جنگ
ترقی پذیرملکوں کی مخلوق اپنے حالات سے اس قدر دلبرداشتہ ہے کہ ہرطرح کاخطرہ مول لے کرمغرب تک پہنچناچاہتی ہے
دنیا کی سب سے خوفناک چیزجنگ ہے۔جن ممالک یاعلاقوں میں برپاہوجائے،سالہاسال عدم توازن کاشکار رہتے ہیں۔ غربت، جہالت،شدت پسندی، بیروزگاری اوردیگر آفتیں بال کھول کررقص کرتی ہیں۔نقصان کس کا ہوتا ہے، صرف اور صرف انسانوں کا!
سوچیے، آج یورپ اورامریکا اتناخوشحال اور بہتر کیوں ہے۔صرف اس لیے کہ انھوں نے جنگ کی وحشت کو عبورکرکے امن کواپنا قومی راستہ بنایا ہے۔ غیرترقی یافتہ خطوں کے لوگ ہرقیمت پر وہاں کیوںپہنچنا چاہتے ہیں، کسی نہ کسی طرح یوکے، اسپین،اٹلی،فرانس اوردیگرمغربی ممالک میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔
حقیقت ہے کہ ترقی پذیرملکوں کی مخلوق اپنے حالات سے اس قدر دلبرداشتہ ہے کہ ہرطرح کاخطرہ مول لے کرمغرب تک پہنچناچاہتی ہے۔ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں سمیت ناکارہ کشتیوں میں سوار ہوکر سمندر عبورکرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ روزانہ،سیکڑوں لوگ سمندرمیں ہی آبی قبر میں اترجاتے ہیں۔ سیکڑوں بھوک پیاس کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ چند فیصدکسی نہ کسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔سوال ہے کیا یہ لوگ پاگل ہیں، ہرگزنہیں، یہ باشعور افراد ہیں جو بہترمستقبل کے لیے موت تک کا رسک لے لیتے ہیں۔ غور کیجیے۔ ان میں مسلمان،عیسائی اورہر مذہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ آخرکیوں!
آپ کو ایک عنصر یکساں نظرآئے گا۔ان تمام ممالک میں کسی نہ کسی طریقے سے جنگ ہورہی ہے۔ جنگ وہ واحدتکلیف بلکہ''ام التکالیف'' ہے،جس کی وجہ سے لوگ مغربی کناروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ بے یقینی،عدم استحکام اورشخصی حکومتیں ان لوگوں کوبربادکرنے میں نمایاں کرداراداکرتی ہیں۔ لکھنا نہیں چاہتا،لیکن مسلمان ممالک ان بلاؤں کی پسندیدہ آماج گاہیں ہیں۔
ہمارے ملک بلکہ تمام مسلمان معاشروں میں سوچنے کی آزادی موجودنہیں ہے۔آپ صرف اور صرف ایک مقررکردہ دائرے میں رہ کرہی ذہن استعمال کرسکتے ہیں۔ خدانخواستہ،اگرحدود سے ایک انچ بھی باہرنکل گئے،توکم سے کم سزاموت ہے۔ رعایا کواتنامفلوج کردیا گیاہے کہ جوانھیں بتایا جاتا ہے، صرف اسے سچ سمجھتے ہیں۔وہ یقین رکھتے ہیں کہ پوری دنیابلکہ کائنات میں صرف ایک ہی سچ ہے جوا نہیں سمجھایا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ہربیانیہ غلط ہے۔ اختلافی بات کرنے والے ملک،قوم اورملت کے بدترین دشمن ہیں۔ جب آپ بول نہیں سکتے توآپ کی زندگی بے کار ہوجاتی ہے۔
کسی ملک سے کوئی غرض نہیں۔ اپنے خطے کی بات کرناچاہتاہوں۔ ایک دودہائی نہیں،ستربرس کے حالات کا بغورجائزہ لیجیے۔تمام سیاسی اورفوجی حکمرانوں کے ادوار کو پرکھیے۔مسلسل ایک بات بتائی جارہی ہے، پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے،آج جتنے نازک حالات ہیں،یہ پہلے کبھی بھی نہیں تھے۔قوم کوقربانی دینی چاہیے۔ہمارے ہمسایے ہمیں برباد کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ہمارے خلاف بین الاقوامی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ اوراسطرح کے فقرے ذہنوں پر تو کیا، ہمارے ماتھوں پرچسپاں کردیے گئے ہیں۔
