افغان حکومت ہوش کے ناخن لے

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان بھارتی ایما پر ہی ایسی شرانگیزی کر سکتا ہے

فوٹو: فائل

پاک افغان بارڈر پر چمن کے مقام پر تیسرے روز بھی کشیدگی کا سلسلہ برقرار ہے' چمن کے سرحدی دیہات سے شہریوں کی نقل مکانی جاری ہے' باب دوستی پر ہر قسم کی تجارتی سرگرمیاں اور پیدل آمدورفت معطل ہو چکی ہے۔ حالیہ جنم لینے والے پاک افغان تنازعہ اور کشیدگی کو حل کرنے کے لیے دو روز کے دوران دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ہونے والی فلیگ میٹنگ بھی بے نتیجہ رہیں اور کشیدگی کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

پاک افغان سرحد پر واقع دو علاقے کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری اور ملکیت پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ علاقے پاکستانی حدود میں شامل ہیں جب کہ افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے افغانستان کی ملکیت ہیں ان کا کنٹرول افغان حکومت کو دیا جائے۔ ادھر پاکستان نے افغانستان کی جانب سے بڑھتی ہوئی جارحیت اور گولہ باری کا بھرپور جواب دیا ہے۔

آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم احمد نے اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چمن بارڈر پر افغانستان کے حملے کے بعد پاک فوج کی جوابی کارروائی میں 50سے زائد افغان فوجی ہلاک' جب کہ 100سے زائد زخمی ہوئے ہیں' پاکستان کی جانب سے کارروائی میں افغان فوج کی 4سے 5چیک پوسٹیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔

میجر جنرل ندیم احمد نے کہا کہ افغان حکومت کو بتا دیا تھا کہ مردم شماری کریں گے' چاہتے تو زیادہ فورس کا استعمال کر سکتے تھے' زیادہ طاقت سے جلد علاقے خالی کرا سکتے تھے' معلوم تھا دونوں جانب سول آبادی موجود ہے' افغان فورسز نے بلااشتعال شہری آبادی کو نشانہ بنایا' افغان فورسز کی فائرنگ کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا۔

آئی جی ایف سی نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ اگر کسی نے بھی پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی تو اس کا بھرپور جواب دیں گے' افغان فورسز کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ اکیلے یہ قدم اٹھائے' اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان بھارتی ایما پر ہی ایسی شرانگیزی کر سکتا ہے' افغان فورسز ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کے نقصان پر خوشی نہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت افغانستان کے رویے سے مشروط ہے' افغان رویے میں بہتری کے بغیر یہ ممکن نہیں' جنگ دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں' امید ہے افغان قیادت اس مسئلے کو دیکھے گی۔

جمعہ کی صبح افغانستان کی بارڈر فورس نے چمن کے سرحدی علاقے میں مردم شماری کے عملے کی حفاظت پر مامور پاکستانی اہلکاروں پر فائر کھول دیئے جس کے نتیجے میں 9 پاکستانی شہری شہید جب کہ 6بچوں 3خواتین سمیت 42افراد زخمی ہو گئے تھے۔


افغان فورسز کی جانب سے چمن کے سرحدی دیہات کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں' پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ان دونوں علاقوں میں ہر صورت میں مردم شماری کی جائے گی' آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے پاکستانی دیہات اور سکیورٹی فورسز پر افغان فورسز کی فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کے مقام پر دیہات دونوں اطراف تقسیم ہیں پاکستان کی فورسز اور عوام اپنی اطراف میں ہیں جب کہ مردم شماری ٹیمیں بھی اپنے علاقے میں فرائض سرانجام دے رہی تھیں' افغان فورسز کشیدہ صورتحال کو ختم کریں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات نئے نہیں یہ ایک طویل عرصے سے چلے آ رہے ہیں' افغان حکام وقفے وقفے سے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں' اب انھوں نے چمن سرحد کے ساتھ پاکستانی حدود میں واقع دو گاؤں کلی لقمان اور کلی جہانگیر کو اپنی ملکیت ظاہر کرنے کا مسئلہ اٹھا دیا ۔وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے سرحدی حدود کے تنازعات سے صرف نظر کرنے کے بجائے انھیں حل کریں۔

چمن سرحد پر پہلی بار افغانستان کی جانب سے گولہ باری کی گئی آج تک یہ سرحد پرامن رہی ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات بہتر بنانے کے بجائے بگاڑ رہا ہے آخر وہ ایسا کیوں اور کس کے ایما پر کر رہا ہے۔

وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا کہ مغربی سرحد پر افغان کارروائی دلی کابل گٹھ جوڑ کی عکاس ہے اگر ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی تو ہم اس کا بھرپور جواب دیں گے تاہم ہماری کوشش ہے کہ دونوں ممالک میں ہم آہنگی پیدا ہو مگر افسوس کہ دوسری جانب سے مثبت جواب نہیں مل رہا۔ لگتا ہے کہ بھارت ایک سازش کے تحت پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحد پر حالات کشیدہ کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر باہمی تنازعات پر مرضی کی شرائط منوا سکے۔

پاکستانی حکام کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے اور وہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات ہر ممکن طور پر بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان حکام کو بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحدوں پر کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے دونوں ممالک کے مسائل میں اضافہ ہو۔افغانستان کی حکومت ہوش کے ناخن لے' پاکستان کو افغانستان کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے اور اپنے علاقے پر کوئی لچک نہیں دکھانی چاہیے۔

 
Load Next Story