ایک مظلوم پاکستانی بیٹی کی فریاد
عافیہ کی امریکا منتقلی دراصل پرویزمشرف کی امریکا نوازی کا شاخسانہ تھا
ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہماری خوش قسمت قوم کی وہ بدقسمت بیٹی ہے جو اسلام اور پاکستان کا نام سربلند کرنے کی پاداش میں امریکی جیل کے ایک تنگ و تاریک پنجرے میں اذیت ناک حالت میں زندگی کے دن پورے کررہی ہے۔ وہاں اس کے ساتھ ایسا کون سا ظلم ہے جو روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ اسے مارنے پیٹنے کے علاوہ مرد فوجی Strip Searching کے نام پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور قدموں میں مقدس کتاب ڈال کر اسے چلنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے پر مزید تشدد کیا جاتا ہے۔
ایسا ظلم اور بربریت کوئی بامروت قوم اپنی بیٹی کے ساتھ ہرگز برداشت نہیں کرے گی مگر اب اسے کیا کہیے کہ ہم اتنے بے حس اور بے مروت ہوچکے ہیں کہ ایسے انسانیت سوز واقعات بھی ہمارے سر سے گزر جاتے ہیں اور ہم ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ عافیہ صدیقی کی کہانی انتہائی ہولناک اور درد انگیز ہے وہ ایک پڑھی لکھی مہذب خاتون ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے محبت ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے اسلام کی تضحیک اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی روش اس سے برداشت نہ ہوسکی۔
اس روش کے خلاف آواز بلند کرنے پر وہ مغرب کی قہر آلود نگاہوں میں آگئی۔ اپنے ہی لوگوں نے مغرب کی آشیرباد وصول کرنے کے لیے اسے اور اس کے تین معصوم بچوں کو افغانستان پہنچا دیا جہاں باگرام کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھا گیا پھر اس سے اس کے بچوں کو چھین لیا گیا اور اسے قید تنہائی میں رکھ کر امریکی درندہ صفت فوجیوں نے وہ وحشیانہ کھیل کھیلنے کی ناکام کوشش کی جو انھوں نے ابو غریب جیل میں معصوم عراقیوں کے ساتھ کھیلا تھا۔ اس وقت اس کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے؟ باگرام جیل میں مغربی صحافی اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ انھیں کیا پتا تھا کہ یہاں ایک ستم رسیدہ خاتون بھی قید ہے۔
ایک برطانوی نو مسلم صحافی مریم یووان ریڈلے بھی وہاں پہنچی جس سے عافیہ پر ظلم کی انتہا دیکھی نہ گئی۔ اس نے ذرایع ابلاغ کو عافیہ کے حالات سے آگاہ کیا۔ جب یہ خبر پاکستان پہنچی نہ صرف عافیہ کے رشتے داروں کو اس کے بارے میں پتا چلا جو اُسے تلاش کرکے نا امید ہوچکے تھے بلکہ تمام پاکستانیوں کو بھی خبر ہوگئی۔
اس پر الزام تھا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کے لیے کام کر رہی تھی چنانچہ امریکی حکومت اس سے سخت ناراض تھی مگر وہ ایسا کچھ نہیں کر رہی تھی البتہ وہ ایک حق و سچ بولنے والی، انسانیت کے دشمنوں سے نفرت کرنے والی راسخ العقیدہ مسلمان خاتون ہے۔ تاہم موجودہ دور کے تقاضوں سے بھی خوب واقف ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک امریکا میں بھی قیام پذیر رہ چکی ہے۔ برطانوی صحافی کے عالمی ذرایع ابلاغ کو عافیہ کی باگرام جیل میں موجودگی کی اطلاع کے بعد پاکستان میں عافیہ کے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے۔
ادھر افغانستان میں بھی افغانی عافیہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگے چنانچہ امریکی حکومت گھبرا گئی کہ عافیہ کا افغانستان میں ہونا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ افغان مسلمان اسے کسی وقت بھی باگرام جیل پر حملہ آور ہوکررہا کراسکتے تھے چنانچہ آناً فاناً عافیہ کو افغانستان سے امریکا منتقل کردیا گیا۔ عافیہ کی امریکا منتقلی دراصل پرویزمشرف کی امریکا نوازی کا شاخسانہ تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے خود عافیہ کو چند ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کردیا تھا چنانچہ وہ امریکیوں سے عافیہ کی رہائی کے لیے کس منہ سے بات کرتے۔