مانتا ہوں، کہ ان میں سے چندفیصددرست بھی ہیں۔ مگر اس بیانیے کو دلیل، استدلال اورمعروضی حالات کے تحت دیکھاجائے توسب سے زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے۔ بحیثیت ملک اورقوم اپناقصورماننے کے لیے تیارہی نہیں۔ہاں ایک اور فقرہ، بھول گیا۔''اسلام خطرے میں ہے اورمسلم اُمہ کواتحادکی آج جتنی ضرورت ہے، پہلے کبھی بھی نہیں تھی''۔ مجھے یہ فقرے سب سے پہلے لکھنے چاہیے تھے۔معذرت سے عرض کروںگاکہ اسلام کوجتناخطرہ مسلمانوں سے ہے اور کسی سے بھی نہیں۔ اس آفاقی مذہب کوجس اندازسے مسلمان ملکوں میں استعمال کیاگیاہے،وہ بذات خودایک المیہ ہے۔
اگرہماراملک،اس درجہ خطرات میں گھرا ہوا ہے، تو ہم امن کے لیے عملی اقدام کیوں نہیں کرتے۔ کیوں ہرطریقے سے اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کواس درجہ زچ کردیتے ہیں،تووہ کسی بھی طریقے سے اعتبار کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔ ہمسایہ قومیں ہمارے اتنی خلاف کیوں ہیں۔مختلف وجوہات ہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم نے پوری قوم اورریاستی اداروں کو جنگی جنون میں مبتلاکرڈالاہے۔ ہرشخص دہلی کے لال قلعے پرسبزہلالی پرچم لہراناچاہتا ہے۔ہرکوئی افغانستان کوایک طفیلی ریاست بنانے پرتلاہوا ہے۔ کوئی بات کرنے کے لیے تیارہی نہیں کہ مسلم اتحاد کاعملی وجود کہیں بھی نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد،تمام دنیا نیشن اسٹیٹس میں بٹ چکی ہے۔ مسلم اتحاد اب صرف خیال یاجذباتیت کی حدتک محدود ہوچکا ہے۔ بات کرکے تو دیکھیے۔آپ کوملک دشمن،غدار،مغرب پرست اورکافرتک قراردے دیاجائے گا۔ مانتاہوں کہ مقبوضہ کشمیر ہمارے لیے بہت اہم ہے۔مگرکیاہمارا اپنا ملک ہمارے لیے زیادہ اہم نہیں ہے۔کیاہم سمجھ نہیں پارہے کہ ہندوستان اب اتنی فوجی اور عسکری استطاعت رکھتاہے کہ وہ اس علاقے کوکبھی بھی موجودہ حالات میں اپنے ملک سے علیحدہ نہیں ہونے دیگا۔ مگر ہم توتسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس مسئلہ میں ہماری پوزیشن کافی حدتک کمزورہے۔
یہ بھی سوال ہے کہ کیوں۔ جواب بھی عرض کیے دیتاہوںکہ اگر ہم اقتصادی طرز پردس فیصد پرترقی کررہے ہوں۔ اگر ہمارے ملک میں ہر طرح خوشحالی اورامن کے گیت گائے جارہے ہوں، تو شائد مقبوضہ کشمیرخودبخود ہمارے ملک کاحصہ بن جائے۔ مگرہم اپنی زبوں حالی پرتوجہ دیے بغیر،خواہشوں کے گھوڑے پر تیزی سے دوڑرہے ہیں۔ کوئی سچ بولنے یاسننے پرتیارہی نہیں ہے۔
مان لیجیے کہ ہرہمسایہ ہمارادشمن ہے مگرکیا ہم نے ان کو خراب کرنے میں کوئی کسرچھوڑی ہے۔ کشمیر پر ہم ہندوستان سے چار جنگیں لڑچکے ہیں۔1965ء کی جنگ نے ہماری ترقی کوایساگرہن لگایا،جوآج تک دورنہیں ہوسکا۔ 1971ء میں ملک دولخت ہوا، پھر کارگل ہوگیا ۔آخرکیوں۔کیادنیا بیوقوف ہے۔ کیا انھیں پتہ نہیں کہ جنرل پرویزمشرف نے غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔نتیجہ کیاہوا۔کبھی دنیاکے آزاد لکھاریوں کی تحریریں پڑھیں، سمجھ آجائیگی۔
