کراچی براستہ ملیر
جہاں تک کراچی یا کولاچی کی قدامت کا تعلق ہے تو قومی شاہراہ کے ساتھ آباد ملیر کو اِس سلسلے میں خصوصی اہمیت حامل ہے۔
شہرِ کراچی کی قدامت کے حوالے سے محققین اور مورخین کبھی ایک نہ ہوسکے۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ شہر کراچی کا آغاز 1729ء میں بھوجو مل نامی تاجر نے کیا تو کچھ کا ماننا یہ ہے کہ یہ شہر مائی کولاچی کا شہر ہے، جبکہ بعض مورخین اِسے پتھر تانبے اور کانسی کے دور سے بھی جوڑتے ہیں۔ بات کچھ بھی ہو لیکن تمام کا یہ ماننا ہے کہ یہ شہر انتہائی قدیم شہر ہے جس کا آغاز منوڑہ کے جزیرے سے ہوا۔ لیکن اِن محققین اور مورخین میں سے بہت کم نے کراچی سے جڑے مضافاتی علاقوں لانڈھی، کورنگی، گذری اور ملیر پر روشنی ڈالی ہے جس کی وجہ سے آج بھی اِن علاقوں کی قدامت آنکھوں سے اوجھل ہے۔
اب جہاں تک کراچی یا کولاچی کی قدامت کا تعلق ہے تو قومی شاہراہ کے ساتھ آباد ملیر کو اِس سلسلے میں خصوصی اہمیت حامل ہے۔ یوں تو ملیر سندھی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہریالی اور خوشحالی کے ہیں اور عملی طور پر بھی یہ علاقہ ہمیشہ سر سبز و شاداب رہا ہے، جہاں گنگناتی ندی کے ساتھ ساتھ لہلاتی فصل اور پھلوں کے باغات ہیں۔ اسی وجہ سے اِس کی آب و ہوا ماضی میں انتہائی معتدل تھی۔ اِس حوالے سے اُس وقت کے ہندو بیوپاریوں نے اپنے رہنے کے لئے بڑی بڑی کوٹھیاں بنا رکھی تھیں، جن میں کیامل بلڈنگ، دولت رام بلڈنگ، رام بازی بلڈنگ، گروگل پاٹھ شالہ اور شانتی کٹی جیسی عمارتیں شامل ہیں۔
ہندؤں نے اِس علاقے میں مندر اور پارسیوں نے صحت گاہیں قائم کر رکھی تھیں جہاں ہر قسم کے پھلوں پھولوں کے درخت پائے جاتے تھے، جبکہ اِس کے چاروں طرف لہلہاتی فصلیں دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی تھیں۔
وادی ملیر میں موجود قدیم کوٹھیاں، مندر و دیگر قدیم مقامات اِس کی قدامت بتانے کے لئے کافی نہیں کیونکہ مورخین اِسے موہن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم اثر قرار دیتے ہیں، جبکہ محکمہ آثار قدیمہ جو کہ قیام پاکستان سے قبل ہی قائم تھا، نے یہاں جب مختصر علاقوں کی صرف 18 فٹ کھدائی کی تو اُنہیں وادی ملیر کے علاقے نل بازار، ای لانوں اور تھانہ بولا خان اور ڈملوٹی کے گردونواح سے 3 سے زیادہ اُجڑی بستیوں کے آثار ملے۔
یہاں سے پتھر کے اوزار، ٹھیکریاں، برتن کے ٹکڑے یہاں تک کہ ہڑپہ کے جانوروں کے نشانات اور رسم الخط کے آثار بھی دریافت ہوئے، جس کے مطابق اِس وادی کی قدامت کم از کم 5 ہزار سال پرانی بیان کی گئی ہے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر کراچی میں محفوظ ہیں۔
یہ وہی قدیم وادی ملیر ہے جس کے حوالے سے بعض مورخین اِسے ماروی سے بھی جوڑتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی اِسے ماروی کے وطن سے جوڑتے ہیں اور اِن مورخین میں سے بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ سسی نے ملیر ندی عبور کرتے ہوئے ملیر کو یہ بددعا دی تھی کہ تو ہمیشہ سر سبز رہے گا مگر کبھی سیر نہ ہوگا۔ اب اِس بات میں کتنی صداقت ہے اور آیا کہ یہ وہی ملیر ہے؟ اِس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن اکثر و بیشتر اِسے درست خیال کرتے ہیں۔ بعض قدیم سیاحوں نے اپنی تصانیف میں اِسے دریائے ملیر لکھا ہے اور اُنہی میں سے کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملے کے وقت اِسی علاقے میں دریا کنارے قیام کیا تھا۔
