مت فریب میں آجائیو اسد
سیاسی معاملات کے فیصلے کبھی عدالتوں میں نہیں ہوسکتے
پاناما کیس کی سماعت پر 126 دن لگے۔ ابھی تک حکمرانوں کی حکومت بچی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سخت دیا لیکن وزیراعظم کو کلین چٹ نہیں دی ، حکومت اس وقت بھی کٹہرے میں ہے، جب تک جے آئی ٹی کی تفتیش جاری رہے گی۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاناما کیس اربوں روپے کا دھندہ یا کاروبار بن گیا اور بنا رہے گا۔ وہ لیڈران یا حکمران جن کے پاس اہم قومی مسائل کو وقت دینے کے لیے چند منٹ دستیاب نہیں ہوتے انھوں نے اپنے ہزاروں گھنٹے اور اربوں روپے وکلا کی فیسوں کی مد میں دے دیے یا اس کیس کی نذر کردیے۔
پوری قوم کو توقع تھی کہ پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ سامنے آجانے کے بعد تمام فریق اپنے مسلسل پختہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے مطابق اسے تسلیم کرلیںگے اور ملک سوا سال سے جاری اس خلفشار سے پر امن طور پر نجات پائے گا جس سے اس پوری مدت میں ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا اور الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا سمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں کا طرز عمل فیصلے کے تقاضوں کے منافی نظر آیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سیاسی معاملات کے فیصلے کبھی عدالتوں میں نہیں ہوسکتے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر سیاسی کیسوں میں لوگ سالوں تک سماعت اور انصاف کے منتظر رہتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ان لوگوں یا پھر ان ماؤں بہنوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بھائی سالوں سے جیل میں اس لیے سڑ رہا ہے کہ اسے پیشی کے لیے پیش ہی نہیں کیا جاتا لیکن دوسری طرف کبھی چار حلقوں اور کبھی پاناما کی روزانہ کی بنیادوں پر سماعت ہوتی ہے، کبھی ایک اور کبھی دوسرے سیاسی مسئلے کو عدالتوں میں لے جانے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ساری توانائیاں احتساب کے ایک آزادانہ اور منصفانہ نظام کے قیام پر صرف کی جائیں اور سیاسی تنازعات کے لیے ایک الگ آئینی عدالت قائم کی جاتی۔
جہاں سیاسی اور قومی معاملات کا بھی تصفیہ نہیں ہوپاتا اور عام پاکستانی بھی انصاف کے لیے سالہا سال دھکے کھاتا رہتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں میسر آتا۔ ایک طرف وکلا کی فیس اور ان کے وعدے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ان کا پروفیشن بھی سیاست دانوں اور میڈیا کی طرح حد سے زیادہ موضوع بحث بن گیا ہے۔ پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے آغاز میں مشہور زمانہ ناول ''گاڈ فادر'' کا جو فقرہ فاضل جج نے دہرایا کہ ''ہر دولت کے ڈھیر کے پیچھے جرم کی ایک داستان چھپی ہوتی ہے'' وہ اس موقعے یا فیصلے کے لیے بجا طور پر برمحل تھا۔
ایک سروے کے مطابق ہم بھارت سے تین گنا زیادہ کرپٹ ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی ملک و معاشرے کی بنیادی خرابی بے ایمانی ہی ہوتی ہے۔ ایمان دار ملکوں اور معاشروں میں خوشحالی زیادہ ہوتی ہے اور بے ایمان ملکوں میں بد حالی زیادہ اور یہ کڑوی سچائی بھی عالمی سطح پر ظاہر ہوچکی ہے کہ بد عنوان حکمرانوں میں دنیا بھر میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔
ہم مسلمان اپنی خوراک کے بارے میں تو بہت اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو لیکن ایسا اہتمام ہم اپنی آمدن اور دیگر ذرایع کے بارے میں نہیں کرتے۔افسوس کے ساتھ یہ تحریرکرنا پڑ رہا ہے کہ ایمان اورصداقت اب تو ایمان والوں کے پاس بھی رتی برابر نہیں بچی۔
