حبیب جالبؔ کا آخری گواہ بھی چل بسا
بہادر نڈر، بے خوف، مال و متاع کے لالچ سے کوسوں دور۔ کہاں ہیں اب ایسے لوگ؟
لاہور میں میرے دوست رانا مجید کا فون آیا ہے، وہ خبر دے رہے ہیں کہ زاہد عکاسی کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ خبر سن کر مجھے بہت زیادہ دکھ ہوا ہے۔ ملک کے حالات سے میں پہلے ہی بہت دکھی تھا، زاہد عکاسی کی موت پر دکھی دل اور بھی دکھی ہو گیا۔ لاہور بھی بڑی تیزی سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔
زاہد عکاسی کی موت پر مجھے ماضی میں گزرا ایک واقعہ پھر یاد آ گیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 1964کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی متفقہ امیدوار برائے صدارت، قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ ایک طرف جنرل ایوب تھے اور ان کے ساتھ چوہدری خلیق الزمان تھے کہ جنہوں نے 1940میں لاہور کے منٹو پارک (اب اقبال پارک) کے منعقدہ جلسے میں مشہور قرارداد پاکستان منظوری کے لیے پیش کی تھی ان کے علاوہ اور کوئی خاص بندہ جنرل ایوب کے ساتھ نہیں تھا۔ ادھر مادر ملت کے ساتھ وقت کے تمام قد آور سیاستدان موجود تھے۔
مولانا بھاشانی، خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، خان عبدالولی خان، مولانا مودودی، میر غوث بخش بزنجو، محمود الحق عثمانی، غلام محمد لونڈ خوڑ، میاں محمود علی قصوری، نوابزادہ نصراللہ خان، سردار شوکت حیات، مولانا عبدالستار خان نیازی، میاں بشیر احمد، بشیر ظفر (نائب صدر عوامی لیگ)، جنرل اعظم خان، بیگم افتخار الدین ، ملک غلام جیلانی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، محمد حسین چٹھہ، بیگم نسیم شمیم، اشرف ملک، ارباب سکندر خلیل، حسن اے شیخ ایڈووکیٹ اور بھی نامور سیاست دان۔ یہ سب مادر ملت کے ساتھ تھے۔
انتخابی جلسوں کے لیے متحدہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ حبیب جالب کو ہر جلسے میں شریک رکھا جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ حبیب جالب کی شاعری سننے کے لیے عوام و خواص بڑی تعداد میں مادر ملت کے جلسوں میں آتے تھے۔ جس شہر میں بھی مادر ملت کا جلسہ ہوتا، شہر کی دیواروں پر جہازی سائز کے پوسٹر چسپاں کیے جاتے تھے اور ان پوسٹروں میں دو ہی نام جلی حروف میں لکھے جاتے تھے ایک نام مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور دوسرا حبیب جالب۔
ایوبی حکومت حبیب جالب کی شاعری سے بہت پریشان تھی اور جنرل ایوب اور ان کے دست راست گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے ہر قیمت پر حبیب جالب کو مادر ملت کے جلسوں سے دور رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ادھر اپوزیشن والے بھی چوکنے تھے۔ اپوزیشن نے میاں محمود علی قصوری کی ڈیوٹی لگا دی کہ حبیب جالب کو وہ سنبھالیں اور جلسوں میں لانا اور لے جانا بھی ان ہی کے سپرد کر دیا۔
مادر ملت کا کراچی کے نشتر پارک میں کامیاب جلسہ ہو چکا تھا، حبیب جالب اپنی نظموں دستور اور جمہوریت سے عوام کے دل گرما چکے تھے، گھر گھر جالب کی شاعری کا چرچا تھا۔ اب آیندہ جلسہ پشاور میں ہونا تھا، میاں محمود علی قصوری نے جالب صاحب کو کراچی سے اپنی تحویل میں لیا اور انھیں قصور میں اپنی خاندانی حویلی میں پہنچا دیا اور جالب صاحب سے کہا کہ آپ آرام سے یہاں رہیں، آپ کی سہولت کے لیے ہر طرح کا انتظام موجود ہے۔ ہمیں جب آپ کو جلسے میں لے جانا ہو گا ہم یہاں سے آپ کو لے جائیں گے۔