یہ وہی بستی ہے جو کہ ماضی سے اب تک پورے شہر کو سبزیاں، پھل فراہم کرتی ہے۔ جس کے لئے اِس علاقے کا جتنا بھی احسان مند ہوا جائے وہ کم ہے۔ اِس علاقے کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اِس نے 80 فٹ کے 10 کنوؤں کے ذریعے صدیوں قبل 19 میل لوہے کی بچھائی گئی پائپ لائنوں کے ذریعے اِس شہر کو پانی فراہم کیا تھا۔ ابتداء میں ڈملوٹی کنویں کے ذریعے اہل شہر کو 3 ملین گیلن پانی جبکہ 1945ء میں 10.5 ملین گیلن پانی فراہم کیا اور آج بھی ڈملوٹی کنویں کی یہ نشانیاں باقی ہے۔
ملیر کا یہ علاقہ جو کہ ماضی میں انتہائی پُر فضا مقام رکھتا تھا، جہاں دور دور سے لوگ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے آیا کرتے تھے، وہاں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیام پاکستان سے قبل اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ ڈملوٹی بنگلے میں نہ صرف قیام کیا کرتے تھے بلکہ بعض بزرگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسی بنگلے میں بیٹھ کر سیاسی امورنمٹاتے تھے بلکہ غالباً یہ وہی ریسٹ ہاؤس ہے، جہاں سے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے، آتے تھے، لیکن آج یہ مقام خستہ حالت میں موجود ہے۔
جہاں تک قدیم ترین ڈملوٹی کنویں کی بات ہے تو یہ شہر کراچی کے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ تھا کیونکہ اِس کی موجودگی سے پہلے شہر کراچی میں جہاں پینے کے پانی کا مسئلہ ہمیشہ در پیش رہا۔ انگریزوں نے کبھی لیاری ندی کے نزدیک پانی کے کنویں کھود کر قلتِ آب دور کرنے کی کوشش کی تو کبھی اچل سنگھ ایڈوانی پارک، حضرت عالم شاہ بخاری، رام باغ، رتن تلاؤ، لارنس روڈ کے قریب موجود 5 چشموں کی مدد سے شہر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کی کو شش کی مگر پھر بھی شہر پیاسے کا پیاسا رہا۔
اُس وقت کیونکہ شہر کی آبادی 22000 نفوس پر مشتمل تھی اور 1865ء تک پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کرچکی تھی اور انگریز فوجیوں اِن چشموں اور کنوؤں کا پانی پینے سے انکار کر دیا تھا، لہذا ایسی صورت میں 3 روپے کے معاوضے پر گدھے پر لاد کر اِن کے لئے کوٹھری سے پانی لایا جاتا تھا جو کہ انتہائی مہنگا پڑرہا تھا۔ اِس خرچ کو دیکھتے ہوئے تاجروں کی مالی اعانت سے 1883ء میں 10 گہرے کنویں کھدوائے گئے جن کی گہرائی 80 فٹ سے زیادہ تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِسی کے ساتھ ایک پانی کا وسیع ٹینک بھی بنایا گیا اور 19 میل لمبی لوہے کی لائن شہر تک بچھا کر پانی کی سپلائی شروع کی گئی اور پھر 60 برسوں تک اہل کراچی انہیں ڈملوٹی کنووں کا پانی پیتے رہے جبکہ ملیر کے گوٹھوں میں اِسی پانی کی مدد سے سبزیاں اور پھل اگائے جانے لگے۔
ڈملوٹی کنویں کے علاوہ جب حیات محمد جوکھیو گوٹھ جیسے قدیم گوٹھ موجود ہیں جس کے بارے میں محقیقین کا کہنا یہ ہے کہ اِس گوٹھ کے نیچے بازار کے آثار موجود ہیں جبکہ اللہ ڈنو اور نل بازار کے قریب واقع ٹیلے کے نیچے آج بھی اُس مہذب قوم کے مکانات کے آثار موجود ہیں جنہوں نے پتھر، کچی اینٹوں اور مٹی کے لونڈوں سے اپنے مکانات بنائے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 1974-1973 میں انگریز ماہر آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران 730 پتھر کے اوزار و دیگر سامان کے علاوہ تندور، پانی کو زخیرہ کرنے کے لئے بڑے بڑے مٹی کے برتن کے علاوہ سونے کے زیورات بھی ملے تھے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر اور کراچی یونیورسٹی کے میوزیم میں محفوظ ہے۔
