سرکاری بھرتیوں پر پابندی کا خوش آیند اقدام

جس شخص کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے وہ نیک نام جج کے ساتھ ساتھ اصولوں کی پاسداری میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات تک سرکاری بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے صوابدیدی استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن نے انتخابات تک سرکاری بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کے صوابدیدی استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سرکاری بھرتیوں پر پابندی سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں یہ پابندی الیکشن کمیشن نے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے شکایات موصول ہونے پر لگائی ہے۔ تاہم پبلک سروس کمیشن پر بھرتی پر پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم اور دیگر وزراء کے صوابدیدی فنڈز کے استعمال پر بھی پابندی ہو گی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ پری پول رگنگ کے الزامات اور فنڈز کے بے جا اور غلط استعمال کو روکنے کی خاطر صوابدیدی فنڈز کے اجرا پر پابندی کا جمہوری حلقے خیرمقدم کریں گے ۔ایک طرف الیکشن کمیشن نے آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کا قوم سے عہد کررکھا ہے ، دوسری جانب بعض حلقوں نے الیکشن کمشنر کی ضعیف العمری کو شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے کا شوشہ چھوڑتے ہوئے اس حقیقت کو بھی فراموش کردیا کہ جس شخص کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے وہ عدلیہ کے نیک نام جج رہ چکے ہیں اور باکردار ہونے کے ساتھ ساتھ اصولوں کی پاسداری میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں جب کہ آیندہ انتخابات کو اپنی زندگی کا مشن اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امر بنانے کا عوام سے وعدہ کرچکے ہیں ،چنانچہ وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ پر بندش میں کسی قسم کی سیاسی مخاصمت، مصلحت یا جانبداری کا کوئی شائبہ تک نہیں ملتا ۔

یہ اقدام اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ اپوزیشن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی یہ شکایت بجا ہے کہ وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز سے جاری منصوبوں کی رقوم کو اراکین قومی و صوبائی اسمبلی میں تقسیم سے کرپشن اور اقربہ پروری اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات کا نیا شور اٹھ سکتا ہے اور کئی منصوبے اربوں روپے کے فنڈز کے مخصوص استعمال کے ایجنڈے کے باعث حکومت مخالف سیاست دانوں میں شکوک و شبہات پیدا کر سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق کسی ترقیاتی منصوبے کے فنڈز دوسرے منصوبے کو منتقل نہیں کیے جا سکتے اور اگر کوئی رقم منتقل کی گئی ہے تو اسے منجمد تصور کیا جائے گا۔


الیکشن کمیشن نے کہا کہ عوام کی جانب سے عام انتخابات سے پہلے سیاسی رشوت کے طور پر مختلف محکموں میں ملازمتوں کی فراہمی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ ہزاروں افراد کو سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں تا کہ ان تقرریوں کے ذریعے انتخابات پر اثر انداز ہو سکیں یہ طریقہ کار قانونی اخلاقی اور جمہوری اصولوں کے منافی ہے لہٰذا صرف صوبائی پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی اسامیوں کے سوا تمام تقرریوں پر پابندی عائد کی جاتی ہے جب کہ یہ بھی کمیشن کے علم میں آیا کہ کئی ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈز میں منتقل کیے جا رہے تا کہ وہ اپنے حلقے کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر سکیں یہ طریقہ کار پری پول دھاندلی کا دوسرا پہلو ہے، کمیشن نے یہ فیصلہ صائب کیا ہے کہ عام انتخابات شفاف اور منصفانہ بنیادوں پر کرائے جائیں گے۔

اعدادوشمار کے مطابق 20 جون2012 کے مالی سال کے اختتام پر پیپلز ورکس پروگرامii کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام(پی ایس ڈی پی) کے منصوبوں کو ری ایڈجسٹ کرنیکی مد میں 33 ارب روپے کے کل اخراجات بتائے گئے جب کہ وزیراعظم راجہ اشرف نے اپنی وزارت عظمیٰ کی میعاد کے ساڑھے تین ماہ کے دوران مزید5 ارب روپے صوابدید فنڈکی مد میں نکال لیے جب کہ ملک بھر میں اس فنڈ کے تحت بھرتیوں کا جمعہ بازار لگنا تھا ۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے انتخابی ضابطہ اخلاق میں پہلے ہی انتخابی اخراجات کی ایک شفاف حد مقرر کی ہے جس کے تحت انتخابی مہم کی مانیٹرنگ ہوگی،اور ہدایت کی گئی ہے کہ بینر وپوسٹرز کی اشاعت اور دیگر انتخابی اخراجات کو ضابطہ اخلاق کے طے شدہ شیڈول سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔یوں دیکھا جائے تو انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کا اقدام خوش آیند اور بروقت ہے ۔وزیر اعظم اور دیگر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں صوابدیدی فنڈز کی منتقلی کا نوٹس لیتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز دوسرے منصوبوں کو منتقل کرنے پر پابندی کے مثبت نتائج نکلیں گے ۔
Load Next Story