کتاب زندگی اُمید روشنی
ہر عہد کے کچھ مسائل بھی ہوا کرتے ہیں جو پرانے لوگوں کو اپنی نئی نسل کے افراد میں نظر آتے ہیں۔
اہلِ چین کی ایک عمدہ کہاوت ہے:
''کتاب ایک ایسا باغ ہے جسے ہم ساتھ ساتھ لے کر گھوم سکتے ہیں۔''
گذشتہ برسوں کی طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اس سال بھی سہ روزہ سالانہ کتب میلے کا اہتمام اپنے خاص روایتی انداز سے کیا۔ یہ میلہ ہر سال 22 اپریل کو آغاز ہوتا ہے۔ اسی تاریخ کو ہمارے یہاں کتاب کا قومی دن منایا جاتا ہے، جب کہ دنیا بھر میں 23 اپریل کو کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یہ میلہ کتاب کے قومی اور عالمی دن اور اس کے بعد ایک اور دن جاری رہتا ہے۔ ہمیں اس سے پہلے بھی اس میلے میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ ہر بار یہ اہتمام اعلیٰ پیمانے پر کیا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کھلے دل سے کیا جانا چاہیے کہ جس شان دار انداز سے اس بار یہ میلہ ہوا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن عرفان صدیقی صاحب نہ صرف اس میلے میں ذاتی طور پر خاص دل چسپی لیتے نظر آئے، بلکہ اپنے ساتھ وہ افتتاحی تقریب میں صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب اور اختتامی اجلاس میں پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے وزیر احسن اقبال صاحب کو بھی لیتے آئے۔ یہی نہیں، بلکہ ان رسمی اجلاسوں کے علاوہ بھی عرفان صدیقی نے اس میلے میں خاصا وقت گزارا۔ وہ مختلف سیشنز میں شریک ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب اجلاسوں میں ان کی شرکت محض ایک سامع کی حیثیت میں تھی۔
کسی بھی جاری اجلاس میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر انعام الحق جاوید کے ساتھ آکر خاموشی سے جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے۔ البتہ سفیرانِ کتاب کا اجلاس ایسا تھا جس میں وہ مرکز میں آکر بیٹھے اور گفتگو بھی کی۔ اس کی ضرورت بھی تھی۔ اس لیے کہ اس اجلاس میں سفیرانِ کتاب کی طرف سے کچھ ایسے سوالات اٹھائے گئے تھے، جن کا جواب سرکاری منصب داری کی وجہ سے ان ہی کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔
اس میلے کے آخری مرحلے میں ایک نہایت افسوس ناک واقعہ بھی ہوا۔ ہم وہاں نہیں تھے، کچھ دوستوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ اختتامی اجلاس کے بعد جب کچھ لوگ احسن اقبال، عرفان صدیقی اور دوسرے لوگوں سے ملنے اور انھیں اپنی کتابیں پیش کرنے کے لیے اسٹیج پر جا رہے تھے، ان میں جواں سال شاعرہ فرزانہ ناز جن کا شعری مجموعہ ''ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے'' حال ہی میں شائع ہوا تھا، اسٹیج سے نیچے گر پڑیں۔ بارہ فٹ کی بلندی سے ماربل کے فرش پر سر کے بل گرنے کی وجہ سے انھیں بہت ضرر رساں چوٹیں آئیں۔
افسوس کہ فوری طور پر ایمبولینس میسر نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اسپتال منتقل کرنے میں خاصا وقت لگا۔ جب شفا ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کی کیفیت امید افزا نہیں تھی۔ وہ شاید کچھ وقت کوما میں رہیں۔ بچانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ یہ نہایت اذیت دہ واقعہ ہے۔ موت برحق ہے، لیکن ایک جواں سال تخلیقی روح کا اس طرح ناگہانی کا شکار ہونا یقینا دکھی کرتا ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور اہلِ خانہ اور احباب میں سب لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یہ آٹھواں کتاب میلہ تھا، جس میں ملک بھر سے 103اور بیرونِ ملک سے 9 سفیرانِ کتب کو مدعو کیا گیا تھا۔ سب سے عمدہ اور قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ اس میلے میں عوام کی دل چسپی دیدنی اور بہت حوصلہ افزا تھی۔ ایک وقت میں کئی کمروں میں اجلاس ہوتے تھے۔
