جانے کس جرم کی پائی ہے سزا…
چند ایک فلاحی ادارے حقیقی مددگار بھی ہیں، لیکن زیادہ تر این جی اوز اور فلاحی ادارے مفاداتی طرز عمل رکھتے ہیں.
پاکستانی معاشرے میں اب آپ کو جابجا خواتین کار ڈرائیو کرتی نظر آئیں گی اور یہ کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں لیکن کیا آپ نے کبھی کسی لڑکی کو رکشہ چلاتے دیکھا ہے؟ معیوب بات تو اس میں کوئی نہیں لیکن کراچی جیسے پرفتن و پرہنگام شہر میں ایک لڑکی کا رکشہ چلانا یقیناً حیرت کا باعث ہے جہاں مرد ڈرائیور بھی حالات کی نزاکت کے باعث شہر میں گاڑی نکالنے کے بجائے گھر میں فاقہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ ہونے والے یوم سوگ میں جہاں شہر کے حالات کافی نازک تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے غائب تھی، ساتھ ہی سی این جی کی بندش نے عوام کو گھر میں مقید رہنے پر مجبور کردیا تھا، لیکن اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا بھی مجبوری تھی، چار و ناچار ہم نے بھی ہمت باندھی اور پیدل مارچ کرتے اسٹاپ تک پہنچ گئے جہاں چند دیگر ''متاثرین ہڑتال'' بھی موجود ملکی حالات اور سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل پر شکوہ کناں تھے۔
گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے جو چند ایک رکشا، ٹیکسیاں نظر آئیں، وہ پہلے ہی سواری سے بھری ہوئی تھیں۔ اسی وقت ایک چنگ چی رکشا ہمارے سامنے آ رکا۔ اور یہی وہ رکشا ہے جو آج کے اس کالم کا محرک ہے، یہ چھ سیٹر رکشا جو سی این جی رکشے کی طرز پر بنا ہے، شہر کراچی میں مختلف چھوٹے روٹ پر چل رہے ہیں اور بلاشبہ لوگوں کو ان رکشوں کی وجہ سے سفر میں کافی سہولت ہوگئی ہے ۔ وہ خاص بات جو اس رکشے میں تھی وہ یہ کہ اس رکشے کو مکمل حجاب میں ملبوس ایک 18-20 سالہ لڑکی ڈرائیو کر رہی تھی، اس کے برابر میں ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی بس کے کنڈیکٹر کی طرح روٹ کے مختلف اسٹاپس کا نام پکار رہی تھی۔
وہ رکشا ہمارے روٹ پر آدھے راستے تک جا رہا تھا اس لیے ہم بھی اس میں سوار ہوگئے۔ سفر کرنے کی مجبوری سے زیادہ معاشرتی کہانیاں اکٹھی کرنے کی جستجو ہمارے اس سفر کا محرک تھی۔ اور جب جذبہ صادق ہو تو مراد بر آتی ہے، ہمیں اس لڑکی کی ساتھی کنڈیکٹر سے تفصیلی گفتگو کا موقع مل گیا، رحمت بی بی نے ڈرائیور لڑکی کی جو کہانی ہمیں سنائی، اسے سن کر ہماری آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے اور اس لڑکی کا احترام ہمارے دل میں گھر کر گیا۔
ڈرائیور لڑکی جس کا نام کلثوم ہے، اپنے گھر کی واحد کفیل ہے۔ آج سے چھ ماہ پہلے تک اس نے گھر سے باہر کی دنیا کو اس طرح سے نہیں پرکھا تھا جیسے اب دیکھ رہی ہے۔ باپ کی شفقت سے محروم کلثوم کا اکلوتا بھائی جو رکشا چلاتا تھا پچھلے سال ان دیکھے دہشت گردوں کا شکار بن گیا، بوڑھی والدہ اور دو چھوٹی بہنوں کی ذمے داری اب کلثوم پر ہے۔ بیٹے کی موت کے بعد کلثوم کی والدہ نے اس کا رکشا کرایہ پر دینا شروع کیا لیکن جب اسے خدشہ محسوس ہوا کہ اس کا یہ رکشا ہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے تو اسے گھر پر کھڑا کر دیا گیا، اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کلثوم نے رکشا چلانے کی ذمے داری سنبھال لی ہے، وہ مکمل اسلامی حجاب کے ساتھ رکشا ڈرائیور کرتی ہے اور اس کی پڑوسن رحمت بی بی زمانے کی بری نظروں سے اسے بچانے کے لیے اس کی کنڈیکٹر بن گئی ہے۔ اگر آپ نارتھ میں رہتے ہیں تو نارتھ کراچی تا لالو کھیت روٹ پر آپ کو کلثوم اپنے رکشے سمیت نظر آجائے گی، اس کا چہرہ حجاب میں ہے لیکن آنکھوں کی یاسیت سوال کرتی ہے کہ اس کا اور اس کے گھرانے کا کیا قصور تھا جو انھیں اپنے گھر کے واحد کفیل مرد سے محروم کردیا گیا؟
اس موقع پر مجھے ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکی غزالہ یاد آرہی ہے۔ غزالہ کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ پچھلے سال لسانی بنیادوں پر شہر میں شرپسندوں نے مختلف قومیت کے لوگوں کا قتل عام کیا تھا، ان ہی دنوں غزالہ کے گھر بھی قیامت ٹوٹ پڑی جب اس کے اکلوتے مزدور بھائی کو ''نامعلوم لوگ'' اغوا کرکے لے گئے۔ اغوا کرنے والوں نے 50 ہزار تاوان مانگا، لیکن غزالہ کا گھرانہ نہایت غریب ہے، دونوں بہن بھائی کام کرکے بمشکل اپنے خاندان کے جینے کا سامان کرتے تھے، ایسے میں 50 ہزار کی ادائیگی نہایت مشکل تھی، ادھر ادھر سے مانگ کر 25 ہزار ادا کیے گئے لیکن نتیجتاً بھائی کی لاش گھر آئی۔
غزالہ محض 8 ہزار کی تنخواہ میں اپنی والدہ اور چھوٹی بہنوں کو پال رہی ہے، غزالہ فریاد کناں ہے کہ اس کے گھرانے کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، وہ لوگ خود محنت کرکے کماتے کھاتے ہیں پھر کیوں اس کے بھائی کو ایک مخصوص طبقے کا فرد گردان کر جان سے مار دیا گیا۔ وہ اپنی ساتھی ورکروں سے اکثر اظہار خیال کرتی ہے کہ وہ شادی نہیں کرے گی کیونکہ وہ اپنی زندگی اپنے گھر والوں کے لیے وقف کرچکی ہے، اس کی یہی خواہش ہے کہ اس کی دیگر تینوں بہنوں کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے وہ گزر رہی ہے۔
سرجانی کی رہائشی شمع بھی شہر کراچی میں ہونے والی خونیں دہشت گردی کے ہاتھوں اپنے 3 بھائیوں سے یکے بعد دیگرے محروم ہوچکی ہے۔ شمع کا باپ زندہ ہے لیکن ٹی بی کے موذی مرض نے اسے کہیں مزدوری کرنے کے بھی لائق نہیں چھوڑا، شمع ایک فیکٹری میں کام کرکے اپنا گھر چلا رہی ہے۔ کچھ جاننے والوں کے توسط سے شمع نے کوشش کی کہ اس کے باپ کو کسی فلاحی تنظیم کی طرف سے بطور امداد سی این جی رکشا حاصل ہوجائے تو وہ اپنے کنبے کی کفالت کا بوجھ سنبھال سکے گا لیکن ایسے وقت یہ حقیقت سامنے آئی کہ شہر میں کام کرنے والی این جی اوز اور فلاح و بہبود کے نام پر کام کرنے والے بڑے نام جو میڈیا پر بھی اپنی انسانی ہمدردی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں وہ بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے لوگ کیمروں کے سامنے غریبوں کی مالی امداد اور رکشے یا گھر کی صورت میں خیرات بانٹ رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی تعلق یا واسطے یا ذاتی مفادات کے بغیر ''حقیقی مستحقین'' کی امداد نہیں کرتے۔
