آوازِ دوست خاموش ہوگئی
مختار مسعود بھی ’’سفر نصیب‘‘ گزارکر چلے گئے
مختار مسعود بھی ''سفر نصیب'' گزارکر چلے گئے۔ ایک زمانہ جن کا معترف، عمدہ نظر نگار، اپنی ہی طرز اور فکر لیے ادیب، زندگی کے مہ و سال اپنی ہی آباد دنیا میں گزار کر اس پار اتر گئے۔ یہ جو اپنی طرز اور اپنی فکرکا اظہار ہوا ہے۔ یہ میں نے ان کی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ ان کی کتاب ''آوازِ دوست'' کا انتساب ''پرکاہ اور پارۂ سنگ کے نام'' مزید وضاحتی بیان ہے ''وہ پرکاہ جو والدہ مرحومہ کی قبر پر اگنے والی گھاس کی پہلی پتی تھی اور وہ پارۂ سنگ جو والد مرحوم کا لوح مزار ہے'' اب سوچیے اور سر دھنیے کیا تنہا دنیا تھی جو مختار مسعود نے آباد کر رکھی تھی کیسے کیسے مناظر اور کیا کیا لوگ وہاں تھے۔
''آوازِ دوست'' کا دیباچہ سہ سطری ہے ملاحظہ ہو ''اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر فردا اور خون سے خون تمنا۔'' مختار مسعود لاہور 18 رمضان المبارک 1392 ہجری، 27 اکتوبر 1972''۔ ''آوازِ دوست'' کا آغاز فارسی کا وہ شعر ہے جہاں سے کتاب کا نام لیا گیا ہے۔
خشک مغز و خش تاروخشک پوست
از کُجا می آید ایں آوازِ دوست
''آواز دوست'' کا پہلا ایڈیشن جنوری 1973 میں چھپا اور 37 واں ایڈیشن فروری 2017 میں۔ آخری ایڈیشن کی قیمت بھی بہت کم ہے صرف 150 روپے۔ میں نے کتاب خریدتے ہوئے دکاندار سے اتنی کم قیمت کا پوچھا تو وہ بولا ''مختار مسعود صاحب اپنے پبلشر سے کہتے تھے قیمت کم رکھو ، ورنہ میں تم سے کتاب واپس لے لوں گا'' اسلم کمال کا ٹائٹل، عمدہ کاغذ صحافت 232، مضبوط جلد۔ مکتبہ تعمیر الانسانیت غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور اسم بامسمیٰ ہیں، خوش رہیں۔ کتاب میں کیا لکھا ہے! لاکھوں لوگ پڑھ چکے، جو رہ گئے ہیں وہ اتنی کم قیمت کتاب خریدیں اور پڑھیں۔
مختار مسعود کی دوسری کتاب ''سفر نصیب'' اور تیسری کتاب ''لوح ایام'' بھی انتساب اور مختصر دیباچے میں فکرونظر کے انوکھے درکھولتے ہیں۔ یہ کتابیں بھی معیاری اشاعت پذیر ہوتی ہیں اور قیمتیں وہی! بہت کم۔
حضرت علیؓ کا قول ہے ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا'' پچھلے تین سال سے میری یہ انتہائی خواہش رہی کہ مختار مسعود سے ملاقات ہوجائے۔ اس دوران کراچی سے لاہور چار مرتبہ جانا ہوا، مگر میں مختار مسعود تک نہ پہنچ سکا، یوں میں ان سے ملاقات نہ کرسکا۔ اللہ کو منظور نہیں تھا۔
مختار مسعود کا ایک دلچسپ واقعہ یہاں لکھتے ہوئے پڑھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر رہا ہوں۔ اس واقعے کے راوی ہمارے والد صوفی عنایت اللہ ہیں۔ ان کی تحریریں 2015 میں کتابی صورت اختیارکرچکی ہیں۔ کتاب ''ارمغانان صوفی'' کے صفحہ نمبر 584-87 پر یہ واقعہ بعنوان ''ملتان شریف (گل گشت کالونی) والا مکان'' موجود ہے۔ والد صاحب لکھتے ہیں ''ملتان شریف پیروں، ولیوں، بزرگوں کا شہر ہے۔
ابتدا ہی سے یہ شہر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اسی لیے میں نے پاکستان پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ مستقل رہائش ملتان شریف ہی میں رکھوں گا اور اس مقصد کے لیے میرے بہنوئی بابو شفیع محمد نے بوہڑ گیٹ کے علاقے میں ایک چبارہ (پہلی منزل کا فلیٹ) اور نیچے ایک بڑی دکان میرے نام الاٹ کروادی تھی، مگر میری فیملی کراچی میں تھی۔ لہٰذا ملتان شریف والا چبارہ اور دکان میری عدم توجہی کے باعث میرے قبضے سے نکل گئے۔ یوں میری خواہش کہ ہم مستقل رہائش ملتان شریف میں رکھیں گے، پوری نہ ہوسکی۔ مگر خدا کی مدد سے 1960 میں میری خواہش (کہ مستقل رہائش ملتان شریف میں ہو) کے آثار پیدا ہوگئے۔