کہیں کتاب خوانی ہو رہی ہے تو کہیں نمائشِ کتب، کہیں خطاطی کی نمائش، کہیں انگریزی کے ادیبوں کا اجلاس ہو رہا ہے تو کہیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اہلِ قلم کا اجلاس، کہیں زاہدہ حنا کی کہانیوں کے انگریزی ترجمے کی رونمائی ہے تو کہیں نظم پر مذاکرہ، کہیں نصابی کتب پر ورکشاب ہے تو کہیں افسانے پر گفتگو، کہیں ای بک اور آن لائن میگزین موضوعِ بحث ہیں تو کہیں قومی اعزاز پانے والوں کی پذیرائی کے لیے اجلاس رکھا گیا ہے، کہیں پاکستانی زبانوں اور ان کے ادب کے حال اور مستقبل کو موضوع بنایا گیا ہے تو کہیں بچوں کے ادب پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔
کہیں اسپکچز اور کارٹون پر ورکشاپ ہے تو کہیں غزل پر مذاکرہ، کہیں تحریک و تشکیلِ پاکستان پر مکالماتی نشست ہے تو کہیں سفیرانِ کتاب کا اجلاس، کہیں جامعات میں امن و ادب پر گفتگو ہے تو کہیں معروف مصور اسلم کمال کی خصوصی پیش کش ''کلامِ اقبال نقشِ کمال'' کے حوالے سے گفتگو کو عصرِحاضر سے جوڑا گیا ہے، کہیں بک ریڈرز کنونشن ہے تو کہیں اردو تنقید میں نسائی شعور اور اس کی تدریس پر مذاکرہ۔ اس کے علاوہ مشاعرہ اور غزل نائٹ ایسے رات کے شو الگ تھے۔ میلے میں بچوں کی شرکت اور دل چسپی کو خاص طور پر مدِنظر رکھا گیا تھا۔ چناں چہ ان کے لیے رول پلے، موسیقی، معلومات اور ادبی شخصیات سے ملاقات کے خصوصی پروگرام بھی شامل تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ افراد ادارے بناتے ہیں، لیکن آگے چل کر ادارے پھر ایک قوم اور تہذیب کو تعمیر کرتے ہیں۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ان اداروں کی تشکیل ایک قومی شعور کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور جب ان کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں رہتی ہے جنھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ذاتی سطح پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایسے ہی ایک فرد ہیں۔ کام کی لگن انھیں مسلسل متحرک رکھتی ہے۔ وہ سچائی سے اعتراف کرتے ہیں کہ قومی کتب میلے کا آغاز اُن کے پیش رو ڈائریکٹر معروف افسانہ نگار مظہر الاسلام نے کیا تھا۔
تاہم اس حقیقت کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اس سالانہ تقریب کو جس سطح تک پہنچا دیا ہے وہ کچھ انھی کا حصہ ہے اور آج ساری اردو دنیا میں ان کے ادارے کی شناخت کا ایک اور معتبر حوالہ بھی۔ اداروں کی سطح پر تہذیبی درجے کے جو بڑے کام انجام پاتے ہیں، ان میں بہت اہم کردار یقینا مرکزی شخصیت کا ہوتا ہے، لیکن ایسے سارے کام کوئی شخص اکیلا نہیں کرتا۔ اس کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ انعام الحق جاوید اس لحاظ سے بھی خوش قسمت آدمی ہیں کہ ادارے کے فعال ملازمین کے ساتھ ساتھ انھیں محبوب ظفر، طارق شاہد، عبدالصمد شمسی، سلطان خلیل، محمد عارف اور مسعود اقبال ہاشمی ایسے بے لوث ساتھی میسر ہیں جو ذاتی شوق کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
میلے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیک وقت ہونے والے متعدد سیشنز میں ہم نے جہاں بھی دیکھا ادیبوں اور شاعروں ہی کو نہیں عام افراد کو بھی بڑی تعداد میں شریک پایا۔ متعدد اجلاس ایسے تھے کہ جن میں نشستوں کی گنجائش سے زیادہ افراد شریک ہوئے اور کتنے ہی لوگ دائیں بائیں یا پیچھے دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر پورے اجلاس کو سنتے رہے۔
