ہم صرف چیزیں ہیں اور کچھ نہیں
پچاس برس قبل دنیا کاخوفناک ترین خواب ضرورت سے زیادہ طاقتورحکومتیں تھیں
ہم ہمیشہ سے ہی چیزیں تھے اور ہیں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہیں بے جان چیزیں، وقت پر استعمال آنے والی چیزیں، لال، کالی، پیلی، براؤن چیزیں مختلف، شکلوں والی چیزیں جب بھی ضرورت پڑتی ہے ہم یاد آجاتے ہیں ہمارا استعمال کیاجاتا ہے اور جیسے ہی ہم استعمال ہوچکتے ہیں ہمیں واپس ایک کونے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس وقت تک ہمیں کوئی بھی یاد نہیں کرتا جبتک کہ ہماری دوبارہ ضرورت نہ پڑے۔ اصل میں ہمارا مسئلہ ہی صرف یہ ہے کہ ہمیں چیزیں بنادیا گیا ہے ہمیں کوئی انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، اگر ہمیں انسان تسلیم کرلیاجائے تو ظاہر ہے انسانوں کو مسئلے درپیش ہوتے ہیں ان کی ضروریات ہوتی ہیں ان کے حقوق ہوتے ہیں ان سے محبت کی جاتی ہے ان کا خیال رکھا جاتا ہے ان سے باربار رابطہ کیا جاتا ہے ان کے دکھ سکھ ساتھ ساتھ منائے جاتے ہیں جو لوگ اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو چیزوں کا درجہ دیتے ہیں آئیں! ان طاقتور اور بااختیار لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہزاروں سزائیں ایسی ہیں جنہیں ماہرین معاشیات، خارجیاب (Externalities) سزاؤں کا نام دیتے ہیں جو آپ کو دوسروں کی وجہ سے بھگتنا پڑتی ہے زیادہ نہیں دو سوبرس پرانی بات ہے کہ امریکا کی آزادی کے ابتدائی ایام میں جان ایڈم نے لکھا تھا '' جمہوریت زیادہ دیر نہیں چلتی جلد ہی تھک جاتی ہے انحطا ط کا شکار ہوجاتی ہے اور خود کو فنا کر لیتی ہے ابھی تک کوئی ایسی جمہوریت دیکھنے میں نہیں آئی جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا گلہ گھو ٹنا نہ ہو، سامراجی آدرش نظام چلانے کے لیے وہ حقوق مانگتے ہیں جو وہ دوسروں کو نہیں دیتے۔ ماضی کی مانند حال میں بھی بہت سے لوگ اس نظریے کے گروید ہ نظر آتے ہیں کہ اخلاق بڑی مہنگی عیاشی اور سادہ لوح اور کمزور دماغ لوگوں کا وہم ہے۔
ایک مرتبہ صدر متراں کے مشیر ژاک اتالی نے ان سے پوچھا کہ لیڈرکی سب سے اہم خوبی کیا ہوتی ہے متراں بولے ''بے اعتنائی'' متراں کو فلور نٹائن کی عرفیت سے پکارا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے ان کا شمار لیڈروں کے اس گروہ میں ہوتا ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ طاقت واقتدار خود اپنا جواز ہوتا ہے اور اقدار کی حیثیت قمیض یاپاجامے سے زیادہ کی نہیں ہوتی جنہیں اپنی سہولت کے مطابق جب چاہا پہن لیا اور جب چاہا اتارکر پرے پھینک دیا۔
پچاس برس قبل دنیا کاخوفناک ترین خواب ضرورت سے زیادہ طاقتورحکومتیں تھیں۔ آرولی کے الفاظ میں ''انسانی چہرے کو کچلتا ہوا بوٹ'' جو انسانوں کو صرف چیزوں سے زیادہ اہمیت وحیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ سب اسی نفسیات کے مریض ہیں۔ ہابز کہتا ہے کہ انسان میں طاقت و اقتدارکی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اقتدار در اقتدارکی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جب تک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی۔ یہ خواہش ہماری کمزوریوں اور لاچاریوں اور اس سفاک حقیقت سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کی حفاظت خود نہیں کرسکتے اور اپنی خواہش کو یقینی نہیں بناسکتے اور مزید طاقت کے حصول کے بغیر اس طاقت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ جو پہلے سے ہمارے پاس موجود ہوتی ہے۔