میرے بہنوئی بابو شفیع محمد نے گل گشت کالونی ملتان شریف میں دو پلاٹ ساڑھے سات سات مرلے (ایک پلاٹ تقریباً 200 گز) کے مہاجرین کوٹہ میں الاٹ کرائے، ایک میرے نام اور دوسرا اپنے نام۔ پلاٹوں پر مکانات تعمیرکرنے کی ایک میعاد تھی۔ جب یہ پلاٹ اس میعاد میں تعمیر نہ ہوسکے تو سرکاری انتظامیہ نے دونوں پلاٹ منسوخ کردیے۔ میرے بہنوئی نے پلاٹوں کی بحالی کی ہرچند کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ میں 9 جنوری 1960 کو جھنگ شہر سے ملتان شریف پہنچا تو بابو شفیع محمد کی زبانی معلوم ہوا کہ دونوں پلاٹ منسوخ ہوچکے ہیں۔
یہ خبر سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا۔ اگلے روز میں دفتر الاٹمنٹ ملتان کچہری پہنچا، اوورسیئر اور دیگر افسران سے ملا، مگر چار گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد محکمے کے افسران نے مجھے کہا کہ آپ اپنا وقت یہاں ضایع نہ کریں اور کسی وکیل کے ذریعے کمشنر ملتان کے نام درخواست لکھ کر جمع کرائیں کیونکہ اب پلاٹوں کی منسوخی کے بعد بحالی کے احکامات کمشنر ہی جاری کرسکتے ہیں ممکن ہے آپ کے پلاٹ بحال ہوجائیں۔
میں مایوس و ناکام سا کچہری میں گھوم رہا تھا کہ ایک جگہ میں نے سیاہ کوٹ پہنے وکیلوں کا ایک جھمگٹا سا دیکھا۔ میں اسی طرف چل دیا تاکہ کسی وکیل سے اپنے مسئلے کے بارے میں بات کروں۔
میں جب ان وکلا کے نزدیک پہنچا تو میں حیران و ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے دیکھا وکلا کا یہ جھمگٹا میرے بیٹے حبیب کے گرد لگا ہوا تھا۔ تمام وکلا حبیب کو گھیرے ہوئے تھے اور اس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں آگے بڑھا، حبیب نے مجھے دیکھا تو وہ وکلا کے گھیرے سے نکلتے ہوئے میری جانب بڑھا۔
حبیب مجھ سے مخاطب ہوا تو سارے وکلا بھی میری طرف متوجہ ہوئے۔ میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ ''مجھے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔'' میری بات سن کر حبیب بولا ''ابا جی! یہ سب وکلا آپ کے بچے ہیں۔ آپ انھیں اپنا مسئلہ بتائیں'' میں نے دونوں پلاٹوں کی منسوخی کے بارے میں مفصل بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اب کمشنر ہی مذکورہ پلاٹ بحال کرسکتے ہیں۔ میری بات سن کر حبیب بولا ''ڈپٹی کمشنر تو میرے بڑے مہربان دوست ہیں، میں ابھی کچھ دیر پہلے انھی کے پاس بیٹھا تھا ۔
''ابا جی! درخواست بھی لکھ لیں گے، پہلے ان سے زبانی بات کرلیتے ہیں۔'' یوں حبیب مجھے ڈپٹی کمشنر کے پاس لے گیا اور انتہائی بے تکلفانہ ان سے بولا ''جناب! مجھے تو فن شاعری سے شغف ہے مگر میرے والد صاحب کو فن تعمیر سے دلچسپی ہے'' ڈی سی صاحب مختار مسعود تھے، وہ بڑی ہی خندہ پیشانی سے ملے اور تمام موجود لوگوں سے توجہ ہٹا کر مجھ سے مخاطب رہے۔