بعض اجلاسوں میں سوال جواب کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔ ایسے ہر موقع پر خاموش مگر باشعور قارئین ادب اور معاشرے کے حوالے سے سوال اٹھاتے تو اندازہ ہوتا کہ کتاب سے ان کا رشتہ کیسا گہرا ہے۔ ان کتاب دوست لوگوں میں کتنے ہی ایسے نظر آئے کہ مطالعہ جن کے لیے محض وقت گزاری کا ذریعہ نہیں تھا۔ کتاب انھیں سوچنے پر اکساتی تھی، ان کے ذہن کو سوالوں سے دوچار اور دل کو اضطراب آشنا کرتی تھی۔ زندہ کتاب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو اس حالت میں نہیں رہنے دیتی جس میں وہ کتاب کے مطالعے سے پہلے ہوتا ہے۔ ایک نئی کتاب پڑھ کر اسے اپنے کچھ سوالوں کا جواب ملتا ہے، لیکن وہ کچھ نئے سوالوں سے بھی دوچار ہوتا ہے۔
ان اجلاسوں میں عام پڑھنے والوں کی دل چسپی دیکھ کر اور ان کے سوالوں کو سن کر خوشی یوں بھی ہوئی کہ ہم نے دیکھا، ہمارے یہاں ادب سے معاشرے کی دُوری اور کتاب سے لاتعلقی کے مایوس کن اعلانات کے باوجود آج بھی کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ادب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ کتاب سے محبت اور دوستی ان کی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ کتاب انھیں مہمیز دیتی ہے، ان کے اندر سوالوں کی سنسنی دوڑاتی ہے، انھیں آواز عطا کرتی ہے، بولنے اور پوچھنے پر اکساتی ہے۔ اس کا مطلب یقینا یہی ہے کہ ہمارے یہاں زندہ ادب تخلیق ہو رہا ہے اور پڑھا بھی جا رہا ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہمارے یہاں اس خیال کا اظہار رہ رہ کر کیا گیا ہے کہ عوام میں ادب کی اثر پذیری اور قبولیت کا دور ختم ہو چکا۔ یہاں تک کہا گیا کہ اب لکھے ہوئے حرف کی حرمت مٹ چکی۔ اب یہ محض ہاری ہوئی بازی ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی ادب نہیں پڑھتے جو خود تخلیقِ ادب کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہ اور ایسی ہی دوسری تکلیف دہ اور وحشت خیز باتیں بار بار دہرائی گئیں اور نہایت تیقن کے ساتھ گویا قولِ فیصل کا بیان ہے۔ حد یہ ہے کہ اس ضمن میں امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں ادبی کتابوں کی گھٹتی ہوئی تعدادِ اشاعت کے حوالے دیے جاتے ہیں اور پورے وثوق سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ دیکھ لیجیے ساری دنیا میں ادب کا منظرنامہ کیا ہو چلا ہے۔
جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کچھ صداقت تو ہے، لیکن یہ بیان کلّی صداقت کا اظہار نہیں ہے۔ صداقت اس کا صرف ایک عنصر ہے۔ کیا آج تک کی معلومہ تاریخ میں کوئی ایسی تہذیب گزری ہے جس میں ادب کا ذوق رکھنے والوں کا تناسب صد فی صد رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جن تہذیبوں نے دنیا کی تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان میں بھی باضابطہ ادب پڑھنے والے افراد محض چند فی صد رہے ہیں۔ اب جہاں تک معاشرے میں ادیبوں شاعروں کی مقبولیت کا تعلق ہے تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی سماج میں بھی وہ سیاست دانوں، کھلاڑیوں اور اداکاروں کے ہم پلّہ نہیں رہے۔
اب رہی بات ان کے رسوخ اور سماجی اثر پذیری کی تو اس کا ایک گراف ضرور دیکھا جاسکتا ہے، لیکن اس کی راست پیمائش کا کوئی پیمانہ کسی تہذیب میں نہیں بنایا گیا۔ اس لیے کہ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ کام عموماً بالواسطہ ہوتا ہے۔ اس تخمین وظن کے ضابطے بھی الگ ہوتے ہیں۔ ہومر اور سوفو کلیس کے یونان، ورجل کے روم سے لے کر شیکسپیئر، برنارڈ شا اور ایلیٹ کے برطانیہ، موپاساں، بودلیئر اور فلوبیئر کے فرانس، ٹالسٹائے، دوستوفسکی اور چیخوف کے روس اور ہاتھورن، ایڈ گرایلن پو اور ایذرا پاؤنڈ کے امریکا تک کہیں بھی دیکھ لیجیے، آپ کو اسی حقیقت کا ثبوت ملے گا۔