یہ برہنہ سچائی ہے کہ پاکستان کا کئی دہائیوں سے سب سے اہم مسئلہ ایک ایسی قیادت ہے جس میں ذہانت بھی ہو۔ دانش بھی ہو، حکمت بھی، فراست بھی، دیانت بھی، دین بھی اور تاریخ بھی۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان خوش قسمت ممالک کی صف میں آخر ہم کب شامل ہوںگے جن کی قیادت میں مذکورہ بالا سارے اوصاف موجود ہوتے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست برسہا برس سے دھوکے بازی کی بنیادوں پر استوار ہے اور ہر سیاسی نعرے، سیاسی اسکینڈل اور سیاسی وعدے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا نظر آتا رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کسی گوشہ نشین صاحبِ ظرف یا صادق اور امین کو کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟
یہاں ہر طرف ایک چور دوسرے کو چور اور دوسرا تیسرے کو ڈاکو یا رہزن کہہ رہا ہے اور پاناما کے حوالے سے تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں، قانون مہیا کرنے والی راہ داریوں میں ہر طرف ایک شور مچا ہوا ہے اور لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شور مچانے والوں کی تعداد دنیا کے باقی ممالک کے شور مچانے والوں سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس شور مچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔
ہمارے ضرورت سے زیادہ شور مچانے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم کوئی فیصلہ سننے کے بعد اس فیصلے کو سمجھنے سے پہلے اپنے اندرکے فیصلے سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ خاموشی، سکون اور سکوت انسان کو حوصلہ اور عزت بھی فراہم کرتا ہے۔ اچھی اچھی باتیں سوچنے کا موقع بھی دیتا ہے۔
تاہم ملکی منظر نامے کے تناظر میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک کوئی ایسا نظام انصاف اور نظام احتساب نہیں بنایا جاتا جس میں سب کا یکساں محاسبہ ہوسکے جس میں پاناما اکاؤنٹس اور یوٹرن اور دھرنوں کا یکساں نوٹس لیا جاسکے ،سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک، تب تک ملک میں کچھ نہیں بدلے گا، چہرے ضرور بدل جائیںگے لیکن نظام نہیں بدلے گا تب تک ہم یا کوئی اور جتنے بھی پہاڑ کھودیںگے ہر پہاڑ سے چوہے ہی نکلیںگے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جسم سے روح چلی جائے تو صف ماتم بچھ جاتی ہے لیکن اگر کردار جائے تو اس کا ماتم کہیں نہیں ہوتا۔ ویسے بھی بد قسمتی ہے اس ملک کی کہ اس کے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا ماضی کبھی ایسا نہیں رہا کہ قوم ان پر اعتبار کرسکے۔
پاناما کیس کے حوالے سے ملک کے کروڑوں عوام ابتدا سے اب تک کی صورتحال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کے جاری رہنے کی صورت میں گوناگوں سنگین داخلی اور بیرونی چیلنجوں سے دو چار ملک کو مزید انتشار کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان کے لیے یہ امر بھی ناقابل فہم ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت ملک کو کرپشن سے واقعی نجات دلانا چاہتی ہے تو اپنی صفوں میں موجود کرپشن کے حوالے سے بد ترین شہرت کے حامل رہنماؤں اور شخصیات کے خلاف اقدام کیوں نہیں کرتی۔