تمام معاملات سمجھ کر ڈپٹی کمشنر نے اوورسیئر صاحب کو بلایا۔ اوورسیئر نے جب مجھے ڈی سی صاحب کے سامنے یوں عزت و وقار کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ ابھی کچھ دیر پہلے تک مایوس و پریشان گھوم رہے تھے۔ خیر اوورسیئر صاحب ڈی سی صاحب سے تھوڑی دیر کی اجازت لے کر اپنے کمرے میں گیا اور چند ہی منٹ بعد واپس آکر ڈی سی صاحب سے بولا ''جناب! آپ کے حکم کے مطابق ہم نے منسوخ شدہ پلاٹوں کی جگہ دو نئے پلاٹ انھیں الاٹ کردیے ہیں۔''
اس طرح ساڑھے سات سات مرلے کے دو پلاٹ 516-C میرے نام اور 517-C میرے بہنوئی کے نام الاٹ کردیے گئے۔ بعدازاں اسی پلاٹ پر میں نے اپنے بیٹوں کی مالی معاونت کے ساتھ اپنے والد میاں جی مشرف الدین کے نام پر ''دارالعشرت'' نام کا مکان تعمیرکیا۔
کہاں تو میں بالکل مایوس و ناکام سا کچہری میں گھوم رہا تھا اور کہاں اچانک حبیب کے ملنے پر اس کی وساطت سے دو پلاٹ دوبارہ الاٹ ہوگئے۔ خداوند کریم حبیب کی عمر دراز فرمائے۔ خدا اولیائے کرام و بزرگان عظام و حضرت غوث بہاء الحق کے طفیل حبیب جالب کو ہر شر و شیطانی سے محفوظ رکھے (آمین)
قارئین! یہ تھا وہ واقعہ جس کی وجہ سے میں مختار مسعود سے شرف ملاقات چاہتا تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا، مگر ہمارے والد صاحب نے یہ واقعہ قلم بند کرکے ہمارے گھر کی کہانی میں مختار مسعود کو شامل کرکے ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں میں انھیں محفوظ کرلیا ہے۔ ابا جی کے بنائے گئے ملتان شریف کے گھر میں ہم کبھی آباد نہ ہوسکے، گل گشت کالونی ملتان شریف والا گھر ہمیشہ کرائے پر رہا۔ مگر ہمارے ابا صوفی عنایت اللہ کی خواہش کو اللہ نے یوں پورا کیا کہ وہ ملتان شریف میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ بیرون دولت گیٹ ملتان شریف کے قبرستان میں ان کی لحد کی لوح پر میرے چار مصرعے کنداں ہیں:
خادم الاصفیا تھے ابا جی
عشقِ خیرالورا تھے ابا جی
سر جھکا کر چلے تمام حیات
شیریں لب با خدا تھے ابا جی
اللہ ہمارے والد صاحب، بھائی حبیب جالب اور مختار مسعود کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
''آوازِ دوست'' کا دیباچہ سہ سطری ہے ملاحظہ ہو ''اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں۔ ایک طویل مختصر اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکر فردا اور خون سے خون تمنا۔'' مختار مسعود لاہور 18 رمضان المبارک 1392 ہجری، 27 اکتوبر 1972''۔ ''آوازِ دوست'' کا آغاز فارسی کا وہ شعر ہے جہاں سے کتاب کا نام لیا گیا ہے۔
خشک مغز و خش تاروخشک پوست
از کُجا می آید ایں آوازِ دوست
''آواز دوست'' کا پہلا ایڈیشن جنوری 1973 میں چھپا اور 37 واں ایڈیشن فروری 2017 میں۔ آخری ایڈیشن کی قیمت بھی بہت کم ہے صرف 150 روپے۔ میں نے کتاب خریدتے ہوئے دکاندار سے اتنی کم قیمت کا پوچھا تو وہ بولا ''مختار مسعود صاحب اپنے پبلشر سے کہتے تھے قیمت کم رکھو ، ورنہ میں تم سے کتاب واپس لے لوں گا'' اسلم کمال کا ٹائٹل، عمدہ کاغذ صحافت 232، مضبوط جلد۔ مکتبہ تعمیر الانسانیت غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور اسم بامسمیٰ ہیں، خوش رہیں۔ کتاب میں کیا لکھا ہے! لاکھوں لوگ پڑھ چکے، جو رہ گئے ہیں وہ اتنی کم قیمت کتاب خریدیں اور پڑھیں۔
مختار مسعود کی دوسری کتاب ''سفر نصیب'' اور تیسری کتاب ''لوح ایام'' بھی انتساب اور مختصر دیباچے میں فکرونظر کے انوکھے درکھولتے ہیں۔ یہ کتابیں بھی معیاری اشاعت پذیر ہوتی ہیں اور قیمتیں وہی! بہت کم۔
