پیپلز پارٹی کے مخالفین اکٹھا
قوم پرستوں اور نواز شریف کا سیاسی شو ناکام رہا؟
سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے ہالا سے انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ہالا بائی پاس پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے جلسۂ عام میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
اس کا مقصد پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی میدان میں مزید مشکلات پیدا کرنا تھا۔ اس جلسے میں مقررین نے صدر آصف علی زرداری اور ان کی جماعت پر شدید تنقید کی۔ اس جلسے میں میاں محمد نواز شریف نے بھی پی پی پی کی حکومت کو ناکام بتاتے ہوئے عام انتخابات میں سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ مل کر مخالفین کو شکست دینے کی بات کی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ہالا سے انتخابی مہم کے ابتدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب تک سندھی قوم پرستوں اور مسلم لیگ ن کو دیگر علاقوں کی نسبت یہاں سے سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ مٹیاری ضلع میں پی پی پی دیگر جماعتوں کے لیے ناقابل شکست رہی ہے، ماضی میں بھی مٹیاری سے پی پی پی کے خلاف اتحاد بتنے رہے ہیں، لیکن ہالا کا مخدوم خاندان ہمیشہ انھیں شکست دیتا رہا ہے اور پی پی پی کے مخدوم امین فہیم کے مقابلے پر اس وقت کوئی مضبوط امیدوار مخالفوں کے پاس موجود نہیں ہے۔
پچھلے دنوں صدر آصف علی زرداری کی ہالا میں مخدوم ہاؤس آمد پر فنکشنل مسلم لیگ کے راہ نما سید جلال شاہ جاموٹ نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ پی پی پی کے مخالف اتحاد کی مضبوط سیاسی شخصیت مخدوم شاہ نواز کے انتقال بعد جلال شاہ جاموٹ مٹیاری ضلع میں پی پی پی کو مشکل میں ڈال سکتے تھے، لیکن وہ بھی اپنی وفاداری کا وزن اس کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔ ہالا کے حالیہ سیاسی جلسے میں شرکاء کی تعداد قابل ذکر نہیں تھی۔ قوم پرستوں نے میاں نواز شریف کو ہالا تو بلا لیا، لیکن خود میاں صاحب کو بھی ضرور حیرانی ہوئی ہو گی کہ جہاں ممتاز بھٹو، ڈاکٹر قادر مگسی، لیاقت جتوئی، شاہ محمد شاہ، سورٹھ تھیبو، جلال محمود شاہ سمیت متعدد اہم قوم پرست راہ نما موجود ہیں، وہاں شرکاء اتنے کم کیوں ہیں۔ یہ تعداد تین ہزار تک بتائی جاتی ہے۔
سیاسی مبصرین نے اسے سندھی قوم پرستوں اور نواز شریف کا ناکام سیاسی شو قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس اس سے چند روز پہلے فنکشنل مسلم لیگ مٹیاری کے راہ نما مخدوم شہزاد نے ایک جلسہ کیا تھا، جس میں لگ بھگ تین ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔ دوسری جانب ہالا کے دو اہم راہ نما رئیس نظیر احمد راہو اور پی پی پی کے ناراض راہ نما رئیس علی احمد نظامانی نے پی پی پی مخالف اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، مگر لگتا ہے کہ وہ دوبارہ پی پی پی کے ساتھ ہو جائیں گے، کیوں کہ مخدوم امین فہیم نے اس مرتبہ مٹیاری ضلع کو فتح کرنے کا ٹاسک اپنے بھائی مخدوم رفیق الزماں کے سپرد کیا ہے، جو مختلف وزارتوں پر اور حیدر آباد کے سابق ضلع ناظم بھی رہے ہیں۔ انھیں سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے امید ہے کہ وہ اپنا ساتھ چھوڑنے والوں کو اپنے قافلے میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف پی پی پی کے علاقے میں مضبوط مخالف مخدوم شاہ نواز (مرحوم) کے بھائی مخدوم فضل حسین کے پاس جاتے اور انھیں مسلم لیگ ن میں شمولیت پر آمادہ کرتے تو پھر ہالا میں پی پی پی کو عام الیکشن میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا، مگر مٹیاری کے عوامی حلقوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ مخدوم شاہ نواز (مرحوم) مسلم لیگ، سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی تھے، لیکن نواز شریف ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے ہالا ہاؤس تک نہیں گئے، جب کہ جلسۂ عام میں ہالا کے میدان میں ہزاروں لوگوں نے میاں نواز شریف کے بھائی عباس شریف (مرحوم) کے لیے فاتحہ خوانی کی، لیکن ہالا کی سرزمین کے مرحوم مخدوم شاہ نواز کے لیے دعا کے لیے ہاتھ تک نہیں اٹھائے۔
مٹیاری ضلع کے عوام جہاں پی پی پی سے نالاں ہیں، وہیں مسلم لیگ ن سے بھی ناخوش نظر آتے ہیں، یہاں کے عوام کی خدمت کے لیے جنرل مشرف کے دور میں فنکشنل لیگ کو بھی اقتدار ملا اور ضلع ناظم سید محمد علی شاہ جاموٹ بنے، لیکن انھوں نے بھی عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیا، عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی موجودگی یہاں برائے نام ہی ہے، جب کہ متحدہ کے چند مقامی راہ نماؤں نے بھی اپنی جماعت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں سیاسی جماعتوں کی منشور کی حامل کوئی نئی قیادت عام انتخابات میں کام یاب ہوتی نظر نہیں آرہی بلکہ یہاں پر ایک بار پھر روایتی سیاست کا زور ہوگا۔
اس کا مقصد پیپلز پارٹی کے لیے سیاسی میدان میں مزید مشکلات پیدا کرنا تھا۔ اس جلسے میں مقررین نے صدر آصف علی زرداری اور ان کی جماعت پر شدید تنقید کی۔ اس جلسے میں میاں محمد نواز شریف نے بھی پی پی پی کی حکومت کو ناکام بتاتے ہوئے عام انتخابات میں سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ مل کر مخالفین کو شکست دینے کی بات کی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ہالا سے انتخابی مہم کے ابتدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب تک سندھی قوم پرستوں اور مسلم لیگ ن کو دیگر علاقوں کی نسبت یہاں سے سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ مٹیاری ضلع میں پی پی پی دیگر جماعتوں کے لیے ناقابل شکست رہی ہے، ماضی میں بھی مٹیاری سے پی پی پی کے خلاف اتحاد بتنے رہے ہیں، لیکن ہالا کا مخدوم خاندان ہمیشہ انھیں شکست دیتا رہا ہے اور پی پی پی کے مخدوم امین فہیم کے مقابلے پر اس وقت کوئی مضبوط امیدوار مخالفوں کے پاس موجود نہیں ہے۔
پچھلے دنوں صدر آصف علی زرداری کی ہالا میں مخدوم ہاؤس آمد پر فنکشنل مسلم لیگ کے راہ نما سید جلال شاہ جاموٹ نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ پی پی پی کے مخالف اتحاد کی مضبوط سیاسی شخصیت مخدوم شاہ نواز کے انتقال بعد جلال شاہ جاموٹ مٹیاری ضلع میں پی پی پی کو مشکل میں ڈال سکتے تھے، لیکن وہ بھی اپنی وفاداری کا وزن اس کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔ ہالا کے حالیہ سیاسی جلسے میں شرکاء کی تعداد قابل ذکر نہیں تھی۔ قوم پرستوں نے میاں نواز شریف کو ہالا تو بلا لیا، لیکن خود میاں صاحب کو بھی ضرور حیرانی ہوئی ہو گی کہ جہاں ممتاز بھٹو، ڈاکٹر قادر مگسی، لیاقت جتوئی، شاہ محمد شاہ، سورٹھ تھیبو، جلال محمود شاہ سمیت متعدد اہم قوم پرست راہ نما موجود ہیں، وہاں شرکاء اتنے کم کیوں ہیں۔ یہ تعداد تین ہزار تک بتائی جاتی ہے۔
سیاسی مبصرین نے اسے سندھی قوم پرستوں اور نواز شریف کا ناکام سیاسی شو قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس اس سے چند روز پہلے فنکشنل مسلم لیگ مٹیاری کے راہ نما مخدوم شہزاد نے ایک جلسہ کیا تھا، جس میں لگ بھگ تین ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔ دوسری جانب ہالا کے دو اہم راہ نما رئیس نظیر احمد راہو اور پی پی پی کے ناراض راہ نما رئیس علی احمد نظامانی نے پی پی پی مخالف اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے، مگر لگتا ہے کہ وہ دوبارہ پی پی پی کے ساتھ ہو جائیں گے، کیوں کہ مخدوم امین فہیم نے اس مرتبہ مٹیاری ضلع کو فتح کرنے کا ٹاسک اپنے بھائی مخدوم رفیق الزماں کے سپرد کیا ہے، جو مختلف وزارتوں پر اور حیدر آباد کے سابق ضلع ناظم بھی رہے ہیں۔ انھیں سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے امید ہے کہ وہ اپنا ساتھ چھوڑنے والوں کو اپنے قافلے میں دوبارہ شامل کرسکتے ہیں۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف پی پی پی کے علاقے میں مضبوط مخالف مخدوم شاہ نواز (مرحوم) کے بھائی مخدوم فضل حسین کے پاس جاتے اور انھیں مسلم لیگ ن میں شمولیت پر آمادہ کرتے تو پھر ہالا میں پی پی پی کو عام الیکشن میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا، مگر مٹیاری کے عوامی حلقوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ مخدوم شاہ نواز (مرحوم) مسلم لیگ، سندھ کے جنرل سیکریٹری بھی تھے، لیکن نواز شریف ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے ہالا ہاؤس تک نہیں گئے، جب کہ جلسۂ عام میں ہالا کے میدان میں ہزاروں لوگوں نے میاں نواز شریف کے بھائی عباس شریف (مرحوم) کے لیے فاتحہ خوانی کی، لیکن ہالا کی سرزمین کے مرحوم مخدوم شاہ نواز کے لیے دعا کے لیے ہاتھ تک نہیں اٹھائے۔
مٹیاری ضلع کے عوام جہاں پی پی پی سے نالاں ہیں، وہیں مسلم لیگ ن سے بھی ناخوش نظر آتے ہیں، یہاں کے عوام کی خدمت کے لیے جنرل مشرف کے دور میں فنکشنل لیگ کو بھی اقتدار ملا اور ضلع ناظم سید محمد علی شاہ جاموٹ بنے، لیکن انھوں نے بھی عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیا، عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی موجودگی یہاں برائے نام ہی ہے، جب کہ متحدہ کے چند مقامی راہ نماؤں نے بھی اپنی جماعت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں سیاسی جماعتوں کی منشور کی حامل کوئی نئی قیادت عام انتخابات میں کام یاب ہوتی نظر نہیں آرہی بلکہ یہاں پر ایک بار پھر روایتی سیاست کا زور ہوگا۔