افہام وتفہیم اور خیر سگالی کی ضرورت

قومی معیشت کی تشویش ناک صورتحال سے متعلق اطلاعات بھی حکمرانوں سے کچھ تقاضے کررہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خیر سگالی کا کلچر سیاسی رگوں میں دوڑتے رہنا چاہیے ۔ فوٹو:آن لائن

یہ ایک تاریخی اور خوش آیند حقیقت ہے کہ آمریت کی ڈسی ہوئی جمہوریت اور موجودہ منتخب حکومت کو پہلی بار اپنی پارلیمانی مدت پوری کرنے کا موقع ملا ہے اور عالمی صورتحال کے نشیب و فراز ، مختلف النوع داخلی چیلنجز اور دہشت گردی کے اعصاب شکن عذاب کے باوجود جمہوری عمل کا کامیابی سے دوچار ہوناکوئی معمولی کارنامہ نہیں ، چنانچہ بادی النظر میں پیپلز پارٹی کی حکومت قوم کو اقتدار کی پر امن منتقلی کا بیش بہا تحفہ دینے کی قابل رشک روایت کی ایک ٹھوس بنیاد رکھتی نظر آرہی ہے جب کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے حکومت کو تیشۂ فرہاد کی کئی بار ضرورت بھی پیش آئی۔

یہ درست ہے کہ ملک میں مثالی گڈ گورننس کے تصور اور عملی صورتحال کے فرق پر کئی حلقے اپنا ایک تنقیدی نقطہ نظر رکھتے ہیں جو ان کا آئینی استحقاق ہے، اور عوام کی بے بسی ان کے پیش نظر ہے تاہم دوسری طرف عسکری قیادت اور اپوزیشن جماعتوں کے انداز نظر اور طرز عمل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جن کا وژن اور اجتماعی بصیرت صرف اس نکتہ پر مرکوز رہی کہ ہر قسم کے اختلافات اور تصفیہ طلب ایشوز پر کشمکش اور عدم اتفاق ختم ہو اور جمہوری عمل کو تو کسی قیمت پر ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوری نظام سے تجدید عہد اور سویلین طرز حکمرانی کو تقویت دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں ، سول سوسائٹی اور عسکری قیادت کی کمٹمنٹ قوم کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بنی ہے جس کے بعد اس امر پر پوری قوم کا یقین پختہ تر ہوگیا ہے کہ ملک کا مستقبل اب جمہوریت ہی سے وابستہ ومشروط رہے گا۔

تاہم ایک ایسے مرحلے میں جب انتخابات کا بگل بج چکا ہے، نگراں حکومت کی تشکیل اور اسمبلیوں کے تحلیل ہونے میں تھوڑا سا عرصہ رہ گیا ہے ، ووٹرز کی تصدیق کا کام مکمل ہونے کو ہے ، اور ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی اقدام یا حکومتی فیصلے میں کوئی ابہام نہ رہے، خیر سگالی کا کلچر سیاسی رگوں میں دوڑتے رہنا چاہیے ، مزید برآں باہمی رنجشیں،فروعی اختلافات ، سیاسی معاملات پر تنائو اور الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ ختم کیا جائے تو بہتر ہے ۔

اس لیے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ امور مملکت اور بعض حکومتی اقدامات اور جاری منصوبوں کی تکمیل سے صرف نظر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اقتدار کی منتقلی افراتفری میں نہیں ہوسکتی اس کے لیے مروجہ پارلیمانی، آئینی، قانونی اور جمہوری طریقوں سے ہی کام لیا جاتا ہے ،چنانچہ اس آزمائشی اورعبوری دورانئے میں حکومت اور دیگر ریاستی ستونوں کے مابین مکمل افہام وتفہیم، اشتراک عمل، مثبت تعلقات کار اور قومی یکجہتی کی فضا مثالی طریقے پر برقرار رکھنے کی ذمے داری سب پر ہے ۔ اس ضمن میں ہمارے پیش نظر وہ خبر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی ہدایت پر حکومتی وفد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں بھرتیوں پر پابندی کے فیصلے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم اور دیگر ممبران سے ملاقات کا وقت مانگ لیا ہے۔


وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وفاقی وزیرقانون سینیٹر فاروق ایچ نائیک، وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ اور وفاقی وزیر امور کشمیر اور گلگت بلتستان میاں منظور احمد وٹو پر مشتمل اعلیٰ سطح کی مذاکراتی ٹیم اور چیف الیکشن کمشنر و دیگر ممبران کمیشن کے درمیان آج جمعرات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد میں بھرتیوں پر پابندی اور ترقیاتی فنڈزکے معاملے پر اہم نوعیت کے مذاکرات ہوں گے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر قائل کرے گی۔ وزیر خزانہ اور وزیر قانون چیف الیکشن کمشنر کو اس سلسلے میں حکومتی موقف سے آگاہ کریں گے۔ واضح رہے چیف الیکشن کمشنرکے فیصلے سے حکومتی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے،عام انتخابات سے پہلے وفاقی حکومت نے ایک لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے ۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کا کہنا یہ ہے کہ وہ اس اقدام سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو نئی بھرتیوں میں کوٹہ بھی دیا گیا تھا اور ارکان اسمبلی کی سفارشات پر لوگوں کو مختلف محکموں میں بھرتی کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز منجمد کرنے کا فیصلہ آگیا۔ مناسب یہی ہے کہ اس مسئلے کو باہمی تدبر سے حل کیا جائے۔ آئینی اور قانونی طور پر حکومت کو جاری منصوبوں کی تکمیل اور افرادی قوت کو باقاعدگی سے کھپانے کا حق حاصل ہے مگر کرپشن کے الزامات کے شور نے قومی سیاسی منظر نامہ اس قدر بوجھل کردیا ہے کہ اس مسئلے کی شدت اپوزیشن سمیت دیگر جماعتوں کو مضطرب کرسکتی ہے اور الزام لگ سکتا ہے کہ فنڈز حکومتی اور اتحادی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں میں خرچ ہو رہے ہیں۔

امید کی جانی چاہیے کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین بات چیت کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا تاکہ انتخابات کے حوالے سے سفر جاری رہے۔ صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ کوئی قوت انتخابات ملتوی نہیں کرا سکتی، تمام سیاسی قوتیں عام انتخابات کا انعقاد چاہتی ہیں، عام انتخابات عوام کی امانت ہیں جو مقررہ وقت پر ہی ہونگے، اس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی جب کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر کہا کہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے اور ایک روز کی تاخیر بھی نہیں ہو گی ۔ منگل کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اسی مقصد کے حصول پر زور دیا کہ منتخب حکومت چیلنجوں کے باوجود اپنی مدت پوری کر رہی ہے ۔ قوم انتخابات کی طرف جارہی ہے ، حکومت نے وقت پر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا تہیہ کررکھا ہے،انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے پرقومی اتفاق رائے موجود ہے، ہمیں ایسی تمام قوتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جو سسٹم کوڈی ریل کرنے کے درپے ہیں۔

تاہم ان واضح اعلانات کے پس منظر میں قومی معیشت کی تشویش ناک صورتحال سے متعلق اطلاعات بھی حکمرانوں سے کچھ تقاضے کررہی ہے۔مثلاً ایک اطلاع یہ ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ نے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ورکرز ویلفیئرفنڈکو قریباً 45 ارب روپے سے محروم کردیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق وزارت خزانہ نے ورکرز فنڈ کے ساڑھے 44 ارب روپے قبضہ میں لے لیے ہیں جس کے باعث فلاح وبہبود کے مختلف منصوبے متاثرہوئے ہیں، ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971ء کے مطابق مذکورہ فنڈکسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ادھر بتایا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان پر ملکی و غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 15ہزارارب روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا جن کا جی ڈی پی میں تناسب ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح 68 فیصد ہوگیا ہے جس کے بعد یہ قرضے تمام قانونی حدود سے تجاوز کرچکے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر مجموعی طور پر ملکی و غیر ملکی قرضوں اور مالیاتی ضمانتوں کا حجم 15 ہزار 2 سو ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے جس کا ملکی جی ڈی پی میں تناسب پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح 68.4 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ششدر کرنے والی خبریں ، اگر درست ہیں تو ان کا ازالہ ہونا چاہیے ۔ ادھر خوش آیند امکانات کا بھی کال نہیں ، جیسا کہ تاجر و صنعت کار برادری نے معیشت کے استحکام کے لیے برآمدات میں اضافے اور نئی صنعتوں کے قیام کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سارک اور آسیان ممالک سمیت وسط ایشیائی ریاستوں، چین، ایران، بھارت، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مستحکم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔حکومت ملکی معیشت پر توجہ دے۔
Load Next Story