غلامی سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں
جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں
جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں اور عوام بھی پھر سے بے وقوف بننے کے لیے تیار ہیں۔ وہی پرانی روش، وہی وعدے، وہی معصوم چہرے، وہی ایک دوسرے پر الزامات۔ مگر دیکھیے دن بہ دن ان لوگوں کے اپنے انداز زندگی میں زمین آسمان کا فرق، مگر عوام پہلے سے بھی بدتر۔ اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں عوام اور ملک کا وقار دونوں بہتر سے بہتر ہوں، اچھا حکمران بھی وہی ہوتا ہے جو عوام کی جڑوں میں بیٹھے اور ملک کو مضبوط ترکرے، سب کچھ ہمارے سامنے ہے، ہم بہت اچھے سے دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا ہورہا ہے اورکیسے کیسے کھیل تماشے ہورہے ہیں، مگر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟
کراچی جیسا عظیم الشان شہر جو ملک کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے کس کس طرح کے مسائل سے دوچار ہے اور مسلسل سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ ماہ شعبان اور پھر ماہ رمضان بے حد قابل احترام اور برکتوں والے مہینوں پر بھی سیاست اور تجارت ہوتی ہے۔ غریب غریب تر اور بنیادی ضرورتوں کے لیے بے بس۔ یقینا نہ حکمران اندھے بہرے ہیں اور نہ عوام اندھے بہرے اور نہ ہی اللہ بے خبر ہے۔ کس کس طرح سے ملک کو لوٹا جا رہا ہے اورکس کس طرح سے عوام پر ٹیکس کی بھرمار لگا کر زندگی کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ کیا انسانیت کو سیاست اور تجارت نے بالکل ختم کردیا ہے۔ کیا انسانوں کی زندگی جانوروں سے بھی سستی ہے۔
ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ گاؤں میں سزا دینے کے لیے ایک نوجوان لڑکے کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ کوئی پوچھنے والا ہے، سانحہ قصورکا کیا ہوا، کچھ پتا نہیں اور بہت سارے اسی طرح کے سوال، جن کا کوئی جواب نہیں۔ آخر کب تک۔ انصاف سے خالی معاشرہ جانوروں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک نوجوان سے قرضہ وصول کرنے کے لیے اس کا گردہ نکال لیا گیا۔ یہ کون سی جگہ ہے دوستو! مائیں بے بس ہیں، کیا ان کی بددعائیں اثر نہیں رکھتیں؟ کیا ان کے دکھے ہوئے دل بارگاہ الٰہی میں نہیں بولتے؟ بڑے بڑے فیصلوں سے چھوٹی چھوٹی عام زندگیوں تک حال بے حد برا نظر آتا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ جیسے ملک یرغمال ہوگیا ہے، دشمن ہماری آستینوں میں گھر بنا چکے ہیں، اپنے ہی لوگ بنیادوں کو خالی کرنے میں لگے ہیں۔ یہ وہ ملک جو ہمیشہ آباد رہنے کے لیے بنا جو ہمیشہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آیا۔ آج ایسا جنگل نظر آتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو جانور سے مشابہہ دے کر تسکین محسوس کرتا ہے، دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے اپنے آپ کو جانور بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان کی نادانی دیکھیے جن کواشرف المخلوقات بنایا وہ اشرف المخلوقات بننے پر تیار نہیں۔ بدنصیبی سی بدنصیبی ہے کہ جہاں دونوں ہاتھوں سے بھلائیاں، خیر سمیٹی جاسکتی ہے وہاں بدنامی اور برے القاب کی مثال بن جایا جائے، مگر تجوریوں کی خاطر سب کچھ جائزہوجائے تمام بدنامیاں، تمام برے القاب۔
بہت ہی افسوس کا مقام ہے، جب ہم اپنی اخلاقی قدروں کو کھو دیں، جب ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوجائیں، جب ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی کر لیں گے کہ آج نہیں توکل لوگ سب بھول جاتے ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر عوام اللہ عالی شان سے مایوس نہیں اور مایوس ہونا بھی نہیں چاہیے کہ ہم نے رات ہی رات میں سب کچھ بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ قابل بھروسہ ہے ہماری افواج، جو ہمارا آخری بھروسہ رہی ہے۔ آصف زرداری کے پچھلے 5 سال اور نواز شریف کے موجودہ 5 سال تقریباً جو ابھی رواں دواں ہے۔