ماضی کے اس منظرنامے کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے عام آدمی کی ادب سے دل چسپی کا ایک بنیادی حوالہ ادب کے ذریعے تفریحِ طبع کا سامان بھی تھا۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس زمانے میں تفریحِ طبع کے اتنے وسائل آدمی کو میسر نہیں تھے، جتنے آج ہیں اور جس قدر آسانی سے ہیں، اس کا تو اس سے پہلے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اتنے ذرائع اور اتنی متنوع تفریح کے باوجود اگر لوگ آج بھی کتاب پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے ناں کہ ہمارے یہاں کتاب، علم اور ادب سے معاشرے کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
مطالعے کے رجحان میں کمی بیشی کا سوال ایک الگ تجزیے کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ ایک گلوبل فینومینا ہے۔ کتابوں کی تعدادِ اشاعت میں واقعی کمی دیکھی جاسکتی ہے، لیکن مطالعے کے رجحان میں ایسی کمی نہیں ہوئی ہے کہ اسے مایوسی کے اظہار کا جواز بنایا جائے۔ اس دور میں مطالعے کے دوسرے ذرائع میسر ہیں، مثلاً ای بکس اور آن لائن مطالعاتی مواد سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس پر بات اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خاصی سرگرمی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ حقیقت کا دوسرا رخ ہے۔ روایتی ذرائع اور طریقِ کار تبدیل ہو رہا ہے۔ اپنے عہد کی حقیقتوں سے لاتعلق نہیں رہا جا سکتا۔ اگر لاتعلقی اختیار کر لی جائے تو غلط فہمی، غلط نتائج اور ان کے نتیجے میں مایوسی اور ڈپریشن سے بچنا ممکن نہیں۔
ہر عہد کے کچھ مسائل بھی ہوا کرتے ہیں جو پرانے لوگوں کو اپنی نئی نسل کے افراد میں نظر آتے ہیں۔ اس دور کے نئے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا کچھ معاملہ ہوگا، لیکن ہمیں اس پر زیادہ ناک بھوں چڑھانے اور انھیں مسلسل ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے ان کی عصری سماجی صورتِ حال اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا اور انھیں کچھ مارجن بھی دینا چاہیے۔ نئے لوگ اگر شناخت اور شہرت کے سفر میں تیزی دکھاتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ محض کچھ افراد کا نہیں، اس پورے عہد کا مسئلہ ہے۔
اگر نئے لوگوں میں مطالعے کا ذوق ماند پڑتا اور انھیں سنگل ٹریک بناتا نظر آتا ہے تو ہمیں ان ذرائع پر غور کرنا چاہیے جو نئے لوگوں میں ہمہ جہت صلاحیتوں کے اجاگر کرنے کا موجب ہو سکیں۔ ہمیں ان طریقوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو اپنے کلاسیکی ادب و شعر کی اہمیت کا انھیں احساس دلا سکیں اور اس خزانے کو ان کے فکر و احساس کی سطح پر زندہ تجربے میں ڈھال سکیں۔
ایسا اسی وقت ممکن ہے، جب ہم نوجوان نسل سے فاصلہ اختیار کرنے کے بجائے انھیں اپنے قریب لائیں۔ ان کے رجحانات کو ہدفِ ملامت بنانے کے بجائے ان کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ان پر اعتبار کریں اور انھیں نگاہِ استحسان سے دیکھیں۔ آج اگر کسی محفل میں کوئی نوجوان اسد محمد خاں اور حسن منظر جیسے کم آمیز لوگوں کے کسی افسانے یا ناول کا حوالہ دیتا ہے، اگر افسانے کے سیشن میں کوئی آج کا تخلیق کار زاہدہ حنا کے افسانے پر بات کرتا ہے۔
کسی کو عزیز احمد، غلام عباس، ابوالفضل صدیقی اور ممتاز مفتی یاد آتے ہیں یا اس طرح نظم کے اجلاس میں اگر اختر حسین جعفری، احمدشمیم، تصدق حسین خالد، محمد سلیم الرحمن، اسلم انصاری، سحرانصاری، احفاظ الرحمن اور ذیشان ساحل کا ذکر آتا ہے تو خوشی کی بات ہے کہ ان میں سے ایک نام بھی شہرت کا وہ حوالہ نہیں رکھتا کہ فیشن میں اُس کا نام لیا جائے۔ ہمارے عصری ادب کے اجتماعی حافظے نے اگر یہ نام محفوظ کیے اور اگلی نسلوں تک انھیں منتقل بھی کیا ہے تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی حافظہ عصری، سماجی اور ادبی تینوں سطح پر زندہ تخلیقی تجربوں سے ہرگز غافل نہیں ہے۔ اپنے ادب اور سماج دونوں کے باہمی زندہ رشتے کا یہ ثبوت کیا طمانیت اور مزید کام کرنے کے لیے کافی نہیں؟