ہابز نے ایک اور بڑی مزیدار بات کہی ہے وہ کہتا ہے ''اندر سے ہم سب ممکنہ قاتل ہوتے ہیں اور ہمارا باطن انتقام وکدورت کے خیالات سے بھرا رہتا ہے۔ اگر ہم قتل کر کے بچ سکتے ہوں تو کبھی بھی اس سے گریز نہ کریں''۔ جو لوگ طاقت اور اختیار کے ہمیشہ خواہش مند رہتے ہیں اصل میں ان کی اس خواہش کے پیچھے انتقام و کدورت کے خیالات ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگوں کو چیزوں سے زیادہ اہمیت اور حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جب روس کے عظیم مصنف کرامازن سے اپنے پیغام کا خلاصہ بیان کرنے کو کہا گیا تو اس نے صرف ایک لفظ بولا تھا '' Voruiut یعنی سب چور ہیں۔''
عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کانام الیوسی ہے جس نے ستر ہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے مو ضوعات پر بحث کی جن پر میکیاولی بھی لکھ چکا تھا وہ بہت خوبصورتی سے تراشی ایک ایسی کہانی سناتا ہے جس کی مماثلیں ہر معاشرے میں ملتی ہیں اور جو ہمیں جمہوریت کے نظریے کی بجائے اس کے اصل تجر بے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔ جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سرزمین فتح کرنے پر مبارکبا د ے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا۔ جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں؟
تو وہ بولا جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا ''بخشی'' ابن ابلی مہلی نے کہا ''بولوکیا بولتے ہو'' کھیل کی بازی میں فقیر بولا کوئی دو سوافراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آجائے موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی کے اور تکلیف کے اور اگر آپ کو گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں'' یہ تصور کہ اہل اقتدار کے ذہن سے ہمیشہ یہ بات نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کررہے تھے آپ کو ہر خطے میں ملے گا اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ حکومتیں جن کاآغاز جوش و جذبے اور اعلی آدرشوں سے ہوتا ہے ان کی بس جا کر ناکامی اور لوٹ کھسوٹ میں ہوتی ہے۔ بڑے بڑے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سارے عہد اور وعدے بھلا دیے جاتے ہیں اور لوگوں کو چیزوں کا درجہ دے دیاجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چیزوں کا درجہ دے دیاگیا ہے یاد رہے ہم سب صرف چیزیں ہیں اور کچھ نہیں ۔ لال، کالی، پیلی، براؤن چیزیں۔
ہزاروں سزائیں ایسی ہیں جنہیں ماہرین معاشیات، خارجیاب (Externalities) سزاؤں کا نام دیتے ہیں جو آپ کو دوسروں کی وجہ سے بھگتنا پڑتی ہے زیادہ نہیں دو سوبرس پرانی بات ہے کہ امریکا کی آزادی کے ابتدائی ایام میں جان ایڈم نے لکھا تھا '' جمہوریت زیادہ دیر نہیں چلتی جلد ہی تھک جاتی ہے انحطا ط کا شکار ہوجاتی ہے اور خود کو فنا کر لیتی ہے ابھی تک کوئی ایسی جمہوریت دیکھنے میں نہیں آئی جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا گلہ گھو ٹنا نہ ہو، سامراجی آدرش نظام چلانے کے لیے وہ حقوق مانگتے ہیں جو وہ دوسروں کو نہیں دیتے۔ ماضی کی مانند حال میں بھی بہت سے لوگ اس نظریے کے گروید ہ نظر آتے ہیں کہ اخلاق بڑی مہنگی عیاشی اور سادہ لوح اور کمزور دماغ لوگوں کا وہم ہے۔
ایک مرتبہ صدر متراں کے مشیر ژاک اتالی نے ان سے پوچھا کہ لیڈرکی سب سے اہم خوبی کیا ہوتی ہے متراں بولے ''بے اعتنائی'' متراں کو فلور نٹائن کی عرفیت سے پکارا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے ان کا شمار لیڈروں کے اس گروہ میں ہوتا ہے جن کا عقیدہ یہ ہے کہ طاقت واقتدار خود اپنا جواز ہوتا ہے اور اقدار کی حیثیت قمیض یاپاجامے سے زیادہ کی نہیں ہوتی جنہیں اپنی سہولت کے مطابق جب چاہا پہن لیا اور جب چاہا اتارکر پرے پھینک دیا۔
