اہم سیاسی خانوادوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت
راجہ افضل کو مسلم لیگ(ن) میں مستقبل نظر نہیں آرہا تھا،ضلع جہلم کے چاروں ارکان صوبائی اسمبلی نے الگ گروپ بنا لیا ہے۔
گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود اور جہلم سے راجہ محمد افضل کے خاندان پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، اس سے پنجاب میں بظاہر مسلم لیگ(ن) کو سیاسی طور پر نقصان پہنچے گاکیونکہ دونوں خاندان ہمیشہ پیپلزپارٹی مخالف سیاست کرتے رہے ہیں اور ان کی مسلم لیگ کے ساتھ گہری وابستگی رہی ہے۔
ان دو سیاسی خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پوٹھو ہار اور جنوبی پنجاب کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ راجہ افضل،ضیاء دور سے سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی میاں محمد نواز شریف سے27سالہ طویل رفاقت تھی۔ وہ تین مرتبہ بلدیہ جہلم کے چیئرمین، چار بار ایم این اے بھی رہے۔ وہ مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے قریبی عزیز ہیں۔ ان کے دو بیٹے راجہ صفدر اور راجہ اسد خان مسلم لیگ(ن) کے اراکین قومی اسمبلی ہیں۔اتنا اہم سیاسی پس منظر رکھنے والا جہلم کا یہ خاندان میاں صاحب سے کیوں دور ہوا؟یہ سوال سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اصل جھگڑا پی پی 26 جہلم کے ضمنی الیکشن کے ٹکٹ پر ہوا۔
یہ نشست چوہدری خادم حسین کے بیٹے ندیم خادم کی دوہری شہریت پر نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی۔ راجہ افضل نے اس حلقے سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان انہیں ٹکٹ دینے کے خلاف تھے، پارٹی صدر نواز شریف نے اس حلقے کو اوپن چھوڑ دیا تاہم الیکشن کے قریب آنے پر انتظامیہ کا جھکاؤ چوہدری خادم حسین کی طرف ہوگیا۔ اس پر راجہ افضل نے کھل کر شکایت کی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کئے۔ میاں نواز شریف نے اس کا بہت برا منایا تھا۔ اس صورتحال میں راجہ افضل کو مسلم لیگ (ن) میں اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا تھا۔ اس وقت ضلع جہلم کے چاروں ارکان صوبائی اسمبلی نے نوابزادہ اقبال مہدی کی قیادت میں الگ گروپ بنالیا ہے۔
ان میں مہر فیاض، چوہدری ثقلین ، چوہدری خادم حسین اور شمس حیدر شامل ہیں ۔ راجہ افضل اور اقبال مہدی بی اے کی ڈگری نہ ہونے کے باعث 2002ء اور 2008ء کا الیکشن نہ لڑ سکے اوردونوں نشستوں پر راجہ افضل کے بیٹوں نے الیکشن لڑا۔ اب اقبال مہدی ٹکٹ مانگ رہے تھے اور پارٹی قیادت انہیں ٹکٹ دینا چاہتی تھی، اس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھرنے راجہ افضل کے صدر زرداری سے رابطے کرائے ہیں ، ان کا راجہ افضل سے پرانا تعلق ہے ۔
اس معاملے پر سابق گورنر چوہدری الطاف حسین کے خاندان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، حد یہ ہے کہ میاں منظور احمد وٹو کو بھی اس فیصلے میں شریک نہیں کیا گیا۔بظاہر راجہ فیملی کو شامل کرکے پیپلز پارٹی نے پنجاب کی سیاست میں پوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس جوڑ توڑ میں چوہدری الطاف گروپ کو اعتماد میں نہ لینے سے مسائل پیدا ہوں گے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امورچوہدری فواد حسین اس وقت ملک سے باہر ہیں، وہ اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور واپسی پر اس معاملے کو پارٹی قیادت کے سامنے اٹھائیں گے۔ این اے 62میں (ن) لیگ کے پاس اچھا امیدوار نہیں ہے یہاں سابق گورنر چوہدری الطاف حسین کا خاندان مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ چوہدری الطاف حسین کے صاحبزادے چوہدری فرخ الطاف دو بار ضلع ناظم رہ چکے ہیں اور ق لیگ کے ساتھ ہیں جبکہ ان کے کزن چوہدری فواد حسین پیپلزپارٹی میں ہیں ۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے خاندان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے پورے بہاولپور ڈویژن خصوصا رحیم یار خاں کی چھ قومی اور 13 صوبائی اسمبلی نشستوں پر پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے۔آئندہ ماہ صدر زرداری کی جمال دین والی آمد کا امکان ہے ۔ اس دوران بہاولپور ڈویژن سے کئی سیاسی شخصیات اور ارکان اسمبلی کی صدر زرداری سے ملاقات بھی ہوگی۔ بہاولپور سے سلمان گردیزی، عرفان گردیزی اور ساجد حسین پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے ہیں ، تسنیم نواز گردیزی سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔
وہ اس وقت مسلم لیگ(ن) میں ہیں اور ان کے حلقے سے مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ بھی(ن) لیگ میں شامل ہوچکے ہیں، فنکشنل لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی قاضی سعید اور خاتون رکن عاصمہ ممدوٹ بھی شامل ہوجائیں گے۔ ضلع بہاولنگر سے بھی ایک سیاسی گھرانے سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ گورنر کے سابق ضلع ناظم ممتاز متیانہ سے بھی رابطے ہیں۔ نواب صلاح الدین عباسی اور محمد علی درانی رحیم یار خان جلسے میں نہیں آئے، ان کی آمد متوقع تھی وہ چند روز پہلے گورنر سے خاص طور پر لاہور میں ملاقات کرکے گئے تھے۔
اب ان کے مسلم لیگ(ن) سے رابطوں کی اطلاعات ہیں۔ وہ بھی گورنر شپ کے امیدوار رہے ہیں اور ان کی صدرزرداری سے ملاقات بھی ہوئی تھی، اب پیپلز پارٹی عباسی خاندان کے دیگر افراد سے رابطے میں ہے ۔ مسلم لیگ(ق) کے رکن صوبائی اسمبلی میاں شفیع بھی آئندہ الیکشن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیاسی محاذ پر صف بندی کا آغاز کردیاہے، جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجاب صرف ن لیگ کا ہے، انہیں اس وقت حقیقت کا پتہ چلے گا جب زرداری پنجاب میں اپنا کیمپ لگائیں گے اور سیاسی جنگ شروع ہوگی۔
ان دو سیاسی خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پوٹھو ہار اور جنوبی پنجاب کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ راجہ افضل،ضیاء دور سے سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی میاں محمد نواز شریف سے27سالہ طویل رفاقت تھی۔ وہ تین مرتبہ بلدیہ جہلم کے چیئرمین، چار بار ایم این اے بھی رہے۔ وہ مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے قریبی عزیز ہیں۔ ان کے دو بیٹے راجہ صفدر اور راجہ اسد خان مسلم لیگ(ن) کے اراکین قومی اسمبلی ہیں۔اتنا اہم سیاسی پس منظر رکھنے والا جہلم کا یہ خاندان میاں صاحب سے کیوں دور ہوا؟یہ سوال سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اصل جھگڑا پی پی 26 جہلم کے ضمنی الیکشن کے ٹکٹ پر ہوا۔
یہ نشست چوہدری خادم حسین کے بیٹے ندیم خادم کی دوہری شہریت پر نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی۔ راجہ افضل نے اس حلقے سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان انہیں ٹکٹ دینے کے خلاف تھے، پارٹی صدر نواز شریف نے اس حلقے کو اوپن چھوڑ دیا تاہم الیکشن کے قریب آنے پر انتظامیہ کا جھکاؤ چوہدری خادم حسین کی طرف ہوگیا۔ اس پر راجہ افضل نے کھل کر شکایت کی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف سخت الفاظ بھی استعمال کئے۔ میاں نواز شریف نے اس کا بہت برا منایا تھا۔ اس صورتحال میں راجہ افضل کو مسلم لیگ (ن) میں اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا تھا۔ اس وقت ضلع جہلم کے چاروں ارکان صوبائی اسمبلی نے نوابزادہ اقبال مہدی کی قیادت میں الگ گروپ بنالیا ہے۔
