کھانا کھانے کے لیے کچھ لوگ زندہ ہیںپہلا حصہ

شادی ہال میں کئی لوگ بن بلائے ہوتے ہیں جو ہر رات کسی نہ کسی شادی ہال میں اچھے کپڑے پہن کر پہنچ جاتے ہیں

بچپن سے آج تک میں نے دیکھا ہے کہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے صبح سے شام تک بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ صرف اتنا مل جائے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کو زندہ رکھ سکیں مگر ہم انسانوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو صرف زندہ اس لیے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے اتنا سارا کھانے کو مل جائے کہ وہ طاقتور بن جائیں۔ ہم آپ سب ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں یہ تحریر اس لیے لکھ رہا ہوں کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صرف وہ کھائیں باقی سب بھوکے رہتے ہیں تو رہ جائیں۔

ہم اس بات کو شروع شادی بیاہ یا پھر اور تقریبات سے کرتے ہیں جہاں پر پیسے دینے پڑتے ہیں اس لیے ہم کوشش کرکے گھر کے سارے افراد کو شادی کی دعوت میں جاتے اور اپنے ساتھ گھر کے نوکر، ڈرائیور اور باہر سے آئے ہوئے رشتے دار، دوست کو بھی لے آتے ہیں۔ شادی کی دعوت میں بچے اور بوڑھے بھی شریک ہوتے ہیں۔ کھانا ہمیشہ 11 بجے رات کو شروع ہوتا ہے اور جیسے ہی کہا جاتا ہے کہ کھانا کھائیں تو لوگ بڑی تیزی کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر کودتے اور چھلانگ لگاتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مرتبہ برتن ٹوٹ پڑتے ہیں، صبر چیز کیا ہے کہیں نظر نہیں آتی۔ نہ توکوئی لائن ہوتی ہے اور نہ کوئی ڈسپلن۔

لوگ تکے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے 5 سے 7 پیس پلیٹ میں ڈالتے ہیں پھر دوسری پلیٹ میں بریانی کی فل پلیٹ، باقی مچھلی، گوشت کا سالن وغیرہ لے کر ٹیبل پر پہنچتے ہیں جب کہ کچھ دوست تو کھانے کی ٹیبل سے ہٹتے ہی نہیں۔ اس عالم میں ہم جیسے دوسرے مہمان ہاتھ میں خالی پلیٹ لیے پھرتے ہیں اور بڑی کوشش کے بعد کچھ چاول ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ میں تو ہمیشہ اپنی ٹیبل پر ہی بیٹھا رہتا ہوں کیونکہ ایسے ماحول میں ہم کھانے کے لیے دھکے نہیں کھاسکتے۔ اب میں نے دیکھا کہ جو لوگ تکوں کی پلیٹ بھر کے لائے تھے مشکل سے انھوں نے دو کھا لیے اور ایک آدھا کھایا اور پلیٹ میں چھوڑ دیا، بریانی آدھی سے زیادہ بچ گئی، سالن سارا کا سارا پڑا رہا۔ ابھی وہ لوگ میٹے میں قلفی کی طرف لپکے اور تین سے چار قلفیاں لے آئے جس میں سے دو بھی مشکل سے کھا سکے اور دو پگھل کر وہیں خراب ہوگئی۔ اس کے علاوہ بوتل پینے کی کوشش کی مگر آدھی سے زیادہ چھوڑ دی۔

شادی ہال میں کئی لوگ بن بلائے ہوتے ہیں جو ہر رات کسی نہ کسی شادی ہال میں اچھے کپڑے پہن کر پہنچ جاتے ہیں اور وہ اکثر مجھے سائز میں موٹے نظر آتے ہیں۔ دلہا دلہن والے ویڈیو اور فوٹو سیشن میں مصروف ہوتے ہیں۔ میں نے جو ایک اور بات دیکھی وہ یہ تھی کہ بزرگ لوگ بھی کھانا کھانے میں جوانوں کا مقابلہ کر رہے تھے جب کہ بچے کھانا کم کھاتے تھے مگر ضایع زیادہ کرتے ہیں۔ میں کیا کہوں عورتیں جو کبھی کھانا کم کھاتی تھیں اب زیادہ کھانے لگی ہیں مگر کچھ خواتین اپنے کپڑے بچانے اور اپنی فٹنس کو قائم رکھنے کے لیے صرف کچھ نوالے اپنی پلیٹ میں رکھے ہر ایک سے اپنی ڈریسنگ کو دکھانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے کئی خواتین اور حضرات کو دیکھا جو شاپر لائے تھے اس میں آنکھ بچا کر بریانی اور مرغی کے تکے بھر رہے تھے۔ بہت ساری خواتین نے بڑے بڑے پرس لے کر آتی ہیں جس میں تکے بھر لیتی ہیں۔