''کتاب ایک ایسا باغ ہے جسے ہم ساتھ ساتھ لے کر گھوم سکتے ہیں۔''
گذشتہ برسوں کی طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اس سال بھی سہ روزہ سالانہ کتب میلے کا اہتمام اپنے خاص روایتی انداز سے کیا۔ یہ میلہ ہر سال 22 اپریل کو آغاز ہوتا ہے۔ اسی تاریخ کو ہمارے یہاں کتاب کا قومی دن منایا جاتا ہے، جب کہ دنیا بھر میں 23 اپریل کو کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یہ میلہ کتاب کے قومی اور عالمی دن اور اس کے بعد ایک اور دن جاری رہتا ہے۔ ہمیں اس سے پہلے بھی اس میلے میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ ہر بار یہ اہتمام اعلیٰ پیمانے پر کیا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کا اعتراف کھلے دل سے کیا جانا چاہیے کہ جس شان دار انداز سے اس بار یہ میلہ ہوا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن عرفان صدیقی صاحب نہ صرف اس میلے میں ذاتی طور پر خاص دل چسپی لیتے نظر آئے، بلکہ اپنے ساتھ وہ افتتاحی تقریب میں صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب اور اختتامی اجلاس میں پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے وزیر احسن اقبال صاحب کو بھی لیتے آئے۔ یہی نہیں، بلکہ ان رسمی اجلاسوں کے علاوہ بھی عرفان صدیقی نے اس میلے میں خاصا وقت گزارا۔ وہ مختلف سیشنز میں شریک ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب اجلاسوں میں ان کی شرکت محض ایک سامع کی حیثیت میں تھی۔
کسی بھی جاری اجلاس میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر انعام الحق جاوید کے ساتھ آکر خاموشی سے جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے۔ البتہ سفیرانِ کتاب کا اجلاس ایسا تھا جس میں وہ مرکز میں آکر بیٹھے اور گفتگو بھی کی۔ اس کی ضرورت بھی تھی۔ اس لیے کہ اس اجلاس میں سفیرانِ کتاب کی طرف سے کچھ ایسے سوالات اٹھائے گئے تھے، جن کا جواب سرکاری منصب داری کی وجہ سے ان ہی کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔
اس میلے کے آخری مرحلے میں ایک نہایت افسوس ناک واقعہ بھی ہوا۔ ہم وہاں نہیں تھے، کچھ دوستوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ اختتامی اجلاس کے بعد جب کچھ لوگ احسن اقبال، عرفان صدیقی اور دوسرے لوگوں سے ملنے اور انھیں اپنی کتابیں پیش کرنے کے لیے اسٹیج پر جا رہے تھے، ان میں جواں سال شاعرہ فرزانہ ناز جن کا شعری مجموعہ ''ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے'' حال ہی میں شائع ہوا تھا، اسٹیج سے نیچے گر پڑیں۔ بارہ فٹ کی بلندی سے ماربل کے فرش پر سر کے بل گرنے کی وجہ سے انھیں بہت ضرر رساں چوٹیں آئیں۔
افسوس کہ فوری طور پر ایمبولینس میسر نہ ہونے کی وجہ سے انھیں اسپتال منتقل کرنے میں خاصا وقت لگا۔ جب شفا ہسپتال پہنچایا گیا تو ان کی کیفیت امید افزا نہیں تھی۔ وہ شاید کچھ وقت کوما میں رہیں۔ بچانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکیں اور خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ یہ نہایت اذیت دہ واقعہ ہے۔ موت برحق ہے، لیکن ایک جواں سال تخلیقی روح کا اس طرح ناگہانی کا شکار ہونا یقینا دکھی کرتا ہے۔ خدا ان کی مغفرت کرے اور اہلِ خانہ اور احباب میں سب لواحقین کو صبرِ جمیل عطا کرے۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا یہ آٹھواں کتاب میلہ تھا، جس میں ملک بھر سے 103اور بیرونِ ملک سے 9 سفیرانِ کتب کو مدعو کیا گیا تھا۔ سب سے عمدہ اور قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ اس میلے میں عوام کی دل چسپی دیدنی اور بہت حوصلہ افزا تھی۔ ایک وقت میں کئی کمروں میں اجلاس ہوتے تھے۔
