جنرل ضیاء سے ڈھائی ملاقاتیں

چوہدری محمد اشرف کے تبادلے کے بعد خالد محمود کی بطور ڈپٹی کمشنر ساہیوال تعیناتی ہوئی

h.sethi@hotmail.com

سابق سول سرونٹ جو کمشنر کے علاوہ آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری بھی تعینات رہے، ضلع ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھے تو مجھے ان کی ماتحتی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ان سے تعلق کی بابت صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں ان کی ہی نہیں پچیس سال بعد ان کے صاحبزادے کی شادی میں بھی مدعو تھا۔ اس کے باوجود طویل عرصہ ایک ہی ضلع میں افسری ماتحتی کرنے کے بعد جب ان کا تبادلہ ہوا تو ایک الوداعی ڈنر کی تقریب میں شامل افسران کو بتایا گیا کہ ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے لیکن اس کے باوجود باہمی تصفیہ کے تحت افسر ماتحت والے فاصلے پر رہ کر امور ضلع نمٹاتے رہے۔

میرے یہ دوست اور افسر چوہدری محمد اشرف تھے۔ ہم دونوں ساہیوال میں تھے، جب صدر جنرل ضیاء الحق کے بیٹے کی شادی ٹرین کو ایک روز راولپنڈی سے ملتان جاتے ہوئے چند منٹ کے لیے ساہیوال کے ریلوے پلیٹ فارم پر رکنا تھا۔ ہمیں ہدایت تھی کہ پلیٹ فارم خالی ہو اور صرف ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ افسر ڈیوٹی پر موجود ہوں۔ ہم نے سوچا کہ خوشی کا موقع ہے، دو بچوں کو گلدستے پکڑا کر پلیٹ فارم پر ٹرین سے فاصلے پر کھڑا کرکے خاموش جذبات کا اظہار کر دیا جائے۔

میرا پانچ سال کا بیٹا طارق اور ایک بینکر دوست کی بیٹی گلدستے لیے ہم سے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ ٹرین آکر رکی، ہم سب خاموش کھڑے رہے۔ چند منٹ بعد ایک بوگی کا دروازہ کھلا۔ ایک باوردی کپتان اتر کر تیزی سے چلتا بچوں کی طرف گیا، مسکراتے ہوئے بچوں سے گلدستے لیے اور ان کا شکریہ ادا کرکے اسی تیزی سے واپس چلا گیا۔ بوگی کا دروازہ بند ہوگیا۔ ایک منٹ کے بعد دروازہ دوبارہ کھلا کپتان گلدستے پکڑے باہر نکلا، اس کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور ایک کیمرہ مین تھے۔

گلدستے بچوں کو پکڑائے گئے، جنرل ضیاء نے بچوں کو پیار کیا، ان سے خود گلدستے لے کر کپتان کو پکڑائے، بچوں کے ساتھ تصویر بنوائی، ہم سے ملے اور واپس چلے گئے۔ وہ ٹرین میں داخل ہوئے دروازہ بند ہوا اور ٹرین چل پڑی۔ ایس پی، ڈی سی اور ہمارے ساتھ کرنل درانی بھی تھے جن کے پاس آرمی کا ٹیلیفون بھی تھا۔

ذرا سی دیر میں ٹرین میں سے ملٹری سیکریٹری کی کرنل صاحب کے فون پر ڈانٹ ڈپٹ کی آواز آنا شروع ہوگئی کہ جنرل ضیاء الحق کو گلدستوں کی وجہ سے پلیٹ فارم پر آنا پڑگیا اور تم نے Security Hazard پیدا کردیا وغیرہ وغیرہ۔ کرنل صاحب کا برا حال ہوگیا اور ہم خود پریشان ہوگئے۔ مجھے چند روز بعد البتہ جنرل ضیاء الحق کی وہ فوٹو گراف وصول ہوگئی جس میں وہ طارق سے گلدستہ وصول کررہے ہیں لیکن مجھے وہ تصویر فریم کرواکے ڈرائینگ روم میں لگانے کی کبھی خواہش نہیں ہوئی۔ یہ مختصر ترین لیکن باالمشافہ ملاقات تھی۔