اس موقعے پر بہت سارے مہمان اپنے کپڑے خراب کر لیتے ہیں۔ میں نے یہ حال دیکھا تو شادی کے کھانے پر جانے سے پہلے اپنے گھر سے کھانا کھا کر پھر جانا شروع کیا کیونکہ ایک تو کھانا دیر سے شروع ہوتا ہے دوسرا کھانے میں بدنظمی۔ مگر کئی مرتبہ میرے دوستوں نے مجھے فون کرکے کہا کہ بھائی کھانا گھر سے مت کھا کر آنا ہم تمہارے لیے اٹھا کر لائیں گے اور پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کچھ میزبان میری عادت کو دیکھ کر میرے لیے الگ الگ جگہ رکھ لیتے ہیں، جہاں پر خاص طریقے سے مجھے کھانا بھیجا جاتا ہے جس میں، میں صرف مچھلی کا ایک ٹکڑا یا اگر مٹن ہے تو وہ ایک دو بوٹی کھا لیتا ہوں، اب یہ بھی ایک رواج ہے کہ دلہن یا پھر دولہا کے رشتے داروں کے لیے الگ بندوبست کیا جاتا ہے جہاں پر مجھے بٹھایا جاتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر ایک بات جو اہم یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ ایسے موقعے پرکھانے کا کتنا ضیاع ہوتا ہے جو ایک بڑا گناہ ہے۔اس تقریب کے علاوہ جب این جی اوزکی طرف سے فائیو اسٹار ہوٹل میں تقریب ہوتی ہے اور اس موقعے پر کھانے پینے کا بندوبست ہوتا ہے۔ پروگرام میں تو ہمارے کچھ صحافی ہوتے ہیں باقی صحافی دوست آخری وقت پر کھانا کھانے سے چند لمحے پہلے آکر بیٹھ جاتے ہیں ان میں کئی اپنے ساتھ اپنے رشتے دار بھی بلا لیتے ہیں جو کھانے کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔ اس موقعے پر میں نے ایسے لوگ اور خواتین بھی دیکھی ہیں جو کسی بھی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے مگر اکثر ہوٹلوں میں آکر پروگرام کی لسٹ دیکھ کر پہنچ جاتے ہیں اور کھانا کھانے میں شریک ہوتے ہیں۔ پروگرام کروانے والوں کے اوپر بل کا بڑا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور اب انھوں نے بھی اپنی آنکھ کھلی رکھنا شروع کی ہے۔ یہاں بھی اکثر لوگ وہی رویہ دکھاتے ہیں اور کھانا کھا نہیں سکتے اور ان کی وجہ سے رزق ضایع ہوجاتا ہے۔

میں اکثر رات کے وقت گھر سے کھانا کھانے کے بعد گھر کے برابر ایک باربی کیو اور بیکری کے قریب کرسی لگا کر ٹھنڈی ہوا بھی کھاتا ہوں اور وہاں پر آنے والوں کے انداز بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ کھانے پر لوگ اتنے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے مفت میں ملتا ہو۔ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں پڑی ہوئی کرسیوں پر بیٹھتے ہیں اور ان کے سامنے پلیٹوں میں مرغی کے بڑے پیس، آلو کے چپس رکھے ہوئے ہوتے ہیں جس کو وہ پورا نہیں کھاسکتے ہیں مگر جیب سے پیسے فٹا فٹ نکال کر دیتے ہیں اور بچا ہوا مال ایک بڑے ڈرم میں پھینکا جاتا ہے۔ کئی لوگ موٹے ہوتے ہیں ان کے بچے بھی ویسے ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی کھانا سیر ہوکر کھاتے ہیں اور اس کے ساتھ کولڈ ڈرنک بھی استعمال ہوتی ہے۔ باربی کیو سے اٹھ کر بیکری پر آتے ہیں اور وہاں سے آئس کریم چٹ کر جاتے ہیں۔ کبھی موٹرسائیکل پر اور کبھی مہران جیسی چھوٹی گاڑی میں سوار یہ لوگ نہ تو گاڑی سے نکل سکتے ہیں اور بڑی مشکل سے اس میں اندر جاتے ہیں۔

پھر جب دن نکلتا ہے تو ہر لیبارٹری پر لوگوں کا بڑا ہجوم نظر آتا ہے تو اپنے خون کے ٹیسٹ کروانے کے لیے کھڑے اور بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان ٹیسٹوں میں اکثر شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی پھر رات کو ہوٹلوں پر کھانے اور آئس کریم کھانے آجاتے ہیں۔ ایک بندے کو میں نے دیکھا جو خود بھی بے حد موٹا تھا اور اس کے بچے بھی لیکن سب دو دو آئس کریم کھانے میں مصروف تھے۔ کلفٹن کی طرف ایک باربی کیو ہے جانا ہوا جہاں پر لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے اور اتنے ہی لوگ ٹیبل کے خالی ہونے کا انتظار کر رہے تھے اور انھوں نے ویٹر کو دو سو سے تین سو تک روپے دیے کہ وہ ان کے لیے ٹیبل جب خالی ہوجائے تو اسے ریزروکر دے۔ (جاری ہے)
Load Next Story