کہیں کتاب خوانی ہو رہی ہے تو کہیں نمائشِ کتب، کہیں خطاطی کی نمائش، کہیں انگریزی کے ادیبوں کا اجلاس ہو رہا ہے تو کہیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اہلِ قلم کا اجلاس، کہیں زاہدہ حنا کی کہانیوں کے انگریزی ترجمے کی رونمائی ہے تو کہیں نظم پر مذاکرہ، کہیں نصابی کتب پر ورکشاب ہے تو کہیں افسانے پر گفتگو، کہیں ای بک اور آن لائن میگزین موضوعِ بحث ہیں تو کہیں قومی اعزاز پانے والوں کی پذیرائی کے لیے اجلاس رکھا گیا ہے، کہیں پاکستانی زبانوں اور ان کے ادب کے حال اور مستقبل کو موضوع بنایا گیا ہے تو کہیں بچوں کے ادب پر مذاکرہ ہو رہا ہے۔
کہیں اسپکچز اور کارٹون پر ورکشاپ ہے تو کہیں غزل پر مذاکرہ، کہیں تحریک و تشکیلِ پاکستان پر مکالماتی نشست ہے تو کہیں سفیرانِ کتاب کا اجلاس، کہیں جامعات میں امن و ادب پر گفتگو ہے تو کہیں معروف مصور اسلم کمال کی خصوصی پیش کش ''کلامِ اقبال نقشِ کمال'' کے حوالے سے گفتگو کو عصرِحاضر سے جوڑا گیا ہے، کہیں بک ریڈرز کنونشن ہے تو کہیں اردو تنقید میں نسائی شعور اور اس کی تدریس پر مذاکرہ۔ اس کے علاوہ مشاعرہ اور غزل نائٹ ایسے رات کے شو الگ تھے۔ میلے میں بچوں کی شرکت اور دل چسپی کو خاص طور پر مدِنظر رکھا گیا تھا۔ چناں چہ ان کے لیے رول پلے، موسیقی، معلومات اور ادبی شخصیات سے ملاقات کے خصوصی پروگرام بھی شامل تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ افراد ادارے بناتے ہیں، لیکن آگے چل کر ادارے پھر ایک قوم اور تہذیب کو تعمیر کرتے ہیں۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ان اداروں کی تشکیل ایک قومی شعور کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور جب ان کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں رہتی ہے جنھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ذاتی سطح پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایسے ہی ایک فرد ہیں۔ کام کی لگن انھیں مسلسل متحرک رکھتی ہے۔ وہ سچائی سے اعتراف کرتے ہیں کہ قومی کتب میلے کا آغاز اُن کے پیش رو ڈائریکٹر معروف افسانہ نگار مظہر الاسلام نے کیا تھا۔
تاہم اس حقیقت کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اس سالانہ تقریب کو جس سطح تک پہنچا دیا ہے وہ کچھ انھی کا حصہ ہے اور آج ساری اردو دنیا میں ان کے ادارے کی شناخت کا ایک اور معتبر حوالہ بھی۔ اداروں کی سطح پر تہذیبی درجے کے جو بڑے کام انجام پاتے ہیں، ان میں بہت اہم کردار یقینا مرکزی شخصیت کا ہوتا ہے، لیکن ایسے سارے کام کوئی شخص اکیلا نہیں کرتا۔ اس کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ انعام الحق جاوید اس لحاظ سے بھی خوش قسمت آدمی ہیں کہ ادارے کے فعال ملازمین کے ساتھ ساتھ انھیں محبوب ظفر، طارق شاہد، عبدالصمد شمسی، سلطان خلیل، محمد عارف اور مسعود اقبال ہاشمی ایسے بے لوث ساتھی میسر ہیں جو ذاتی شوق کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
میلے کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیک وقت ہونے والے متعدد سیشنز میں ہم نے جہاں بھی دیکھا ادیبوں اور شاعروں ہی کو نہیں عام افراد کو بھی بڑی تعداد میں شریک پایا۔ متعدد اجلاس ایسے تھے کہ جن میں نشستوں کی گنجائش سے زیادہ افراد شریک ہوئے اور کتنے ہی لوگ دائیں بائیں یا پیچھے دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر پورے اجلاس کو سنتے رہے۔
