پاک بھارت تعلقات
بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن پر اشتعال انگیز کارروائی بیرونی ممالک کے لیے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن برقرار رکھنے میں سب سے زیادہ پاکستان فعال نظر آتا ہے لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ بھارت نے پھر اپنی پرانی روش کی جانب رخ کر لیا ہے، وہ پاکستان اور بھارت کی دوستی کا خواہاں نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی کرکٹ میں جیت کے بعد بھارت کے مذہبی انتہا پسند گروپ شیو سینا کی جانب سے جو کچھ وہاں بسنے والی مسلمان آبادی کے ساتھ کیا گیا کافی ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اب بھی سیکولر کا راگ الاپنے والے بڑے بڑے مہان دراصل اندر سے انتہائی قدامت پسند ہندو ہیں جو مذہب کی تلوار کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے، اگر پاکستان کی جیت اسی طرح بھارت میں آگ اور خون کا کھیل کھیلتی رہی تو اس کے لیے دونوں ممالک کو سنجیدہ ہو کر سوچنا پڑے گا کیونکہ اس کھیل میں مسلمانوں کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
پچھلے دس سے پندرہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہوا اس میں تین پاکستانی اور دو بھارتی فوجیوں کی جان گئی۔ یہ کھیل کس نے شروع کیا تھا؟ کیا یہ ان کی انتہا پسند جماعتوں کے حامیوں کی کارروائی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کو خونی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں تاجر حضرات بھارت کو تجارت کے لیے موزوں قرار دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، ان تحفظات کے پیچھے کیا کہانی ہے اب یہ بھی ڈھکی چھپی نہیں لیکن پھر بھی پاکستانی حکومت اپنے امن کی آشا کے موقف پر قائم تھی، گویا اپنوں سے بیر اور اپنا نقصان بھی اس دوستی پر برداشت تھا لیکن لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی شرارت نے اس عداوت کا بھانڈا پھوڑ ہی دیا جو غالباً بھارتی حکومت بیرونی دنیا کو اپنے اندر چھپائے مسکراتے چہرے کا ڈراما کرتی رہی۔
ایک جانب بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کہتے ہیں کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دے تو جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ ان کا خیال ہے کہ دہلی میں ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی کا قیام اور پاک بھارت کرکٹ دونوں ممالک کو قریب لا رہی ہے، اس کے دو روز بعد ہی من موہن سنگھ آرمی ڈے کی ضیافت کے موقع پر صحافی حضرات سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو اس واقعے کا ذمے دار ہے اسے سامنے لانا چاہیے، مجھے یقین ہے کہ پاکستان نے اس حادثے میں جس میں دو بھارتی فوجی مارے گئے محسوس کر لیا ہو گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوجی کا سر قلم کرنا ایک وحشیانہ عمل ہے اور یہ واقعہ ناقابل برداشت ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی یہ خبر اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت پاکستانی افواج کے لیے کس طرح سوچ رہی ہے۔
پاکستان کی اندرونی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بیان کہ پاکستان کے لیے بھارت اس قدر خطرناک نہیں ہے جتنی وہ قوتیں ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی فضا قائم کر رہی ہیں، شاید یہ بیان امن کی آشا پر یقین رکھتے ہوئے دیا گیا ہو گا اور کچھ ہی دنوں میں لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہوا اسے ایک سلگتی چنگاری سے مشابہت دی جا سکتی ہے جو غالباً پاکستان اور بھارت کے ٹھنڈے ہوتے جنگی جذبات کو بھڑکانے کے لیے کافی ہے۔
