محنت کش بچوں پر تشدد
گزشتہ دنوں بلدیہ، کراچی کے ایک کارخانے میں سیٹھ نے کئی مزدور مرد اور خواتین کو سب کے سامنے مرغا بنایا
ویسے تو پسماندہ ملکوں میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ کم عمر بچے اور بچیاں اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے جکارتہ، ڈھاکا، ممبئی، دلی، کلکتہ، کراچی، کابل، کولمبو، نیروبی، ابوجہ، قاہرہ اور ریاض میں ورکشاپوں، مل، کارخانوں، فٹ پاتھوں، دکانوں، گھروں اور سڑکوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ انھیں معمولی رقم دے کر بارہ بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔
ہر بات پر انھیں ڈانٹا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے اور اکثر تشدد کرتے ہوئے اپاہج کردیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جان سے بھی جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے، اس لیے اکثر تشدد کرنے والے دولت مندوں کا کچھ نہیں ہوتا اور وہ عدالت سے بھی بری ہوجاتے ہیں۔ آئے روز پاکستان میں ایسی خبریں ہم میڈیا میں دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بلدیہ، کراچی کے ایک کارخانے میں سیٹھ نے کئی مزدور مرد اور خواتین کو سب کے سامنے مرغا بنایا، پنجاب میں ایک سیٹھ نے اپنے ملازم کو مار مار کے اس کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں توڑ دیا، شیخوپورہ میں ایک چودہ سالہ بچے کے ہاتھ کو گھاس کاٹنے والی مشین میں ڈال کر ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا، کشمور میں ایک کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی، قصور میں گزشتہ ایک ماہ میں پانچ کم سن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا، طیبہ نام کی گھریلو ملازمہ پر شدید تشددکیا گیا، میرپورخاص میں گھرکا خرچہ مانگنے پر شوہر نے بیوی کو کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا۔
2016 میں سات سو اٹھائیس پاکستانی لاپتہ ہوئے، ملک بھر کی عدالتوں میں تیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب پاکستان میں کم عمر بچے اور بچیوں کو تشدد، زیادتی اور قتل نہ کیا جاتا ہو۔ صوبہ سندھ میں وڈیروں نے نجی جیل بنا رکھی ہے، ہزاروں ہاریوں بشمول بچوں اور عورتوں کو قید میں رکھا جاتا ہے، عدالت کے ذریعے بعض نجی جیلوں سے رہائی بھی مل جاتی ہے مگر قید رکھنے والے وڈیروں کو کبھی بھی کوئی سزا نہیں ملتی ہے، اس لیے کہ وہ صاحب جائیداد طبقات کے لوگ ہوتے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ جن چار ملکوں نائیجیریا، ہندوستان اور روانڈا میں بچوں پر زیادہ تشدد ہوتا ہے، ان میں چوتھا ملک پاکستان ہے اور تشدد کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے۔ بچوں اور عورتوں پر تشدد کے خلاف کوئی بھی سیاسی جماعت نہ احتجاج کرتی ہے، نہ جلوس نکالتی ہے اور نہ ہڑتال کرتی ہے۔
حال ہی میں مشال خان کو تشدد کرکے مارنے پر بائیں بازوکی جماعتیں جن میں کمیونسٹ پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، مزدور کسان پارٹی، نیشنل پارٹی، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، آل سندھ ٹریڈ یونین آرگنائزیشن، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سندھ ہاری کمیٹی نے ملک بھر میں مظاہرے کیے، جب کہ مشال خان کے قتل میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پیروکار شامل تھے، ہر چندکہ ان کی جماعتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کے خلاف ایکشن لیں گے یا پھر پارٹی سے نکال دیں گے۔
ہمارے ملک میں ہزاروں خواتین کاروکاری، غیرت، ونی، وٹہ سٹہ، بے جوڑ شادی اور زیادتی، سسرال میں چولہا پھٹ کے مرنے کے بہانے قتل ہوتی ہیں، ہزاروں بچے اور خواتین جان سے جاتے رہتے ہیں لیکن ان کا کوئی تدارک نہیں ہوتا۔ صرف 2016 میں پاکستان میں چھ ہزار بچے اور عورتیں قتل ہوئیں۔ ان کے قتل کے خلاف کسی بھی بڑی پارٹی نے احتجاج کیا اور نہ ہڑتال کی۔