اس میں کہیں عوام کے لیے بہترین سہولتیں رائج نہ کی گئیں، ہر وہ اسکیم اور پروجیکٹ چلایا گیا جس میں موجودہ وقت کے حکمرانوں کے لیے فائدہ رہا ہو۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اسکیموں کو صرف اور صرف حکومتوں کو ٹھہرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ترقیاتی کاموں کا رخ پنجاب خاص طور پر لاہور، اسلام آباد اور مختلف شہر ہیں۔کیا باقی ملک یا باقی صوبے اس ملک کا حصہ نہیں، کراچی جیسے بڑے شہر کو گندی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے، نہ میئر کو اختیارات، نہ اسپتالوں میں صحیح علاج معالجہ نہ صفائی ستھرائی، نہ تعلیم کا معیار، میٹرک اور انٹر کے امتحانات کو سنگین مذاق بنادیا گیا ہے، کھلم کھلا نقل کی جا رہی ہے اور میڈیا ہر بات رپورٹ کر رہا ہے، کیا اسی کا نام حکومت ہے، یہ بچے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں کیا اسی طرح کے ماحول میں تعلیم سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ تمام ادارے بے بس نظر آتے ہیں، تمام ادارے کھوکھلے نظر آتے ہیں، کیا اس سے مضبوط ہوگا پاکستان۔
مئی کے مہینے سے شروع ہی سے لوڈشیڈنگ کا یہ حال ہے کہ جینا حرام ہوگیا ہے۔ پورے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، حالانکہ ہم سب گواہ ہیں پچھلے الیکشن کے دنوں میں صرف کچھ ماہ میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیے گئے، سخت ترین گرمیوں میں، سخت ترین لوڈ شیڈنگ دن اور رات کا کوئی فرق نہیں۔ نوکریاں کرنے والے، محنت کرنے والے کہاں جائیں، مہنگائی بلند ترین سطح پر کون کنٹرول کرے۔
کیا یہ سب گڈ گورننس ہے، کیا صرف ذاتی مفادات اور ذاتی بینک بیلنس کا نام ہی حکومت ہے، کیا صرف تمام اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہی طاقت ہے۔ براہ کرم کچھ توجہ دیجیے اس ملک پر اور اس ملک کے عوام پر کہ اللہ عالی شان نے بے تحاشا خوبصورت ملک سے ہمیں نوازا ہے۔ بے تحاشا معدنیات سے بھرا ہوا یہ ملک بہترین لوگوں سے بھی بسا ہوا ہے۔ بے انتہا درد رکھنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔ انھیں بے وقوف نہ سمجھیں انھیں دیواروں سے نہ لگائیں۔ والہانہ پیارکرنے والے بھی موجود ہیں اس ملک سے انھیں دیواروں سے نہ لگائیں اور خدا کے واسطے عوام بھی اپنی بے حسی دورکریں، ناامیدی سخت ترین گناہ ہے، ظلم سہنا بذات خود ظلم ہے۔ اللہ پر بھروسہ اور پھر محنت اور سچی لگن ہی ہمارا نصب العین رہا ہے۔ ہم سب کو متحد ہوکر رہنا ہوگا اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کی نسبت ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اور غلامی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں ہے۔ غلامی سے بڑھ کرکوئی ذلت نہیں۔ ہم سب کو اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانا ہیں، ایمانداری سے، محنت و لگن سے۔
کراچی جیسا عظیم الشان شہر جو ملک کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے کس کس طرح کے مسائل سے دوچار ہے اور مسلسل سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ ماہ شعبان اور پھر ماہ رمضان بے حد قابل احترام اور برکتوں والے مہینوں پر بھی سیاست اور تجارت ہوتی ہے۔ غریب غریب تر اور بنیادی ضرورتوں کے لیے بے بس۔ یقینا نہ حکمران اندھے بہرے ہیں اور نہ عوام اندھے بہرے اور نہ ہی اللہ بے خبر ہے۔ کس کس طرح سے ملک کو لوٹا جا رہا ہے اورکس کس طرح سے عوام پر ٹیکس کی بھرمار لگا کر زندگی کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ کیا انسانیت کو سیاست اور تجارت نے بالکل ختم کردیا ہے۔ کیا انسانوں کی زندگی جانوروں سے بھی سستی ہے۔
ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ گاؤں میں سزا دینے کے لیے ایک نوجوان لڑکے کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ کوئی پوچھنے والا ہے، سانحہ قصورکا کیا ہوا، کچھ پتا نہیں اور بہت سارے اسی طرح کے سوال، جن کا کوئی جواب نہیں۔ آخر کب تک۔ انصاف سے خالی معاشرہ جانوروں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایک نوجوان سے قرضہ وصول کرنے کے لیے اس کا گردہ نکال لیا گیا۔ یہ کون سی جگہ ہے دوستو! مائیں بے بس ہیں، کیا ان کی بددعائیں اثر نہیں رکھتیں؟ کیا ان کے دکھے ہوئے دل بارگاہ الٰہی میں نہیں بولتے؟ بڑے بڑے فیصلوں سے چھوٹی چھوٹی عام زندگیوں تک حال بے حد برا نظر آتا ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ جیسے ملک یرغمال ہوگیا ہے، دشمن ہماری آستینوں میں گھر بنا چکے ہیں، اپنے ہی لوگ بنیادوں کو خالی کرنے میں لگے ہیں۔ یہ وہ ملک جو ہمیشہ آباد رہنے کے لیے بنا جو ہمیشہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں آیا۔ آج ایسا جنگل نظر آتا ہے جس میں انسان اپنے آپ کو جانور سے مشابہہ دے کر تسکین محسوس کرتا ہے، دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے اپنے آپ کو جانور بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان کی نادانی دیکھیے جن کواشرف المخلوقات بنایا وہ اشرف المخلوقات بننے پر تیار نہیں۔ بدنصیبی سی بدنصیبی ہے کہ جہاں دونوں ہاتھوں سے بھلائیاں، خیر سمیٹی جاسکتی ہے وہاں بدنامی اور برے القاب کی مثال بن جایا جائے، مگر تجوریوں کی خاطر سب کچھ جائزہوجائے تمام بدنامیاں، تمام برے القاب۔
بہت ہی افسوس کا مقام ہے، جب ہم اپنی اخلاقی قدروں کو کھو دیں، جب ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوجائیں، جب ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی کر لیں گے کہ آج نہیں توکل لوگ سب بھول جاتے ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر عوام اللہ عالی شان سے مایوس نہیں اور مایوس ہونا بھی نہیں چاہیے کہ ہم نے رات ہی رات میں سب کچھ بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ قابل بھروسہ ہے ہماری افواج، جو ہمارا آخری بھروسہ رہی ہے۔ آصف زرداری کے پچھلے 5 سال اور نواز شریف کے موجودہ 5 سال تقریباً جو ابھی رواں دواں ہے۔
اس میں کہیں عوام کے لیے بہترین سہولتیں رائج نہ کی گئیں، ہر وہ اسکیم اور پروجیکٹ چلایا گیا جس میں موجودہ وقت کے حکمرانوں کے لیے فائدہ رہا ہو۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اسکیموں کو صرف اور صرف حکومتوں کو ٹھہرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ترقیاتی کاموں کا رخ پنجاب خاص طور پر لاہور، اسلام آباد اور مختلف شہر ہیں۔کیا باقی ملک یا باقی صوبے اس ملک کا حصہ نہیں، کراچی جیسے بڑے شہر کو گندی سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے، نہ میئر کو اختیارات، نہ اسپتالوں میں صحیح علاج معالجہ نہ صفائی ستھرائی، نہ تعلیم کا معیار، میٹرک اور انٹر کے امتحانات کو سنگین مذاق بنادیا گیا ہے، کھلم کھلا نقل کی جا رہی ہے اور میڈیا ہر بات رپورٹ کر رہا ہے، کیا اسی کا نام حکومت ہے، یہ بچے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے ہیں کیا اسی طرح کے ماحول میں تعلیم سے کچھ حاصل کرسکیں گے۔ تمام ادارے بے بس نظر آتے ہیں، تمام ادارے کھوکھلے نظر آتے ہیں، کیا اس سے مضبوط ہوگا پاکستان۔
مئی کے مہینے سے شروع ہی سے لوڈشیڈنگ کا یہ حال ہے کہ جینا حرام ہوگیا ہے۔ پورے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، حالانکہ ہم سب گواہ ہیں پچھلے الیکشن کے دنوں میں صرف کچھ ماہ میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیے گئے، سخت ترین گرمیوں میں، سخت ترین لوڈ شیڈنگ دن اور رات کا کوئی فرق نہیں۔ نوکریاں کرنے والے، محنت کرنے والے کہاں جائیں، مہنگائی بلند ترین سطح پر کون کنٹرول کرے۔
کیا یہ سب گڈ گورننس ہے، کیا صرف ذاتی مفادات اور ذاتی بینک بیلنس کا نام ہی حکومت ہے، کیا صرف تمام اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہی طاقت ہے۔ براہ کرم کچھ توجہ دیجیے اس ملک پر اور اس ملک کے عوام پر کہ اللہ عالی شان نے بے تحاشا خوبصورت ملک سے ہمیں نوازا ہے۔ بے تحاشا معدنیات سے بھرا ہوا یہ ملک بہترین لوگوں سے بھی بسا ہوا ہے۔ بے انتہا درد رکھنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔ انھیں بے وقوف نہ سمجھیں انھیں دیواروں سے نہ لگائیں۔ والہانہ پیارکرنے والے بھی موجود ہیں اس ملک سے انھیں دیواروں سے نہ لگائیں اور خدا کے واسطے عوام بھی اپنی بے حسی دورکریں، ناامیدی سخت ترین گناہ ہے، ظلم سہنا بذات خود ظلم ہے۔ اللہ پر بھروسہ اور پھر محنت اور سچی لگن ہی ہمارا نصب العین رہا ہے۔ ہم سب کو متحد ہوکر رہنا ہوگا اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کی نسبت ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اور غلامی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں ہے۔ غلامی سے بڑھ کرکوئی ذلت نہیں۔ ہم سب کو اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانا ہیں، ایمانداری سے، محنت و لگن سے۔