گورنر راج کے نفاذ کے بعد اہم انتظامی تبدیلیاں
گورنر راج کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومت نے اپنی تمام تر توجہ صوبے میں امن کی بحالی پر مرکوز کررکھی ہے،
بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔
جبکہ تمام صوبائی محکموں میں نئی بھرتی پر پابندی عائد کردی گئی ہے،دوسری طرف بلوچستان کی پارلیمانی جماعتوں نے صوبے میں گورنر راج کے خلاف تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اس حوالے سے ان جماعتوں نے پہلے مرحلے میں احتجاجی ریلیاں، مظاہرے کرنے، 25 جنوری کوشٹرڈائون ہڑتال اوریکم فروری کو پہیہ جام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک چلانے کا یہ فیصلہ پارلیمانی جماعتوں جمعیت علماء السلام (ف)، بی این پی(عوامی)، پی پی پی اور بعض آزاد ارکان نے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔
ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ فوری طورپر گورنر راج کافیصلہ واپس لیاجائے، صدر مملکت نے آرٹیکل232 کی بجائے234کو لاگو کیا، اب آرٹیکل236کے ذریعے گورنر راج کو واپس لیاجائے ورنہ ایئرپورٹس پردھرنا دے کر طیاروں کی آمدورفت بھی معطل کردی جائے گی۔ ان جماعتوں نے18ارکان کی ریکوزیشن پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر بحث کی گئی۔ اس سے قبل بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں گورنر راج کے نفاذ پر ارکان نے زبردست تنقید کی۔
اجلاس میں مشترکہ طورپر گورنر راج کے خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی،اسپیکر نے اجلاس کو اگلے دو دن کیلئے ملتوی کیا تاہم گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے اسمبلی اجلاس کوغیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کے احکامات صادر کردیئے۔ اس کے بعد18ارکان اسمبلی نے دوبارہ ریکوزیشن دی جس پر اسپیکرنے اجلاس بلایا اس حوالے سے گورنر کے اس بیان پر کہ بلوچستان اسمبلی بحال ہے اور ارکان اسمبلی معمول کے مطابق اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں۔ ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ، ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی الگ الگ رائے بھی سامنے آرہی ہیں۔
دوسری جانب نیب نے سابق صوبائی وزراء کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے اور اب تک16وزراء کے خلاف کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ معزول وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ وہ ساتھیوں سے صلاح ومشورے کے بعد جلد ہی اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ بلوچستان کے عوام کے وسائل کے دفاع کیلئے وہ ایسے اقتدار کو سو بار قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔
گورنر راج کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومت نے اپنی تمام تر توجہ صوبے میں امن کی بحالی پر مرکوز کررکھی ہے، گورنر بلوچستان نواب مگسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قیام امن کے لئے قانوں نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دے دیا ہے اور یہ ہدایت کی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی بھی طور پر سیاسی پریشر استعمال نہیں کرے گا، انہوں نے گورنر سیکرٹریٹ اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی سرکاری ملازم کو کوئی ڈائریکٹو جاری نہ کریں ، اگر کسی بھی سرکاری ملازم نے پوسٹنگ ٹرانسفر کے سلسلے میں سفارش کی کوشش کی تو اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا جبکہ تمام تر تقرر و تبادلے میرٹ پر کئے جائیں گے اور اس کے تمام تر اختیارات چیف سیکرٹری کے پاس ہوںگے جو گاہے بگاہے گورنر سے ہدایات لیتے رہیں گے، اس کے علاوہ تمام محکموں کو صوبائی حکومت کی جانب سے امور کی انجام دہی قواعد و ضوابط کے مطابق سرانجام دینے کی بھی ہدایات جاری کردی گئیں ہیں اور تنبیہہ کی گئی ہے کہ قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے والے افسروں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔
سیاسی حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان میں صوبائی محکموں میں نظم و نسق کو بہتر بنانے اور ترقیاتی امن کیلئے کئے گئے اقدامات پر موجودہ حکومت کسی حد تک کامیاب ہوتی ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق حکومتی امور کو چلانے کیلئے ایڈوائزری کونسل کی تشکیل پر بھی غورو خوض کیاجارہا ہے جس کیلئے مختلف نام زیر غور ہیں اس کونسل میں سابق بیورو کریٹس ،ججز اور بعض سیاسی لوگوں کو بھی لیا جاسکتا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی اصولی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے یہ تجویز ابھی زیر غور ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے چند دنوں میں صوبے میں مزید تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں ، صدر آصف علی زرداری بھی بلوچستان کے دورے پر آرہے ہیں جو کہ اپنے اس دورے کے دوران صوبے کے مسائل کے حل اور ترقی کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے ۔