ان میں مہر فیاض، چوہدری ثقلین ، چوہدری خادم حسین اور شمس حیدر شامل ہیں ۔ راجہ افضل اور اقبال مہدی بی اے کی ڈگری نہ ہونے کے باعث 2002ء اور 2008ء کا الیکشن نہ لڑ سکے اوردونوں نشستوں پر راجہ افضل کے بیٹوں نے الیکشن لڑا۔ اب اقبال مہدی ٹکٹ مانگ رہے تھے اور پارٹی قیادت انہیں ٹکٹ دینا چاہتی تھی، اس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے۔ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھرنے راجہ افضل کے صدر زرداری سے رابطے کرائے ہیں ، ان کا راجہ افضل سے پرانا تعلق ہے ۔
اس معاملے پر سابق گورنر چوہدری الطاف حسین کے خاندان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، حد یہ ہے کہ میاں منظور احمد وٹو کو بھی اس فیصلے میں شریک نہیں کیا گیا۔بظاہر راجہ فیملی کو شامل کرکے پیپلز پارٹی نے پنجاب کی سیاست میں پوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس جوڑ توڑ میں چوہدری الطاف گروپ کو اعتماد میں نہ لینے سے مسائل پیدا ہوں گے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امورچوہدری فواد حسین اس وقت ملک سے باہر ہیں، وہ اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں اور واپسی پر اس معاملے کو پارٹی قیادت کے سامنے اٹھائیں گے۔ این اے 62میں (ن) لیگ کے پاس اچھا امیدوار نہیں ہے یہاں سابق گورنر چوہدری الطاف حسین کا خاندان مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اب دیکھتے ہیں وہ اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ چوہدری الطاف حسین کے صاحبزادے چوہدری فرخ الطاف دو بار ضلع ناظم رہ چکے ہیں اور ق لیگ کے ساتھ ہیں جبکہ ان کے کزن چوہدری فواد حسین پیپلزپارٹی میں ہیں ۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے خاندان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے پورے بہاولپور ڈویژن خصوصا رحیم یار خاں کی چھ قومی اور 13 صوبائی اسمبلی نشستوں پر پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے۔آئندہ ماہ صدر زرداری کی جمال دین والی آمد کا امکان ہے ۔ اس دوران بہاولپور ڈویژن سے کئی سیاسی شخصیات اور ارکان اسمبلی کی صدر زرداری سے ملاقات بھی ہوگی۔ بہاولپور سے سلمان گردیزی، عرفان گردیزی اور ساجد حسین پہلے ہی پیپلزپارٹی میں شامل ہوچکے ہیں ، تسنیم نواز گردیزی سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔
وہ اس وقت مسلم لیگ(ن) میں ہیں اور ان کے حلقے سے مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ بھی(ن) لیگ میں شامل ہوچکے ہیں، فنکشنل لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی قاضی سعید اور خاتون رکن عاصمہ ممدوٹ بھی شامل ہوجائیں گے۔ ضلع بہاولنگر سے بھی ایک سیاسی گھرانے سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ گورنر کے سابق ضلع ناظم ممتاز متیانہ سے بھی رابطے ہیں۔ نواب صلاح الدین عباسی اور محمد علی درانی رحیم یار خان جلسے میں نہیں آئے، ان کی آمد متوقع تھی وہ چند روز پہلے گورنر سے خاص طور پر لاہور میں ملاقات کرکے گئے تھے۔
اب ان کے مسلم لیگ(ن) سے رابطوں کی اطلاعات ہیں۔ وہ بھی گورنر شپ کے امیدوار رہے ہیں اور ان کی صدرزرداری سے ملاقات بھی ہوئی تھی، اب پیپلز پارٹی عباسی خاندان کے دیگر افراد سے رابطے میں ہے ۔ مسلم لیگ(ق) کے رکن صوبائی اسمبلی میاں شفیع بھی آئندہ الیکشن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیاسی محاذ پر صف بندی کا آغاز کردیاہے، جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجاب صرف ن لیگ کا ہے، انہیں اس وقت حقیقت کا پتہ چلے گا جب زرداری پنجاب میں اپنا کیمپ لگائیں گے اور سیاسی جنگ شروع ہوگی۔