مستونگ میں خودکش حملہ پُرانے سوالوں کو نئی زندگی دے گیا
دہشت گردوں کے معاونین کے خلاف کارروائی کے بغیر انھیں کم زور نہیں کیا جاسکتا۔
KARACHI:
بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سے50 کلو میٹر دور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور جے یو آئی (ف) کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملے میں30 افراد جاں بہ حق اور عبدالغفور حیدری سمیت 37 زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مستونگ میں خودکش حملہ عین اس وقت ہوا جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اپنے ساتھیوں کے ہم راہ ایک مدرسے میں دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی، جب کہ اس کی زد میں آنے والی کئی گاڑیاں تباہ اور ان میں سوار افراد جاں بہ حق و زخمی ہوگئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال مستونگ منتقل کیا گیا۔
دھماکے میں جاں بہ حق ہونے والوں میں عبدالغفور حیدری کے اسٹاف افسر افتخار مغل، ڈرائیور اور جے یو آئی ضلع کوئٹہ کے نائب امیر حافظ قدرت اﷲ لہڑی بھی شامل ہیں جب کہ زخمیوں میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور ایکسپریس نیوز کے نمائندے عبدالمنان بھی شامل ہیں۔
ڈی پی او مستونگ غضنفر علی شاہ نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی شواہد اور عینی شاہدین کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا اور اس کا نشانہ مولانا عبدالغفور حیدری تھے تاہم اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے میں 10 سے 12 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، سول ڈیفنس بم ڈسپوزل کمانڈر سجاد احمد اور غلام محمد نے بھی تصدیق کی کہ یہ حملہ خودکش تھا۔
ہم پرانے زخموں کے ساتھ مستونگ کے نئے زخم کو مندمل کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ گوادر کی خبر آگئی۔ لیجیے یہ بھی دیکھ لیجیے ، یہ ابھی ابتدائی خبر ہے۔
'' گوادر: گنت پیشکان کے علاقے میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 9 مزدوروں کو قتل کردیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے گنت پیشکان میں نامعلوم افراد نے سڑک کی تعمیر میں مصروف مزدوروں پر فائرنگ کرکے 9 افراد کو قتل اور دو کو زخمی کردیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق فائرنگ کے واقعہ میں جاں بہ حق اور زخمی ہونے والوں کو گوادر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں زخمیوں کی حالت تشویش ناک بنائی جا رہی ہے۔''
اس سے قبل سفاک دہشت گردوں نے کوئٹہ میں دہشت گردی کی دو وارداتوں میں وکلاء صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے 70بے گناہوں کو شہید اور تقریبا اتنے ہی لوگوں کو زخمی کردیا تھا۔ دہشت گردی کی یہ واردات انتہائی منظم انداز میں کی گئی تھی۔ دہشت گردی کی پہلی واردات میں علی الصبح بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا اور جب ان کی میت سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی تو اسپتال کی ایمرجینسی کے مرکزی دروازے پر خودکش حملہ آور نے ہجوم کے بیچ میں آکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
اس وقت وکلا، صحافیوں اور مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں، پولیس اہل کاروں اور دیگر افراد سمیت کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے جو خودکش دھماکے کی زد میں آئے تھے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سول ہسپتال میں دہشت گردی کی واردات خودکش حملہ تھا، جس میں 15 سے 20 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی کوئٹہ دہشت گردی پر دلی صدمے اور افسوس کا اظہار کیا اور اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی تھی۔ کوئٹہ کی اس دہشت گردی پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں اس الم ناک واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا اور اپنی سفارشات بھی پیش کی گئی تھیں۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ دہشت گردی کی اطلاع ملتے ہی کوئٹہ پہنچے تھے، زخمیوں کی عیادت کی اور جاں بہ حق و زخمی افراد کے لواحقین سے ہم دردی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف بھی کوئٹہ پہنچے تھے۔ اس الم ناک دہشت گردی پر قومی سیاسی عسکری قیادتیں بھی دل گرفتہ تھیں، اور اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تھا کہ دہشت گرد ہمارے عزم کو کم زور نہیں کرسکتے اور ہم عوام کی مدد سے دہشت گردوں کو شکست فاش سے دوچار کریں گے۔
حکومتی اور عسکری قیادتوں نے اس سانحۂ عظیم کے بعد بھی یہ روایتی راگ الاپا گیا کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ جاری رکھیں گے، جب کہ اس کے برعکس دہشت گرد حکم رانوں اور مقتدر طبقات کے ان دعوئوں پر چوٹ لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ کوئٹہ میں جس گھنائونے انداز میں اسپتال میں خودکش دھماکہ کیا گیا اس سے ظاہر ہے کہ دہشت گردوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ دونوں وارداتیں کی تھیں۔
انہیں یقین تھا کہ بار کے صدر کی نعش اسپتال لے جائی جائے گی تو وہاں لوگوں کا ہجوم موجود ہوگا جو ان کے دہشت گردانہ مکروہ عزائم کا آسانی کے ساتھ چارہ بن جائیں گے۔ خودکش حملہ آور کا پہلے ہی سول اسپتال میں موجود ہونا دہشت گردوں کی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کی غمازی کرتا ہے جب کہ خودکش حملے کے فوری بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گرد کافی تعداد میں ہسپتال میں موجود تھے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔
مستونگ میں خود کش دھماکے سے بھی یہی لگتا ہے کہ کوئٹہ کی طرح اس واردات کی بھی پوری طرح سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ ہماری حکومت اور عسکری ادارے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں مگر تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے اس عفریت پر کام یابی سے اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ صورت حال اس قدر گمبھیر اور پیچیدہ ہے کہ اسے حل کرنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے یہ گتھی اتنی ہی الجھتی چلی جا رہی ہے۔
صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان دہشت گردی اور بم دھماکوں کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں۔ یہاں قتل و غارت روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ زندگی پر موت کے سائے اس قدر گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر شہری خوف و ہراس کا اسیر ہے۔
حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے دعوے تو کر رہی ہے مگر دہشت گرد جس قدر منظم انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں کو اپنی کارروائیوں کا انداز بدلنا ہوگا۔ دہشت گردوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے روایتی طریقے ناکافی اور ادھورے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ پولیس اور انتظامی اداروں میں چھپے اپنے ہم دردوں کی آشیرباد کے بغیر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔ جب تک دہشت گردوں کے ان ہم دردوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہوگی، کوئی بھی آپریشن اپنے حتمی مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔
دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے، ان کے سہولت کار اور پشت پناہ کون ہیں، مالی معاونت کون کر رہا ہے۔ جب تک ان چھپے ہوئے معاونین کو تلاش کرکے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی دہشت گردوں کو کمزور کرنا ایک مشکل کام رہے گا۔ پورے ملک میں جا بہ جا اسلحے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ ریاست کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان آخر کب تک دہشت گردی کا یہ عذاب جھیلتا رہے گا۔ تاہم اس حقیقت سے کیسے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد چاہے جو بھی ہوں انہیں ہمارے سیکیوریٹی اور انٹیلی جنس اداروں میں موجود خامیوں ہی سے فائدہ اٹھانے اور اپنے متعین اہداف تک کام یابی سے پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اندوہناک صورت حال ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کے لیے لمحۂ فکر ہے اور بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے مشترکہ طور پر تیار کیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اب تک اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اگر سیکیوریٹی انتظامات سے متعلق فیصلے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت باہمی اتفاق رائے سے کیے جائیں تو اس سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی ریاستی اتھارٹی کی مضبوطی کا سخت پیغام جا سکتا ہے۔ مگر سیکیوریٹی انتظامات کے تمام تقاضے ہماری بے رحم سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں اور دہشت گرد بے گناہ عوام کا خونِ ناحق بہاتے ہوئے حکومتی اور ریاستی اتھارٹی کو چیلینج کرتے نظر آتے ہیں۔
