اہل خانہ پر رحم کرے اور ان کے بقایاجات کو ختم کرکے اس دشوار گزار اور اذیت ناک راستے کو ختم کرے۔ کیونکہ ان کے گھر کا فرد چلا گیا جو ان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ نہ جانے ان مرحوم صحافیوں کے بچے اپنے پیچیدہ مسائل کے ساتھ کس طرح پھنس رہے ہوںگے۔
گورنر اور وزیراعلیٰ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنی مخلصانہ حکمت عملی سے اس مسئلے کو حل کریں کہ آپ کو بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ ایل ڈی اے کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت سندھ کے تحریری حکم پر تمام کام روک دیا تھا۔ یقیناً اس عمل میں سندھ کے گورنر زبیر صاحب، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تو شریک کار نہیں ہوںگے کہ یہ ماضی کی بات ہے۔
گورنر سندھ نرم دل انسان ہیں۔ وزیراعلیٰ ابھی جوانی کی دہلیز پر ہیں۔ ان سے میری مودبانہ درخواست ہے جو الاٹیز اپنی قسط کے بقایاجات ادا کرنے کے قابل نہیں، ان سے درخواست لی جائے، جو حضرات مالی طور پر اگر اس قابل نہیں کہ وہ بقایا اقساط نہیں دے سکتے تو برائے مہربانی ان کی اقساط ختم کرکے پلاٹ ان کو دے دیا جائے۔ میں ذاتی طور پر ایل ڈی اے کے ایگزیکٹو انجینئر ڈویلپمنٹ سے بھی درخواست کروںگا کہ وہ خاص طور پر مرحوم صحافیوں کی بیواؤں کی بقیہ اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں۔
صحافی تو وہ طبقہ ہے، جس نے 1996 سے لے کر 2017 تک کسی بھی حکومت کے لیے اپنے پلاٹوں کے خاطر نہ کبھی قانون ہاتھ میں لیا اور نہ دھرنے دیے، نہ گورنر ہاؤس یا وزیراعلیٰ ہاؤس یا اسمبلی کا گھیراؤ کیا، یہ صرف پلاٹوں کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔ جو لوگ اتنے منظم ہوں اگر ان کے مسائل بھی حل نہ کیے جائیں تو پھر یہ سیاسی قیادت کس قسم کے لوگوں کو چاہتی ہے۔ لہٰذا آپ صحافیوں کی بیواؤں کے لیے قدم اٹھائیں، جو صحافیوں کی بیوہ خواتین، ہاکس بے صحافی کالونی، بلاک 3،3،A اور A-1 کے الاٹیز، جن کی اقساط بقایا ہیں اور جو مڈل کلاس صحافی جو اخبارات سے وابستہ ہیں، ان کی بقایا اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں اور اس معاملے میں گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اپنا ذاتی کردار ادا کرتے ہوئے اس اقساط کو نظر انداز کریں۔ اگر سیاسی لوگ کروڑوں کے قرضے معاف کراسکتے ہیں تو ان قلم کے شہ سواروں کے لیے صرف درخواست کی ہے، کیا اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔
آپ تمام حضرات مسند اقتدار پر ہیں، رب نے آپ کو فیصلے کرنے کی ہمت اور طاقت دی ہے، پھر صحافیوں کا اور آپ کا دامن چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر وزیراعلیٰ، گورنر اور ڈپٹی اسپیکر اس کرب کی داستان کو سمجھیں تو یقیناً یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ان صحافیوں کی بیواؤں کے خواب ریزہ ریزہ ہونے سے بچالیں، ان خواتین کے دکھ بھرے مسائل میں جھانکنے کی کوشش کریں، تاکہ یہ غیر یقینی صورتحال سے نکل سکیں۔ اس میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو سفید پوش ہیں مگر کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ جو صحافی یا اس کی بیوہ درخواست دے، اس کے بقایاجات پر نظر ثانی کی جائے۔
دستاویزات کا اجرا تو جب اچھا لگے گا جب ہاکس بے صحافی کالونی میں ہونے والی تعمیرات، الاٹمنٹ آرڈرز، سائٹ پلان اور پزیشن آرڈر میں آپ اپنے احساس کی خوشبو اصولی طور پر لکھ دیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 مارچ کے حکم کو قدر کی نگاہ سے دیکھیے جس میں کہا گیا کہ تعمیرات اور دستاویزات پر فوری عمل کیا جائے۔ میں پھر گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اور ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر اپنی ذاتی توجہ دیںگے کہ یہ دانشوروں اور ادب کے شہ سواروں کا معاملہ ہے۔
