مزدوروں کے حقوق

اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔

ارشادِ باری تعالی ہے : ’’ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے لیے خود مدَّعی بنوں گا، اُن میں سے ایک وہ مزدور ہوگا جس نے اپنا کام تو پورا کرلیا لیکن اُسے اُس کی اُجرت نہیں دی گئی۔‘‘ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
حضرت عبداﷲ ابنِ عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : '' مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔''

اِسلام نے جہاں معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا ہے، وہیں مزدور و مالکان کے حقوق و فرائض کو بھی واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائی میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہ کریں۔ اِسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ شریعتِ مطہر ہ نے صدیوں پہلے ظلم و بربریت کی چکی میں پسے ہوئے مزدوروں کو اُن کا جائز حق دیا اور مالکان کو پابند کیا کہ مزدوروں کو کم تر نہ سمجھیں، جب کسی مزدور سے کام لیا جائے تو اُس کا حق فورًا دے دیا جائے۔

حضرت ابنِ عمرؓ کی روایت کردہ زیرِمطالعہ حدیث مبارک میں رسول اﷲ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم نے کتنا پیارا حکم ارشاد فرمایا کہ مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کردو یعنی اُس کا حقِ خدمت معاہدے کے مطابق وقت پر ادا کردیا جائے۔ یہ رسول اﷲ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم کی بڑی معروف و مشہور حدیثِ مبارک ہے، جو کم و بیش ہر شخص چاہے وہ مزدور ہو یا مالک سب کو یاد ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اِس حدیث مبارک کے علاوہ ایک حدیثِ قدسی بھی بڑی معروف ہے، جس میں یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے لیے خود مدَّعی بنوں گا، اُن میں سے ایک وہ مزدور ہوگا، جس نے اپنا کام تو پورا کرلیا لیکن اُسے اُس کی اُجرت نہیں دی گئی۔

ہمارے معاشرے میں اوَّل تو مزدوروں کو اُن کی محنت کی اُجرت نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو اتنی کم کہ مزدوروں کو دوبارہ پسینہ آجاتا ہے۔ آج مزدوروں کو اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ اُس سے اُن کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ پورا دن کارخانوں اور لوہے کی بھٹیوں میں کام کرنے والے معاشی اعتبار سے کم زور ہیں جب کہ اُن کی محنت کی آمدنی سے سرمایہ دار اور مالکان امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مزدور اور مالکان کے درمیان نفرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

جب مزدوروں کو اُن کی محنت کا صحیح اور بروقت معاوضہ نہیں ملتا تو پھر وہ ہڑتال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، مالکان اُن سے بدلہ لینا کے لیے کارخانوں کی تالہ بندی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف بے قصور صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ رسول اﷲ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم کی درجِ بالا حدیث مبارک مزدوروں کو معاشی تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالکان کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ مزدوروں کے استحصال سے رُک جائیں۔ وگرنہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں اُن پر مقدمہ قائم کیا جائے اور اس مقدَّمہ میں رب تعالیٰ خود ہی مزدوروں کی طرف سے مدّعی ہوگا۔

رسول اﷲ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم کی ایک حدیث مبارک میں ہے کہ تمہارے خادم، ملازم، مزدور اور غلام تمہارے بھائی ہیں، لہٰذا تم میں سے جس کے پاس اس کا کوئی بھائی ہو، تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیسا کہ وہ خود کھاتا اور پہنتا ہے۔ اپنے مزدور کو کوئی ایسا کام کرنے کو نہ کہے، جسے وہ خود نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کام کرانے کی ضرورت ہو، تو خود بھی اُس کا ساتھ دے،

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب المعاصی من امور الجاہلیۃ)