بعض اجلاسوں میں سوال جواب کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔ ایسے ہر موقع پر خاموش مگر باشعور قارئین ادب اور معاشرے کے حوالے سے سوال اٹھاتے تو اندازہ ہوتا کہ کتاب سے ان کا رشتہ کیسا گہرا ہے۔ ان کتاب دوست لوگوں میں کتنے ہی ایسے نظر آئے کہ مطالعہ جن کے لیے محض وقت گزاری کا ذریعہ نہیں تھا۔ کتاب انھیں سوچنے پر اکساتی تھی، ان کے ذہن کو سوالوں سے دوچار اور دل کو اضطراب آشنا کرتی تھی۔ زندہ کتاب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو اس حالت میں نہیں رہنے دیتی جس میں وہ کتاب کے مطالعے سے پہلے ہوتا ہے۔ ایک نئی کتاب پڑھ کر اسے اپنے کچھ سوالوں کا جواب ملتا ہے، لیکن وہ کچھ نئے سوالوں سے بھی دوچار ہوتا ہے۔
ان اجلاسوں میں عام پڑھنے والوں کی دل چسپی دیکھ کر اور ان کے سوالوں کو سن کر خوشی یوں بھی ہوئی کہ ہم نے دیکھا، ہمارے یہاں ادب سے معاشرے کی دُوری اور کتاب سے لاتعلقی کے مایوس کن اعلانات کے باوجود آج بھی کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ادب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ کتاب سے محبت اور دوستی ان کی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے۔ کتاب انھیں مہمیز دیتی ہے، ان کے اندر سوالوں کی سنسنی دوڑاتی ہے، انھیں آواز عطا کرتی ہے، بولنے اور پوچھنے پر اکساتی ہے۔ اس کا مطلب یقینا یہی ہے کہ ہمارے یہاں زندہ ادب تخلیق ہو رہا ہے اور پڑھا بھی جا رہا ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہمارے یہاں اس خیال کا اظہار رہ رہ کر کیا گیا ہے کہ عوام میں ادب کی اثر پذیری اور قبولیت کا دور ختم ہو چکا۔ یہاں تک کہا گیا کہ اب لکھے ہوئے حرف کی حرمت مٹ چکی۔ اب یہ محض ہاری ہوئی بازی ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی ادب نہیں پڑھتے جو خود تخلیقِ ادب کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہ اور ایسی ہی دوسری تکلیف دہ اور وحشت خیز باتیں بار بار دہرائی گئیں اور نہایت تیقن کے ساتھ گویا قولِ فیصل کا بیان ہے۔ حد یہ ہے کہ اس ضمن میں امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں ادبی کتابوں کی گھٹتی ہوئی تعدادِ اشاعت کے حوالے دیے جاتے ہیں اور پورے وثوق سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ دیکھ لیجیے ساری دنیا میں ادب کا منظرنامہ کیا ہو چلا ہے۔
جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کچھ صداقت تو ہے، لیکن یہ بیان کلّی صداقت کا اظہار نہیں ہے۔ صداقت اس کا صرف ایک عنصر ہے۔ کیا آج تک کی معلومہ تاریخ میں کوئی ایسی تہذیب گزری ہے جس میں ادب کا ذوق رکھنے والوں کا تناسب صد فی صد رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جن تہذیبوں نے دنیا کی تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان میں بھی باضابطہ ادب پڑھنے والے افراد محض چند فی صد رہے ہیں۔ اب جہاں تک معاشرے میں ادیبوں شاعروں کی مقبولیت کا تعلق ہے تو صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی سماج میں بھی وہ سیاست دانوں، کھلاڑیوں اور اداکاروں کے ہم پلّہ نہیں رہے۔
اب رہی بات ان کے رسوخ اور سماجی اثر پذیری کی تو اس کا ایک گراف ضرور دیکھا جاسکتا ہے، لیکن اس کی راست پیمائش کا کوئی پیمانہ کسی تہذیب میں نہیں بنایا گیا۔ اس لیے کہ بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ کام عموماً بالواسطہ ہوتا ہے۔ اس تخمین وظن کے ضابطے بھی الگ ہوتے ہیں۔ ہومر اور سوفو کلیس کے یونان، ورجل کے روم سے لے کر شیکسپیئر، برنارڈ شا اور ایلیٹ کے برطانیہ، موپاساں، بودلیئر اور فلوبیئر کے فرانس، ٹالسٹائے، دوستوفسکی اور چیخوف کے روس اور ہاتھورن، ایڈ گرایلن پو اور ایذرا پاؤنڈ کے امریکا تک کہیں بھی دیکھ لیجیے، آپ کو اسی حقیقت کا ثبوت ملے گا۔