عظیم نقصانات کے باوجود ہم ہروقت لڑائی اورجنگ کی باتیں کرتے ہیں۔اگرموجودہ وزیراعظم غلطی سے کہہ دیتا ہے کہ ترقی صرف اس وقت ہوسکتی ہے جب ہمسایوں سے اچھے تعلق ہوں،تواس کے خلاف ایک محاذ کھڑا ہوجاتا ہے۔ہندوستان کے متعلق موجودہ وزیراعظم کی فہم کو جذباتیت کی بھینٹ چڑھادیاگیاہے۔
آج حالت یہ ہے کہ افغانستان بھی ہم پر حملہ آورہے۔ ہمارے شہری اورفوجی روز شہید ہو رہے ہیں۔کوئی کھل کربات نہیں کرتا۔کہ ہم نے افغانستان میں اس درجہ مظالم روا رکھے ہیں کہ افغانوں میں ہمارے خلاف شدیدنفرت ہے۔ہمارے ریاستی اداروں نے بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ملکرافغانستان کی چارنسلیں برباد کر دی ہیں۔وہاں جنگ،عدم استحکام اورجہالت کواس درجہ فروغ دیاہے کہ اب حالات نہ ان کے کنٹرول میں ہیں اورنہ ہمارے۔کیاان غیرسیاسی قائدین کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، جنھوں نے افغان جنگ کو ہمارے ملک میں منتقل کردیا۔ ہمیں بربادکردیا اورخود تمغے اورپیسے وصول کرتے رہے۔
نوازشریف کیا کہہ رہا ہے۔ خدارا امن قائم کرو۔تجارت کرو، ہمسایہ ملکوں سے اقتصادی تعلقات اس درجہ مضبوط کرلو،کہ جنگ نہ ہوسکے۔مگروزیراعظم کی حب الوطنی پرسوال اُٹھایا جا رہاہے۔یہ سب کچھ کیاہے۔کیوں ہے۔ صرف اس لیے کہ ہم نے جنگ کی ہولناکی کو نزدیک سے نہیں دیکھا۔
پنجاب اورسندھ نے توصدیوں سے جنگ کے شعلے نہیں دیکھے۔خودکش حملے ضروربرداشت کیے ہیں، مگر شام، لبنان،عراق اورلیبیاجیساعذاب سیکڑوں سال سے نہیں دیکھا۔پنجاب میں آرام سے بیٹھ کر پُرتشددنعرے بیچے جا رہے ہیں۔ نقصان کی آگ تو دوسرے صوبوں میں لگی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات پنجاب اورسندھ سے قدرے مختلف ہیں۔لڑائی تووہاں بھی نہیں ہورہی۔مگرتپش ضرورمحسوس کی جاسکتی ہے۔
اگر ایک بارجنگ ہوگئی تو پتہ چل جائے گاکہ تباہی کیاہے اورامن میں کتنی رحمت اوربرکت ہے۔ مگر ہمارے چند دانشور، محقق، مذہبی رہنما اور معدودے چند سیاستدان اس بات پرتلے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ہمسایوں سے عسکری برتری کی بنیاد پرمعاملات طے کریں۔ یہ سراسرحماقت اور عذاب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ ہندوستان، افغانستان اورایران کوتورہنے دیجیے۔لیکن چین تو ہمارا واحد دوست ہے۔پاکستان سے ملحقہ چینی علاقوںمیں چند برس پہلے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کرنے کی کوشش کی گئی۔اس شورش کوچین نے بے رحمانہ طریقے سے دبالیا۔ اندرون خانہ چینی حکومت نے پاکستانی حکومت کو جو کچھ سمجھایا،یہ باخبر حلقوں کومعلوم ہے۔
عملی صورتحال یہ ہے کہ ستربرس سے ہمارے ذہنوں کوآزادفکراورآزادی رائے سے بتدریج محروم کر دیا گیا ہے۔ تمام ہمسایوں کوکسی نہ کسی طرح خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لاتعداددستاویزات اور موادموجودہیں،جس میں ہمارے مشکل رویے کے متعلق حقائق موجودہیں۔مگرتسلیم کرنا تودورکی بات، ان پردلیل سے بحث کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ جو بھی شخص مخصوص بیانیے کے خلاف بات کرنے کی ہمت کرتاہے،اسے نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ ملک کی تمام زمین اس پرتنگ کردی جاتی ہے۔حقیقت آج بھی یہی ہے کہ ہم ہروقت جنگ کے لیے بیتاب ہیں مگر امن کے لیے ہمارے ذہنوں میں کوئی جگہ نہیں۔