چوہدری محمد اشرف کے تبادلے کے بعد خالد محمود کی بطور ڈپٹی کمشنر ساہیوال تعیناتی ہوئی۔ وہ مشرقی پاکستان میں تھے لہٰذا جنگی قیدی بھی رہے۔ خاموش طبع اور خلوت پسند لیکن سرکاری کام عبادت اور ڈیوٹی سمجھ کر کرتے تھے۔ ہم تجاوزات گرائے جانے کی نگرانی کرنے چیچہ وطنی گئے، رات ہوگئی، ساڑھے گیارہ بجے فارغ ہوئے تو میں نے ڈی سی صاحب سے کہا ''سر واپس چلیں''۔ کہنے لگے Night Out رکھی ہے۔ رات بارہ بجے کر پانچ منٹ پر روانہ ہوں گے۔ ہم آدھا گھنٹہ جیپ ہی میں بیٹھ کر بارہ بجنے کا انتظار کرتے رہے۔

ایک روز چھٹی کے دن میں ڈی سی ہاؤس گیا۔ وہ دفتر میں بیٹھے کچھ کام کررہے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ لائٹ اور پنکھا بند تھے۔ میں نے پوچھا بجلی خراب ہے؟ کہنے لگے ''خود آف کی ہے، دراصل میں کچھ ذاتی کام کر رہا تھا''۔ ایک روز میں ان کے آفس میں تھا کہ صدر جنرل صیاء الحق کا ٹیلیفون آگیا۔ صدر صاحب نے کہا کہ آپ نے فلاں اشٹام فروش کا لائسنس Suspend کر دیا ہے، مہربانی کرکے بحال کردیں۔

دوسرے روز پھر فون آگیا اور ضیاء الحق صاحب نے کہا شاید آپ بھول گئے، لائسنس بحال نہیں ہوا۔ خالد محمود صاحب نے مؤدبانہ جواب دیا سر اس اشٹام فروش نے تو بے حد جعلسازیاں کی ہیں۔ میرا ایک افسر انکوائری کر رہا ہے۔ اس سے اگلے روز ڈپٹی کمشنر کے ٹرانسفر آرڈر آگئے۔ خالد محمود کی زندگی کے آخری چند سال کینیڈا میں گزرے۔ ان کا ذکر کرکے بیوروکریسی کے ان افسروں کی یاد آتی ہے جو سرکاری بجلی آف کر کے ذاتی کام کرتے تھے اور جرنیل صدر کو غلط کام پر انکار کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق سے ڈیڑھ ملاقات کا بیان تو ہو چکا، باقی رہ گیا ایک ملاقات کا ذکر جو ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ہوئی۔ جنرل صاحب کے ADC کا تعلق تحصیل کھاریاں سے تھا جہاں موصوف مہینے دو کے بعد اپنے گاؤں کا چکر لگاتے، وہاں اگر کسی کو کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو اس کا حل اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ہی ہوتا۔ یوں ADC موصوف مجھ سے رابطہ کرتے رہتے۔

ایک ملاقات پر انھوں نے کہا کہ آپ دونوں میاں بیوی صدر صاحب سے ملنے چیف آف آرمی اسٹاف ہاؤس آئیں۔ ہم ایک روز بعد عید ملن پر جاپہنچے۔ وہاں ملک کے فوجی صدر کو قریب سے دیکھنے، باتیں کرنے، چائے پیسٹری سے لطف اٹھانے کا موقع ملا۔ اتفاق سے جنرل صاحب سے ملاقات سے چند ماہ ہی قبل مجھے جسٹس دراب پٹیل کی کار کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جسٹس صاحب کو اپنی جیپ میں بٹھا کر AC ہاؤس لے جانے، دو گھنٹہ تک بھٹو ٹرائل پر باتیں کرنے اور پھر جج صاحب کی دعوت پر ان کے اسلام آباد والے گھر پر چائے پینے کا اعزاز حاصل ہو چکا تھا اور بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لٹکانے کا واقعہ بھی ہوچکا تھا۔

اس تمام پس منظر کے پیش نظر مجھے جنرل ضیاء الحق سے ان کے گھر پر چائے اور ملاقات کے باوجود خوشی حاصل ہوئی، نہ فخر محسوس ہوا اور یہ ملاقات رہی بس نام کی ملاقات اور ان کی بھیجی ہوئی تصویر نہ معلوم کس الماری میں پڑی ہے جب کہ بھٹو صاحب کے ساتھ میری تصویر ڈرائننگ روم میں آویزاں ہے۔
Load Next Story