اس امر واقعی کی بنا پر لوگ بالعموم یہ سمجھتے ہیں کہ بیشتر سیاسی رہنما پاناما کے پردے میں سیاسی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ عدالت عظمیٰ نے سزا دینے میں احتیاط کے مسئلے، عدالتی تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو ماہ کی مقررہ مدت میں پورے میکانزم اور طریقہ کارکی وضاحت کے ساتھ معاملے کی مزید تحقیقات کا حکم دیا لہٰذا سب کو اس عمل میں تعاون کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تاکہ ملک انارکی اور انتشار سے محفوظ رہے اور عدل کے تمام تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاناما کیس اربوں روپے کا دھندہ یا کاروبار بن گیا اور بنا رہے گا۔ وہ لیڈران یا حکمران جن کے پاس اہم قومی مسائل کو وقت دینے کے لیے چند منٹ دستیاب نہیں ہوتے انھوں نے اپنے ہزاروں گھنٹے اور اربوں روپے وکلا کی فیسوں کی مد میں دے دیے یا اس کیس کی نذر کردیے۔
پوری قوم کو توقع تھی کہ پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ سامنے آجانے کے بعد تمام فریق اپنے مسلسل پختہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے مطابق اسے تسلیم کرلیںگے اور ملک سوا سال سے جاری اس خلفشار سے پر امن طور پر نجات پائے گا جس سے اس پوری مدت میں ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا اور الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا سمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں کا طرز عمل فیصلے کے تقاضوں کے منافی نظر آیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سیاسی معاملات کے فیصلے کبھی عدالتوں میں نہیں ہوسکتے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر سیاسی کیسوں میں لوگ سالوں تک سماعت اور انصاف کے منتظر رہتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ان لوگوں یا پھر ان ماؤں بہنوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بھائی سالوں سے جیل میں اس لیے سڑ رہا ہے کہ اسے پیشی کے لیے پیش ہی نہیں کیا جاتا لیکن دوسری طرف کبھی چار حلقوں اور کبھی پاناما کی روزانہ کی بنیادوں پر سماعت ہوتی ہے، کبھی ایک اور کبھی دوسرے سیاسی مسئلے کو عدالتوں میں لے جانے کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ساری توانائیاں احتساب کے ایک آزادانہ اور منصفانہ نظام کے قیام پر صرف کی جائیں اور سیاسی تنازعات کے لیے ایک الگ آئینی عدالت قائم کی جاتی۔
جہاں سیاسی اور قومی معاملات کا بھی تصفیہ نہیں ہوپاتا اور عام پاکستانی بھی انصاف کے لیے سالہا سال دھکے کھاتا رہتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں میسر آتا۔ ایک طرف وکلا کی فیس اور ان کے وعدے آسمان سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ان کا پروفیشن بھی سیاست دانوں اور میڈیا کی طرح حد سے زیادہ موضوع بحث بن گیا ہے۔ پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے آغاز میں مشہور زمانہ ناول ''گاڈ فادر'' کا جو فقرہ فاضل جج نے دہرایا کہ ''ہر دولت کے ڈھیر کے پیچھے جرم کی ایک داستان چھپی ہوتی ہے'' وہ اس موقعے یا فیصلے کے لیے بجا طور پر برمحل تھا۔
ایک سروے کے مطابق ہم بھارت سے تین گنا زیادہ کرپٹ ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی ملک و معاشرے کی بنیادی خرابی بے ایمانی ہی ہوتی ہے۔ ایمان دار ملکوں اور معاشروں میں خوشحالی زیادہ ہوتی ہے اور بے ایمان ملکوں میں بد حالی زیادہ اور یہ کڑوی سچائی بھی عالمی سطح پر ظاہر ہوچکی ہے کہ بد عنوان حکمرانوں میں دنیا بھر میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔
ہم مسلمان اپنی خوراک کے بارے میں تو بہت اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو لیکن ایسا اہتمام ہم اپنی آمدن اور دیگر ذرایع کے بارے میں نہیں کرتے۔افسوس کے ساتھ یہ تحریرکرنا پڑ رہا ہے کہ ایمان اورصداقت اب تو ایمان والوں کے پاس بھی رتی برابر نہیں بچی۔
