پاناما لیکس جے آئی ٹی کے اجلاس میں تحقیقات کے طریقہ کار پر غور
جے آئی ٹی دستیاب مواد کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم اور بچوں کو نوٹس دینے کا فیصلہ کرے گی، ذرائع
KARACHI:
پاناما کیس پر جے آئی ٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پرغور کیا گیا۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں پاناما کیس پر سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کا اجلاس ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی زیر صدارت میں ہوا، اجلاس میں نیب کے ڈائریکٹر عرفان منگی بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تاہم دیگر شرکا میں اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز، ایس ای سی پی کے بلال رسول، آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید اور ایم آئی کے بریگیڈئیر کامران خورشید شامل تھے۔ اجلاس کے دوران پاناما تحقیقات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پرغور کیاگیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : جے آئی ٹی 4 مراحل میں وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں سے تحقیقات کرے گی
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاونت کے لیے ایف آئی اے نجی شعبہ کے ماہرین کی خدمات لی جائیں گی جب کہ جے آئی ٹی عدالتی فیصلے اور دستیاب مواد کا تفصیلی جائزہ لےگی جس کے بعد وزیراعظم اور بچوں کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے ریکارڈ کے حصول کے لئے متعلقہ وزارتوں سے رابطہ بھی کیا جائے گا۔
پاناما کیس پر جے آئی ٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں تحقیقات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پرغور کیا گیا۔
فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں پاناما کیس پر سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کا اجلاس ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی زیر صدارت میں ہوا، اجلاس میں نیب کے ڈائریکٹر عرفان منگی بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تاہم دیگر شرکا میں اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز، ایس ای سی پی کے بلال رسول، آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر نعمان سعید اور ایم آئی کے بریگیڈئیر کامران خورشید شامل تھے۔ اجلاس کے دوران پاناما تحقیقات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پرغور کیاگیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : جے آئی ٹی 4 مراحل میں وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں سے تحقیقات کرے گی
ذرائع کا کہنا ہے کہ معاونت کے لیے ایف آئی اے نجی شعبہ کے ماہرین کی خدمات لی جائیں گی جب کہ جے آئی ٹی عدالتی فیصلے اور دستیاب مواد کا تفصیلی جائزہ لےگی جس کے بعد وزیراعظم اور بچوں کو نوٹس دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے ریکارڈ کے حصول کے لئے متعلقہ وزارتوں سے رابطہ بھی کیا جائے گا۔