بلاشبہ چند ایک فلاحی ادارے حقیقی مددگار بھی ہیں، لیکن زیادہ تر این جی اوز اور فلاحی ادارے مفاداتی طرز عمل رکھتے ہیں، ایسے دہرے کردار کے مالک فلاحی اداروں کے اس تاریک رخ پر کسی اور کالم میں گفتگو ہوگی، آج چونکہ مطمع نظر پاک ملک کی ان پاکباز لڑکیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو اس مرد پرست معاشرے میں اپنے گھرانوں کی کفالت کے لیے مردانہ وار جدوجہد کررہی ہیں۔ آپ کے ارد گرد بھی بہت سے ایسے کردار ہوں گے، ان تمام دختران مشرق کو سلام۔
گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے جو چند ایک رکشا، ٹیکسیاں نظر آئیں، وہ پہلے ہی سواری سے بھری ہوئی تھیں۔ اسی وقت ایک چنگ چی رکشا ہمارے سامنے آ رکا۔ اور یہی وہ رکشا ہے جو آج کے اس کالم کا محرک ہے، یہ چھ سیٹر رکشا جو سی این جی رکشے کی طرز پر بنا ہے، شہر کراچی میں مختلف چھوٹے روٹ پر چل رہے ہیں اور بلاشبہ لوگوں کو ان رکشوں کی وجہ سے سفر میں کافی سہولت ہوگئی ہے ۔ وہ خاص بات جو اس رکشے میں تھی وہ یہ کہ اس رکشے کو مکمل حجاب میں ملبوس ایک 18-20 سالہ لڑکی ڈرائیو کر رہی تھی، اس کے برابر میں ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی بس کے کنڈیکٹر کی طرح روٹ کے مختلف اسٹاپس کا نام پکار رہی تھی۔
وہ رکشا ہمارے روٹ پر آدھے راستے تک جا رہا تھا اس لیے ہم بھی اس میں سوار ہوگئے۔ سفر کرنے کی مجبوری سے زیادہ معاشرتی کہانیاں اکٹھی کرنے کی جستجو ہمارے اس سفر کا محرک تھی۔ اور جب جذبہ صادق ہو تو مراد بر آتی ہے، ہمیں اس لڑکی کی ساتھی کنڈیکٹر سے تفصیلی گفتگو کا موقع مل گیا، رحمت بی بی نے ڈرائیور لڑکی کی جو کہانی ہمیں سنائی، اسے سن کر ہماری آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے اور اس لڑکی کا احترام ہمارے دل میں گھر کر گیا۔
ڈرائیور لڑکی جس کا نام کلثوم ہے، اپنے گھر کی واحد کفیل ہے۔ آج سے چھ ماہ پہلے تک اس نے گھر سے باہر کی دنیا کو اس طرح سے نہیں پرکھا تھا جیسے اب دیکھ رہی ہے۔ باپ کی شفقت سے محروم کلثوم کا اکلوتا بھائی جو رکشا چلاتا تھا پچھلے سال ان دیکھے دہشت گردوں کا شکار بن گیا، بوڑھی والدہ اور دو چھوٹی بہنوں کی ذمے داری اب کلثوم پر ہے۔ بیٹے کی موت کے بعد کلثوم کی والدہ نے اس کا رکشا کرایہ پر دینا شروع کیا لیکن جب اسے خدشہ محسوس ہوا کہ اس کا یہ رکشا ہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے تو اسے گھر پر کھڑا کر دیا گیا، اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کلثوم نے رکشا چلانے کی ذمے داری سنبھال لی ہے، وہ مکمل اسلامی حجاب کے ساتھ رکشا ڈرائیور کرتی ہے اور اس کی پڑوسن رحمت بی بی زمانے کی بری نظروں سے اسے بچانے کے لیے اس کی کنڈیکٹر بن گئی ہے۔ اگر آپ نارتھ میں رہتے ہیں تو نارتھ کراچی تا لالو کھیت روٹ پر آپ کو کلثوم اپنے رکشے سمیت نظر آجائے گی، اس کا چہرہ حجاب میں ہے لیکن آنکھوں کی یاسیت سوال کرتی ہے کہ اس کا اور اس کے گھرانے کا کیا قصور تھا جو انھیں اپنے گھر کے واحد کفیل مرد سے محروم کردیا گیا؟