یہ برہنہ سچائی ہے کہ پاکستان کا کئی دہائیوں سے سب سے اہم مسئلہ ایک ایسی قیادت ہے جس میں ذہانت بھی ہو۔ دانش بھی ہو، حکمت بھی، فراست بھی، دیانت بھی، دین بھی اور تاریخ بھی۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان خوش قسمت ممالک کی صف میں آخر ہم کب شامل ہوںگے جن کی قیادت میں مذکورہ بالا سارے اوصاف موجود ہوتے ہیں۔ ہماری ملکی سیاست برسہا برس سے دھوکے بازی کی بنیادوں پر استوار ہے اور ہر سیاسی نعرے، سیاسی اسکینڈل اور سیاسی وعدے کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد چھپا نظر آتا رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کسی گوشہ نشین صاحبِ ظرف یا صادق اور امین کو کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟
یہاں ہر طرف ایک چور دوسرے کو چور اور دوسرا تیسرے کو ڈاکو یا رہزن کہہ رہا ہے اور پاناما کے حوالے سے تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں، قانون مہیا کرنے والی راہ داریوں میں ہر طرف ایک شور مچا ہوا ہے اور لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شور مچانے والوں کی تعداد دنیا کے باقی ممالک کے شور مچانے والوں سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات تو یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس شور مچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔
ہمارے ضرورت سے زیادہ شور مچانے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم کوئی فیصلہ سننے کے بعد اس فیصلے کو سمجھنے سے پہلے اپنے اندرکے فیصلے سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ خاموشی، سکون اور سکوت انسان کو حوصلہ اور عزت بھی فراہم کرتا ہے۔ اچھی اچھی باتیں سوچنے کا موقع بھی دیتا ہے۔
تاہم ملکی منظر نامے کے تناظر میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جب تک کوئی ایسا نظام انصاف اور نظام احتساب نہیں بنایا جاتا جس میں سب کا یکساں محاسبہ ہوسکے جس میں پاناما اکاؤنٹس اور یوٹرن اور دھرنوں کا یکساں نوٹس لیا جاسکے ،سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک، تب تک ملک میں کچھ نہیں بدلے گا، چہرے ضرور بدل جائیںگے لیکن نظام نہیں بدلے گا تب تک ہم یا کوئی اور جتنے بھی پہاڑ کھودیںگے ہر پہاڑ سے چوہے ہی نکلیںگے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جسم سے روح چلی جائے تو صف ماتم بچھ جاتی ہے لیکن اگر کردار جائے تو اس کا ماتم کہیں نہیں ہوتا۔ ویسے بھی بد قسمتی ہے اس ملک کی کہ اس کے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا ماضی کبھی ایسا نہیں رہا کہ قوم ان پر اعتبار کرسکے۔
پاناما کیس کے حوالے سے ملک کے کروڑوں عوام ابتدا سے اب تک کی صورتحال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کے جاری رہنے کی صورت میں گوناگوں سنگین داخلی اور بیرونی چیلنجوں سے دو چار ملک کو مزید انتشار کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان کے لیے یہ امر بھی ناقابل فہم ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت ملک کو کرپشن سے واقعی نجات دلانا چاہتی ہے تو اپنی صفوں میں موجود کرپشن کے حوالے سے بد ترین شہرت کے حامل رہنماؤں اور شخصیات کے خلاف اقدام کیوں نہیں کرتی۔
اس امر واقعی کی بنا پر لوگ بالعموم یہ سمجھتے ہیں کہ بیشتر سیاسی رہنما پاناما کے پردے میں سیاسی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں جب کہ عدالت عظمیٰ نے سزا دینے میں احتیاط کے مسئلے، عدالتی تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو ماہ کی مقررہ مدت میں پورے میکانزم اور طریقہ کارکی وضاحت کے ساتھ معاملے کی مزید تحقیقات کا حکم دیا لہٰذا سب کو اس عمل میں تعاون کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تاکہ ملک انارکی اور انتشار سے محفوظ رہے اور عدل کے تمام تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