لاڑکانہ شہر میں تبدیلیاں…دوسرا حصہ

سٹیزن کلب اور پریس کلب کے درمیان ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے جسے پارک کا نام دیا گیا ہے

PESHAWAR:
لاڑکانہ شہر کی ایک بات پرانی ابھی بھی نظر آئی، وہ تھی تازہ سبزیاں اور سستے بھاؤ میں۔ کراچی میں جو چیز 80 روپے کلو مل رہی ہے وہ وہاں پر 20 روپے کلو مل رہی تھی۔ لیکن نہ دودھ مل رہا تھا، نا مکھن اور نہ اصلی لسی، کیونکہ اب دودھ کمپنیوں نے گاؤں سے ہی اٹھانے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ ہر محلے میں چائے کے ہوٹل کھل گئے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ شہر سے درختوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ ان کی دکانوں کے آگے کوئی بھی چیز نہ ہو، جس کی وجہ سے سایہ نہیں اور نہ ٹھنڈی ہوا ہے۔ سرکاری اسپتال ویران پڑے ہوئے ہیں سوائے ایمرجنسی کے اور باقی پرائیویٹ میڈیکل سینٹرز پر جلوس کی شکل میں لوگ آرہے تھے۔ ہر بڑے ڈاکٹر نے اپنے میڈیکل سینٹر، لیبارٹری اور میڈیکل اسٹور کھول رکھا ہے۔

شہر کے اندر جو نئی تبدیلی اور بھی نظر آئی وہ تھی ڈرائی فروٹ اور پنساری کی دکانیں، شوز کی دکانیں، بیکریاں اور موبائل مارکیٹ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے چھوٹے چھوٹے پارک قائم کیے گئے ہیں، مگر وہاں کوئی خاص سہولتیں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی صفائی کا انتظام ہے۔

یہ کتنی بڑی بے حسی ہے کہ لاڑکانہ شہر کے بیچ ایک تجر(Tajar) بلڈنگ ہے جہاں پر کسی زمانے میں لوکل براڈ کاسٹنگ بھی چلتا تھا اور اس سے کئی تاریخی باتیں وابستہ ہیں، اب بھی بالکل بند پڑا ہے اور ہمارے لوگوں نے اس کی دیواروں پر سیاسی نعرے لکھ دیے ہیں۔ اس تاریخی عمارت کے سامنے ایک ٹاؤن ہال تھا جہاں پر ایک لائبریری تھی، ڈسٹرکٹ کونسل کا ہال تھا، پاکستان نیشنل سینٹر کا دفتر تھا، اسے ختم کرکے نئی عمارت تعمیر کردی ہے، جس سے پرانی تاریخ کو دفن کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان بننے سے پہلے کا قائم سٹیزن کلب کی حالت بھی خراب ہے جہاں پر ایک ہال اور کمرہ چھوڑ کر شادی کے ہال کے طور پر باقی حصے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کلب کی تباہی جب سے شروع ہوئی جب سے آفیسرز کلب بنا اور سارے شہری بڑے افسروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہاں کے ممبر بنے، جبکہ وہ صرف افسران کا کلب تھا، جسے عام کلب بنادیا گیا ہے، جس کا نام تبدیل ہونا چاہیے۔

سٹیزن کلب اور پریس کلب کے درمیان ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے جسے پارک کا نام دیا گیا ہے، جو لاڑکانہ کے درویش صفت فقیر جمعو کے نام سے منسوب کیا گیا، اس کی حالت بھی بری تھی اور جمعو فقیر کی تصویر پھٹ کر گر رہی ہے، اسے درست کرنے والا کوئی نہیں ہے، جبکہ وہاں سے ہمارے صحافی دوست صبح و شام گزرتے ہیں۔ دل نے چاہا کہ میں لاڑکانہ لا کالج کو دیکھوں اور جب وہاں پہنچا تو وہ نئی عمارت میں شفٹ ہوچکا تھا، جو بڑی اچھی بنائی گئی ہے۔

اس چھوٹے سے عرصے میں ایک دن کسی مریض کے ساتھ لینار (یہ ادارہ کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے ہے) چلا گیا، جہاں پر میری ملاقات کئی ڈاکٹروں اور ٹیکنیکل اسٹاف سے ہوئی۔ یہ ادارہ بھٹو نے قائم کروایا تھا، جہاں پر اپر سندھ سے مریض آتے تھے، جنھیں زکوٰۃ اور بیت المال سے دوائیں ملتی ہیں اور باقی ادارے کی طرف سے ٹریٹمنٹ ہوتی ہے۔


مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سندھ حکومت کے اسپتالوں سے یہ سرکاری وفاقی ادارہ کتنا مختلف ہے، جہاں پر ہر کام اپنے سسٹم سے خودبخود چل رہا ہے۔ روزانہ صبح کو ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ڈاکٹروں کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں مریضوں کے مرض کی تشخیص، علاج اور امداد کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس جیسے اداروں کو حکومت سندھ سے مالی امداد ہونی چاہیے تاکہ مزید اچھے طریقے سے علاج و معالجہ کی سہولیات مل سکے۔