جالب صاحب نے جیسے تیسے ایک دن اور ایک رات گزاری، پھر انھیں کافی ہاؤس لاہور کے دوست یاد آنے لگے۔ شدت جب بڑھی تو جا پہنچے۔ ادھر لاہور میں پولیس جالب صاحب کو ڈھونڈ تی پھر رہی تھی۔ نواب کالا باغ کا حکم تھا کہ ''اگر شام تک حبیب جالب کو نہ پکڑا تو پولیس والوں کی وردیاں اتروا دوں گا''۔ خیر جالب صاحب کافی ہاؤس مال روڈ لاہور پہنچے تو موجود دوستوں اور مداحوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کافی ہاؤس کے منیجر (کہ جو پولیس کا مخبر تھا) نے پرانی انارکلی تھانہ فون کر کے جالب کی موجودگی کی اطلاع کر دی، اور پولیس کافی ہاؤس آ گئی۔
جالب صاحب اس وقت جن دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے وہ تھے مسلم لیگ کے کارکن صوفی عبد الغفار، نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن مولانا حسن الدین ہاشمی، ڈگلس پورہ لائل پور (اب فیصل آباد) کے طالب علم شمیم احمد (جو بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بنے) اور ایک اور طالب علم جو اس وقت ایم اے اردو کر رہے تھے اور ان کا تعلق بھی لائل پور ہی سے تھا، ان کا نام زاہد عکاسی تھا (جن کے لیے میں آج پرانی یادیں لے کر بیٹھا ہوں) ان چاروں کی موجودگی میں پولیس نے حبیب جالب کو زبردستی اٹھایا اور کافی ہاؤس کے باہر کھڑی جیپ میں ڈال کر لے گئی۔ اگلے روز یکم اکتوبر 1964کے اخبارات میں جو خبر شایع ہوئی، اس زمانے کے مشہور اخبار امروز کی خبر یہاں نقل کر رہا ہوں۔
سرخی تھی ''مشہور شاعر حبیب جالب گرفتار کر لیے گئے، لاہور پولیس نے مشہور شاعر حبیب جالب کو کل گرفتار کر کے ان کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے، ان کی گرفتاری تعزیرات پاکستان کی دفعہ 307 (اقدام قتل) اور دفعہ 326 (ضرب شدید پہنچانا) کے تحت عمل میں آئی ہے۔ حبیب جالب پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی مزید تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔ واضح رہے کہ متحدہ حزب اختلاف کے ایک اعلان کے مطابق حبیب جالب کو حزب اختلاف کی صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں شریک ہونا تھا'' یہ تھی گرفتاری کی خبر جو اخبارات میں شایع ہوئی۔ تفصیل اس خبر کی یہ تھی کہ نواب کالا باغ کا ایک پروردہ بدمعاش بابو وارث جو لاہور کے علاقے کرشن نگر کا منتخب کونسلر بھی تھا۔ اس نے یہ مقدمہ درج کروایا تھا اور وہ زخمی حالت میں اسپتال میں بھی پڑا تھا۔
اس کا بیان تھا کہ ''میں نے حبیب جالب سے اپنے ایک ہزار روپے جو میں نے قرض دیے تھے مانگے، تو حبیب جالب نے اپنے بیگ سے چاقو نکال کر مجھ پر حملہ کر دیا'' خیر بات تو خاصی لمبی ہے۔ مختصر یہ کہ اس مقدمے میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور نواب کالا باغ کے جبر کے باوجود عدالت میں حبیب جالب کی طرف سے جو گواہان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضر ہوئے ان میں زاہد عکاسی بھی شامل تھے۔ زاہد عکاسی نے صحافی کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا۔ مختلف رسائل کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل رہے۔ کتابیں لکھیں، تراجم کیے، بہت سی کتابوں کی اشاعت میں معاون رہے اور ساری زندگی جالب کے گواہ ہونے پر فخر کرتے اسی سچائی کے ساتھ گزار دی۔
جالب صاحب کے اس مشہور مقدمے میں اور بھی گواہ تھے جو حبیب جالب کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ روزنامہ امروز کے چیف رپورٹر اور ممتاز دانشور عبد اللہ ملک، نوائے وقت کے چیف رپورٹر شریف فاروق، نیشنل عوامی پارٹی کے رؤف طاہر و دیگر۔ جالب کے وکلاء تھے میاں محمود علی قصوری، اعجاز حسین بٹالوی، بیرسٹر ایم انور ایک نام عابد حسن منٹو کا ہے۔ جو زندہ ہیں، باقی تمام احباب حبیب جالب کے پاس جا چکے۔ تازہ جدائی کا صدمہ ذوالفقار علی زاہد عکاسی کا ہے۔ اب ایسے بہادر نڈر، بے خوف، مال و متاع کے لالچ سے کوسوں دور۔ کہاں ہیں اب ایسے لوگ؟ لاہور جاتے ہوئے زاہد عکاسی صاحب سے ملاقات کا خیال ساتھ ہوتا تھا۔ اب تو ان کی آخری آرام گاہ ہی ان کا پتہ دے گی، حق مغفرت کرے۔