نرم روی سے انتہائی سردروی تک کے سفر میں اتنا کم عرصہ حیران کن ہے۔ اسی سفر میں وہ پاکستانی ہاکی کے کھلاڑی بھی نشانہ بنے جنھیں بھارت لیگ میں شامل کیا گیا تھا، نو کھلاڑیوں کو اپنی مہارت اور کھیل دکھانے کا موقع ایک سرد اور تلخ حادثے کی نذر ہو گیا۔ اسی حادثے کے فوراً بعد ہندوستان ٹائمز کے مطابق پاکستان کے معمر شہریوں کے بھارت کے ویزے کو فوری طور پر روک دیا گیا، صرف یہی نہیں پاکستان سے بھارت جانے والے بہت سے مزاحیہ فنکار بھی اس صورتحال کے پیش نظر اپنے شیڈول بدل چکے یا منسوخ کر چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے متعلق بھارت میں اس تمام سلسلے سے پہلے کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا گیا۔ 2008میں بمبئی حادثے میں جس میں 106 لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی اس پورے ڈرامے کے ایک مجرم اجمل قصاب کے سلسلے میں کیا کارروائی ہوئی؟ اس کیس کو نمٹانے میں بھارت نے نہایت جلدی دکھائی۔ گو سیکولر ہونے کا دعویٰ تو بہت ہے لیکن ظاہر کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ ابھی اس کیس کو چار برس بھی نہ گزرے تھے کہ نومبر 2012میں فوراً اجمل قصاب کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی جب کہ پاکستان کی جانب سے سربجیت سنگھ کے سلسلے میں کس طرح کی کارروائی کی گئی؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں، بھارت صرف وصول کرنے کے عمل پر پابند ہے، اسے دینے کے عمل سے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن پر اشتعال انگیز کارروائی بیرونی ممالک کے لیے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا میں ایک جانب اس عمل کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، مختلف مغربی ممالک کے اخبارات میں اس کارروائی کو معاملے کو ڈی ریل اور دونوں ممالک کے تعلقات کو دوبارہ پرانی حالت میں لے جانے کی سازش قرار دی گئی ہے۔ ایک بیرونی خبر رساں ایجنسی کے مطابق لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائی کے حوالے سے پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈین آرمی نے کشمیر کے ایک پوسٹ سے فائرنگ کی جس کی وجہ سے ان کا ایک فوجی ہلاک ہوا۔
بھارت کی اس اشتعال انگیز کارروائی کے جواب میں پاکستان نے دفاعی حملہ کیا، بھارت کی جانب سے بریگیڈیئر راوت کا نام اس شر انگیزی کی کارروائی کے سلسلے میں بہت ابھر رہا ہے۔ موصوف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔ کیا بریگیڈیئر راوت نے بھارتی اعلیٰ حکام کے کہنے پر اس کارروائی میں پہل کی یا وہ خود قدامت پسند مذہبی گروپ کے حامی ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے رشتے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے؟ تو دوسری جانب بھارتی فوجی کے سر قلم کردینے کی خبر کو بھارتی فوج کے نادرن کمانڈ کے ترجمان راجیش کالیا تردید کرتے ہیں کہ پاک فوج نے کسی بھارتی فوجی کا سر قلم کیا اور نہ ہی گردن کاٹی جب کہ ایک فوجی کی لاش بھارت کے زیر کنٹرول جنگل سے ملی ہے۔
انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ جس خبر کی تردید کر دی گئی اس پر منموہن سنگھ نے بنا کسی تصدیق کے پہلے ہی کیسے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا؟ کیا یہ ان کی غیر ذمے داری کا ثبوت نہیں؟ کیا یہ نہیں ظاہر کرتا کہ دراصل منموہن سنگھ بھی دونوں ممالک کے درمیان روابط بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، کیا وہ خوفزدہ ہیں کہ ان کے دور حکومت میں برسوں سے دونوں ممالک جو دشمنی کی آگ میں سلگ رہے تھے دوستی کے رشتے میں بندھ گئے، کیا یہ دوستی کا بندھن انھیں ان انتہا پسند عناصر کی نظروں میں بھارت کا دشمن ظاہر کر دے گا، وہ آیندہ آنے والے وقت سے خوفزدہ ہو گئے۔
