قرضے قانونی حد سے تجاوز حجم 15ہزار ارب سے بڑھ گیا اسٹیٹ بینک
ملکی قرضوں کا حجم8200ارب،بیرونی کا6100ارب تک پہنچ گیا،روپے کی گرتی قدر کے باعث قرضہ لیے بغیر ہی قرضے بڑھ رہے ہیں
ISLAMABAD:
حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 15ہزارارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا جن کا جی ڈی پی میں تناسب ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح 68 فیصد ہوگیا ہے جس کے بعد یہ قرضے تمام قانونی حدود سے تجاوز کرچکے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر مجموعی طور پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی ضمانتوں کا حجم 15 ہزار 2 سو ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے جس کا ملکی جی ڈی پی میں تناسب پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح 68.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ستمبر 2011ء سے لیکر اب تک حکومتی قرضوں اور ضمانتوں میں 18 فیصد کی خطرناک سطح تک اضافہ ہوگیا ہے۔ قرضوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے حکومت پر کوئی قرضہ لئے بغیر ہی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ حکومتی ضمانتی قرضوں اور ذمہ داریوں کو چھوڑ کر حکومتی قرضے 14 ہزار 5 سو ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس کا جی ڈی پی میں تناسب 65.3 فیصد ہے حالانکہ قواعدوضوابط کے تحت حکومتی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد جی ڈی پی کا 60 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت پر مقامی ذرائع سے حاصل کئے گئے قرضوں کا حجم 8ہزار 2 سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قرضوں کا 53.6 فیصد ہے اور ان قرضوں کا جی ڈی پی میں تناسب 37 فیصد ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم 6 ہزار ایک سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کا جی ڈی پی میں تناسب 37 فیصد بنتا ہے ، وفاقی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق حکومتی قرضوں کا حجم تقریباً 14 ہزار ارب روپے ہے۔
حکومت اپنے اعدادوشمار میں پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ، غیر سرکاری اداروں کے قرضوں اور ضمانتی قرضوں کو شامل نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ یہ قرضے حکومت پاکستان نے واپس نہیں کرنے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اورسٹیٹ بینک ان قرضوں کو بھی حکومتی قرضوں میں شامل کررہی ہے ، آئی ایم ایف بھی حکومت پاکستان کے قرضوں میں کمی کی تجویز دے رہا ہے اور موجودہ قرضوں کو غیر مستحکم سطح پر قرار دے رہا ہے۔
حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 15ہزارارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا جن کا جی ڈی پی میں تناسب ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح 68 فیصد ہوگیا ہے جس کے بعد یہ قرضے تمام قانونی حدود سے تجاوز کرچکے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر مجموعی طور پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی ضمانتوں کا حجم 15 ہزار 2 سو ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے جس کا ملکی جی ڈی پی میں تناسب پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح 68.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ستمبر 2011ء سے لیکر اب تک حکومتی قرضوں اور ضمانتوں میں 18 فیصد کی خطرناک سطح تک اضافہ ہوگیا ہے۔ قرضوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے حکومت پر کوئی قرضہ لئے بغیر ہی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ حکومتی ضمانتی قرضوں اور ذمہ داریوں کو چھوڑ کر حکومتی قرضے 14 ہزار 5 سو ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے ہیں جس کا جی ڈی پی میں تناسب 65.3 فیصد ہے حالانکہ قواعدوضوابط کے تحت حکومتی قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد جی ڈی پی کا 60 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت پر مقامی ذرائع سے حاصل کئے گئے قرضوں کا حجم 8ہزار 2 سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قرضوں کا 53.6 فیصد ہے اور ان قرضوں کا جی ڈی پی میں تناسب 37 فیصد ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا حجم 6 ہزار ایک سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کا جی ڈی پی میں تناسب 37 فیصد بنتا ہے ، وفاقی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق حکومتی قرضوں کا حجم تقریباً 14 ہزار ارب روپے ہے۔
حکومت اپنے اعدادوشمار میں پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ، غیر سرکاری اداروں کے قرضوں اور ضمانتی قرضوں کو شامل نہیں کر رہی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ یہ قرضے حکومت پاکستان نے واپس نہیں کرنے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اورسٹیٹ بینک ان قرضوں کو بھی حکومتی قرضوں میں شامل کررہی ہے ، آئی ایم ایف بھی حکومت پاکستان کے قرضوں میں کمی کی تجویز دے رہا ہے اور موجودہ قرضوں کو غیر مستحکم سطح پر قرار دے رہا ہے۔