نیوزلیکس کے تمام معاملات طے پاگئے فوجی ترجمان نے ٹوئٹ واپس لے لیا

آرمی چیف نے وزیر اعظم سے ملاقات کی جس میں معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے پر اتفاق ہوا

پاک فوج نے ڈان لیکس پر حکومتی نوٹی فکیشن مسترد کردیا تھا فوٹو: فائل

PESHAWAR:
ملک کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کے درمیان طویل ملاقات میں نیوز لیکس سے متعلق تمام معاملات طے پا گئے ہیں جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنا ٹویٹ واپس لے لیا ہے۔



ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم نواز شریف سے طویل ملاقات کی، اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی موجود تھے، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان طویل تبادلہ خیال کے بعد ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شریک ہوگئے۔ ملاقات کے دوران اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ڈان لیکس کے متعلق تمام معاملات طے پاگئے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی جس میں نہ صرف ڈان لیکس سے متعلق معاملے پر تفصیلی بات کی گئی بلکہ اس معاملے پر میڈیا پر آنے والی خبروں کے بعد ریاستی اداروں کے درمیان پییدا ہونے والی غلط فہمی کو بھی زیر بحث لایا گیا۔



وزارت داخلہ کی جانب سے نیوز لیکس سے متعلق اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے 29 اپریل کو نیوز لیکس کی متفقہ سفارشات کی منظوری دی تھی، تحقیقاتی کمیٹی نے پرویز رشید کے خلاف حکومتی ایکشن کی تائید کی اور طارق فاطمی کو موجودہ عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی ہے، وزارت اطلاعات کے سینئیر آفیسر راؤ تحسین نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، کمیٹی نے متفقہ طور پر راؤ تحسین کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے ۔ وزیراعظم کے حکم پر متعلقہ اداروں کی جانب سے عملدرآمد کے باعث ڈان لیکس معاملہ حل ہوچکا ہے۔




دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ڈان لیکس نیوز لیکس کا معاملہ حل ہوگیا ہے، 29 اپریل کا ٹویٹ کسی ادارے یا شخصیت کے خلاف نہیں تھا لہذا ٹوئٹ کو واپس لے لیا گیا ہے۔



علاوہ ازیں ڈان لیکس کے معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس کا حتمی نوٹی فکیشن وزارت داخلہ سے جاری ہونا تھا تاہم جو نوٹی فکیشن جاری کیا گیا وہ مکمل نہیں تھا جس پر آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹوئٹ کے ذریعے پریس ریلیز جاری کی گئی مگر وہ ٹوئٹ کسی حکومتی شخصیت یا ادارے کے خلاف نہیں تھی بلکہ نوٹی فکیشن کے نامکمل ہونے پر کی گئی تھی۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہماری پریس ریلیز کوبنیاد بنا کرفوج اورحکومت کو آمنےسامنے کھڑا کردیا گیا اور ایسے حالات نہیں ہونے چاہئے تھے، تاہم جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے۔



ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آج وزارت داخلہ نے پیرا 18 کے مطابق مکمل آرڈر کردیا جس پر ہم حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے نا صرف مکمل حقائق سامنے لائے بلکہ غلط فہمیاں بھی دور کیں ، پاکستان فوج ریاست کا مضبوط ادارہ ہے اور ادارے کے حیثیت سے دیگر اداروں کے ساتھ جمہوریت کے لیے ملکر کام کریں گے جب کہ پاک فوج جمہوریت کی اتنی ہی تائید کرتی ہے جتنا دیگر پاکستانی کرتے ہیں اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے جوبھی جمہوریت کے لیے بہتر ہوگا وہ کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے انکوائری میں جو ذمے دار تھے ان کے نام دے دیے اور انکوائری بورڈ میں رکن نے سفارشات وزیر اعظم کو بھجوائیں، وزیراعظم فائنل اتھارٹی ہیں وہ جو حکم دیں ان پرعمل ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ 6 اکتوبر 2016 کو انگریزی اخبار نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس سےمتعلق ایک خبر شائع کی تھی، جس میں کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلافات کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ خبر پر شدید تنقید کے بعد پرویز رشید سے وزارت اطلاعات کا قلمدان واپس لے لیا گیا تھا۔ ڈان لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ کمیٹی کی رپورٹ پر وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے نوٹی فکیشن جاری ہوا تھا جسے ترجمان پاک فوج نے مسترد کردیا تھا۔
Load Next Story