اس وقت بلاشبہہ دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح اول ہونا چاہیے جس کے لیے بالخصوص پاکستان افغانستان سرحد کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جو بھی انتظامات ممکن ہیں وہ بلاتاخیر مکمل کیے جائیں۔ ہم پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روک کر ہی دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کے آگے بند باندھ سکتے ہیں ورنہ ہمیں آئے روز مستونگ جیسے سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب محض زبانی جمع خرچ کی نہیں عملیت پسندی اور مشترکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سے50 کلو میٹر دور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور جے یو آئی (ف) کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر خودکش حملے میں30 افراد جاں بہ حق اور عبدالغفور حیدری سمیت 37 زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مستونگ میں خودکش حملہ عین اس وقت ہوا جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اپنے ساتھیوں کے ہم راہ ایک مدرسے میں دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی، جب کہ اس کی زد میں آنے والی کئی گاڑیاں تباہ اور ان میں سوار افراد جاں بہ حق و زخمی ہوگئے۔ لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال مستونگ منتقل کیا گیا۔
دھماکے میں جاں بہ حق ہونے والوں میں عبدالغفور حیدری کے اسٹاف افسر افتخار مغل، ڈرائیور اور جے یو آئی ضلع کوئٹہ کے نائب امیر حافظ قدرت اﷲ لہڑی بھی شامل ہیں جب کہ زخمیوں میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور ایکسپریس نیوز کے نمائندے عبدالمنان بھی شامل ہیں۔
ڈی پی او مستونگ غضنفر علی شاہ نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی شواہد اور عینی شاہدین کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا اور اس کا نشانہ مولانا عبدالغفور حیدری تھے تاہم اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے میں 10 سے 12 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، سول ڈیفنس بم ڈسپوزل کمانڈر سجاد احمد اور غلام محمد نے بھی تصدیق کی کہ یہ حملہ خودکش تھا۔
ہم پرانے زخموں کے ساتھ مستونگ کے نئے زخم کو مندمل کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ گوادر کی خبر آگئی۔ لیجیے یہ بھی دیکھ لیجیے ، یہ ابھی ابتدائی خبر ہے۔
'' گوادر: گنت پیشکان کے علاقے میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 9 مزدوروں کو قتل کردیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے گنت پیشکان میں نامعلوم افراد نے سڑک کی تعمیر میں مصروف مزدوروں پر فائرنگ کرکے 9 افراد کو قتل اور دو کو زخمی کردیا۔ لیویز ذرائع کے مطابق فائرنگ کے واقعہ میں جاں بہ حق اور زخمی ہونے والوں کو گوادر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں زخمیوں کی حالت تشویش ناک بنائی جا رہی ہے۔''
اس سے قبل سفاک دہشت گردوں نے کوئٹہ میں دہشت گردی کی دو وارداتوں میں وکلاء صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے 70بے گناہوں کو شہید اور تقریبا اتنے ہی لوگوں کو زخمی کردیا تھا۔ دہشت گردی کی یہ واردات انتہائی منظم انداز میں کی گئی تھی۔ دہشت گردی کی پہلی واردات میں علی الصبح بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تھا اور جب ان کی میت سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی تو اسپتال کی ایمرجینسی کے مرکزی دروازے پر خودکش حملہ آور نے ہجوم کے بیچ میں آکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
اس وقت وکلا، صحافیوں اور مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں، پولیس اہل کاروں اور دیگر افراد سمیت کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے جو خودکش دھماکے کی زد میں آئے تھے۔ اس موقع پر وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سول ہسپتال میں دہشت گردی کی واردات خودکش حملہ تھا، جس میں 15 سے 20 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی کوئٹہ دہشت گردی پر دلی صدمے اور افسوس کا اظہار کیا اور اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کی تھی۔ کوئٹہ کی اس دہشت گردی پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں اس الم ناک واقعے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا گیا اور اپنی سفارشات بھی پیش کی گئی تھیں۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ دہشت گردی کی اطلاع ملتے ہی کوئٹہ پہنچے تھے، زخمیوں کی عیادت کی اور جاں بہ حق و زخمی افراد کے لواحقین سے ہم دردی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف بھی کوئٹہ پہنچے تھے۔ اس الم ناک دہشت گردی پر قومی سیاسی عسکری قیادتیں بھی دل گرفتہ تھیں، اور اس عزم کا اعادہ بھی کیا گیا تھا کہ دہشت گرد ہمارے عزم کو کم زور نہیں کرسکتے اور ہم عوام کی مدد سے دہشت گردوں کو شکست فاش سے دوچار کریں گے۔
حکومتی اور عسکری قیادتوں نے اس سانحۂ عظیم کے بعد بھی یہ روایتی راگ الاپا گیا کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ جاری رکھیں گے، جب کہ اس کے برعکس دہشت گرد حکم رانوں اور مقتدر طبقات کے ان دعوئوں پر چوٹ لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ کوئٹہ میں جس گھنائونے انداز میں اسپتال میں خودکش دھماکہ کیا گیا اس سے ظاہر ہے کہ دہشت گردوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ دونوں وارداتیں کی تھیں۔