حضرت علیؓ کا قول ہے ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا'' پچھلے تین سال سے میری یہ انتہائی خواہش رہی کہ مختار مسعود سے ملاقات ہوجائے۔ اس دوران کراچی سے لاہور چار مرتبہ جانا ہوا، مگر میں مختار مسعود تک نہ پہنچ سکا، یوں میں ان سے ملاقات نہ کرسکا۔ اللہ کو منظور نہیں تھا۔
مختار مسعود کا ایک دلچسپ واقعہ یہاں لکھتے ہوئے پڑھنے والوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر رہا ہوں۔ اس واقعے کے راوی ہمارے والد صوفی عنایت اللہ ہیں۔ ان کی تحریریں 2015 میں کتابی صورت اختیارکرچکی ہیں۔ کتاب ''ارمغانان صوفی'' کے صفحہ نمبر 584-87 پر یہ واقعہ بعنوان ''ملتان شریف (گل گشت کالونی) والا مکان'' موجود ہے۔ والد صاحب لکھتے ہیں ''ملتان شریف پیروں، ولیوں، بزرگوں کا شہر ہے۔
ابتدا ہی سے یہ شہر مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اسی لیے میں نے پاکستان پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ مستقل رہائش ملتان شریف ہی میں رکھوں گا اور اس مقصد کے لیے میرے بہنوئی بابو شفیع محمد نے بوہڑ گیٹ کے علاقے میں ایک چبارہ (پہلی منزل کا فلیٹ) اور نیچے ایک بڑی دکان میرے نام الاٹ کروادی تھی، مگر میری فیملی کراچی میں تھی۔ لہٰذا ملتان شریف والا چبارہ اور دکان میری عدم توجہی کے باعث میرے قبضے سے نکل گئے۔ یوں میری خواہش کہ ہم مستقل رہائش ملتان شریف میں رکھیں گے، پوری نہ ہوسکی۔ مگر خدا کی مدد سے 1960 میں میری خواہش (کہ مستقل رہائش ملتان شریف میں ہو) کے آثار پیدا ہوگئے۔
میرے بہنوئی بابو شفیع محمد نے گل گشت کالونی ملتان شریف میں دو پلاٹ ساڑھے سات سات مرلے (ایک پلاٹ تقریباً 200 گز) کے مہاجرین کوٹہ میں الاٹ کرائے، ایک میرے نام اور دوسرا اپنے نام۔ پلاٹوں پر مکانات تعمیرکرنے کی ایک میعاد تھی۔ جب یہ پلاٹ اس میعاد میں تعمیر نہ ہوسکے تو سرکاری انتظامیہ نے دونوں پلاٹ منسوخ کردیے۔ میرے بہنوئی نے پلاٹوں کی بحالی کی ہرچند کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ میں 9 جنوری 1960 کو جھنگ شہر سے ملتان شریف پہنچا تو بابو شفیع محمد کی زبانی معلوم ہوا کہ دونوں پلاٹ منسوخ ہوچکے ہیں۔
یہ خبر سن کر میں بڑا رنجیدہ ہوا۔ اگلے روز میں دفتر الاٹمنٹ ملتان کچہری پہنچا، اوورسیئر اور دیگر افسران سے ملا، مگر چار گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد محکمے کے افسران نے مجھے کہا کہ آپ اپنا وقت یہاں ضایع نہ کریں اور کسی وکیل کے ذریعے کمشنر ملتان کے نام درخواست لکھ کر جمع کرائیں کیونکہ اب پلاٹوں کی منسوخی کے بعد بحالی کے احکامات کمشنر ہی جاری کرسکتے ہیں ممکن ہے آپ کے پلاٹ بحال ہوجائیں۔
میں مایوس و ناکام سا کچہری میں گھوم رہا تھا کہ ایک جگہ میں نے سیاہ کوٹ پہنے وکیلوں کا ایک جھمگٹا سا دیکھا۔ میں اسی طرف چل دیا تاکہ کسی وکیل سے اپنے مسئلے کے بارے میں بات کروں۔
میں جب ان وکلا کے نزدیک پہنچا تو میں حیران و ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے دیکھا وکلا کا یہ جھمگٹا میرے بیٹے حبیب کے گرد لگا ہوا تھا۔ تمام وکلا حبیب کو گھیرے ہوئے تھے اور اس سے باتیں کر رہے تھے۔ میں آگے بڑھا، حبیب نے مجھے دیکھا تو وہ وکلا کے گھیرے سے نکلتے ہوئے میری جانب بڑھا۔