سوچیے، آج یورپ اورامریکا اتناخوشحال اور بہتر کیوں ہے۔صرف اس لیے کہ انھوں نے جنگ کی وحشت کو عبورکرکے امن کواپنا قومی راستہ بنایا ہے۔ غیرترقی یافتہ خطوں کے لوگ ہرقیمت پر وہاں کیوںپہنچنا چاہتے ہیں، کسی نہ کسی طرح یوکے، اسپین،اٹلی،فرانس اوردیگرمغربی ممالک میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔
حقیقت ہے کہ ترقی پذیرملکوں کی مخلوق اپنے حالات سے اس قدر دلبرداشتہ ہے کہ ہرطرح کاخطرہ مول لے کرمغرب تک پہنچناچاہتی ہے۔ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں سمیت ناکارہ کشتیوں میں سوار ہوکر سمندر عبورکرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ روزانہ،سیکڑوں لوگ سمندرمیں ہی آبی قبر میں اترجاتے ہیں۔ سیکڑوں بھوک پیاس کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ چند فیصدکسی نہ کسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔سوال ہے کیا یہ لوگ پاگل ہیں، ہرگزنہیں، یہ باشعور افراد ہیں جو بہترمستقبل کے لیے موت تک کا رسک لے لیتے ہیں۔ غور کیجیے۔ ان میں مسلمان،عیسائی اورہر مذہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ آخرکیوں!
آپ کو ایک عنصر یکساں نظرآئے گا۔ان تمام ممالک میں کسی نہ کسی طریقے سے جنگ ہورہی ہے۔ جنگ وہ واحدتکلیف بلکہ''ام التکالیف'' ہے،جس کی وجہ سے لوگ مغربی کناروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ بے یقینی،عدم استحکام اورشخصی حکومتیں ان لوگوں کوبربادکرنے میں نمایاں کرداراداکرتی ہیں۔ لکھنا نہیں چاہتا،لیکن مسلمان ممالک ان بلاؤں کی پسندیدہ آماج گاہیں ہیں۔
ہمارے ملک بلکہ تمام مسلمان معاشروں میں سوچنے کی آزادی موجودنہیں ہے۔آپ صرف اور صرف ایک مقررکردہ دائرے میں رہ کرہی ذہن استعمال کرسکتے ہیں۔ خدانخواستہ،اگرحدود سے ایک انچ بھی باہرنکل گئے،توکم سے کم سزاموت ہے۔ رعایا کواتنامفلوج کردیا گیاہے کہ جوانھیں بتایا جاتا ہے، صرف اسے سچ سمجھتے ہیں۔وہ یقین رکھتے ہیں کہ پوری دنیابلکہ کائنات میں صرف ایک ہی سچ ہے جوا نہیں سمجھایا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ہربیانیہ غلط ہے۔ اختلافی بات کرنے والے ملک،قوم اورملت کے بدترین دشمن ہیں۔ جب آپ بول نہیں سکتے توآپ کی زندگی بے کار ہوجاتی ہے۔
کسی ملک سے کوئی غرض نہیں۔ اپنے خطے کی بات کرناچاہتاہوں۔ ایک دودہائی نہیں،ستربرس کے حالات کا بغورجائزہ لیجیے۔تمام سیاسی اورفوجی حکمرانوں کے ادوار کو پرکھیے۔مسلسل ایک بات بتائی جارہی ہے، پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے،آج جتنے نازک حالات ہیں،یہ پہلے کبھی بھی نہیں تھے۔قوم کوقربانی دینی چاہیے۔ہمارے ہمسایے ہمیں برباد کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ہمارے خلاف بین الاقوامی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ اوراسطرح کے فقرے ذہنوں پر تو کیا، ہمارے ماتھوں پرچسپاں کردیے گئے ہیں۔
