دہشت گردی کا عفریت سرکون کچلے گا
منی پاکستان میں بدامنی اور قتل وغارت گری کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں،جن کو سمجھے بغیر امن بحال نہیں ہوسکتا۔
ISLAMABAD:
دہشت گردی کا عفریت منی پاکستان میں مزید 19 قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا ۔شہراماں سے پرندے کوچ کرگئے ہیں اور امن کی فاختہ کو دیکھنے اورآواز سننے کو توکان ترس گئے ہیں،وہ شہرجسے غریب پرورکہا جاتا تھا اور اسے غریب کی ماں کا درجہ بھی حاصل تھا ،آج اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہا ہے ۔مائوں کی دلخراش چیخیں اور آہ وبکا عرش ہلانے کے لیے کافی ہے، روشنیوں کا شہر جس کی راتیں جاگتی اور جگمگاتی تھیں اب توآئے روز کے احتجاج اور ہڑتالوں کے دوران دن میں بھی ایسے سناٹے اور خوف کا عالم ہوتا ہے کہ الامان الاحفیظ۔ گزشتہ روز بھی مختلف علاقوں میں فائرنگ،تشدد،اغوا اورلاشیں پھینکنے کے واقعات میں ن لیگ سندھ کے جواں سال جوائنٹ سیکریٹری اور ان کے والد' ڈاکٹراور پولیس افسرسمیت 19 افراد جاں بحق ہوگئے۔
گزشتہ روزکراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ کراچی میں مسلح باڈی گارڈزکی موجودگی میں ایک رکن صوبائی اسمبلی محفوظ نہیں تو عام لوگوں کوکیسے تحفظ دیا جا سکتا ہے۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پانچ ہزار طالبان کراچی میں داخل ہوچکے ہیں،کراچی میں حالیہ تشدد کی لہر کے پیچھے طالبان ہیں۔چیف جسٹس نے کہا طالبان کوئی ایسی مخلوق نہیں جو قابو نہ ہو سکیں،اس کے لیے سنجیدگی اورعزم کی ضرورت ہے۔محترم چیف جسٹس کی تشخیص بالکل صائب ودرست ہے طالبان ودہشت گرد گروہ ایسا عفریت نہیں ہیں جن کا سر نہ کچلا جاسکے۔
منی پاکستان میں بدامنی اور قتل وغارت گری کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں،جن کو سمجھے بغیر اس شہر میں امن کی بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ سیاسی سطح پر جب تک خود کو اسٹیک ہولڈرز کہلوانے والی سیاسی جماعتیں سیاسی مفادات کے بجائے ملکی سلامتی اور بقا کی سوچ کو نہیں اپنائیں گی اس وقت تک صورتحال میں بہتری نہیں ہوسکتی۔حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ سیاست اور جرم کو علیحدہ علیحدہ دیکھے ۔ مجرموں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے ۔حکومت سندھ کی امن وامان کی بحالی کے حوالے سے کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ پولیس میں بے دریغ اور میرٹ کے خلاف بھرتیوں نے اس محکمے کا رہا سہا رعب بھی مجرموں کے دل سے نکال دیا ہے ۔اس درد کا درماں تو اہل اقتدار کے پاس ہے، چارہ گر تو مفاہمت کی سیاست کرتے کرتے عوام کے دکھ ومصائب سے بے خبر سے ہوگئے ہیں ۔
جمہور پاکستان بالعموم اور اہل کراچی کا بالخصوص کوئی پرسان حال نہیں ۔کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیے ۔امن ضامن ہوتا ہے ترقی اور خوشحالی کا، خوشحالی جب ہی آتی ہے جب امن کے گیت کانوں میں رس گھولیں، بدنصیب اہل کراچی تو یرغمال ہیں مفاہمت کی سیاست کرنے والوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ۔جن کا کام ہی دست قاتل کو پکڑنا ہوتا ہے اول تو ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں ، دوم ان میں مجرموں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ وہمت ہی نہیں رہی ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد کا تعلق افغانستان، بنگلہ دیش وبرما سمیت دیگر ممالک سے ہے اور ان غیر ملکیوں کی رجسٹریشن بھی مکمل نہیں ہے بلکہ ریکارڈ مرتب نہ ہونے کے باعث جرم کی دنیا سے وابستہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
ملزم گواہوں کی عدم موجودگی اور عدم ثبوت پر بآسانی عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کی عدالتوں میں ججوں کا تقرر بھی نہ ہونا مسئلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ نے پاکستان کے معاشی حب کو بری طرح مفلوج کردیا ہے ۔ آئے دن کی ہڑتالوں سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جس کی تلافی تو کیا ہوگی الٹا معیشت دم توڑ رہی ہے۔کراچی کی اہمیت پاکستان کے جسم میں دل ودماغ کی طرح ہے ۔اگر دل سے جسم کو سپلائی کرنے والی رگوں میں کوئی ایک بند ہوجائے تو پھر انسان کی جان کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹرز کو بائی پاس آپریشن کرنا پڑتا ہے لہٰذا کراچی میں بھی حکومت کو فوری طور آپریشن کرنا چاہیے ،شہرقائد کو فالج زدہ ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کو ان تمام تر اقدامات ووسائل کو بروئے کار لانا ہوگا جو دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرسکیں ۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ۔