حبیب مجھ سے مخاطب ہوا تو سارے وکلا بھی میری طرف متوجہ ہوئے۔ میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ ''مجھے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔'' میری بات سن کر حبیب بولا ''ابا جی! یہ سب وکلا آپ کے بچے ہیں۔ آپ انھیں اپنا مسئلہ بتائیں'' میں نے دونوں پلاٹوں کی منسوخی کے بارے میں مفصل بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اب کمشنر ہی مذکورہ پلاٹ بحال کرسکتے ہیں۔ میری بات سن کر حبیب بولا ''ڈپٹی کمشنر تو میرے بڑے مہربان دوست ہیں، میں ابھی کچھ دیر پہلے انھی کے پاس بیٹھا تھا ۔
''ابا جی! درخواست بھی لکھ لیں گے، پہلے ان سے زبانی بات کرلیتے ہیں۔'' یوں حبیب مجھے ڈپٹی کمشنر کے پاس لے گیا اور انتہائی بے تکلفانہ ان سے بولا ''جناب! مجھے تو فن شاعری سے شغف ہے مگر میرے والد صاحب کو فن تعمیر سے دلچسپی ہے'' ڈی سی صاحب مختار مسعود تھے، وہ بڑی ہی خندہ پیشانی سے ملے اور تمام موجود لوگوں سے توجہ ہٹا کر مجھ سے مخاطب رہے۔
تمام معاملات سمجھ کر ڈپٹی کمشنر نے اوورسیئر صاحب کو بلایا۔ اوورسیئر نے جب مجھے ڈی سی صاحب کے سامنے یوں عزت و وقار کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو وہ بڑا حیران ہوا کہ یہ ابھی کچھ دیر پہلے تک مایوس و پریشان گھوم رہے تھے۔ خیر اوورسیئر صاحب ڈی سی صاحب سے تھوڑی دیر کی اجازت لے کر اپنے کمرے میں گیا اور چند ہی منٹ بعد واپس آکر ڈی سی صاحب سے بولا ''جناب! آپ کے حکم کے مطابق ہم نے منسوخ شدہ پلاٹوں کی جگہ دو نئے پلاٹ انھیں الاٹ کردیے ہیں۔''
اس طرح ساڑھے سات سات مرلے کے دو پلاٹ 516-C میرے نام اور 517-C میرے بہنوئی کے نام الاٹ کردیے گئے۔ بعدازاں اسی پلاٹ پر میں نے اپنے بیٹوں کی مالی معاونت کے ساتھ اپنے والد میاں جی مشرف الدین کے نام پر ''دارالعشرت'' نام کا مکان تعمیرکیا۔
کہاں تو میں بالکل مایوس و ناکام سا کچہری میں گھوم رہا تھا اور کہاں اچانک حبیب کے ملنے پر اس کی وساطت سے دو پلاٹ دوبارہ الاٹ ہوگئے۔ خداوند کریم حبیب کی عمر دراز فرمائے۔ خدا اولیائے کرام و بزرگان عظام و حضرت غوث بہاء الحق کے طفیل حبیب جالب کو ہر شر و شیطانی سے محفوظ رکھے (آمین)
قارئین! یہ تھا وہ واقعہ جس کی وجہ سے میں مختار مسعود سے شرف ملاقات چاہتا تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا، مگر ہمارے والد صاحب نے یہ واقعہ قلم بند کرکے ہمارے گھر کی کہانی میں مختار مسعود کو شامل کرکے ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں میں انھیں محفوظ کرلیا ہے۔ ابا جی کے بنائے گئے ملتان شریف کے گھر میں ہم کبھی آباد نہ ہوسکے، گل گشت کالونی ملتان شریف والا گھر ہمیشہ کرائے پر رہا۔ مگر ہمارے ابا صوفی عنایت اللہ کی خواہش کو اللہ نے یوں پورا کیا کہ وہ ملتان شریف میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ بیرون دولت گیٹ ملتان شریف کے قبرستان میں ان کی لحد کی لوح پر میرے چار مصرعے کنداں ہیں:
خادم الاصفیا تھے ابا جی
عشقِ خیرالورا تھے ابا جی
سر جھکا کر چلے تمام حیات
شیریں لب با خدا تھے ابا جی
اللہ ہمارے والد صاحب، بھائی حبیب جالب اور مختار مسعود کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)