مانتا ہوں، کہ ان میں سے چندفیصددرست بھی ہیں۔ مگر اس بیانیے کو دلیل، استدلال اورمعروضی حالات کے تحت دیکھاجائے توسب سے زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے۔ بحیثیت ملک اورقوم اپناقصورماننے کے لیے تیارہی نہیں۔ہاں ایک اور فقرہ، بھول گیا۔''اسلام خطرے میں ہے اورمسلم اُمہ کواتحادکی آج جتنی ضرورت ہے، پہلے کبھی بھی نہیں تھی''۔ مجھے یہ فقرے سب سے پہلے لکھنے چاہیے تھے۔معذرت سے عرض کروںگاکہ اسلام کوجتناخطرہ مسلمانوں سے ہے اور کسی سے بھی نہیں۔ اس آفاقی مذہب کوجس اندازسے مسلمان ملکوں میں استعمال کیاگیاہے،وہ بذات خودایک المیہ ہے۔
اگرہماراملک،اس درجہ خطرات میں گھرا ہوا ہے، تو ہم امن کے لیے عملی اقدام کیوں نہیں کرتے۔ کیوں ہرطریقے سے اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کواس درجہ زچ کردیتے ہیں،تووہ کسی بھی طریقے سے اعتبار کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔ ہمسایہ قومیں ہمارے اتنی خلاف کیوں ہیں۔مختلف وجوہات ہیں لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم نے پوری قوم اورریاستی اداروں کو جنگی جنون میں مبتلاکرڈالاہے۔ ہرشخص دہلی کے لال قلعے پرسبزہلالی پرچم لہراناچاہتا ہے۔ہرکوئی افغانستان کوایک طفیلی ریاست بنانے پرتلاہوا ہے۔ کوئی بات کرنے کے لیے تیارہی نہیں کہ مسلم اتحاد کاعملی وجود کہیں بھی نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد،تمام دنیا نیشن اسٹیٹس میں بٹ چکی ہے۔ مسلم اتحاد اب صرف خیال یاجذباتیت کی حدتک محدود ہوچکا ہے۔ بات کرکے تو دیکھیے۔آپ کوملک دشمن،غدار،مغرب پرست اورکافرتک قراردے دیاجائے گا۔ مانتاہوں کہ مقبوضہ کشمیر ہمارے لیے بہت اہم ہے۔مگرکیاہمارا اپنا ملک ہمارے لیے زیادہ اہم نہیں ہے۔کیاہم سمجھ نہیں پارہے کہ ہندوستان اب اتنی فوجی اور عسکری استطاعت رکھتاہے کہ وہ اس علاقے کوکبھی بھی موجودہ حالات میں اپنے ملک سے علیحدہ نہیں ہونے دیگا۔ مگر ہم توتسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس مسئلہ میں ہماری پوزیشن کافی حدتک کمزورہے۔
یہ بھی سوال ہے کہ کیوں۔ جواب بھی عرض کیے دیتاہوںکہ اگر ہم اقتصادی طرز پردس فیصد پرترقی کررہے ہوں۔ اگر ہمارے ملک میں ہر طرح خوشحالی اورامن کے گیت گائے جارہے ہوں، تو شائد مقبوضہ کشمیرخودبخود ہمارے ملک کاحصہ بن جائے۔ مگرہم اپنی زبوں حالی پرتوجہ دیے بغیر،خواہشوں کے گھوڑے پر تیزی سے دوڑرہے ہیں۔ کوئی سچ بولنے یاسننے پرتیارہی نہیں ہے۔
مان لیجیے کہ ہرہمسایہ ہمارادشمن ہے مگرکیا ہم نے ان کو خراب کرنے میں کوئی کسرچھوڑی ہے۔ کشمیر پر ہم ہندوستان سے چار جنگیں لڑچکے ہیں۔1965ء کی جنگ نے ہماری ترقی کوایساگرہن لگایا،جوآج تک دورنہیں ہوسکا۔ 1971ء میں ملک دولخت ہوا، پھر کارگل ہوگیا ۔آخرکیوں۔کیادنیا بیوقوف ہے۔ کیا انھیں پتہ نہیں کہ جنرل پرویزمشرف نے غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔نتیجہ کیاہوا۔کبھی دنیاکے آزاد لکھاریوں کی تحریریں پڑھیں، سمجھ آجائیگی۔
عظیم نقصانات کے باوجود ہم ہروقت لڑائی اورجنگ کی باتیں کرتے ہیں۔اگرموجودہ وزیراعظم غلطی سے کہہ دیتا ہے کہ ترقی صرف اس وقت ہوسکتی ہے جب ہمسایوں سے اچھے تعلق ہوں،تواس کے خلاف ایک محاذ کھڑا ہوجاتا ہے۔ہندوستان کے متعلق موجودہ وزیراعظم کی فہم کو جذباتیت کی بھینٹ چڑھادیاگیاہے۔