مگر وہ ماہرین آثار قدیمہ جنہوں نے ملیر کے علاقے سے موہن جودڑو اور ہڑپہ جیسے آثار دریافت کئے تھے ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف تھے لہذا انہیں حکومت نے نا پسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔ وقت ہم جس جگہ پر کھڑے ہیں (ملیر، امید علی گوٹھ) گو کہ اب یہ واٹر بورڈ کی تحویل میں ہے مگر ماضی میں ملیر کے پر فضا مقام ہونے کے پیشِ نظر یہاں باقاعدہ طور پر ایک ریسٹ ہائوس قائم تھا یہ وہی ریسٹ ہائوس ہے جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے بیماری کے ایام میں ڈاکٹروں کے مشورے پر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ قیام پاکستان سے قبل کئی ماہ تک یہاں قیام کیا وہ یہاں بیٹھ کرنا صرف قیام پاکستان کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد کو دیکھتے تھے بلکہ انہوں نے اسی مقام سے مسلم لیگ میں ہونے والے علاقائی انتخابات کے لئے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ملیر کا پہلا صدارتی ٹکٹ پیر غلام مرتضی سرہندی، عبدالکریم، وڈیرہ میر محمد، وڈیرہ نظام الدین و دیگر میں ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ہونے والے انتخابات میں اِن تمام افراد نے کامیابی بھی حاصل کی تھی۔
ملیر نے جہاں اِس شہر کو سبزیاں پھل کھلانے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی سے بھی سیراب کیا، اِسی ملیر میں رائل برٹش گورمنٹ نے 11 اکتوبر 1941ء میں پی او ڈبلیو کیمپ بھی قائم کیا اور یہاں باقاعدہ طور پر فوجی چھاؤنی بھی تعمیر کی گئی جہاں سے انگریز فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا اور اِس کے بعد آج یہی ملیر چھائونی ہماری افواج پاکستان کے زیر استعمال ہے۔ ہم نے جب اپنے تحقیقی فیچر کے حوالے سے جوکھیو گوٹھ ملیر کے سربراہ ابراہیم جوکھیو سے گفتگو کی تو انہوں نے اسِ بات کی تصدیق کی کہ ملیر کے گوٹھ انتہائی قدیم ہیں یہاں سے موہن جودڑو اور ہڑپہ دور کے آثار بر آمد ہوئے مگر نا معلوم وجوہات کی بناء پر اچانک تحقیقی کام کو روک دیا گیا، جس کی وجہ سے ملیر کا یہ علاقہ جو کہ اپنی قدامت کے اعتبار سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرسکتا تھا وہ شہرت حاصل نہیں کرسکا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایک بار پھر ملیر کے قدیم علاقوں کی تحقیق شروع کی جائے تاکہ قدیم ملیر کو اِس کا اصل مقام مل سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اب جہاں تک کراچی یا کولاچی کی قدامت کا تعلق ہے تو قومی شاہراہ کے ساتھ آباد ملیر کو اِس سلسلے میں خصوصی اہمیت حامل ہے۔ یوں تو ملیر سندھی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہریالی اور خوشحالی کے ہیں اور عملی طور پر بھی یہ علاقہ ہمیشہ سر سبز و شاداب رہا ہے، جہاں گنگناتی ندی کے ساتھ ساتھ لہلاتی فصل اور پھلوں کے باغات ہیں۔ اسی وجہ سے اِس کی آب و ہوا ماضی میں انتہائی معتدل تھی۔ اِس حوالے سے اُس وقت کے ہندو بیوپاریوں نے اپنے رہنے کے لئے بڑی بڑی کوٹھیاں بنا رکھی تھیں، جن میں کیامل بلڈنگ، دولت رام بلڈنگ، رام بازی بلڈنگ، گروگل پاٹھ شالہ اور شانتی کٹی جیسی عمارتیں شامل ہیں۔
ہندؤں نے اِس علاقے میں مندر اور پارسیوں نے صحت گاہیں قائم کر رکھی تھیں جہاں ہر قسم کے پھلوں پھولوں کے درخت پائے جاتے تھے، جبکہ اِس کے چاروں طرف لہلہاتی فصلیں دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی تھیں۔
وادی ملیر میں موجود قدیم کوٹھیاں، مندر و دیگر قدیم مقامات اِس کی قدامت بتانے کے لئے کافی نہیں کیونکہ مورخین اِسے موہن جودڑو اور ہڑپہ کا ہم اثر قرار دیتے ہیں، جبکہ محکمہ آثار قدیمہ جو کہ قیام پاکستان سے قبل ہی قائم تھا، نے یہاں جب مختصر علاقوں کی صرف 18 فٹ کھدائی کی تو اُنہیں وادی ملیر کے علاقے نل بازار، ای لانوں اور تھانہ بولا خان اور ڈملوٹی کے گردونواح سے 3 سے زیادہ اُجڑی بستیوں کے آثار ملے۔