زاہد عکاسی کی موت پر مجھے ماضی میں گزرا ایک واقعہ پھر یاد آ گیا ہے۔ اب تو یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 1964کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی متفقہ امیدوار برائے صدارت، قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ ایک طرف جنرل ایوب تھے اور ان کے ساتھ چوہدری خلیق الزمان تھے کہ جنہوں نے 1940میں لاہور کے منٹو پارک (اب اقبال پارک) کے منعقدہ جلسے میں مشہور قرارداد پاکستان منظوری کے لیے پیش کی تھی ان کے علاوہ اور کوئی خاص بندہ جنرل ایوب کے ساتھ نہیں تھا۔ ادھر مادر ملت کے ساتھ وقت کے تمام قد آور سیاستدان موجود تھے۔
مولانا بھاشانی، خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، خان عبدالولی خان، مولانا مودودی، میر غوث بخش بزنجو، محمود الحق عثمانی، غلام محمد لونڈ خوڑ، میاں محمود علی قصوری، نوابزادہ نصراللہ خان، سردار شوکت حیات، مولانا عبدالستار خان نیازی، میاں بشیر احمد، بشیر ظفر (نائب صدر عوامی لیگ)، جنرل اعظم خان، بیگم افتخار الدین ، ملک غلام جیلانی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، محمد حسین چٹھہ، بیگم نسیم شمیم، اشرف ملک، ارباب سکندر خلیل، حسن اے شیخ ایڈووکیٹ اور بھی نامور سیاست دان۔ یہ سب مادر ملت کے ساتھ تھے۔
انتخابی جلسوں کے لیے متحدہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ حبیب جالب کو ہر جلسے میں شریک رکھا جائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ حبیب جالب کی شاعری سننے کے لیے عوام و خواص بڑی تعداد میں مادر ملت کے جلسوں میں آتے تھے۔ جس شہر میں بھی مادر ملت کا جلسہ ہوتا، شہر کی دیواروں پر جہازی سائز کے پوسٹر چسپاں کیے جاتے تھے اور ان پوسٹروں میں دو ہی نام جلی حروف میں لکھے جاتے تھے ایک نام مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور دوسرا حبیب جالب۔
ایوبی حکومت حبیب جالب کی شاعری سے بہت پریشان تھی اور جنرل ایوب اور ان کے دست راست گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے ہر قیمت پر حبیب جالب کو مادر ملت کے جلسوں سے دور رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ادھر اپوزیشن والے بھی چوکنے تھے۔ اپوزیشن نے میاں محمود علی قصوری کی ڈیوٹی لگا دی کہ حبیب جالب کو وہ سنبھالیں اور جلسوں میں لانا اور لے جانا بھی ان ہی کے سپرد کر دیا۔
مادر ملت کا کراچی کے نشتر پارک میں کامیاب جلسہ ہو چکا تھا، حبیب جالب اپنی نظموں دستور اور جمہوریت سے عوام کے دل گرما چکے تھے، گھر گھر جالب کی شاعری کا چرچا تھا۔ اب آیندہ جلسہ پشاور میں ہونا تھا، میاں محمود علی قصوری نے جالب صاحب کو کراچی سے اپنی تحویل میں لیا اور انھیں قصور میں اپنی خاندانی حویلی میں پہنچا دیا اور جالب صاحب سے کہا کہ آپ آرام سے یہاں رہیں، آپ کی سہولت کے لیے ہر طرح کا انتظام موجود ہے۔ ہمیں جب آپ کو جلسے میں لے جانا ہو گا ہم یہاں سے آپ کو لے جائیں گے۔
جالب صاحب نے جیسے تیسے ایک دن اور ایک رات گزاری، پھر انھیں کافی ہاؤس لاہور کے دوست یاد آنے لگے۔ شدت جب بڑھی تو جا پہنچے۔ ادھر لاہور میں پولیس جالب صاحب کو ڈھونڈ تی پھر رہی تھی۔ نواب کالا باغ کا حکم تھا کہ ''اگر شام تک حبیب جالب کو نہ پکڑا تو پولیس والوں کی وردیاں اتروا دوں گا''۔ خیر جالب صاحب کافی ہاؤس مال روڈ لاہور پہنچے تو موجود دوستوں اور مداحوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کافی ہاؤس کے منیجر (کہ جو پولیس کا مخبر تھا) نے پرانی انارکلی تھانہ فون کر کے جالب کی موجودگی کی اطلاع کر دی، اور پولیس کافی ہاؤس آ گئی۔