پچاس برس قبل دنیا کاخوفناک ترین خواب ضرورت سے زیادہ طاقتورحکومتیں تھیں۔ آرولی کے الفاظ میں ''انسانی چہرے کو کچلتا ہوا بوٹ'' جو انسانوں کو صرف چیزوں سے زیادہ اہمیت وحیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ سب اسی نفسیات کے مریض ہیں۔ ہابز کہتا ہے کہ انسان میں طاقت و اقتدارکی خواہش باقی سب خواہشات سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اقتدار در اقتدارکی ایک مستقل اور مضطرب خواہش ہمیں اس وقت تک دوڑائے لیے جاتی ہے جب تک کہ ہمیں موت نہیں آن لیتی۔ یہ خواہش ہماری کمزوریوں اور لاچاریوں اور اس سفاک حقیقت سے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کی حفاظت خود نہیں کرسکتے اور اپنی خواہش کو یقینی نہیں بناسکتے اور مزید طاقت کے حصول کے بغیر اس طاقت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ جو پہلے سے ہمارے پاس موجود ہوتی ہے۔
ہابز نے ایک اور بڑی مزیدار بات کہی ہے وہ کہتا ہے ''اندر سے ہم سب ممکنہ قاتل ہوتے ہیں اور ہمارا باطن انتقام وکدورت کے خیالات سے بھرا رہتا ہے۔ اگر ہم قتل کر کے بچ سکتے ہوں تو کبھی بھی اس سے گریز نہ کریں''۔ جو لوگ طاقت اور اختیار کے ہمیشہ خواہش مند رہتے ہیں اصل میں ان کی اس خواہش کے پیچھے انتقام و کدورت کے خیالات ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگوں کو چیزوں سے زیادہ اہمیت اور حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ جب روس کے عظیم مصنف کرامازن سے اپنے پیغام کا خلاصہ بیان کرنے کو کہا گیا تو اس نے صرف ایک لفظ بولا تھا '' Voruiut یعنی سب چور ہیں۔''
عرب دنیا کے عظیم ترین مورخین میں سے ایک کانام الیوسی ہے جس نے ستر ہویں صدی میں حکمرانی، فریب اور دغا جیسے کئی ایسے مو ضوعات پر بحث کی جن پر میکیاولی بھی لکھ چکا تھا وہ بہت خوبصورتی سے تراشی ایک ایسی کہانی سناتا ہے جس کی مماثلیں ہر معاشرے میں ملتی ہیں اور جو ہمیں جمہوریت کے نظریے کی بجائے اس کے اصل تجر بے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔ جب ابن ابی مہلی نے مراکش پر قبضہ کیا تو اس کے کچھ پرانے ساتھی اسے مبارکباد دینے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے لیکن جب وہ اس کے پاس کھڑے اسے ایک نئی سرزمین فتح کرنے پر مبارکبا د ے رہے تھے تو ان میں شامل ایک شخص کچھ بھی نہ بولا بلکہ چپ سادھے کھڑا رہا۔ جب سلطان نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا بات ہے آپ کیوں اتنے چپ چاپ کھڑے ہیں؟
تو وہ بولا جہاں پناہ آپ بادشاہ وقت ہیں اگر جان کی امان بخشیں تو عرض کروں گا ''بخشی'' ابن ابلی مہلی نے کہا ''بولوکیا بولتے ہو'' کھیل کی بازی میں فقیر بولا کوئی دو سوافراد ایک گیند کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اسے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں چوٹ نہ لگ جائے یا زخم نہ آجائے موت بھی ہوسکتی ہے اور یہ سب ایک گیند کی خاطر۔ اور اس ساری دھینگا مشتی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کچھ بھی نہیں سوائے پریشانی کے اور تکلیف کے اور اگر آپ کو گیند کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اس میں چیتھڑوں اور لیروں کے سوا کچھ بھی نہیں'' یہ تصور کہ اہل اقتدار کے ذہن سے ہمیشہ یہ بات نکل جاتی ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کررہے تھے آپ کو ہر خطے میں ملے گا اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ حکومتیں جن کاآغاز جوش و جذبے اور اعلی آدرشوں سے ہوتا ہے ان کی بس جا کر ناکامی اور لوٹ کھسوٹ میں ہوتی ہے۔ بڑے بڑے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سارے عہد اور وعدے بھلا دیے جاتے ہیں اور لوگوں کو چیزوں کا درجہ دے دیاجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں چیزوں کا درجہ دے دیاگیا ہے یاد رہے ہم سب صرف چیزیں ہیں اور کچھ نہیں ۔ لال، کالی، پیلی، براؤن چیزیں۔