یہاں سے پتھر کے اوزار، ٹھیکریاں، برتن کے ٹکڑے یہاں تک کہ ہڑپہ کے جانوروں کے نشانات اور رسم الخط کے آثار بھی دریافت ہوئے، جس کے مطابق اِس وادی کی قدامت کم از کم 5 ہزار سال پرانی بیان کی گئی ہے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر کراچی میں محفوظ ہیں۔
یہ وہی قدیم وادی ملیر ہے جس کے حوالے سے بعض مورخین اِسے ماروی سے بھی جوڑتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی اِسے ماروی کے وطن سے جوڑتے ہیں اور اِن مورخین میں سے بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ سسی نے ملیر ندی عبور کرتے ہوئے ملیر کو یہ بددعا دی تھی کہ تو ہمیشہ سر سبز رہے گا مگر کبھی سیر نہ ہوگا۔ اب اِس بات میں کتنی صداقت ہے اور آیا کہ یہ وہی ملیر ہے؟ اِس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن اکثر و بیشتر اِسے درست خیال کرتے ہیں۔ بعض قدیم سیاحوں نے اپنی تصانیف میں اِسے دریائے ملیر لکھا ہے اور اُنہی میں سے کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملے کے وقت اِسی علاقے میں دریا کنارے قیام کیا تھا۔
یہ وہی بستی ہے جو کہ ماضی سے اب تک پورے شہر کو سبزیاں، پھل فراہم کرتی ہے۔ جس کے لئے اِس علاقے کا جتنا بھی احسان مند ہوا جائے وہ کم ہے۔ اِس علاقے کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اِس نے 80 فٹ کے 10 کنوؤں کے ذریعے صدیوں قبل 19 میل لوہے کی بچھائی گئی پائپ لائنوں کے ذریعے اِس شہر کو پانی فراہم کیا تھا۔ ابتداء میں ڈملوٹی کنویں کے ذریعے اہل شہر کو 3 ملین گیلن پانی جبکہ 1945ء میں 10.5 ملین گیلن پانی فراہم کیا اور آج بھی ڈملوٹی کنویں کی یہ نشانیاں باقی ہے۔
ملیر کا یہ علاقہ جو کہ ماضی میں انتہائی پُر فضا مقام رکھتا تھا، جہاں دور دور سے لوگ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے آیا کرتے تھے، وہاں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی قیام پاکستان سے قبل اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ ڈملوٹی بنگلے میں نہ صرف قیام کیا کرتے تھے بلکہ بعض بزرگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اسی بنگلے میں بیٹھ کر سیاسی امورنمٹاتے تھے بلکہ غالباً یہ وہی ریسٹ ہاؤس ہے، جہاں سے انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے، آتے تھے، لیکن آج یہ مقام خستہ حالت میں موجود ہے۔
جہاں تک قدیم ترین ڈملوٹی کنویں کی بات ہے تو یہ شہر کراچی کے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ تھا کیونکہ اِس کی موجودگی سے پہلے شہر کراچی میں جہاں پینے کے پانی کا مسئلہ ہمیشہ در پیش رہا۔ انگریزوں نے کبھی لیاری ندی کے نزدیک پانی کے کنویں کھود کر قلتِ آب دور کرنے کی کوشش کی تو کبھی اچل سنگھ ایڈوانی پارک، حضرت عالم شاہ بخاری، رام باغ، رتن تلاؤ، لارنس روڈ کے قریب موجود 5 چشموں کی مدد سے شہر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کی کو شش کی مگر پھر بھی شہر پیاسے کا پیاسا رہا۔
اُس وقت کیونکہ شہر کی آبادی 22000 نفوس پر مشتمل تھی اور 1865ء تک پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کرچکی تھی اور انگریز فوجیوں اِن چشموں اور کنوؤں کا پانی پینے سے انکار کر دیا تھا، لہذا ایسی صورت میں 3 روپے کے معاوضے پر گدھے پر لاد کر اِن کے لئے کوٹھری سے پانی لایا جاتا تھا جو کہ انتہائی مہنگا پڑرہا تھا۔ اِس خرچ کو دیکھتے ہوئے تاجروں کی مالی اعانت سے 1883ء میں 10 گہرے کنویں کھدوائے گئے جن کی گہرائی 80 فٹ سے زیادہ تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِسی کے ساتھ ایک پانی کا وسیع ٹینک بھی بنایا گیا اور 19 میل لمبی لوہے کی لائن شہر تک بچھا کر پانی کی سپلائی شروع کی گئی اور پھر 60 برسوں تک اہل کراچی انہیں ڈملوٹی کنووں کا پانی پیتے رہے جبکہ ملیر کے گوٹھوں میں اِسی پانی کی مدد سے سبزیاں اور پھل اگائے جانے لگے۔
