احتجاج کرنے والوں سے مذاکرات کی بجائے تشدد کی پالیسی
گورنر ہائوس پشاور کے باہر دھرنے کے باوجود تاحال واقعy کی تحقیقات کے لیے تحقیقات کے احکامات جاری نہیں ہوئے۔
کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی جانب سے لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنے کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے ہی باڑہ میں 18 افراد کی ہلاکت کے بعد ان کے لواحقین نے بھی پشاور میں گورنر ہائوس کے باہر لاشوں کے ساتھ دھرنا دے کر روڈبلاک کردیا۔
ان کا خیال یہ تھا کہ جس طریقہ سے بلوچستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے وہاں کے احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کو تسلیم کیا اور اس کے بعد احتجاج ختم کیا گیا اسی طرح پشاور میں بھی یہ قبائلی عوام اس وقت اپنا احتجاج ختم کریں گے جب ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیاجائے گا تاہم مطالبات کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے اور اس بارے میں احتجاج کرنے والوں کے درمیان جاری مشاورت کے دوران ہی رات کے اندھیرے میں پولیس نے واٹر کینن ،شیلنگ اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے مظاہرین کو وہاں سے ہٹادیا اور لاشوں کو فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ۔
بظاہر تو لاشوں کے ہٹانے اور مظاہرین کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے بعد میدان خالی ہوگیا تاہم یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی اس واقعہ پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور اس بات کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس واقعہ کا ری ایکشن بھی ہوگا اور یہ ری ایکشن ممکنہ طور پر پشاور ہی میں ہوسکتا ہے ۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں اٹھارہ افراد کی ہلاکت کے معاملے پر ایف سی کی وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ ان میں سے کچھ عام شہری تھے جنھیں عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا جبکہ کچھ عسکریت پسند تھے جو سیکورٹی فورسز پر حملے کے دوران ہلاک ہوئے اور بعد میں عسکریت پسندوں نے ان کی لاشیں بھی شہریوں کی لاشوں کے ساتھ باڑہ کے علاقہ میں پھینک دیں اور اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا،تاہم اس سلسلے میں اس بارے میں فوری طور پر انکوائری قائم کرتے ہوئے تمام حقائق کو منظر عام پر لانا چاہیے تھا۔
تاہم اس واقعہ اور گورنر ہائوس پشاور کے باہر دھرنے اور احتجاج کو کئی روز گزرنے کے باوجود تاحال مرکزی حکومت یا گورنر کی جانب سے واقعہ کی تحقیقات کے لیے کسی انکوائری کمیٹی یا کمیشن کے قیام کے احکامات جاری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے ، اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو اس سے مسائل میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ،خیبرایجنسی میں تیسرا ،چوتھا آپریشن جاری ہے اور ہر آپریشن شروع ہوتے وقت یہ امید اور دلاسہ دلایاجاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ کردیاجائے گا۔
تاہم آپریشن ختم ہوجاتا ہے اور نتائج کا پتا نہیں چلتا جس کے نیتجہ میں کچھ عرصہ کے بعد مزید ایک آپریشن شروع کرنا پڑتا ہے اور اس وقت جو آپریشن باڑہ سمیت خیبرایجنسی کے مختلف علاقوں میں جاری ہے ،اس کے نتائج کے بارے میں بھی تاحال کچھ پتا نہیں چل رہا جس سے لگ رہا ہے کہ اس کا حال بھی گزشتہ آپریشنوں جیسا ہی ہوگا۔
آئندہ عام انتخابات قریب آنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ خیبر ایجنسی بلکہ ساتوں قبائلی ایجنسیوں اور ایف آر علاقوں میں امن وامان کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہونے کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد وہاں ہوتا ہوا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ جب عام صورت حال میں وہاں پر زندگی معمول پر نہیں آرہی تو ایسے میں انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہوگا اور اگر عام انتخابات کا انعقاد ہوبھی جاتا ہے تو قبائلی علاقوں کی موجودہ صورت حال میں ان انتخابات کوکس حد تک شفاف اور آزادانہ کہا جاسکے گا ۔
اگر مرکزی حکومت اور گورنر خیبرپختونخوا قبائلی علاقہ جات کی موجودہ صورت حال میں تبدیلی لانے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں کرتے اور مذاکرات یا فیصلہ کن کاروائی نہیں ہوتی تو اس صورت حال میں قبائلی علاقہ جات سے جڑے ہوئے خیبرپختونخوا کے اضلاع میں آئندہ عام انتخابات کی صورت حال کیا ہوگی اس کا اندازہ لگایا ہی جاسکتا ہے، اس لیے آئندہ عام انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنر،وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر پشاور کو ایپکس کمیٹی میں اس تمام صورت حال کو زیر غور لانا چاہیے تاکہ جو پالیسیاں اب تک نافذالعمل ہیں ان پر نظر ثانی کی جاسکے ۔
میاں نواز شریف نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کے ایک جگہ اکٹھ کافائدہ اٹھاتے ہوئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو حکومتی پارٹیوں کے خلاف اکھٹا کرنے کے لیے اسی اجلاس سے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور اب یہ سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ رابطے شروع کردیئے گئے ہیں جس کے حوالے سے ابھی معاملات پختگی کی سطح پر نہیں پہنچے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی جانب بھی دیکھ رہی ہیں اور ہوا کے رخ کا اندازہ بھی کرنے کی بھی کوشش کررہی ہیں، تاہم اگر میاں نواز شریف ان پارٹیوں میں سے اکثرپارٹیوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپوزیشن پارٹیوں کا وسیع تر اتحاد بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ یقینی طور پر ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔
