محنت کی روزی ذریعۂ نجات

رزقِ حلال سے اپنے آپ کو خود کفیل بنانا اور اپنے اہل خانہ کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا بھی عبادت ہے

رزقِ حلال سے اپنے آپ کو خود کفیل بنانا اور اپنے اہل خانہ کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا بھی عبادت ہے ۔ فوٹو : فائل

حلال روزی اسلامی ضابطۂ حیات کی بنیاد ہے اور کسب معاش اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کیوں کہ کسی کا بھی کسب معاش کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ دنیا محنت کرنے کی جگہ ہے، محنت سے کما کر اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنا فرض ہے کیوں کہ حلال روزی سے اپنے آپ کو خود کفیل کرنا اور اپنے بچوں کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا بھی عبادت ہے، بل کہ اہل تقویٰ کے نزدیک حلال روزی جزو ایمان ہے۔

خصوصاً صراط مستقیم کے مسافروں اور اﷲ کے محبوب نبی رسول اکرمؐ کے امتیوں کے لیے مقام فخر ہے کہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھائیں۔ اسلامی حدود کے مطابق رزق کمانا انسان کو دین و دنیا میں سرخ رو کرتا ہے۔ کسب حلال کے باعث دنیا میں عزت ملتی ہے اور آخرت میں نجات ملے گی اور جنت کا حق دار ٹھہرے گا۔ اس لیے اﷲ کے بندوں کو اس سعادت سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی دنیا کا غلام بن کر کسب معاش میں اتنا محو ہوجانا چاہیے کہ آخرت کو بھول جائے جو تباہی اور ہلاکت کا باعث ہے اور ایسا بھی نہ ہو کہ فکر آخرت کی لگن میں کسب معاش سے بے نیاز ہوجائے۔

اس لیے روزی کمانے میں اعتدال کی راہ اختیار کرکے شریعت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ میانہ روی سے کسب معاش کرکے من کی دنیا کو بھی یادِالہٰی سے آباد رکھنا چاہیے۔ لہٰذا اپنے ظاہر کو گل و عنبر کی طرح آراستہ کرکے اور باطن کو عشق رسولؐ سے مالا مال کرکے کسب حلال کو وسیلۂ نجات بنالیں۔ یوں من اور تن، حال و قال، ظاہر و باطن درست کرلیں اور دین و دنیا میں اطاعت الہٰی سے سرفراز رہیں۔

رزق حلال کمانے والوں کے لیے خوش خبری
رزق حلال کمانے اور کھانے والوں کے لیے اﷲ اپنی رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے۔ دنیا میں باعزت رکھتا ہے۔ آخرت میں بلند درجات سے نوازتا ہے۔ روزی فضل خداوندی ہے اس لیے اﷲ کے فضل کو تلاش کرنا عین سعادت مندی ہے۔ مگر اﷲ کو چھوڑ کر مال و دولت کے حصول کا غلام بن جانا سب سے بڑی بدقسمتی اور ذلت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی معیشت فضل خداوندی کی مرہون منت ہے۔ کیوں کہ معاش کے تمام ذرایع جن سے کسب حلال میسر آتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔

زمین کے چھپے ہوئے معدنی خزانے یعنی تیل، کوئلہ، لوہا، چاندی، سونا اور لاتعداد عناصر جن سے انسانی زندگی مستفید ہوتی ہے اﷲ کے پیدا کردہ ہیں۔ خشکی، سمندر اور اس کے نادر جواہرات اﷲ ہی کی تخلیق ہیں۔ سورج کی گرمی، لہلہاتی ہوئی فصلیں، بہتے ہوئے دریا، چھما چھم برستی بارش جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، پہاڑوں کے چھپے ہوئے نادر خزانے گویا کہ کائنات کی ہر چیز جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے سب کے سب اﷲ ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ اور پھر اس نظام کائنات کو اس طرح اﷲ نے مربوط کیا ہے کہ جس سے انسان فائدہ اٹھائے اور پھر حضرت انسان کو عقل دی ہے کہ ارض و سما کی اشیاء کو اپنے استعمال میں لاسکے۔

ارشاد باری تعالی ہے، ترجمہ : '' اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین میں سب کچھ پیدا کیا ہے۔''

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین کی سطح کے اوپر یا زمین کے اندر جتنے بھی خزانے ہیں جن سے انسان اپنے لیے روزی پیدا کر سکتا ہے وہ سب اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اور انسان کے لیے بنائے ہیں۔

ترجمہ : '' اور وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔'' ( الجاثیہ )

ارض و سما میں مختلف اشیاء کا تخلیق کرنا اور مادی اسباب کا پیدا کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اﷲ نے رزق پھیلا دیا ہے جسے محنت سے تصرف میں لانا انسان کی کوشش پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلا حلال روزی کے لیے جدوجہد کرنا انسان کے لیے لازم ہے۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے، ترجمہ : ''پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل تلاش کرو اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔'' ( سورۃ جمعہ)

اس حکم خداوندی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک کھانے والے فرد کے لیے حکم ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر روزی کی تلاش میں لگ جائے اگر چہ آیت بالا کا حکم نماز جمعہ کے بعد کا ہے لیکن اس آیت سے روزی کمانے اور کسب حلال کا عام اصول اخذ کیا جاتا ہے اور یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رزق حلال کمانے سے قبل صلوٰۃ کا قائم کرنا بھی ضروری ہے کیوں کہ نماز سے انسان میں بے شمار خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور صالح طبیعت رزق کمانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

نماز سے یہ بھی اثر پڑتا ہے کہ انسان یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتا۔ لطف اسی بات میں ہے کہ انسان روزی بھی کمائے اور یادِ الہٰی بھی جاری رکھے۔ یاد رہے کہ انسانی بنیادی ضروریات رہائش، لباس، خوراک، تعلیم اور سامان زیست جائز حد تک حاصل کرنے کے لیے مال و دولت درکار ہوتا ہے جسے حاصل کرنا عین ثواب اور اطاعت الہٰی ہے۔ اس لیے کسب حلال کے لیے جائز کوشش اور دوڑ دھوپ کرنا عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

بعض اہل علم کا خیال ہے کہ قرب قیامت رزق حلال کا ملنا ناپید ہو جائے گا اور جس کے پیٹ میں لقمہ حلال جائے گا، اس کا شمار اولیاء میں ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ جب برائی پورے عروج پر ہو ماحول فاجرانہ اور فاسقانہ بن جائے، نفسانفسی کا عالم ہو، طمع اور لالچ کے روپ میں شیطان پوری طرح پنجے گاڑ چکا ہو تو انسان کے لیے حلال روزی کمانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

کیوں کہ وہ جس کسب معاش کی طرف جاتا ہے اس میں تھوڑی بہت بے ایمانی کی آمیزش ضرور نظر آتی ہے۔ مگر افراتفری کے عالم میں اﷲ کی خاص رحمت ہی سے پاک روزی حاصل ہوسکتی ہے اس لیے ناگوار حالات میں اﷲ کے خاص بندے اس سے پاک روزی حاصل کرنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں تو ان مانگنے والوں کے لیے اﷲ ایسے حالات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ حلال روزی کمالیتے ہیں اور ایسا ہونا اﷲ کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں۔


یہ حقیقت تو تسلیم شدہ ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں اور نہ ہی کسی عاقل بالغ قوی مرد کے شایانِ شان ہے کہ وہ کسب حلال کو ترک کرکے جنگلوں کی راہ لے۔ ایک اور رسم جو چل نکلی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کام چور ہوتے ہیں جن کا دل محنت مشقت پر نہیں لگتا اور وہ طاقت خرچ ہونے والے کام سے دور بھاگتے ہیں، وہ آسان ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ گھر بار چھوڑ کر نام نہاد ملنگ یا درویش بن جاتے ہیں اور ایسے گرو ہوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو شعبدہ بازی پر گزارہ کرتے ہیں۔ میلوں ٹھیلوں پر ایسے لوگوں کا مستقبل ٹھکانا ہوتا ہے وہ لوگ تن درست بھی ہوتے ہیں، مگر کام نہیں کرتے اور کئی برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ایسا کرنا خلاف شرع ہے کہ انسان جسم میں روزی کمانے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر کسب معاش نہ کرے۔

بعض لوگ کسب معاش ترک کر کے خانقاہوں یا مساجد میں ڈیرا لگا لیتے ہیں، تعویز گنڈوں کی کمائی کھانا شروع کردیتے ہیں۔ یاد رکھیے اﷲ کے نیک ولی ایسا نہیں کرتے بل کہ ایسے لوگوں سے بچیے تاکہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ سڑکوں پر فال نکالنے والے، قسمت بدلنے کے دعوے دار سب مکار ہیں۔ افضل ترین نظریہ یہی ہے کہ خود حلال کمائی کی جائے اور اس سے اپنی جائز ضروریات کو پورا کیا جائے۔ کیوں کہ یہی فقراء حق کا معمول رہا ہے۔ شرع اسلامی بھی ہر مسلمان سے یہی تقاضا کرتی ہے کہ وہ نہ دنیا کی کمائی میں اتنا مگن ہوجائے کہ آخرت کو بھول جائے اور نہ بالکل کسب حلال کو ترک کرکے اپنی زندگی کو خراب کرے۔ چناں چہ ہر عاقل بالغ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حلال ذرائع معاش اختیار کرے۔

بہترین کسب معاش ہاتھ کی کمائی ہے
ہاتھ کی کمائی رزق حلال حاصل کرنے کا سب سے اعلیٰ اور بلند ذریعہ ہے اور اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے بہت تاکید فرمائی ہے۔ حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : '' کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بے شک اﷲ کے نبی حضرت داؤدؑ اپنے ہاتھوں کی کمائی کھایا کرتے تھے۔'' (بخاری )

حضرت رافع بن خدیجؓ کا بیان ہے کہ آپؐ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اﷲ ! (ﷺ) کون سا ذریعۂ معاش پاکیزہ ہے ؟ آپؐ نے فرما یا: آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت۔'' (مسند احمد)

پیشے اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ کسی میں ہاتھ کی محنت زیادہ درکار ہے اور کسی میں جسم کے دوسرے اعضاء یعنی دماغ، آنکھ اور پاؤں وغیرہ کی قوت صرف ہوتی ہے۔ تو ایسے سارے پیشے جس میں محنت اور مشقت صرف ہو وہ ہاتھ کی کمائی میں شمار کیے جاتے ہیں اور ایسی کمائی اس کمائی سے افضل ہے جو بیٹھے بٹھائے بغیر محنت کے حاصل ہو۔ کیوں کہ جو مال انسان کو محنت کے بغیر مل جاتا ہے انسان اس کی قدر نہیں کر پاتا اور خرچ کرتے وقت اسے ایسے کاموں پر خرچ کر ڈالتا ہے جن کا شمار اسراف میں ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اپنے ہاتھوں سے محنت کی کمائی کو خرچ کرتے وقت انسان کو بڑا احساس اور درد ہوتا ہے کہ اسے ازحد ضرورت کے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ چوں کہ مال بڑی تکلیف اور مشقت اٹھا کر حاصل ہوتا ہے، اس احساس کے پیش نظر اﷲ نے اسے افضل قرار دیا ہے۔ ہاتھ کی کمائی کے بعض کام ایسے ہیں جنہیں دوسرے لوگ حقیر اور ذلیل تصور کرتے ہیں اور ایسا پیشہ اختیار کرنے سے نفرت کی جاتی ہے مثلاً ہاتھ سے جوتیاں بنانا، کپڑوں کی سلائی کرنا، تنور میں روٹیاں لگانا، عمارتی کام میں اینٹیں اٹھانا، سر پر ریت سیمنٹ اٹھانا، راج گیری کرنا، لکڑی کا کام کرنا، سر پر اشیاء اٹھا کر گلی کو چوں میں فروخت کرنا، لوگوں کے کپڑے دھونا، کھیتوں میں زراعت کا کام کرنا، لوہار کا کام، حجامت کا کام وغیرہ حتیٰ کہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں مال دار لوگ اختیار کرنا پسند نہیں کرتے لیکن ہر وہ کام جس میں محنت درکار ہو اسلام اس سے نفرت کرنے سے منع کرتا ہے۔

کیوں کہ کسی پیشے کو حقیر جاننا کم عقلی، جہالت اور بے وقوفی ہے۔ لہٰذا اﷲ کے رسول ﷺ کے اس فرمان سے صرف یہ خیال نہ کریں کہ ہاتھ کے علاوہ کسی اور طرح سے جو کمائی حاصل ہو وہ حلال نہیں۔ بل کہ جو مال بھی اپنے جسم کی قوت صرف کر کے کمایا جائے گا، وہی حلال ہاتھ کی کمائی کی طرح ہے۔ اس لیے اساتذہ کی تن خواہیں، دفتری اہل کاروں کی تن خواہیں ہاتھ کی کمائی جیسا ہی درجہ رکھتی ہیں۔ ایسے ہی تجارت سے جائز نفع کمانا حلال کے زمرے میں شامل ہے۔ ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے کتابت کی کمائی کو رزقِ حلال قرار دیا ہے۔ ''حضرت ابن عباسؓ سے کتابت قرآن مجید کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : کوئی مضائقہ نہیں کیوں کہ وہ الفاظ کی صورتیں بناتے ہیں اور بے شک وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں۔

رزق حلال کی برکات
رزق حلال کمانے اور کھانے میں بہت برکت ہے۔ اس کے بارے میں فرمان رسول اکرمؐ حسب ذیل ہے: '' رزق حلال سے انسان مستجاب الدعوات بن جاتا ہے۔'' اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا۔ یارسول اﷲ ﷺ آپ اﷲ تعالیٰ سے میرے لیے دعا فرما دیجیے کہ وہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے، یعنی دعا قبول فرما لیا کرے۔ آپؐ نے فرمایا : اے سعد ! حلال کی کمائی کھاؤ! تم مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے، یعنی تمہاری دعا قبول ہوگی۔ خدا کی قسم جب بندہ حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے، تو چالیس روز تک اس کا عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا ہوا ہو تو جہنم کی آگ اس کے بہت لائق ہے۔'' (ترغیب)

حلال کی کمائی کھانا، رسول اﷲ ﷺ کی سنت پر چلنا اور لوگوں کو ایذا رسانی سے بچانا جنت میں لے جانے والے اعمال سے ہیں۔ کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ''جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنت کے مطابق کام کیا اور لوگوں کو اپنی ایذارسانی سے امن میں رکھا وہ جنت میں داخل ہوگا۔'' ( ترمذی، ترغیب )

پاکیزہ روزی کھانے والے کو دنیا سے جانے کا کوئی فکر نہیں ہوتا کیوں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ''جب تم میں یہ چار باتیں موجود ہوں گی تو دنیا کے چُھوٹ جانے سے کوئی حرج نہیں ہے، امانت کی حفاظت، بات کی سچائی اور سچ گوئی، اچھی عادت اور کھانے پینے میں پاکیزگی یعنی پاکیزہ روزی۔'' (احمد)

رزق حلال کا استعمال انسان میں اخلاق حسنہ پیدا کرتا ہے۔ نیک اور شریف انسان ہمیشہ ہم درد، مہمان نواز، بڑوں کا ادب اور بچوں پر شفقت کرتا ہے۔ گویا رزق حلال انسان کو دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے اور معاشرے میں حقیقی عزت کا باعث بنتا ہے۔

رزق حلال کا سب سے بڑا ثمر آخرت میں کام یابی ہے۔ قیامت میں وہ انبیاء صدیقین شہدائے حق کے گروہ میں اٹھایا جائے گا۔ قیامت کے دن ان کے چہرے روشن ہوں گے۔ وہ خالقِ حقیقی سے اس روز حلال روزی کے کمانے کی وجہ سے دنیا میں مصائب برداشت کرنے کا انعام پائیں گے، جنت میں داخل کیے جائیں گے اور یہ سب کچھ انہیں دنیا میں حلال و حرام کی تمیز کرنے اور حلال روزی کما کر کھانے کی بہ دولت ہی حاصل ہوگا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں حلال روزی کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔ آمین
Load Next Story