افغانستان میں امن قائم ہونے تک پاکستان میں امن نہیں ہو سکتا اسپیکر قومی اسمبلی
افغان قیادت نے اعتراف کیا کہ افغانستان کا 50 فیصد علاقہ ان کے کنٹرول نہیں ہے، سردار ایاز صادق
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہونے تک پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ دورہ افغانستان میں افغان قیادت سے اچھی گفتگو ہوئی، افغان قیادت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک کا 50 فیصد علاقہ ان کے کنٹرول نہیں ہے، یعنی آدھے افغانستان پر یا تو طالبان یا پھر داعش اور دیگر تنظیموں کا کنٹرول ہے، افغان حکام کی خواہش ہے کہ ان کے ملک میں امن آئے اور اس کے لئے افغان حکومت کی جانب سے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چمن سرحر پر جو کچھ ہوا بہت برا ہوا اور پاکستان نے اس کا سخت نوٹس بھی لیا ہے، دفتر خارجہ نے افغان سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور افغان قیادت سے جب بھی بات ہو گی تو اس معاملے پر بات ضرور کریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: افغان فورسز کی گولہ باری کے باعث چمن بارڈر تیسرے روز بھی بند
سردار ایاز صادق نے کہا کہ بارڈر سیکیورٹی اور مانیٹرنگ سے متعلق بھی بات ہوئی لیکن تاحال اس کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا، افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان آنے کی دعوت قبول کی تھی اور جب افغانستان کا وفد آئے گا تو ان سے معاملے پر بات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک افغان سرحد پرایک ہزار چیک پوسٹیں بنا رہا ہے جس کا مقصد سرحد کو محفوظ بنانا اور دہشت گردوں کی آمدورفت کو روکنا ہے، سرحد محفوظ ہونے سے کسی کو لگہ نہیں رہے گا۔ ایران کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہترین ہیں اور ایرانی صدر نے بھارت میں کہا ہے آپ کے کہنے پر پاکستان سے تعلقات خراب نہیں کریں گے، لیکن کوشش ہونی چاہیئے کہ ایسی بیان بازی نہ کی جائے جس سے تعلقات خراب ہوں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: جارحیت کا جواب دینے کیلئے افغان فورسز کی چیک پوسٹیں تباہ کرنی پڑیں
اسپیکر قومی اسبملی کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی مدت جون 2018 میں پوری ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں وزیر خارجہ نہیں ہے اور جب پڑھے لکھے لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے، وزیراعظم کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ 5 مشیر رکھ سکتے ہیں جن کا اسٹیٹس وفاقی وزراء کے برابر ہوتا ہے، سرتاج عزیز وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور ہونے کے ساتھ ایک مکمل وزیر خارجہ بھی ہیں اور وہ خارجہ امور پر قومی اسمبلی میں سینیٹ میں جواب بھی دیتے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ دورہ افغانستان میں افغان قیادت سے اچھی گفتگو ہوئی، افغان قیادت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک کا 50 فیصد علاقہ ان کے کنٹرول نہیں ہے، یعنی آدھے افغانستان پر یا تو طالبان یا پھر داعش اور دیگر تنظیموں کا کنٹرول ہے، افغان حکام کی خواہش ہے کہ ان کے ملک میں امن آئے اور اس کے لئے افغان حکومت کی جانب سے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چمن سرحر پر جو کچھ ہوا بہت برا ہوا اور پاکستان نے اس کا سخت نوٹس بھی لیا ہے، دفتر خارجہ نے افغان سفیر کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور افغان قیادت سے جب بھی بات ہو گی تو اس معاملے پر بات ضرور کریں گے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: افغان فورسز کی گولہ باری کے باعث چمن بارڈر تیسرے روز بھی بند
سردار ایاز صادق نے کہا کہ بارڈر سیکیورٹی اور مانیٹرنگ سے متعلق بھی بات ہوئی لیکن تاحال اس کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا، افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان آنے کی دعوت قبول کی تھی اور جب افغانستان کا وفد آئے گا تو ان سے معاملے پر بات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک افغان سرحد پرایک ہزار چیک پوسٹیں بنا رہا ہے جس کا مقصد سرحد کو محفوظ بنانا اور دہشت گردوں کی آمدورفت کو روکنا ہے، سرحد محفوظ ہونے سے کسی کو لگہ نہیں رہے گا۔ ایران کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات بہترین ہیں اور ایرانی صدر نے بھارت میں کہا ہے آپ کے کہنے پر پاکستان سے تعلقات خراب نہیں کریں گے، لیکن کوشش ہونی چاہیئے کہ ایسی بیان بازی نہ کی جائے جس سے تعلقات خراب ہوں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: جارحیت کا جواب دینے کیلئے افغان فورسز کی چیک پوسٹیں تباہ کرنی پڑیں
اسپیکر قومی اسبملی کا کہنا تھا کہ موجودہ اسمبلی کی مدت جون 2018 میں پوری ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں وزیر خارجہ نہیں ہے اور جب پڑھے لکھے لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے، وزیراعظم کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ 5 مشیر رکھ سکتے ہیں جن کا اسٹیٹس وفاقی وزراء کے برابر ہوتا ہے، سرتاج عزیز وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور ہونے کے ساتھ ایک مکمل وزیر خارجہ بھی ہیں اور وہ خارجہ امور پر قومی اسمبلی میں سینیٹ میں جواب بھی دیتے ہیں۔