آج کل سیاست میں افراتفری اور شدید اضطراب پایا جارہا ہے۔ ہر جگہ پاناما لیکس کی ہنگامہ آرائی ہے اور عوام اس بچگانہ کھیل کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور ہماری سیاست اس پوائنٹ پر قائم ہے کہ ہم آج بھی عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کی قوت برداشت جواب دیتی جارہی ہے اور مزے کی بات دیکھیں کہ ہر معاشرے میں نیکیاں اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی جتنی تیزی سے برائیاں پھیلتی ہیں۔
آج ہمارے وطن میں خوشحال اور غریب اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ہر ایک زبان پر صرف ایک ہی جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اب ایمانداری کا زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے معاشرے میں جو حیثیت ایک امیر ترین طبقے کی ہے، غریب اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اچھا معاشرہ ہی لوگوں کی شخصیات کی تعمیر کرتا ہے۔
غربت اور افلاس آج سے 25 سال پہلے غریب کے لیے ہوتی تھی، مگر آج تو اعلیٰ تعلیم یافتہ مڈل کلاس بھی اس کے شکنجے میں پھنس چکی ہے اور پھر جب ایسی باتیں پیدا ہوجائیں تو عزم و حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔ کوئی بھی کسی کی خدمت کو اعتراف کمال کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہاں جب حقوق کی بات کی جائے تو کرتا دھرتا ایک بے ہنگم واویلا ضرور مچاتے ہیں۔
وقتاً فوقتاً جائز حقوق دینے کی بات تو کی جاتی ہے، پھر قرعہ اندازی ان کے نام نکلتی ہے جو حوصلے کا واویلا مچاتے ہیں۔ مسائل سے درپیش لوگ وقتی خوشی ضرور مناتے ہیں پھر ان کی آرزوئیں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک دوست نے کہاکہ آپ نے پانامالیکس کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، میں انھیں کیا بتاتا کہ بھائی یہ عوام کا مسئلہ نہیں، جو کرپشن ہونی تھی وہ ہوچکی۔ ہاں اس کا مختصر جواب ضرور دوںگا کہ تمام پاکستانی سیاست دانوں سمیت سب بالکل خاموشی سے 2018 کے الیکشن کا انتظار کریں، آگے کچھ بھی نہیں ہے۔
آج کا موضوع میرے لیے تو بہت تکلیف دہ ہے کہ آج سے 21 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جو شخص 30 برس کا تھا وہ آج 51 برس کا ہو گیا۔ نجانے کتنے گورنر اور وزیراعلیٰ آئے، جو صحافیوں کو سب سے عظیم شخصیت کہتے رہے، صرف زبانی کلامی قناعت کا درس بھی دیتے رہے، خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔
یاد رہے کہ ارکان کراچی پریس کلب کو ہاکس بے صحافی کالونی کے پلاٹ 1996 میں الاٹ کیے گئے تھے، 21 سال گزرچکے، مگر آج تک صحافیوں کو تعمیرات کی اجازت نہیں ملی، جو تمام تر ادائیگی کے بعد اپنی دستاویزات مکمل کرچکے ہیں۔ حالیہ گورنر اور وزیراعلیٰ صوبائی وزیر بلدیات ذرا غور فرمائیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی 17 مارچ کو اپنے حکم میں ایل ڈی اے کی طرف سے تعمیرات اور دستاویزات کے اجرا روکے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اب راقم آتا ہے ان 21 برسوں کی طرف۔ یہ ہماری سندھ کی قیادت کے لیے لائق تعزیر ہونا چاہیے کہ تم تو زندہ ہو مگر نجانے کتنے محترم اور عزیز صحافی ان پلاٹس کا انتظار کرتے رب کی طرف لوٹ گئے۔ اب بھلا بتایئے کہ ان کی بیوہ میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ بقایاجات ادا کرسکیں۔ یہ مقدس اسمبلی کم از کم ایسے مرحوم صحافیوں کے اہل خانہ پر رحم کرے اور ان کے بقایاجات کو ختم کرکے اس دشوار گزار اور اذیت ناک راستے کو ختم کرے۔ کیونکہ ان کے گھر کا فرد چلا گیا جو ان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ نہ جانے ان مرحوم صحافیوں کے بچے اپنے پیچیدہ مسائل کے ساتھ کس طرح پھنس رہے ہوںگے۔