پرویز مشرف کا بھارتی چینل سے حالیہ انٹرویو اور پھر اسی سر قلم کیے جانے والے بھارتی فوجی کا مدعا اٹھانا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ بھارتی میڈیا ان حکومتی سازشوں کا حصہ بن چکی ہے جس کے ذریعے بھارتی عوام کی نظروں میں پاکستانی حکومت اور پاک فوج کو گرانا ہی اہم مقصد ہے۔ یہ پلاننگ کس طرح کی ہے جس میں بچوں کی طرح دوستی اور دشمنی کے عمل کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک بات واضح کرتی ہے کہ دراصل بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے نفع کے سارے روابط رکھنا چاہتا ہے لیکن دوستی کے رشتے استوار کرنے سے گریزاں ہے اس لیے کہ دوستی برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیں اپنے سے نیچے دیکھنا چاہتے ہیں۔
پچھلے دس سے پندرہ دنوں میں لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہوا اس میں تین پاکستانی اور دو بھارتی فوجیوں کی جان گئی۔ یہ کھیل کس نے شروع کیا تھا؟ کیا یہ ان کی انتہا پسند جماعتوں کے حامیوں کی کارروائی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کو خونی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں تاجر حضرات بھارت کو تجارت کے لیے موزوں قرار دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، ان تحفظات کے پیچھے کیا کہانی ہے اب یہ بھی ڈھکی چھپی نہیں لیکن پھر بھی پاکستانی حکومت اپنے امن کی آشا کے موقف پر قائم تھی، گویا اپنوں سے بیر اور اپنا نقصان بھی اس دوستی پر برداشت تھا لیکن لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی شرارت نے اس عداوت کا بھانڈا پھوڑ ہی دیا جو غالباً بھارتی حکومت بیرونی دنیا کو اپنے اندر چھپائے مسکراتے چہرے کا ڈراما کرتی رہی۔
ایک جانب بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کہتے ہیں کہ پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے دے تو جنوبی ایشیا کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ ان کا خیال ہے کہ دہلی میں ساؤتھ ایشیا یونیورسٹی کا قیام اور پاک بھارت کرکٹ دونوں ممالک کو قریب لا رہی ہے، اس کے دو روز بعد ہی من موہن سنگھ آرمی ڈے کی ضیافت کے موقع پر صحافی حضرات سے گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو اس واقعے کا ذمے دار ہے اسے سامنے لانا چاہیے، مجھے یقین ہے کہ پاکستان نے اس حادثے میں جس میں دو بھارتی فوجی مارے گئے محسوس کر لیا ہو گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوجی کا سر قلم کرنا ایک وحشیانہ عمل ہے اور یہ واقعہ ناقابل برداشت ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی یہ خبر اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت پاکستانی افواج کے لیے کس طرح سوچ رہی ہے۔
پاکستان کی اندرونی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بیان کہ پاکستان کے لیے بھارت اس قدر خطرناک نہیں ہے جتنی وہ قوتیں ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی فضا قائم کر رہی ہیں، شاید یہ بیان امن کی آشا پر یقین رکھتے ہوئے دیا گیا ہو گا اور کچھ ہی دنوں میں لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہوا اسے ایک سلگتی چنگاری سے مشابہت دی جا سکتی ہے جو غالباً پاکستان اور بھارت کے ٹھنڈے ہوتے جنگی جذبات کو بھڑکانے کے لیے کافی ہے۔
نرم روی سے انتہائی سردروی تک کے سفر میں اتنا کم عرصہ حیران کن ہے۔ اسی سفر میں وہ پاکستانی ہاکی کے کھلاڑی بھی نشانہ بنے جنھیں بھارت لیگ میں شامل کیا گیا تھا، نو کھلاڑیوں کو اپنی مہارت اور کھیل دکھانے کا موقع ایک سرد اور تلخ حادثے کی نذر ہو گیا۔ اسی حادثے کے فوراً بعد ہندوستان ٹائمز کے مطابق پاکستان کے معمر شہریوں کے بھارت کے ویزے کو فوری طور پر روک دیا گیا، صرف یہی نہیں پاکستان سے بھارت جانے والے بہت سے مزاحیہ فنکار بھی اس صورتحال کے پیش نظر اپنے شیڈول بدل چکے یا منسوخ کر چکے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے متعلق بھارت میں اس تمام سلسلے سے پہلے کس حد تک لچک کا مظاہرہ کیا گیا۔ 2008میں بمبئی حادثے میں جس میں 106 لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی اس پورے ڈرامے کے ایک مجرم اجمل قصاب کے سلسلے میں کیا کارروائی ہوئی؟ اس کیس کو نمٹانے میں بھارت نے نہایت جلدی دکھائی۔ گو سیکولر ہونے کا دعویٰ تو بہت ہے لیکن ظاہر کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ ابھی اس کیس کو چار برس بھی نہ گزرے تھے کہ نومبر 2012میں فوراً اجمل قصاب کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی جب کہ پاکستان کی جانب سے سربجیت سنگھ کے سلسلے میں کس طرح کی کارروائی کی گئی؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں، بھارت صرف وصول کرنے کے عمل پر پابند ہے، اسے دینے کے عمل سے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن پر اشتعال انگیز کارروائی بیرونی ممالک کے لیے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا میں ایک جانب اس عمل کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، مختلف مغربی ممالک کے اخبارات میں اس کارروائی کو معاملے کو ڈی ریل اور دونوں ممالک کے تعلقات کو دوبارہ پرانی حالت میں لے جانے کی سازش قرار دی گئی ہے۔ ایک بیرونی خبر رساں ایجنسی کے مطابق لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائی کے حوالے سے پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈین آرمی نے کشمیر کے ایک پوسٹ سے فائرنگ کی جس کی وجہ سے ان کا ایک فوجی ہلاک ہوا۔
بھارت کی اس اشتعال انگیز کارروائی کے جواب میں پاکستان نے دفاعی حملہ کیا، بھارت کی جانب سے بریگیڈیئر راوت کا نام اس شر انگیزی کی کارروائی کے سلسلے میں بہت ابھر رہا ہے۔ موصوف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔ کیا بریگیڈیئر راوت نے بھارتی اعلیٰ حکام کے کہنے پر اس کارروائی میں پہل کی یا وہ خود قدامت پسند مذہبی گروپ کے حامی ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے رشتے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے؟ تو دوسری جانب بھارتی فوجی کے سر قلم کردینے کی خبر کو بھارتی فوج کے نادرن کمانڈ کے ترجمان راجیش کالیا تردید کرتے ہیں کہ پاک فوج نے کسی بھارتی فوجی کا سر قلم کیا اور نہ ہی گردن کاٹی جب کہ ایک فوجی کی لاش بھارت کے زیر کنٹرول جنگل سے ملی ہے۔
انتہائی حیران کن بات یہ ہے کہ جس خبر کی تردید کر دی گئی اس پر منموہن سنگھ نے بنا کسی تصدیق کے پہلے ہی کیسے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا؟ کیا یہ ان کی غیر ذمے داری کا ثبوت نہیں؟ کیا یہ نہیں ظاہر کرتا کہ دراصل منموہن سنگھ بھی دونوں ممالک کے درمیان روابط بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، کیا وہ خوفزدہ ہیں کہ ان کے دور حکومت میں برسوں سے دونوں ممالک جو دشمنی کی آگ میں سلگ رہے تھے دوستی کے رشتے میں بندھ گئے، کیا یہ دوستی کا بندھن انھیں ان انتہا پسند عناصر کی نظروں میں بھارت کا دشمن ظاہر کر دے گا، وہ آیندہ آنے والے وقت سے خوفزدہ ہو گئے۔
پرویز مشرف کا بھارتی چینل سے حالیہ انٹرویو اور پھر اسی سر قلم کیے جانے والے بھارتی فوجی کا مدعا اٹھانا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ بھارتی میڈیا ان حکومتی سازشوں کا حصہ بن چکی ہے جس کے ذریعے بھارتی عوام کی نظروں میں پاکستانی حکومت اور پاک فوج کو گرانا ہی اہم مقصد ہے۔ یہ پلاننگ کس طرح کی ہے جس میں بچوں کی طرح دوستی اور دشمنی کے عمل کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک بات واضح کرتی ہے کہ دراصل بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے نفع کے سارے روابط رکھنا چاہتا ہے لیکن دوستی کے رشتے استوار کرنے سے گریزاں ہے اس لیے کہ دوستی برابری کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ ہمیں اپنے سے نیچے دیکھنا چاہتے ہیں۔