جالب صاحب اس وقت جن دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے وہ تھے مسلم لیگ کے کارکن صوفی عبد الغفار، نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن مولانا حسن الدین ہاشمی، ڈگلس پورہ لائل پور (اب فیصل آباد) کے طالب علم شمیم احمد (جو بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بنے) اور ایک اور طالب علم جو اس وقت ایم اے اردو کر رہے تھے اور ان کا تعلق بھی لائل پور ہی سے تھا، ان کا نام زاہد عکاسی تھا (جن کے لیے میں آج پرانی یادیں لے کر بیٹھا ہوں) ان چاروں کی موجودگی میں پولیس نے حبیب جالب کو زبردستی اٹھایا اور کافی ہاؤس کے باہر کھڑی جیپ میں ڈال کر لے گئی۔ اگلے روز یکم اکتوبر 1964کے اخبارات میں جو خبر شایع ہوئی، اس زمانے کے مشہور اخبار امروز کی خبر یہاں نقل کر رہا ہوں۔
سرخی تھی ''مشہور شاعر حبیب جالب گرفتار کر لیے گئے، لاہور پولیس نے مشہور شاعر حبیب جالب کو کل گرفتار کر کے ان کا ریمانڈ حاصل کر لیا ہے، ان کی گرفتاری تعزیرات پاکستان کی دفعہ 307 (اقدام قتل) اور دفعہ 326 (ضرب شدید پہنچانا) کے تحت عمل میں آئی ہے۔ حبیب جالب پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی مزید تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔ واضح رہے کہ متحدہ حزب اختلاف کے ایک اعلان کے مطابق حبیب جالب کو حزب اختلاف کی صدارتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں شریک ہونا تھا'' یہ تھی گرفتاری کی خبر جو اخبارات میں شایع ہوئی۔ تفصیل اس خبر کی یہ تھی کہ نواب کالا باغ کا ایک پروردہ بدمعاش بابو وارث جو لاہور کے علاقے کرشن نگر کا منتخب کونسلر بھی تھا۔ اس نے یہ مقدمہ درج کروایا تھا اور وہ زخمی حالت میں اسپتال میں بھی پڑا تھا۔
اس کا بیان تھا کہ ''میں نے حبیب جالب سے اپنے ایک ہزار روپے جو میں نے قرض دیے تھے مانگے، تو حبیب جالب نے اپنے بیگ سے چاقو نکال کر مجھ پر حملہ کر دیا'' خیر بات تو خاصی لمبی ہے۔ مختصر یہ کہ اس مقدمے میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور نواب کالا باغ کے جبر کے باوجود عدالت میں حبیب جالب کی طرف سے جو گواہان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حاضر ہوئے ان میں زاہد عکاسی بھی شامل تھے۔ زاہد عکاسی نے صحافی کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا۔ مختلف رسائل کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل رہے۔ کتابیں لکھیں، تراجم کیے، بہت سی کتابوں کی اشاعت میں معاون رہے اور ساری زندگی جالب کے گواہ ہونے پر فخر کرتے اسی سچائی کے ساتھ گزار دی۔
جالب صاحب کے اس مشہور مقدمے میں اور بھی گواہ تھے جو حبیب جالب کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ روزنامہ امروز کے چیف رپورٹر اور ممتاز دانشور عبد اللہ ملک، نوائے وقت کے چیف رپورٹر شریف فاروق، نیشنل عوامی پارٹی کے رؤف طاہر و دیگر۔ جالب کے وکلاء تھے میاں محمود علی قصوری، اعجاز حسین بٹالوی، بیرسٹر ایم انور ایک نام عابد حسن منٹو کا ہے۔ جو زندہ ہیں، باقی تمام احباب حبیب جالب کے پاس جا چکے۔ تازہ جدائی کا صدمہ ذوالفقار علی زاہد عکاسی کا ہے۔ اب ایسے بہادر نڈر، بے خوف، مال و متاع کے لالچ سے کوسوں دور۔ کہاں ہیں اب ایسے لوگ؟ لاہور جاتے ہوئے زاہد عکاسی صاحب سے ملاقات کا خیال ساتھ ہوتا تھا۔ اب تو ان کی آخری آرام گاہ ہی ان کا پتہ دے گی، حق مغفرت کرے۔