گورنر اور وزیراعلیٰ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنی مخلصانہ حکمت عملی سے اس مسئلے کو حل کریں کہ آپ کو بھی اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ ایل ڈی اے کا کہنا ہے کہ انھوں نے حکومت سندھ کے تحریری حکم پر تمام کام روک دیا تھا۔ یقیناً اس عمل میں سندھ کے گورنر زبیر صاحب، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تو شریک کار نہیں ہوںگے کہ یہ ماضی کی بات ہے۔
گورنر سندھ نرم دل انسان ہیں۔ وزیراعلیٰ ابھی جوانی کی دہلیز پر ہیں۔ ان سے میری مودبانہ درخواست ہے جو الاٹیز اپنی قسط کے بقایاجات ادا کرنے کے قابل نہیں، ان سے درخواست لی جائے، جو حضرات مالی طور پر اگر اس قابل نہیں کہ وہ بقایا اقساط نہیں دے سکتے تو برائے مہربانی ان کی اقساط ختم کرکے پلاٹ ان کو دے دیا جائے۔ میں ذاتی طور پر ایل ڈی اے کے ایگزیکٹو انجینئر ڈویلپمنٹ سے بھی درخواست کروںگا کہ وہ خاص طور پر مرحوم صحافیوں کی بیواؤں کی بقیہ اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں۔
صحافی تو وہ طبقہ ہے، جس نے 1996 سے لے کر 2017 تک کسی بھی حکومت کے لیے اپنے پلاٹوں کے خاطر نہ کبھی قانون ہاتھ میں لیا اور نہ دھرنے دیے، نہ گورنر ہاؤس یا وزیراعلیٰ ہاؤس یا اسمبلی کا گھیراؤ کیا، یہ صرف پلاٹوں کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔ جو لوگ اتنے منظم ہوں اگر ان کے مسائل بھی حل نہ کیے جائیں تو پھر یہ سیاسی قیادت کس قسم کے لوگوں کو چاہتی ہے۔ لہٰذا آپ صحافیوں کی بیواؤں کے لیے قدم اٹھائیں، جو صحافیوں کی بیوہ خواتین، ہاکس بے صحافی کالونی، بلاک 3،3،A اور A-1 کے الاٹیز، جن کی اقساط بقایا ہیں اور جو مڈل کلاس صحافی جو اخبارات سے وابستہ ہیں، ان کی بقایا اقساط ختم کرانے میں اہم کردار ادا کریں اور اس معاملے میں گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اپنا ذاتی کردار ادا کرتے ہوئے اس اقساط کو نظر انداز کریں۔ اگر سیاسی لوگ کروڑوں کے قرضے معاف کراسکتے ہیں تو ان قلم کے شہ سواروں کے لیے صرف درخواست کی ہے، کیا اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔
آپ تمام حضرات مسند اقتدار پر ہیں، رب نے آپ کو فیصلے کرنے کی ہمت اور طاقت دی ہے، پھر صحافیوں کا اور آپ کا دامن چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر وزیراعلیٰ، گورنر اور ڈپٹی اسپیکر اس کرب کی داستان کو سمجھیں تو یقیناً یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ان صحافیوں کی بیواؤں کے خواب ریزہ ریزہ ہونے سے بچالیں، ان خواتین کے دکھ بھرے مسائل میں جھانکنے کی کوشش کریں، تاکہ یہ غیر یقینی صورتحال سے نکل سکیں۔ اس میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو سفید پوش ہیں مگر کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ جو صحافی یا اس کی بیوہ درخواست دے، اس کے بقایاجات پر نظر ثانی کی جائے۔
دستاویزات کا اجرا تو جب اچھا لگے گا جب ہاکس بے صحافی کالونی میں ہونے والی تعمیرات، الاٹمنٹ آرڈرز، سائٹ پلان اور پزیشن آرڈر میں آپ اپنے احساس کی خوشبو اصولی طور پر لکھ دیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 مارچ کے حکم کو قدر کی نگاہ سے دیکھیے جس میں کہا گیا کہ تعمیرات اور دستاویزات پر فوری عمل کیا جائے۔ میں پھر گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اور ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے پر اپنی ذاتی توجہ دیںگے کہ یہ دانشوروں اور ادب کے شہ سواروں کا معاملہ ہے۔