ماضی کے اس منظرنامے کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے عام آدمی کی ادب سے دل چسپی کا ایک بنیادی حوالہ ادب کے ذریعے تفریحِ طبع کا سامان بھی تھا۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس زمانے میں تفریحِ طبع کے اتنے وسائل آدمی کو میسر نہیں تھے، جتنے آج ہیں اور جس قدر آسانی سے ہیں، اس کا تو اس سے پہلے کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ اتنے ذرائع اور اتنی متنوع تفریح کے باوجود اگر لوگ آج بھی کتاب پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے ناں کہ ہمارے یہاں کتاب، علم اور ادب سے معاشرے کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
مطالعے کے رجحان میں کمی بیشی کا سوال ایک الگ تجزیے کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ ایک گلوبل فینومینا ہے۔ کتابوں کی تعدادِ اشاعت میں واقعی کمی دیکھی جاسکتی ہے، لیکن مطالعے کے رجحان میں ایسی کمی نہیں ہوئی ہے کہ اسے مایوسی کے اظہار کا جواز بنایا جائے۔ اس دور میں مطالعے کے دوسرے ذرائع میسر ہیں، مثلاً ای بکس اور آن لائن مطالعاتی مواد سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس پر بات اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خاصی سرگرمی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ حقیقت کا دوسرا رخ ہے۔ روایتی ذرائع اور طریقِ کار تبدیل ہو رہا ہے۔ اپنے عہد کی حقیقتوں سے لاتعلق نہیں رہا جا سکتا۔ اگر لاتعلقی اختیار کر لی جائے تو غلط فہمی، غلط نتائج اور ان کے نتیجے میں مایوسی اور ڈپریشن سے بچنا ممکن نہیں۔
ہر عہد کے کچھ مسائل بھی ہوا کرتے ہیں جو پرانے لوگوں کو اپنی نئی نسل کے افراد میں نظر آتے ہیں۔ اس دور کے نئے لوگوں کے ساتھ بھی ایسا کچھ معاملہ ہوگا، لیکن ہمیں اس پر زیادہ ناک بھوں چڑھانے اور انھیں مسلسل ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے ان کی عصری سماجی صورتِ حال اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا اور انھیں کچھ مارجن بھی دینا چاہیے۔ نئے لوگ اگر شناخت اور شہرت کے سفر میں تیزی دکھاتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ محض کچھ افراد کا نہیں، اس پورے عہد کا مسئلہ ہے۔
اگر نئے لوگوں میں مطالعے کا ذوق ماند پڑتا اور انھیں سنگل ٹریک بناتا نظر آتا ہے تو ہمیں ان ذرائع پر غور کرنا چاہیے جو نئے لوگوں میں ہمہ جہت صلاحیتوں کے اجاگر کرنے کا موجب ہو سکیں۔ ہمیں ان طریقوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جو اپنے کلاسیکی ادب و شعر کی اہمیت کا انھیں احساس دلا سکیں اور اس خزانے کو ان کے فکر و احساس کی سطح پر زندہ تجربے میں ڈھال سکیں۔
ایسا اسی وقت ممکن ہے، جب ہم نوجوان نسل سے فاصلہ اختیار کرنے کے بجائے انھیں اپنے قریب لائیں۔ ان کے رجحانات کو ہدفِ ملامت بنانے کے بجائے ان کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھنے کے بجائے ان پر اعتبار کریں اور انھیں نگاہِ استحسان سے دیکھیں۔ آج اگر کسی محفل میں کوئی نوجوان اسد محمد خاں اور حسن منظر جیسے کم آمیز لوگوں کے کسی افسانے یا ناول کا حوالہ دیتا ہے، اگر افسانے کے سیشن میں کوئی آج کا تخلیق کار زاہدہ حنا کے افسانے پر بات کرتا ہے۔
کسی کو عزیز احمد، غلام عباس، ابوالفضل صدیقی اور ممتاز مفتی یاد آتے ہیں یا اس طرح نظم کے اجلاس میں اگر اختر حسین جعفری، احمدشمیم، تصدق حسین خالد، محمد سلیم الرحمن، اسلم انصاری، سحرانصاری، احفاظ الرحمن اور ذیشان ساحل کا ذکر آتا ہے تو خوشی کی بات ہے کہ ان میں سے ایک نام بھی شہرت کا وہ حوالہ نہیں رکھتا کہ فیشن میں اُس کا نام لیا جائے۔ ہمارے عصری ادب کے اجتماعی حافظے نے اگر یہ نام محفوظ کیے اور اگلی نسلوں تک انھیں منتقل بھی کیا ہے تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی حافظہ عصری، سماجی اور ادبی تینوں سطح پر زندہ تخلیقی تجربوں سے ہرگز غافل نہیں ہے۔ اپنے ادب اور سماج دونوں کے باہمی زندہ رشتے کا یہ ثبوت کیا طمانیت اور مزید کام کرنے کے لیے کافی نہیں؟