ڈملوٹی کنویں کے علاوہ جب حیات محمد جوکھیو گوٹھ جیسے قدیم گوٹھ موجود ہیں جس کے بارے میں محقیقین کا کہنا یہ ہے کہ اِس گوٹھ کے نیچے بازار کے آثار موجود ہیں جبکہ اللہ ڈنو اور نل بازار کے قریب واقع ٹیلے کے نیچے آج بھی اُس مہذب قوم کے مکانات کے آثار موجود ہیں جنہوں نے پتھر، کچی اینٹوں اور مٹی کے لونڈوں سے اپنے مکانات بنائے تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 1974-1973 میں انگریز ماہر آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران 730 پتھر کے اوزار و دیگر سامان کے علاوہ تندور، پانی کو زخیرہ کرنے کے لئے بڑے بڑے مٹی کے برتن کے علاوہ سونے کے زیورات بھی ملے تھے جو کہ آج بھی قومی عجائب گھر اور کراچی یونیورسٹی کے میوزیم میں محفوظ ہے۔
مگر وہ ماہرین آثار قدیمہ جنہوں نے ملیر کے علاقے سے موہن جودڑو اور ہڑپہ جیسے آثار دریافت کئے تھے ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف تھے لہذا انہیں حکومت نے نا پسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔ وقت ہم جس جگہ پر کھڑے ہیں (ملیر، امید علی گوٹھ) گو کہ اب یہ واٹر بورڈ کی تحویل میں ہے مگر ماضی میں ملیر کے پر فضا مقام ہونے کے پیشِ نظر یہاں باقاعدہ طور پر ایک ریسٹ ہائوس قائم تھا یہ وہی ریسٹ ہائوس ہے جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے بیماری کے ایام میں ڈاکٹروں کے مشورے پر اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ قیام پاکستان سے قبل کئی ماہ تک یہاں قیام کیا وہ یہاں بیٹھ کرنا صرف قیام پاکستان کے حوالے سے ہونے والی جدوجہد کو دیکھتے تھے بلکہ انہوں نے اسی مقام سے مسلم لیگ میں ہونے والے علاقائی انتخابات کے لئے ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ملیر کا پہلا صدارتی ٹکٹ پیر غلام مرتضی سرہندی، عبدالکریم، وڈیرہ میر محمد، وڈیرہ نظام الدین و دیگر میں ٹکٹ بھی تقسیم کئے تھے اور ہونے والے انتخابات میں اِن تمام افراد نے کامیابی بھی حاصل کی تھی۔
ملیر نے جہاں اِس شہر کو سبزیاں پھل کھلانے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی سے بھی سیراب کیا، اِسی ملیر میں رائل برٹش گورمنٹ نے 11 اکتوبر 1941ء میں پی او ڈبلیو کیمپ بھی قائم کیا اور یہاں باقاعدہ طور پر فوجی چھاؤنی بھی تعمیر کی گئی جہاں سے انگریز فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا اور اِس کے بعد آج یہی ملیر چھائونی ہماری افواج پاکستان کے زیر استعمال ہے۔ ہم نے جب اپنے تحقیقی فیچر کے حوالے سے جوکھیو گوٹھ ملیر کے سربراہ ابراہیم جوکھیو سے گفتگو کی تو انہوں نے اسِ بات کی تصدیق کی کہ ملیر کے گوٹھ انتہائی قدیم ہیں یہاں سے موہن جودڑو اور ہڑپہ دور کے آثار بر آمد ہوئے مگر نا معلوم وجوہات کی بناء پر اچانک تحقیقی کام کو روک دیا گیا، جس کی وجہ سے ملیر کا یہ علاقہ جو کہ اپنی قدامت کے اعتبار سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرسکتا تھا وہ شہرت حاصل نہیں کرسکا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایک بار پھر ملیر کے قدیم علاقوں کی تحقیق شروع کی جائے تاکہ قدیم ملیر کو اِس کا اصل مقام مل سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس