طاہر القادری کو لانگ مارچ سے کیا حاصل ہوا
لانگ مارچ کا مثبت پہلو محض یہ تھا کہ یہ مارچ شروع سے لے کر آخر تک پُرامن رہا
انتخابی اصلاحات کے نام پر وفاقی دارالحکومت میں منعقدہ قادری انقلاب وفاقی حکومت کے ساتھ بلٹ پروف کنٹینر کے اندر جناح ایونیو کے مقام پر ایک معاہدے کے نتیجے میں اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔
''انقلاب عظیم'' کے پُرامن انداز میں ڈراپ سین کے باوجود ابھی تک اس پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے اس لانگ مارچ کے کیا مقاصد تھے؟ ڈاکٹر طاہر القادری کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا، عام انتخابات سے دو ماہ قبل انتخابی اصلاحات کی آڑ میں اس مارچ کا کیا جواز تھا، یہ ایک عام شہری اس ''انقلاب عظیم'' کے اغراض و مقاصد کو تاحال سمجھنے سے عاری ہے، ڈاکٹر طاہر القادری پہلے بھی متنازعہ تھے تاہم رہی سہی کسر اس مارچ نے نکال دی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے بلیو ایریا اسلام آباد میں پہنچتے ہی اپنے پہلے خطاب میں قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ہی سانس میں صدرِ مملکت، وزیر اعظم اور پوری کابینہ کو سابق قرار دیا، مطالبات تھے جو مسلسل طول پکڑ رہے تھے، ڈاکٹر طاہر القادری نے آتے ہی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو توڑ دیا اور اپنا سٹیج ریڈ زون میں منتقل کرنے کیلئے انتظامیہ کو ڈیڈ لائن دے دی، ان کی خواہش پر جناح ایونیو میں ان کے بلٹ پروف کنٹینر کی فوری جگہ مختص کی گئی۔
ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کو مسلسل دھمکیاں دیتے رہے، وہ اس حکومت کے خلاف مسلسل چارج شیٹ پیش کرتے رہے، پوری قوم ان کے اعلانات اور بعد ازاں بڑے پیمانے پر قول و فعل میں تضاد پر محو حیرت ہے، وہ جنہیں یزید قرار دیتے رہے انہی کے ساتھ بیٹھ کر ایک نام نہاد معاہدہ کر کے لاہور روانہ ہو گئے۔ وہ منظر دیدنی تھا جب سپریم کورٹ کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر 22 افراد کو گرفتار کرنے کی خبر ان تک پہنچی تو وہ اپنے آپ پر قابو نہ پا سکے اور مبارک ہو۔
مبارک ہو، مبارک ہو کے فلک شگاف نعرے لگوانے شروع کر دیئے اور کہا کہ عدالت نے وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے عدالتی فیصلہ کو اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور اعلان کیا کہ آدھا کام ہو گیا ہے آدھا کل تک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے ہزاروں شرکاء کو اس عدالتی فیصلے پر دو رکعت نفل ادا کرنے کا حکم صادر کر دیا اور لوگ سجدہ ریز ہو گئے، وہ وزیر اعظم جس کو وہ سابق قرار دے چکے تھے اور شکرانے کے نوافل بھی ادا کر چکے تھے اسی معاہدے پر وزیر اعظم سے دستخط کرائے گئے جنہیں وہ بار بار فرعون، کرپٹ، لٹیرے اور مفاد پرست ٹولہ قرار دے رہے تھے، ان کے ساتھ معاہدے کو تھوڑی دیر بعد جمہوریت اور ملک کیلئے تاریخی دستاویز قرار دے رہے تھے۔
اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کا مقصد عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا تھا، اس لانگ مارچ کو جمہوریت اور انتخابات کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اگر ان عزائم کے ساتھ لانگ مارچ کیا تھا تو وہ پورا نہیں ہوا، وہ بار بار یہ صفائیاں پیش کرتے رہے کہ ان کے پیچھے امریکہ، برطانیہ اور دیگر قوتیں نہیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کو اب ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر نہ یقین ہے اور نہ کوئی مستقبل میں ان پر اعتماد کرے گا، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے اس قادری انقلاب پر بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 40لاکھ کا اجتماع یزیدی مذاکرات میں بہہ گیا ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی بات کرتے ہیں۔
موصوف غیر ملکی شہری ہیں وہ خود اس قانون پر پورا نہیں اترتے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ 40 سے 50 ہزار لوگوں کے اس لانگ مارچ کو 40 لاکھ قرار دیتے رہے ، زمینی حقائق تو یہ ہے کہ وہ جو تحریری نام نہاد معاہدہ کر کے گئے ہیں، وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، اس معاہدے کی نہ تو کوئی آئینی حیثیت ہے اور نہ قانونی، ماورائے آئینی مطالبات پیش کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے مذاکراتی ٹیم کا تعارف کرواتے ہوئے الفاظ تو یہی کہہ رہے ہیں کہ علامہ صاحب حکمران اتحاد میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔
لانگ مارچ کا مثبت پہلو محض یہ تھا کہ یہ مارچ شروع سے لے کر آخر تک پُرامن رہا، قومی اسمبلی کا آخری اجلاس شروع ہو چکا ہے، حکومتی ارکان اسمبلی نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان معاہدے کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا ہے، رینٹل پاور کیس کے تحقیقاتی آفیسر کامران فیصل کی پُر اسرار ہلاکت کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ ہائی پروفائل کیس کے تحقیقاتی آفیسر کی اچانک موت نے حکومتی ایوانوں میں ایک ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔
''انقلاب عظیم'' کے پُرامن انداز میں ڈراپ سین کے باوجود ابھی تک اس پر تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے اس لانگ مارچ کے کیا مقاصد تھے؟ ڈاکٹر طاہر القادری کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی؟ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا، عام انتخابات سے دو ماہ قبل انتخابی اصلاحات کی آڑ میں اس مارچ کا کیا جواز تھا، یہ ایک عام شہری اس ''انقلاب عظیم'' کے اغراض و مقاصد کو تاحال سمجھنے سے عاری ہے، ڈاکٹر طاہر القادری پہلے بھی متنازعہ تھے تاہم رہی سہی کسر اس مارچ نے نکال دی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے بلیو ایریا اسلام آباد میں پہنچتے ہی اپنے پہلے خطاب میں قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ہی سانس میں صدرِ مملکت، وزیر اعظم اور پوری کابینہ کو سابق قرار دیا، مطالبات تھے جو مسلسل طول پکڑ رہے تھے، ڈاکٹر طاہر القادری نے آتے ہی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو توڑ دیا اور اپنا سٹیج ریڈ زون میں منتقل کرنے کیلئے انتظامیہ کو ڈیڈ لائن دے دی، ان کی خواہش پر جناح ایونیو میں ان کے بلٹ پروف کنٹینر کی فوری جگہ مختص کی گئی۔
ڈاکٹر طاہر القادری حکومت کو مسلسل دھمکیاں دیتے رہے، وہ اس حکومت کے خلاف مسلسل چارج شیٹ پیش کرتے رہے، پوری قوم ان کے اعلانات اور بعد ازاں بڑے پیمانے پر قول و فعل میں تضاد پر محو حیرت ہے، وہ جنہیں یزید قرار دیتے رہے انہی کے ساتھ بیٹھ کر ایک نام نہاد معاہدہ کر کے لاہور روانہ ہو گئے۔ وہ منظر دیدنی تھا جب سپریم کورٹ کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر 22 افراد کو گرفتار کرنے کی خبر ان تک پہنچی تو وہ اپنے آپ پر قابو نہ پا سکے اور مبارک ہو۔
مبارک ہو، مبارک ہو کے فلک شگاف نعرے لگوانے شروع کر دیئے اور کہا کہ عدالت نے وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے عدالتی فیصلہ کو اپنے کھاتے میں ڈال دیا اور اعلان کیا کہ آدھا کام ہو گیا ہے آدھا کل تک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کے ہزاروں شرکاء کو اس عدالتی فیصلے پر دو رکعت نفل ادا کرنے کا حکم صادر کر دیا اور لوگ سجدہ ریز ہو گئے، وہ وزیر اعظم جس کو وہ سابق قرار دے چکے تھے اور شکرانے کے نوافل بھی ادا کر چکے تھے اسی معاہدے پر وزیر اعظم سے دستخط کرائے گئے جنہیں وہ بار بار فرعون، کرپٹ، لٹیرے اور مفاد پرست ٹولہ قرار دے رہے تھے، ان کے ساتھ معاہدے کو تھوڑی دیر بعد جمہوریت اور ملک کیلئے تاریخی دستاویز قرار دے رہے تھے۔
اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کا مقصد عام انتخابات کو سبوتاژ کرنا تھا، اس لانگ مارچ کو جمہوریت اور انتخابات کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اگر ان عزائم کے ساتھ لانگ مارچ کیا تھا تو وہ پورا نہیں ہوا، وہ بار بار یہ صفائیاں پیش کرتے رہے کہ ان کے پیچھے امریکہ، برطانیہ اور دیگر قوتیں نہیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کو اب ڈاکٹر صاحب کی کسی بات پر نہ یقین ہے اور نہ کوئی مستقبل میں ان پر اعتماد کرے گا، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے اس قادری انقلاب پر بڑا دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 40لاکھ کا اجتماع یزیدی مذاکرات میں بہہ گیا ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی بات کرتے ہیں۔
موصوف غیر ملکی شہری ہیں وہ خود اس قانون پر پورا نہیں اترتے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ 40 سے 50 ہزار لوگوں کے اس لانگ مارچ کو 40 لاکھ قرار دیتے رہے ، زمینی حقائق تو یہ ہے کہ وہ جو تحریری نام نہاد معاہدہ کر کے گئے ہیں، وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، اس معاہدے کی نہ تو کوئی آئینی حیثیت ہے اور نہ قانونی، ماورائے آئینی مطالبات پیش کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے مذاکراتی ٹیم کا تعارف کرواتے ہوئے الفاظ تو یہی کہہ رہے ہیں کہ علامہ صاحب حکمران اتحاد میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔
لانگ مارچ کا مثبت پہلو محض یہ تھا کہ یہ مارچ شروع سے لے کر آخر تک پُرامن رہا، قومی اسمبلی کا آخری اجلاس شروع ہو چکا ہے، حکومتی ارکان اسمبلی نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان معاہدے کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا ہے، رینٹل پاور کیس کے تحقیقاتی آفیسر کامران فیصل کی پُر اسرار ہلاکت کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ ہائی پروفائل کیس کے تحقیقاتی آفیسر کی اچانک موت نے حکومتی ایوانوں میں ایک ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