انہیں یقین تھا کہ بار کے صدر کی نعش اسپتال لے جائی جائے گی تو وہاں لوگوں کا ہجوم موجود ہوگا جو ان کے دہشت گردانہ مکروہ عزائم کا آسانی کے ساتھ چارہ بن جائیں گے۔ خودکش حملہ آور کا پہلے ہی سول اسپتال میں موجود ہونا دہشت گردوں کی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کی غمازی کرتا ہے جب کہ خودکش حملے کے فوری بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گرد کافی تعداد میں ہسپتال میں موجود تھے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔
مستونگ میں خود کش دھماکے سے بھی یہی لگتا ہے کہ کوئٹہ کی طرح اس واردات کی بھی پوری طرح سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے گرداب میں پھنسا چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ ہماری حکومت اور عسکری ادارے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں مگر تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے اس عفریت پر کام یابی سے اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ صورت حال اس قدر گمبھیر اور پیچیدہ ہے کہ اسے حل کرنے کی جتنی کوشش کی جاتی ہے یہ گتھی اتنی ہی الجھتی چلی جا رہی ہے۔
صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان دہشت گردی اور بم دھماکوں کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں۔ یہاں قتل و غارت روزمرہ کا معمول بن گئی ہے۔ زندگی پر موت کے سائے اس قدر گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر شہری خوف و ہراس کا اسیر ہے۔
حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے دعوے تو کر رہی ہے مگر دہشت گرد جس قدر منظم انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں کو اپنی کارروائیوں کا انداز بدلنا ہوگا۔ دہشت گردوں کے خلاف حکومتی کارروائی کے روایتی طریقے ناکافی اور ادھورے ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ پولیس اور انتظامی اداروں میں چھپے اپنے ہم دردوں کی آشیرباد کے بغیر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔ جب تک دہشت گردوں کے ان ہم دردوں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہوگی، کوئی بھی آپریشن اپنے حتمی مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا۔
دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے، ان کے سہولت کار اور پشت پناہ کون ہیں، مالی معاونت کون کر رہا ہے۔ جب تک ان چھپے ہوئے معاونین کو تلاش کرکے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی دہشت گردوں کو کمزور کرنا ایک مشکل کام رہے گا۔ پورے ملک میں جا بہ جا اسلحے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ ریاست کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان آخر کب تک دہشت گردی کا یہ عذاب جھیلتا رہے گا۔ تاہم اس حقیقت سے کیسے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد چاہے جو بھی ہوں انہیں ہمارے سیکیوریٹی اور انٹیلی جنس اداروں میں موجود خامیوں ہی سے فائدہ اٹھانے اور اپنے متعین اہداف تک کام یابی سے پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ اندوہناک صورت حال ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کے لیے لمحۂ فکر ہے اور بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے مشترکہ طور پر تیار کیے گئے نیشنل ایکشن پلان پر اب تک اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
اگر سیکیوریٹی انتظامات سے متعلق فیصلے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت باہمی اتفاق رائے سے کیے جائیں تو اس سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی ریاستی اتھارٹی کی مضبوطی کا سخت پیغام جا سکتا ہے۔ مگر سیکیوریٹی انتظامات کے تمام تقاضے ہماری بے رحم سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں اور دہشت گرد بے گناہ عوام کا خونِ ناحق بہاتے ہوئے حکومتی اور ریاستی اتھارٹی کو چیلینج کرتے نظر آتے ہیں۔
اس وقت بلاشبہہ دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح اول ہونا چاہیے جس کے لیے بالخصوص پاکستان افغانستان سرحد کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جو بھی انتظامات ممکن ہیں وہ بلاتاخیر مکمل کیے جائیں۔ ہم پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روک کر ہی دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کے آگے بند باندھ سکتے ہیں ورنہ ہمیں آئے روز مستونگ جیسے سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب محض زبانی جمع خرچ کی نہیں عملیت پسندی اور مشترکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