جبکہ تمام صوبائی محکموں میں نئی بھرتی پر پابندی عائد کردی گئی ہے،دوسری طرف بلوچستان کی پارلیمانی جماعتوں نے صوبے میں گورنر راج کے خلاف تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اس حوالے سے ان جماعتوں نے پہلے مرحلے میں احتجاجی ریلیاں، مظاہرے کرنے، 25 جنوری کوشٹرڈائون ہڑتال اوریکم فروری کو پہیہ جام کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک چلانے کا یہ فیصلہ پارلیمانی جماعتوں جمعیت علماء السلام (ف)، بی این پی(عوامی)، پی پی پی اور بعض آزاد ارکان نے ایک مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔
ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ فوری طورپر گورنر راج کافیصلہ واپس لیاجائے، صدر مملکت نے آرٹیکل232 کی بجائے234کو لاگو کیا، اب آرٹیکل236کے ذریعے گورنر راج کو واپس لیاجائے ورنہ ایئرپورٹس پردھرنا دے کر طیاروں کی آمدورفت بھی معطل کردی جائے گی۔ ان جماعتوں نے18ارکان کی ریکوزیشن پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر بحث کی گئی۔ اس سے قبل بھی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں گورنر راج کے نفاذ پر ارکان نے زبردست تنقید کی۔
اجلاس میں مشترکہ طورپر گورنر راج کے خلاف قرارداد بھی منظور کی گئی،اسپیکر نے اجلاس کو اگلے دو دن کیلئے ملتوی کیا تاہم گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے اسمبلی اجلاس کوغیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کے احکامات صادر کردیئے۔ اس کے بعد18ارکان اسمبلی نے دوبارہ ریکوزیشن دی جس پر اسپیکرنے اجلاس بلایا اس حوالے سے گورنر کے اس بیان پر کہ بلوچستان اسمبلی بحال ہے اور ارکان اسمبلی معمول کے مطابق اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں۔ ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ، ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے اس سلسلے میں قانونی ماہرین کی الگ الگ رائے بھی سامنے آرہی ہیں۔
دوسری جانب نیب نے سابق صوبائی وزراء کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا ہے اور اب تک16وزراء کے خلاف کرپشن کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔ معزول وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ وہ ساتھیوں سے صلاح ومشورے کے بعد جلد ہی اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ بلوچستان کے عوام کے وسائل کے دفاع کیلئے وہ ایسے اقتدار کو سو بار قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔
گورنر راج کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومت نے اپنی تمام تر توجہ صوبے میں امن کی بحالی پر مرکوز کررکھی ہے، گورنر بلوچستان نواب مگسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قیام امن کے لئے قانوں نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دے دیا ہے اور یہ ہدایت کی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی بھی طور پر سیاسی پریشر استعمال نہیں کرے گا، انہوں نے گورنر سیکرٹریٹ اور چیف سیکرٹری بلوچستان کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی سرکاری ملازم کو کوئی ڈائریکٹو جاری نہ کریں ، اگر کسی بھی سرکاری ملازم نے پوسٹنگ ٹرانسفر کے سلسلے میں سفارش کی کوشش کی تو اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا جبکہ تمام تر تقرر و تبادلے میرٹ پر کئے جائیں گے اور اس کے تمام تر اختیارات چیف سیکرٹری کے پاس ہوںگے جو گاہے بگاہے گورنر سے ہدایات لیتے رہیں گے، اس کے علاوہ تمام محکموں کو صوبائی حکومت کی جانب سے امور کی انجام دہی قواعد و ضوابط کے مطابق سرانجام دینے کی بھی ہدایات جاری کردی گئیں ہیں اور تنبیہہ کی گئی ہے کہ قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے والے افسروں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔
سیاسی حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان میں صوبائی محکموں میں نظم و نسق کو بہتر بنانے اور ترقیاتی امن کیلئے کئے گئے اقدامات پر موجودہ حکومت کسی حد تک کامیاب ہوتی ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق حکومتی امور کو چلانے کیلئے ایڈوائزری کونسل کی تشکیل پر بھی غورو خوض کیاجارہا ہے جس کیلئے مختلف نام زیر غور ہیں اس کونسل میں سابق بیورو کریٹس ،ججز اور بعض سیاسی لوگوں کو بھی لیا جاسکتا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی تک کوئی اصولی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے یہ تجویز ابھی زیر غور ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے چند دنوں میں صوبے میں مزید تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں ، صدر آصف علی زرداری بھی بلوچستان کے دورے پر آرہے ہیں جو کہ اپنے اس دورے کے دوران صوبے کے مسائل کے حل اور ترقی کیلئے تمام سیاسی قوتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے ۔