بعض مذہبی جماعتوں نے تو اسے جائز قرار دیا اور کہا کہ مسواک سے بیوی کو مارا جاسکتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ عورت بھی مسواک سے مرد کو مار سکتی ہے یا نہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، طبقاتی اور خاص کر جاگیردارانہ اور قبائلی نظام میں یہ عوامل زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ وسطی ایشیا، کوہ قاف اور ایشیائے کوچک میں جب قبائلی اور جاگیرداری تھی تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔
سوویت انقلاب سے قبل وسطی ایشیا میں خواتین موٹے کپڑے کے برقعے پہن کر بیل، گدھے، گھوڑے یا اونٹ گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھٹنے میں اپنا سر چھپا لیتی تھیں۔ سوشلسٹ انقلاب سے قبل وہاں ہزار میں دو خواتین پڑھی لکھی تھیں، لیکن انقلاب کے بعد سو میں ساٹھ خواتین ڈاکٹرز اور پچاس انجینئرز ہیں۔ اب کوئی وہاں برقع پہنتا ہے اور نہ بیل گاڑی پر سفر کرتا ہے۔ ہر چند کہ اب وہاں سوشلسٹ نظام نہیں رہا، اس کے باوجود اٹھانوے فیصد لوگ خواندہ ہیں، خواتین ہر کام کرتی ہیں، بچوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
شادی اپنی مرضی سے ہوتی ہے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، ریپ کا تصور ہے اور نہ بچوں کے قتل کا۔ اس لیے کہ انقلاب کے بعد قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں بھی مرد و زن شانہ بشانہ ہر کام کرتے ہیںِ ،کوئی تفریق نہیں ہے، بچے مراعات یافتہ ہیں، تعلیم، صحت اور خدمات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں تب ہی ختم ہوسکتی ہیں، جب یہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرکے زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائیں، کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کرکے یونین بنانے اور آئی ایل او کے قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے، جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ دنیا کو ایک کردیا جائے، اسلحہ سازی کا خاتمہ کردیا جائے، سرمایہ داری کا نام و نشان ختم کردیا جائے، ملکیت، جائیداد، جب ختم ہوجائیں گی، تب ہی انسان حقیقی معنوں میں جینے لگے گا۔
ہر بات پر انھیں ڈانٹا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے اور اکثر تشدد کرتے ہوئے اپاہج کردیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جان سے بھی جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے، اس لیے اکثر تشدد کرنے والے دولت مندوں کا کچھ نہیں ہوتا اور وہ عدالت سے بھی بری ہوجاتے ہیں۔ آئے روز پاکستان میں ایسی خبریں ہم میڈیا میں دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بلدیہ، کراچی کے ایک کارخانے میں سیٹھ نے کئی مزدور مرد اور خواتین کو سب کے سامنے مرغا بنایا، پنجاب میں ایک سیٹھ نے اپنے ملازم کو مار مار کے اس کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں توڑ دیا، شیخوپورہ میں ایک چودہ سالہ بچے کے ہاتھ کو گھاس کاٹنے والی مشین میں ڈال کر ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا، کشمور میں ایک کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی، قصور میں گزشتہ ایک ماہ میں پانچ کم سن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا، طیبہ نام کی گھریلو ملازمہ پر شدید تشددکیا گیا، میرپورخاص میں گھرکا خرچہ مانگنے پر شوہر نے بیوی کو کلہاڑی کے وار کرکے قتل کردیا۔
2016 میں سات سو اٹھائیس پاکستانی لاپتہ ہوئے، ملک بھر کی عدالتوں میں تیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب پاکستان میں کم عمر بچے اور بچیوں کو تشدد، زیادتی اور قتل نہ کیا جاتا ہو۔ صوبہ سندھ میں وڈیروں نے نجی جیل بنا رکھی ہے، ہزاروں ہاریوں بشمول بچوں اور عورتوں کو قید میں رکھا جاتا ہے، عدالت کے ذریعے بعض نجی جیلوں سے رہائی بھی مل جاتی ہے مگر قید رکھنے والے وڈیروں کو کبھی بھی کوئی سزا نہیں ملتی ہے، اس لیے کہ وہ صاحب جائیداد طبقات کے لوگ ہوتے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ جن چار ملکوں نائیجیریا، ہندوستان اور روانڈا میں بچوں پر زیادہ تشدد ہوتا ہے، ان میں چوتھا ملک پاکستان ہے اور تشدد کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے۔ بچوں اور عورتوں پر تشدد کے خلاف کوئی بھی سیاسی جماعت نہ احتجاج کرتی ہے، نہ جلوس نکالتی ہے اور نہ ہڑتال کرتی ہے۔
حال ہی میں مشال خان کو تشدد کرکے مارنے پر بائیں بازوکی جماعتیں جن میں کمیونسٹ پارٹی، عوامی ورکرز پارٹی، مزدور کسان پارٹی، نیشنل پارٹی، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، آل سندھ ٹریڈ یونین آرگنائزیشن، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سندھ ہاری کمیٹی نے ملک بھر میں مظاہرے کیے، جب کہ مشال خان کے قتل میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پیروکار شامل تھے، ہر چندکہ ان کی جماعتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کے خلاف ایکشن لیں گے یا پھر پارٹی سے نکال دیں گے۔
ہمارے ملک میں ہزاروں خواتین کاروکاری، غیرت، ونی، وٹہ سٹہ، بے جوڑ شادی اور زیادتی، سسرال میں چولہا پھٹ کے مرنے کے بہانے قتل ہوتی ہیں، ہزاروں بچے اور خواتین جان سے جاتے رہتے ہیں لیکن ان کا کوئی تدارک نہیں ہوتا۔ صرف 2016 میں پاکستان میں چھ ہزار بچے اور عورتیں قتل ہوئیں۔ ان کے قتل کے خلاف کسی بھی بڑی پارٹی نے احتجاج کیا اور نہ ہڑتال کی۔
بعض مذہبی جماعتوں نے تو اسے جائز قرار دیا اور کہا کہ مسواک سے بیوی کو مارا جاسکتا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ عورت بھی مسواک سے مرد کو مار سکتی ہے یا نہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، طبقاتی اور خاص کر جاگیردارانہ اور قبائلی نظام میں یہ عوامل زیادہ رونما ہوتے ہیں۔ وسطی ایشیا، کوہ قاف اور ایشیائے کوچک میں جب قبائلی اور جاگیرداری تھی تو وہاں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔
سوویت انقلاب سے قبل وسطی ایشیا میں خواتین موٹے کپڑے کے برقعے پہن کر بیل، گدھے، گھوڑے یا اونٹ گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گھٹنے میں اپنا سر چھپا لیتی تھیں۔ سوشلسٹ انقلاب سے قبل وہاں ہزار میں دو خواتین پڑھی لکھی تھیں، لیکن انقلاب کے بعد سو میں ساٹھ خواتین ڈاکٹرز اور پچاس انجینئرز ہیں۔ اب کوئی وہاں برقع پہنتا ہے اور نہ بیل گاڑی پر سفر کرتا ہے۔ ہر چند کہ اب وہاں سوشلسٹ نظام نہیں رہا، اس کے باوجود اٹھانوے فیصد لوگ خواندہ ہیں، خواتین ہر کام کرتی ہیں، بچوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا۔
شادی اپنی مرضی سے ہوتی ہے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی، ریپ کا تصور ہے اور نہ بچوں کے قتل کا۔ اس لیے کہ انقلاب کے بعد قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ کیوبا اور سوشلسٹ کوریا میں بھی مرد و زن شانہ بشانہ ہر کام کرتے ہیںِ ،کوئی تفریق نہیں ہے، بچے مراعات یافتہ ہیں، تعلیم، صحت اور خدمات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں تب ہی ختم ہوسکتی ہیں، جب یہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرکے زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائیں، کارخانوں، ملوں اور فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کرکے یونین بنانے اور آئی ایل او کے قوانین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی، کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کے آزاد سماج میں ہی ممکن ہے، جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ دنیا کو ایک کردیا جائے، اسلحہ سازی کا خاتمہ کردیا جائے، سرمایہ داری کا نام و نشان ختم کردیا جائے، ملکیت، جائیداد، جب ختم ہوجائیں گی، تب ہی انسان حقیقی معنوں میں جینے لگے گا۔