آپ صلَّی اﷲ علیہ وسلَّم کی اِس حدیث شریف سے مزدوروں سے کام لینے کے متعلق کئی اُصول بنتے ہیں۔ ایک یہ کہ مزدور و مالکان کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ ہے۔ لہٰذا مالک کے لیے مستحب ہے کہ وہ جو اپنے لیے پسند کرے، وہی اپنے مزدور بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ اِس حدیث مبارک میں مالکان کو عیش و عشرت کی زندگی سے روکا جارہا ہے اور سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ کیوں کہ جب وہ اپنے ساتھ دوسروں پر بھی خرچ کرے گا تو ظاہر ہے کہ اُس کے اخراجات دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے اور وہ کفایت کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مزدوروں کو بہ مشکل دال روٹی میسر ہوتی ہے جب کہ مالکان اور کارخانہ دار کے ایک وقت کی کھانے پینے کا بل مزدوروں کی پوری تن خواہ کے برابر ہوتا ہے۔ مزدور بہ مشکل سال میں ایک مرتبہ نئے کپڑے سلوا پاتا ہے اور کئی تو ایسے بھی ہیں، جنہیں سالوں نئے کپڑے نصیب نہیں ہوتے، اِس کے برعکس سرمایہ دار روزانہ نئے کپڑے زیبِ تن کرتا ہے۔ شریعت کا منشا یہ ہے کہ مزدوروں کی تن خواہ اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے اُن کی بنیادی ضرورتیں آسانی کے ساتھ پوری ہوسکیں۔ اِس سے نہ صرف مزدوروں کا فائدہ ہوگا بل کہ مالکان کو بھی فائدہ ہوگا کیوں کہ ایسی صورت میں مزدور بہ خوشی اور احسن طریقے سے اپنی ذمے داریوں کو انجام دیں گے اور کاروبار خوب ترقی کرے گا۔

مزدوروں سے اُن کی طاقت کے مطابق کام لیا جائے، اُن پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے کہ اُن کے لیے کرنا مشکل ہوجائے۔ اِس سے مزدوروں سے معاہدہ کے برخلاف مقررہ وقت سے زاید کام لینے کی ممانعت کا بھی علم ہوتا ہے۔ کئی جگہوں میں آٹھ گھنٹوں کی بہ جائے بارہ بل کہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور اگر مزدور زیادہ وقت کام کرنے سے انکار کرتا ہے تو اُسے ملازمت سے فارغ کردینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ لہٰذا مزدور بہ حالتِ مجبوری اپنی طاقت سے زیادہ محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اگر مزدوروں سے اُن کی طاقت اور مقررہ وقت سے زاید کام لیا جائے تو اُن کا ہاتھ بٹایا جائے یا پھر اُسے زاید وقت کی اُجرت بھی دی جائے۔ یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ زاید وقت کے منافع کا پورا حق دار وہ شخص ٹھہرے، جس نے کچھ محنت نہ کی ہو، صرف اپنا سرمایہ لگایا ہو۔ اور وہ شخص جو منافع حاصل کرنے کے لیے اپنا خون پسینا بہا رہا ہے، اُسے کچھ بھی نہ ملے، زیادہ سے زیادہ چند تعریفی کلمات سے نواز دیا جائے۔

اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دن کو معاش کا ذریعہ بنایا تو تھکاوٹ دور کرنے کے لیے رات کو سکون اور راحت کے لیے پیدا فرمایا۔ اب اگر کوئی شخص زیادہ یا مسلسل کام ہی کرتا رہے اور کچھ وقت آرام نہ کرے تو پھر اس سے کئی نفسیاتی اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ صحت خراب ہوجاتی ہے ، طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیوی، بچوں، ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کو وقت نہ دینے سے آپس میں رنجشیں بڑھتی ہیں۔

ابھی تک مزدوروں کے جن حقوق پر لکھا گیا، اُن میں سے ہر ایک کا تعلق اُن حقوق سے ہے، جو مزدور کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک حقوق اﷲ کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں فقہائیِ کرام نے فرمایا کہ جس طرح مزدوروں کو اُن کی اُجرت کا دینا لازم اور ضروری ہے بالکل اسی طرح مالکان پر یہ بھی لازم ہے کہ دورانِ کام فرائض و واجبات مثلاً نماز وغیرہ کا وقت آجائے، تو مزدوروں کو اس کی ادائی کے لیے نہ صرف وقت دیا جائے بل کہ اِن اُمور کی انجام دہی کے لیے بہتر جگہ بھی فراہم کی جائے۔

اسی طرح رمضان المبارک میں اُن سے اتنا ہی کام لیا جائے کہ وہ آسانی کے ساتھ روزے رکھ سکیں۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ایسے حقوق اﷲ سے روکے، جن کی ادائی انفرادی طور پر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو ملازمین پر اپنے مالک کی اطاعت لازم نہیں ہوگی۔ کیوں کہ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ کسی کی اطاعت اُسی وقت تک کی جاسکتی ہے، جب تک وہ شریعت کے مطابق ہو، وگرنہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی پر کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
Load Next Story