عافیہ کی امریکا منتقلی کے بعد اس پر وہاں مقدمہ چلانے کی تیاری کی جانے لگی۔ امریکی عدالت نے عافیہ کی حاضری کا حکم دے دیا مگر وہ کہاں اس قابل تھی کہ چل کر وہاں جا سکتی یا دماغ سے کچھ سوچ سکتی۔ جج کے سوالوں کے جواب میں اس کے پاس سسکیوں اور ہچکیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ امریکی عدالتوں کی انصاف پسندی کے بڑے چرچے سنے ہیں مگر چونکہ یہ ایک مسلمان عورت کا مقدمہ تھا چنانچہ انصاف پر فرقہ پرستی غالب آگئی اور اس کمزوروناتواں خاتون کو دس بیس نہیں پورے چھیاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ ایک ناتواں عورت بھلا ہٹے کٹے کئی امریکی فوجیوں پر کیسے حملہ آور ہو کر انھیں قتل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ مگر عدالت نے بنی بنائی کہانی کو درست تسلیم کرلیا اور اپنی انصاف پسندی کا خود ہی جنازہ نکال دیا۔ دراصل صدر بش کے دور میں امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت عروج پر تھی۔ وہ اور ان کے والد سینئر بش خود کوکٹر عیسائی کہتے نہیں تھکتے تھے جب کہ ان سے پہلے صدور میں یہ بات نہیں تھی۔
عافیہ کو امریکی قید سے رہا کرانے کے لیے پاکستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے امریکا کے دورے کیے تھے۔ انھوں نے وہاں عافیہ سے ملاقاتیں ضرور کیں مگر وہ انھیں رہا کرانے میں قطعی ناکام رہے۔ عافیہ کی گرفتاری کے پانچ سال بعد ان کے دو گمشدہ بچے جیسے تیسے نانی اور خالہ کے پاس کراچی پہنچا دیے گئے مگر تیسرے شیر خوار بچے کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے۔
حسین حقانی ایک عرصے تک امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں وہ وہاں کافی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں اس لیے کہ وہ پہلے وہاں کی کئی جامعات میں پڑھاتے بھی رہے ہیں مگر افسوس کہ انھوں نے عافیہ کے کیس کو صحیح طرح سے پیش کرنے کے بجائے اس کے کیس کو بگاڑ دیا اور مزید مہربانی یہ کی کہ عافیہ کی امریکی وکیل کو اس کی ضمانت کرانے سے روک دیا جب کہ امریکی قوانین کے مطابق اس وقت عافیہ کی ضمانت کرائی جاسکتی تھی۔
جہاں تک پاکستانی حکومتوں کا تعلق ہے عافیہ کی قید سے لے کر اب تک جتنی بھی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں کسی نے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سب ہی امریکا سے مرعوب نظر آتی ہیں۔ امریکا میں یہ قاعدہ ہے کہ ہر صدر اپنی مدت صدارت ختم ہونے پر کچھ قیدیوں کو رہا کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔
صدر اوباما کی صدارت جب ختم ہونے لگی تو امریکی حکومت کی جانب سے پاکستانی دفتر خارجہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اگر عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھ دے تو عافیہ کی سزا معاف ہوسکتی ہے مگر افسوس کہ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر نہ جانے کیوں توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ اب اس وقت بھی اگر حکومت سنجیدگی دکھائے تو عافیہ امریکی جیل سے رہا ہوسکتی ہے۔ زرداری دور میں وعدے تو بہت کیے گئے مگر عملی طور پر کچھ سامنے نہ آسکا۔
میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ سو دن کے اندر عافیہ کو امریکی جیل سے چھڑا لائیں گے مگر اب تو چار سال ہوچکے ہیں شاید وہ اپنا وعدہ بھول چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کا معاملہ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ویسے تو ذرا ذرا سی باتوں پر احتجاج کا طوفان کھڑا کردیتی ہیں اور اپنے مطالبات منوا لیتی ہیں مگر عافیہ کے معاملے میں خاموش ہیں شاید اس لیے کہ وہ ایک مسلمان خاتون ہے۔
عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اپنی بہن کو رہائی دلانے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی کام کر رہی ہے جو عافیہ کے معاملے کو عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے مگر افسوس کہ عالمی ضمیر جس طرح مظلوم کشمیریوں کے سلسلے میں خوابیدہ ہے بالکل یہی ماجرا عافیہ کے ساتھ ہے۔ جہاں تک شکیل آفریدی کے بدلے میں عافیہ کی رہائی کا معاملہ ہے حکومت اس پر کیوں تیار نہیں؟ ایک غدار وطن کے بدلے میں ایک محب وطن پاکستانی بیٹی کی رہائی، کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔
ایسا ظلم اور بربریت کوئی بامروت قوم اپنی بیٹی کے ساتھ ہرگز برداشت نہیں کرے گی مگر اب اسے کیا کہیے کہ ہم اتنے بے حس اور بے مروت ہوچکے ہیں کہ ایسے انسانیت سوز واقعات بھی ہمارے سر سے گزر جاتے ہیں اور ہم ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ عافیہ صدیقی کی کہانی انتہائی ہولناک اور درد انگیز ہے وہ ایک پڑھی لکھی مہذب خاتون ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے محبت ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے اسلام کی تضحیک اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی روش اس سے برداشت نہ ہوسکی۔
اس روش کے خلاف آواز بلند کرنے پر وہ مغرب کی قہر آلود نگاہوں میں آگئی۔ اپنے ہی لوگوں نے مغرب کی آشیرباد وصول کرنے کے لیے اسے اور اس کے تین معصوم بچوں کو افغانستان پہنچا دیا جہاں باگرام کے بدنام زمانہ عقوبت خانے میں رکھا گیا پھر اس سے اس کے بچوں کو چھین لیا گیا اور اسے قید تنہائی میں رکھ کر امریکی درندہ صفت فوجیوں نے وہ وحشیانہ کھیل کھیلنے کی ناکام کوشش کی جو انھوں نے ابو غریب جیل میں معصوم عراقیوں کے ساتھ کھیلا تھا۔ اس وقت اس کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے؟ باگرام جیل میں مغربی صحافی اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ انھیں کیا پتا تھا کہ یہاں ایک ستم رسیدہ خاتون بھی قید ہے۔
ایک برطانوی نو مسلم صحافی مریم یووان ریڈلے بھی وہاں پہنچی جس سے عافیہ پر ظلم کی انتہا دیکھی نہ گئی۔ اس نے ذرایع ابلاغ کو عافیہ کے حالات سے آگاہ کیا۔ جب یہ خبر پاکستان پہنچی نہ صرف عافیہ کے رشتے داروں کو اس کے بارے میں پتا چلا جو اُسے تلاش کرکے نا امید ہوچکے تھے بلکہ تمام پاکستانیوں کو بھی خبر ہوگئی۔
اس پر الزام تھا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کے لیے کام کر رہی تھی چنانچہ امریکی حکومت اس سے سخت ناراض تھی مگر وہ ایسا کچھ نہیں کر رہی تھی البتہ وہ ایک حق و سچ بولنے والی، انسانیت کے دشمنوں سے نفرت کرنے والی راسخ العقیدہ مسلمان خاتون ہے۔ تاہم موجودہ دور کے تقاضوں سے بھی خوب واقف ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک امریکا میں بھی قیام پذیر رہ چکی ہے۔ برطانوی صحافی کے عالمی ذرایع ابلاغ کو عافیہ کی باگرام جیل میں موجودگی کی اطلاع کے بعد پاکستان میں عافیہ کے حق میں مظاہرے شروع ہوگئے۔
ادھر افغانستان میں بھی افغانی عافیہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگے چنانچہ امریکی حکومت گھبرا گئی کہ عافیہ کا افغانستان میں ہونا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ افغان مسلمان اسے کسی وقت بھی باگرام جیل پر حملہ آور ہوکررہا کراسکتے تھے چنانچہ آناً فاناً عافیہ کو افغانستان سے امریکا منتقل کردیا گیا۔ عافیہ کی امریکا منتقلی دراصل پرویزمشرف کی امریکا نوازی کا شاخسانہ تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے خود عافیہ کو چند ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کردیا تھا چنانچہ وہ امریکیوں سے عافیہ کی رہائی کے لیے کس منہ سے بات کرتے۔
عافیہ کی امریکا منتقلی کے بعد اس پر وہاں مقدمہ چلانے کی تیاری کی جانے لگی۔ امریکی عدالت نے عافیہ کی حاضری کا حکم دے دیا مگر وہ کہاں اس قابل تھی کہ چل کر وہاں جا سکتی یا دماغ سے کچھ سوچ سکتی۔ جج کے سوالوں کے جواب میں اس کے پاس سسکیوں اور ہچکیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ امریکی عدالتوں کی انصاف پسندی کے بڑے چرچے سنے ہیں مگر چونکہ یہ ایک مسلمان عورت کا مقدمہ تھا چنانچہ انصاف پر فرقہ پرستی غالب آگئی اور اس کمزوروناتواں خاتون کو دس بیس نہیں پورے چھیاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔
عدالت نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ ایک ناتواں عورت بھلا ہٹے کٹے کئی امریکی فوجیوں پر کیسے حملہ آور ہو کر انھیں قتل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ مگر عدالت نے بنی بنائی کہانی کو درست تسلیم کرلیا اور اپنی انصاف پسندی کا خود ہی جنازہ نکال دیا۔ دراصل صدر بش کے دور میں امریکا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت عروج پر تھی۔ وہ اور ان کے والد سینئر بش خود کوکٹر عیسائی کہتے نہیں تھکتے تھے جب کہ ان سے پہلے صدور میں یہ بات نہیں تھی۔
عافیہ کو امریکی قید سے رہا کرانے کے لیے پاکستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے امریکا کے دورے کیے تھے۔ انھوں نے وہاں عافیہ سے ملاقاتیں ضرور کیں مگر وہ انھیں رہا کرانے میں قطعی ناکام رہے۔ عافیہ کی گرفتاری کے پانچ سال بعد ان کے دو گمشدہ بچے جیسے تیسے نانی اور خالہ کے پاس کراچی پہنچا دیے گئے مگر تیسرے شیر خوار بچے کا اب تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا ہے۔
حسین حقانی ایک عرصے تک امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں وہ وہاں کافی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں اس لیے کہ وہ پہلے وہاں کی کئی جامعات میں پڑھاتے بھی رہے ہیں مگر افسوس کہ انھوں نے عافیہ کے کیس کو صحیح طرح سے پیش کرنے کے بجائے اس کے کیس کو بگاڑ دیا اور مزید مہربانی یہ کی کہ عافیہ کی امریکی وکیل کو اس کی ضمانت کرانے سے روک دیا جب کہ امریکی قوانین کے مطابق اس وقت عافیہ کی ضمانت کرائی جاسکتی تھی۔
جہاں تک پاکستانی حکومتوں کا تعلق ہے عافیہ کی قید سے لے کر اب تک جتنی بھی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں کسی نے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سب ہی امریکا سے مرعوب نظر آتی ہیں۔ امریکا میں یہ قاعدہ ہے کہ ہر صدر اپنی مدت صدارت ختم ہونے پر کچھ قیدیوں کو رہا کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔
صدر اوباما کی صدارت جب ختم ہونے لگی تو امریکی حکومت کی جانب سے پاکستانی دفتر خارجہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اگر عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھ دے تو عافیہ کی سزا معاف ہوسکتی ہے مگر افسوس کہ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر نہ جانے کیوں توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ اب اس وقت بھی اگر حکومت سنجیدگی دکھائے تو عافیہ امریکی جیل سے رہا ہوسکتی ہے۔ زرداری دور میں وعدے تو بہت کیے گئے مگر عملی طور پر کچھ سامنے نہ آسکا۔
میاں نواز شریف نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ سو دن کے اندر عافیہ کو امریکی جیل سے چھڑا لائیں گے مگر اب تو چار سال ہوچکے ہیں شاید وہ اپنا وعدہ بھول چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عافیہ کا معاملہ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا اور انسانیت کا مسئلہ ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں ویسے تو ذرا ذرا سی باتوں پر احتجاج کا طوفان کھڑا کردیتی ہیں اور اپنے مطالبات منوا لیتی ہیں مگر عافیہ کے معاملے میں خاموش ہیں شاید اس لیے کہ وہ ایک مسلمان خاتون ہے۔
عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اپنی بہن کو رہائی دلانے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی کام کر رہی ہے جو عافیہ کے معاملے کو عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے مگر افسوس کہ عالمی ضمیر جس طرح مظلوم کشمیریوں کے سلسلے میں خوابیدہ ہے بالکل یہی ماجرا عافیہ کے ساتھ ہے۔ جہاں تک شکیل آفریدی کے بدلے میں عافیہ کی رہائی کا معاملہ ہے حکومت اس پر کیوں تیار نہیں؟ ایک غدار وطن کے بدلے میں ایک محب وطن پاکستانی بیٹی کی رہائی، کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