دہشت گردی کا عفریت منی پاکستان میں مزید 19 قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا ۔شہراماں سے پرندے کوچ کرگئے ہیں اور امن کی فاختہ کو دیکھنے اورآواز سننے کو توکان ترس گئے ہیں،وہ شہرجسے غریب پرورکہا جاتا تھا اور اسے غریب کی ماں کا درجہ بھی حاصل تھا ،آج اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہا ہے ۔مائوں کی دلخراش چیخیں اور آہ وبکا عرش ہلانے کے لیے کافی ہے، روشنیوں کا شہر جس کی راتیں جاگتی اور جگمگاتی تھیں اب توآئے روز کے احتجاج اور ہڑتالوں کے دوران دن میں بھی ایسے سناٹے اور خوف کا عالم ہوتا ہے کہ الامان الاحفیظ۔ گزشتہ روز بھی مختلف علاقوں میں فائرنگ،تشدد،اغوا اورلاشیں پھینکنے کے واقعات میں ن لیگ سندھ کے جواں سال جوائنٹ سیکریٹری اور ان کے والد' ڈاکٹراور پولیس افسرسمیت 19 افراد جاں بحق ہوگئے۔
گزشتہ روزکراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ کراچی میں مسلح باڈی گارڈزکی موجودگی میں ایک رکن صوبائی اسمبلی محفوظ نہیں تو عام لوگوں کوکیسے تحفظ دیا جا سکتا ہے۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پانچ ہزار طالبان کراچی میں داخل ہوچکے ہیں،کراچی میں حالیہ تشدد کی لہر کے پیچھے طالبان ہیں۔چیف جسٹس نے کہا طالبان کوئی ایسی مخلوق نہیں جو قابو نہ ہو سکیں،اس کے لیے سنجیدگی اورعزم کی ضرورت ہے۔محترم چیف جسٹس کی تشخیص بالکل صائب ودرست ہے طالبان ودہشت گرد گروہ ایسا عفریت نہیں ہیں جن کا سر نہ کچلا جاسکے۔
منی پاکستان میں بدامنی اور قتل وغارت گری کے مسئلے کی کئی جہتیں ہیں،جن کو سمجھے بغیر اس شہر میں امن کی بحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ سیاسی سطح پر جب تک خود کو اسٹیک ہولڈرز کہلوانے والی سیاسی جماعتیں سیاسی مفادات کے بجائے ملکی سلامتی اور بقا کی سوچ کو نہیں اپنائیں گی اس وقت تک صورتحال میں بہتری نہیں ہوسکتی۔حکومت کا فرض اولین ہے کہ وہ سیاست اور جرم کو علیحدہ علیحدہ دیکھے ۔ مجرموں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہ برتی جائے ۔حکومت سندھ کی امن وامان کی بحالی کے حوالے سے کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ پولیس میں بے دریغ اور میرٹ کے خلاف بھرتیوں نے اس محکمے کا رہا سہا رعب بھی مجرموں کے دل سے نکال دیا ہے ۔اس درد کا درماں تو اہل اقتدار کے پاس ہے، چارہ گر تو مفاہمت کی سیاست کرتے کرتے عوام کے دکھ ومصائب سے بے خبر سے ہوگئے ہیں ۔
جمہور پاکستان بالعموم اور اہل کراچی کا بالخصوص کوئی پرسان حال نہیں ۔کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیے ۔امن ضامن ہوتا ہے ترقی اور خوشحالی کا، خوشحالی جب ہی آتی ہے جب امن کے گیت کانوں میں رس گھولیں، بدنصیب اہل کراچی تو یرغمال ہیں مفاہمت کی سیاست کرنے والوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ۔جن کا کام ہی دست قاتل کو پکڑنا ہوتا ہے اول تو ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں ، دوم ان میں مجرموں سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ وہمت ہی نہیں رہی ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد افراد کا تعلق افغانستان، بنگلہ دیش وبرما سمیت دیگر ممالک سے ہے اور ان غیر ملکیوں کی رجسٹریشن بھی مکمل نہیں ہے بلکہ ریکارڈ مرتب نہ ہونے کے باعث جرم کی دنیا سے وابستہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
ملزم گواہوں کی عدم موجودگی اور عدم ثبوت پر بآسانی عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی کی عدالتوں میں ججوں کا تقرر بھی نہ ہونا مسئلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اسٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ نے پاکستان کے معاشی حب کو بری طرح مفلوج کردیا ہے ۔ آئے دن کی ہڑتالوں سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جس کی تلافی تو کیا ہوگی الٹا معیشت دم توڑ رہی ہے۔کراچی کی اہمیت پاکستان کے جسم میں دل ودماغ کی طرح ہے ۔اگر دل سے جسم کو سپلائی کرنے والی رگوں میں کوئی ایک بند ہوجائے تو پھر انسان کی جان کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹرز کو بائی پاس آپریشن کرنا پڑتا ہے لہٰذا کراچی میں بھی حکومت کو فوری طور آپریشن کرنا چاہیے ،شہرقائد کو فالج زدہ ہونے سے بچانے کے لیے حکومت کو ان تمام تر اقدامات ووسائل کو بروئے کار لانا ہوگا جو دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرسکیں ۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ۔