لانگ مارچ کے چشم کشا مضمرات

فاشزم کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جھوٹ بولنا اور اس تواتر سے تا کہ لوگ اسے سچ تسلیم کر لیں۔

fazalbazai@hotmail.com

ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ بخیریت اختتام پذیر ہو گیا۔ ''رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت'' والا معاملہ ہو گیا۔ اس لانگ مارچ کی وجہ سے چار دن تک اسلام آباد یرغمال اور پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا۔ لوگ بارش اور سرد ترین موسم میں بچوں اور عورتوں کی وجہ سے پریشان تھے جو کسی بھی آپریشن کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر ہوتے جب کہ شیخ الاسلام اس کی پرواہ کیے بغیر انھیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے۔

اسی دوران بہت سے سازشی نظریات پر بحث ہوتی رہی لیکن آخرکار اسلام آباد اعلامیے کے نام سے حکومت اور طاہر القادری کے درمیان معاہدہ طے پا یا، جن مبہم قسم کے نکات جو کہ پہلے ہی سے آئین میں موجود تھے کا ذکر کیا گیا سوائے اسمبلی کو وقت سے ایک دو دن پہلے تحلیل کرنا، جس سے نگران حکومت کو 60 دنوں کی بجائے 90 دن مل جائیں گے (وقت پر اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 60 دن جب کہ وقت سے پہلے تحلیل ہونے پر 90 دن میں الیکشن کروانے کی آئینی شرط ہے) نگران وزیر اعظم ڈاکٹر صاحب کی مرضی کا ہو گا لیکن اگر اسے بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ( اسے آپ سمجھوتہ کہہ سکتے ہیں) دو پرائیویٹ فریقین کے درمیان تھا جن میں ایک حکومت کرنے والا جب کہ دوسرا ایک نان فنکشنل سیاسی پارٹی اور مذہبی این جی او تحریک منہاج القرآن کا سربراہ تھا جس کی کوئی بھی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں لیکن ہمارے معاشرے اور اجتماعی زندگی پر اس کے نتائج اور اثرات دور رس ہونگے ساتھ ہی ہمارے پولیٹکل سسٹم میں جو کمزوریاں ہیں انھیں لانگ مارچ نے پوری طرح آشکار کر دیا ہے اور جو سوالات اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ کافی دلچسپ اور خوفناک ہیں۔

پہلا سوال تو یہی ہے کہ ایک شخص جو کئی سال پہلے کینیڈا میں سکونت اختیار کر چکا تھا اچانک ملک میں وارد ہو کر بڑے منظم انداز میں پورے معاشرتی اور سیاسی زندگی کو تہہ و بالا کرتا ہے تو پنجاب کی حکومت اسے روکنے کی بجائے اسے Facilitate کرتی ہے اور اس سیلابِ بلا کو پنڈی سے گزار کر اسلام آباد والوں کے گلے میں ڈال دیتا ہے جب کہ رحمٰن ملک بھی اس عرصے میں نیند (hibernation) میں رہتے ہیں لیکن آخر میں متحرک ہو جاتے ہیں نوازشریف بھی آخری دنوں میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلاتے ہیں جس میں اس دھرنے کی مخالفت اور الیکشن کے انعقاد پر زور دیتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس میں پشتون قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کے اس بیان نے کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی صورت میں ملک کے ہر شہر کو تحریر اسکوائر میں بدل دینگے نے شاید سب سے زوردار اور پرُ اثر پیغام ان قوتوں تک پہنچایا جو اس ڈرامے میں پس پردہ ڈوریاں ہلا رہے تھے۔ آخر میں حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ایک ہائی پاور کمیٹی کے ذریعے، جس میں اقتدار میں شامل سبھی پارٹیاں شامل تھیں، سمجھوتہ کیا ۔ اگر پنجاب اور مرکزی حکومت مل کر شروع کے دنوں میں کچھ کرتے تو یہ نوبت نہ آتی، اس سے ہماری سیاسی اشرافیہ کے ذہنی دیوالیہ پن کا پتہ چلتا ہے۔


یہ بات تو طے تھی کہ در پردہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ساتھ تھی لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے طاہر القادری کی ترغیب کے باوجود ساتھ نہیں دیا۔ لیکن اُسے یہ سمجھ آ گئی کہ پانچ سال گزارنے کے باوجود بھی ہمارا جمہوری نظام کتنا کمزور ہے اور ہماری سیاسی قیادت میں خطرہ بھانپنے اور وقت پر اس سے نمٹنے کی صلاحیت اب تک پیدا نہیں ہو سکی ورنہ آخر میں بھی پولیٹکل اسکورنگ کی بجائے باہمی مشورے سے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا اعلان کر کے اس پورے لانگ مارچ کو ڈی فیوز کیا جا سکتا تھا جو کم از کم ایک نان اسٹیک ہولڈرز سے دبائو میں آ کر سمجھوتے سے بدرجہا بہتر ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ ان کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں غیر جمہوری قوتوں کو unleash کر کے انقلاب کے نام پر جمہوری بساط کو لپیٹ کر کوئی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ لا سکتا ہے، یعنی خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔

ایک اور خطرناک رجحان زورِ خطابت اور ہیجان خیز لفاظی کا ہے جو ہمارے ہاں پہلے سے موجود ہے اب اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک شخص نے زور خطابت اور علم الکلام کی بنیاد پر اندازاً چالیس ہزار افراد جن میں بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں، اسلام آباد کی یخ بستہ سردی اور بارش میں سو گھنٹوں سے زائد وقت انھیں بٹھائے رکھا لیکن خود ہر قسم کے سہولیات سے آراستہ اور مزین کنٹینر میں فروکش تھے۔ مخالفین اور حکومت کو یزید فرعون اور نمرود وغیرہ سے مشابہت دیتے رہے اور خود کو امام عالی مقام سے۔ چالیس ہزار کے اجتماع کو مسلسل دس لاکھ بنا کر پیش کرتے رہے۔ بعد میں انھی لوگوں سے لایعنی قسم کا سمجھوتہ کیا لیکن کسی نے بھی یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ حضور! کیا ہم اسی لیے یہ صعوبتیں اور تکالیف برداشت کر رہے تھے۔

اس سے معاشرے کے ذہنی جمود اور ٹھہرائو کا پتہ چلتا ہے، پیری مریدی ہماری سیاسی پارٹیوں میں پہلے سے موجود تھی، ورکرز، لیڈر میں الوہی خصوصیات دیکھتے ہوئے روبوٹ کی طرح کچھ پوچھے بغیر سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ مذہب اور سیاست کی ملاوٹ بھی پہلے ہی ہماری اجتماعی زندگی میں ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی ہے طاہر القادری نے اسے اور بھی جلا بخشی، مسلسل غلط بیانی اور فریب سے کام لینا اور وہ بھی اس شخص کی طرف سے جو پوری دنیا میں قرآن فہمی اور لوگوں کو صحیح اسلام سمجھانے کا دعویدار ہو، بڑا عجیب لگتا ہے۔ جھوٹ اور فریب جیسا زہر بھی ہمارے جسد سیاست میں وافر مقدار میں موجود تھا ڈاکٹر صاحب نے اسے اس لانگ مارچ میں ایک آرٹ کی شکل دے ڈالی جو کہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔ کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ سیاست میں اخلاقیات کا کیا کام؟ لیکن سیاست سے اگر سیاسی اخلاقیات نکال لی جائے تو پھر وہ سیاست نہیں فاشزم بن جاتی ہے۔ فاشزم کا ایک بنیادی اصول ہے کہ جھوٹ بولنا اور اس تواتر سے تا کہ لوگ اسے سچ تسلیم کر لیں۔

گوئیبلز یہی تو کرتا تھا، مارکس کا یہ قول شاید ان لوگوں کی نظروں سے نہیں گزرا کہ غلط ذرایع سے صحیح مقاصد کبھی بھی حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اس لانگ مارچ کے بطن سے جس خطرناک ترین نظیر نے جنم لیا وہ یہ ہے کہ کوئی بھی طالع آزما اپنے پیروکاروں کو اسلام آباد لا کر ہر قسم کے غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات حکومت سے تسلیم کروا سکتا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ ہمارے ملک میں ایسے مذہبی اور سیاسی طالع آزمائوں کی کمی نہیں۔ عمران خان تو ابھی سے لانگ مارچ کے لیے پر تول رہا ہے اور دھمکی دے رہا ہے کہ اگر ہمارے سات نکات تسلیم نہ کیے گئے تو انتخابات سے قبل ہم بھی شدید احتجاج کریں گے۔ غرض یہ کہ میری نظروں میں اس سارے ڈرامے میں سیاست ہار گئی دھونس، دھمکی اور انتہا پسندی جیت گئی۔ رہی ریاست بچانے کی بات تو قادری صاحب کو پتہ ہو گا کہ لانگ مارچ سے ریاست کس حد تک بچائی گئی لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ خود ساختہ شیخ الاسلام سیاست میں ایک بار پھر ایک اہم ایکٹر کے طور پر داخل ہو گئے، لگے ہاتھوں اپنے دو بیٹوں کو بھی لانچ کیا ۔
Load Next Story