ان کا خیال یہ تھا کہ جس طریقہ سے بلوچستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے وہاں کے احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کو تسلیم کیا اور اس کے بعد احتجاج ختم کیا گیا اسی طرح پشاور میں بھی یہ قبائلی عوام اس وقت اپنا احتجاج ختم کریں گے جب ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیاجائے گا تاہم مطالبات کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے اور اس بارے میں احتجاج کرنے والوں کے درمیان جاری مشاورت کے دوران ہی رات کے اندھیرے میں پولیس نے واٹر کینن ،شیلنگ اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے مظاہرین کو وہاں سے ہٹادیا اور لاشوں کو فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ۔
بظاہر تو لاشوں کے ہٹانے اور مظاہرین کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے بعد میدان خالی ہوگیا تاہم یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں بھی اس واقعہ پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں اور اس بات کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس واقعہ کا ری ایکشن بھی ہوگا اور یہ ری ایکشن ممکنہ طور پر پشاور ہی میں ہوسکتا ہے ۔
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں اٹھارہ افراد کی ہلاکت کے معاملے پر ایف سی کی وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہوگیا ہے کہ ان میں سے کچھ عام شہری تھے جنھیں عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا جبکہ کچھ عسکریت پسند تھے جو سیکورٹی فورسز پر حملے کے دوران ہلاک ہوئے اور بعد میں عسکریت پسندوں نے ان کی لاشیں بھی شہریوں کی لاشوں کے ساتھ باڑہ کے علاقہ میں پھینک دیں اور اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا،تاہم اس سلسلے میں اس بارے میں فوری طور پر انکوائری قائم کرتے ہوئے تمام حقائق کو منظر عام پر لانا چاہیے تھا۔
تاہم اس واقعہ اور گورنر ہائوس پشاور کے باہر دھرنے اور احتجاج کو کئی روز گزرنے کے باوجود تاحال مرکزی حکومت یا گورنر کی جانب سے واقعہ کی تحقیقات کے لیے کسی انکوائری کمیٹی یا کمیشن کے قیام کے احکامات جاری نہیں ہوئے جس کی وجہ سے صورت حال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے ، اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو اس سے مسائل میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ،خیبرایجنسی میں تیسرا ،چوتھا آپریشن جاری ہے اور ہر آپریشن شروع ہوتے وقت یہ امید اور دلاسہ دلایاجاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کا خاتمہ کردیاجائے گا۔
تاہم آپریشن ختم ہوجاتا ہے اور نتائج کا پتا نہیں چلتا جس کے نیتجہ میں کچھ عرصہ کے بعد مزید ایک آپریشن شروع کرنا پڑتا ہے اور اس وقت جو آپریشن باڑہ سمیت خیبرایجنسی کے مختلف علاقوں میں جاری ہے ،اس کے نتائج کے بارے میں بھی تاحال کچھ پتا نہیں چل رہا جس سے لگ رہا ہے کہ اس کا حال بھی گزشتہ آپریشنوں جیسا ہی ہوگا۔
آئندہ عام انتخابات قریب آنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ خیبر ایجنسی بلکہ ساتوں قبائلی ایجنسیوں اور ایف آر علاقوں میں امن وامان کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہونے کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد وہاں ہوتا ہوا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ جب عام صورت حال میں وہاں پر زندگی معمول پر نہیں آرہی تو ایسے میں انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہوگا اور اگر عام انتخابات کا انعقاد ہوبھی جاتا ہے تو قبائلی علاقوں کی موجودہ صورت حال میں ان انتخابات کوکس حد تک شفاف اور آزادانہ کہا جاسکے گا ۔
اگر مرکزی حکومت اور گورنر خیبرپختونخوا قبائلی علاقہ جات کی موجودہ صورت حال میں تبدیلی لانے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں کرتے اور مذاکرات یا فیصلہ کن کاروائی نہیں ہوتی تو اس صورت حال میں قبائلی علاقہ جات سے جڑے ہوئے خیبرپختونخوا کے اضلاع میں آئندہ عام انتخابات کی صورت حال کیا ہوگی اس کا اندازہ لگایا ہی جاسکتا ہے، اس لیے آئندہ عام انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنر،وزیراعلیٰ اور کور کمانڈر پشاور کو ایپکس کمیٹی میں اس تمام صورت حال کو زیر غور لانا چاہیے تاکہ جو پالیسیاں اب تک نافذالعمل ہیں ان پر نظر ثانی کی جاسکے ۔
میاں نواز شریف نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کے ایک جگہ اکٹھ کافائدہ اٹھاتے ہوئے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو حکومتی پارٹیوں کے خلاف اکھٹا کرنے کے لیے اسی اجلاس سے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور اب یہ سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ رابطے شروع کردیئے گئے ہیں جس کے حوالے سے ابھی معاملات پختگی کی سطح پر نہیں پہنچے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی جانب بھی دیکھ رہی ہیں اور ہوا کے رخ کا اندازہ بھی کرنے کی بھی کوشش کررہی ہیں، تاہم اگر میاں نواز شریف ان پارٹیوں میں سے اکثرپارٹیوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپوزیشن پارٹیوں کا وسیع تر اتحاد بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ یقینی طور پر ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