اس موقع پر مجھے ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکی غزالہ یاد آرہی ہے۔ غزالہ کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ پچھلے سال لسانی بنیادوں پر شہر میں شرپسندوں نے مختلف قومیت کے لوگوں کا قتل عام کیا تھا، ان ہی دنوں غزالہ کے گھر بھی قیامت ٹوٹ پڑی جب اس کے اکلوتے مزدور بھائی کو ''نامعلوم لوگ'' اغوا کرکے لے گئے۔ اغوا کرنے والوں نے 50 ہزار تاوان مانگا، لیکن غزالہ کا گھرانہ نہایت غریب ہے، دونوں بہن بھائی کام کرکے بمشکل اپنے خاندان کے جینے کا سامان کرتے تھے، ایسے میں 50 ہزار کی ادائیگی نہایت مشکل تھی، ادھر ادھر سے مانگ کر 25 ہزار ادا کیے گئے لیکن نتیجتاً بھائی کی لاش گھر آئی۔
غزالہ محض 8 ہزار کی تنخواہ میں اپنی والدہ اور چھوٹی بہنوں کو پال رہی ہے، غزالہ فریاد کناں ہے کہ اس کے گھرانے کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، وہ لوگ خود محنت کرکے کماتے کھاتے ہیں پھر کیوں اس کے بھائی کو ایک مخصوص طبقے کا فرد گردان کر جان سے مار دیا گیا۔ وہ اپنی ساتھی ورکروں سے اکثر اظہار خیال کرتی ہے کہ وہ شادی نہیں کرے گی کیونکہ وہ اپنی زندگی اپنے گھر والوں کے لیے وقف کرچکی ہے، اس کی یہی خواہش ہے کہ اس کی دیگر تینوں بہنوں کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن سے وہ گزر رہی ہے۔
سرجانی کی رہائشی شمع بھی شہر کراچی میں ہونے والی خونیں دہشت گردی کے ہاتھوں اپنے 3 بھائیوں سے یکے بعد دیگرے محروم ہوچکی ہے۔ شمع کا باپ زندہ ہے لیکن ٹی بی کے موذی مرض نے اسے کہیں مزدوری کرنے کے بھی لائق نہیں چھوڑا، شمع ایک فیکٹری میں کام کرکے اپنا گھر چلا رہی ہے۔ کچھ جاننے والوں کے توسط سے شمع نے کوشش کی کہ اس کے باپ کو کسی فلاحی تنظیم کی طرف سے بطور امداد سی این جی رکشا حاصل ہوجائے تو وہ اپنے کنبے کی کفالت کا بوجھ سنبھال سکے گا لیکن ایسے وقت یہ حقیقت سامنے آئی کہ شہر میں کام کرنے والی این جی اوز اور فلاح و بہبود کے نام پر کام کرنے والے بڑے نام جو میڈیا پر بھی اپنی انسانی ہمدردی کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں وہ بھی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے لوگ کیمروں کے سامنے غریبوں کی مالی امداد اور رکشے یا گھر کی صورت میں خیرات بانٹ رہے ہوتے ہیں وہ بھی کسی تعلق یا واسطے یا ذاتی مفادات کے بغیر ''حقیقی مستحقین'' کی امداد نہیں کرتے۔
بلاشبہ چند ایک فلاحی ادارے حقیقی مددگار بھی ہیں، لیکن زیادہ تر این جی اوز اور فلاحی ادارے مفاداتی طرز عمل رکھتے ہیں، ایسے دہرے کردار کے مالک فلاحی اداروں کے اس تاریک رخ پر کسی اور کالم میں گفتگو ہوگی، آج چونکہ مطمع نظر پاک ملک کی ان پاکباز لڑکیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو اس مرد پرست معاشرے میں اپنے گھرانوں کی کفالت کے لیے مردانہ وار جدوجہد کررہی ہیں۔ آپ کے ارد گرد بھی بہت سے ایسے کردار ہوں گے، ان تمام دختران مشرق کو سلام۔