آج حالت یہ ہے کہ افغانستان بھی ہم پر حملہ آورہے۔ ہمارے شہری اورفوجی روز شہید ہو رہے ہیں۔کوئی کھل کربات نہیں کرتا۔کہ ہم نے افغانستان میں اس درجہ مظالم روا رکھے ہیں کہ افغانوں میں ہمارے خلاف شدیدنفرت ہے۔ہمارے ریاستی اداروں نے بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ ملکرافغانستان کی چارنسلیں برباد کر دی ہیں۔وہاں جنگ،عدم استحکام اورجہالت کواس درجہ فروغ دیاہے کہ اب حالات نہ ان کے کنٹرول میں ہیں اورنہ ہمارے۔کیاان غیرسیاسی قائدین کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، جنھوں نے افغان جنگ کو ہمارے ملک میں منتقل کردیا۔ ہمیں بربادکردیا اورخود تمغے اورپیسے وصول کرتے رہے۔
نوازشریف کیا کہہ رہا ہے۔ خدارا امن قائم کرو۔تجارت کرو، ہمسایہ ملکوں سے اقتصادی تعلقات اس درجہ مضبوط کرلو،کہ جنگ نہ ہوسکے۔مگروزیراعظم کی حب الوطنی پرسوال اُٹھایا جا رہاہے۔یہ سب کچھ کیاہے۔کیوں ہے۔ صرف اس لیے کہ ہم نے جنگ کی ہولناکی کو نزدیک سے نہیں دیکھا۔
پنجاب اورسندھ نے توصدیوں سے جنگ کے شعلے نہیں دیکھے۔خودکش حملے ضروربرداشت کیے ہیں، مگر شام، لبنان،عراق اورلیبیاجیساعذاب سیکڑوں سال سے نہیں دیکھا۔پنجاب میں آرام سے بیٹھ کر پُرتشددنعرے بیچے جا رہے ہیں۔ نقصان کی آگ تو دوسرے صوبوں میں لگی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات پنجاب اورسندھ سے قدرے مختلف ہیں۔لڑائی تووہاں بھی نہیں ہورہی۔مگرتپش ضرورمحسوس کی جاسکتی ہے۔
اگر ایک بارجنگ ہوگئی تو پتہ چل جائے گاکہ تباہی کیاہے اورامن میں کتنی رحمت اوربرکت ہے۔ مگر ہمارے چند دانشور، محقق، مذہبی رہنما اور معدودے چند سیاستدان اس بات پرتلے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے ہمسایوں سے عسکری برتری کی بنیاد پرمعاملات طے کریں۔ یہ سراسرحماقت اور عذاب کو دعوت دینے والی بات ہے۔ ہندوستان، افغانستان اورایران کوتورہنے دیجیے۔لیکن چین تو ہمارا واحد دوست ہے۔پاکستان سے ملحقہ چینی علاقوںمیں چند برس پہلے دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کرنے کی کوشش کی گئی۔اس شورش کوچین نے بے رحمانہ طریقے سے دبالیا۔ اندرون خانہ چینی حکومت نے پاکستانی حکومت کو جو کچھ سمجھایا،یہ باخبر حلقوں کومعلوم ہے۔
عملی صورتحال یہ ہے کہ ستربرس سے ہمارے ذہنوں کوآزادفکراورآزادی رائے سے بتدریج محروم کر دیا گیا ہے۔ تمام ہمسایوں کوکسی نہ کسی طرح خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لاتعداددستاویزات اور موادموجودہیں،جس میں ہمارے مشکل رویے کے متعلق حقائق موجودہیں۔مگرتسلیم کرنا تودورکی بات، ان پردلیل سے بحث کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ جو بھی شخص مخصوص بیانیے کے خلاف بات کرنے کی ہمت کرتاہے،اسے نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ ملک کی تمام زمین اس پرتنگ کردی جاتی ہے۔حقیقت آج بھی یہی ہے کہ ہم ہروقت جنگ کے لیے بیتاب ہیں مگر امن کے لیے ہمارے ذہنوں میں کوئی جگہ نہیں۔