لاڑکانہ میں فنکاروں، ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے لیے آرٹ کونسل کا قیام خوش آیند ہے، مگر یہاں پر آپس میں نااتفاقی اور عہدوں کی جنگ کی وجہ سے اپنے مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نہ جانے کیوں ہمارے لوگ ایسے اچھے اداروں کو ذاتی سیاست کے مقاصد کے لیے تباہ کردیتے ہیں۔ اب شاید کچھ امید کی کرن نئے منتخب نمایندوں سے مل سکے۔ ان اداروں کے حساب کتاب کو ٹرانسپیرنٹ بنایا جائے تاکہ کوئی بدعنوانی نہ ہوسکے۔

لاڑکانہ میونسپل اسٹیڈیم جہاں پر مختلف کھیل، نمائش اور دوسرے سرکاری پروگرام ہوا کرتے تھے وہ کئی سال سے مرمت کے بہانے بند پڑا ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل بے زار ادھر ادھر گھومتی نظر آتی ہے۔ ایک کھڑو کمپلیکس ہے اس کی حالت بھی خاص نہیں ہے اور وہ شہر سے باہر ہے۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ پی پی پی والے تخت لاہور کی بات کرتے ہیں، مگر اپنے بارے میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ لاڑکانہ کا کیا حال کردیا ہے۔ ن لیگ نے پھر بھی لاہور کو کتنا خوبصورت بنا رکھا ہے۔

کئی سال ہوئے نیا بس ٹرمینل بنایا گیا تھا، جس کا کام آج تک مکمل نہیں ہوسکا ہے اور شہر میں جگہ جگہ کئی ویگن اڈے چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام خراب ہو رہا ہے۔ یہ تو ہائی کورٹ کو کریڈٹ جاتا ہے جس نے بڑی بسوں کو شہر کے اندر آنے اور جانے سے روکا ہوا ہے اور اب شہر کے باہر سے گاڑیاں چل رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاڑکانہ میں ٹرانسپورٹ نے بڑی ترقی کی ہے اور اب کراچی جانے کے لیے کئی نئی گاڑیاں چل رہی ہیں، جس سے عوام کو بڑی سہولت ملی ہے۔ لیکن ٹرین کا سفر مسافروں کے لیے بڑی اہمیت اب بھی رکھتا ہے، اسے تباہ کیا گیا ہے۔

لاڑکانہ اسٹیشن جو کبھی جنکشن تھا، اب قمبر شہداد کوٹ لائن بند ہونے سے اس کا یہ اعزاز ختم ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ لاڑکانہ سے اپ اور ڈاؤن تقریباً 12 گاڑیاں چلتی تھیں جو کم ہوکر دو رہ گئی ہیں، جبکہ کوئی مال گاڑی بھی نہیں چلتی، ڈرائی پورٹ بند ہوکر خستہ ہوچکا ہے۔ اسٹیشن کے پارک میں ہوٹل کھل چکے ہیں، لاڑکانہ کی اہمیت یہ ہے کہ موئن جو دڑو کے ہوتے ہوئے بھی روزانہ پی آئی اے کی فلائٹ نہیں، بس لاڑکانہ میں کراچی اور سکھر تک نئے اچھے روڈ بن گئے ہیں جس کی وجہ سے اب سفر آسان اور کم وقت کا ہوگیا ہے۔

شہید بھٹو کی رہائش گاہ المرتضیٰ سے اکثر گزر ہوتا تھا اور یہ دیکھ کے دکھ ہوتا تھا کہ اب وہاں وہ رونق نہیں، اس کے علاوہ المرتضیٰ ہاؤس کے باہر کی دیواریں گرنے کو تھیں، ایک دن ان دیواروں کو توڑ کر نئی دیواریں بنائی جا رہی تھیں۔ المرتضیٰ ہاؤس کے باہر صفائی کا انتظام میونسپل کارپوریشن کا ہے، جسے چاہیے تھا کہ وہ خاص طور پر وہاں صفائی کرواتے مگر ایسا نہیں نظر آیا، جو افسوس کی بات ہے کیونکہ المرتضیٰ تو بھٹو کا تھا اور اس میں اب بھی اس کی اولاد کی اولاد آکر رہتی ہے۔ اس کے برابر ایک پرانے زمانے کا پاور ہاؤس ہے، جہاں پر واپڈا والوں کے دفاتر ہیں۔ یہ پاور ہاؤس کسی زمانے میں لاڑکانہ شہر کو اے سی بجلی فراہم کرتا ہے۔ اس پاور ہاؤس کی طرف کسی کا دھیان نہیں، جسے دوبارہ ڈی سی کرنٹ میں تبدیل کرکے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جس سے کم ازکم لاڑکانہ شہر کا بجلی کا بحران کم ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)
Load Next Story