کب مہکے گی فصل گل
بھٹو کا اقتدار ختم ہوا تو ضیاالحق نے جو بدترین آمریت قائم کی۔
یہ کتاب ایکٹیوسٹ وومن ایشین فورم کراچی کی روح رواں انیس ہارون کی مسلسل جدوجہد کی ایک کہانی ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہے، ابھی رواں دواں ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا اور وہ بھی عورتوں کے لیے، کوئی قلعہ فتح کرنے سے کم بات نہیں ہے۔
انیس ہارون نے جہد مسلسل سے اگر ابھی تک فتح حاصل نہ کی ہو، پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ دھاوا ضرور بول دیا ہے۔ یہ کتاب انیس کی آپ بیتی کم، جگ بیتی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب میں تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والے خاندان کی پاکستان میں بسر ہونے والی زندگی کی داستان ہے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی جو اپنے اسکول کے زمانے سے دوسروں کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتی ہے اور اس طرح وہ اپنی زندگی کا آغاز ہی ایک مقصد لے کر کرتی ہے۔
یہاں سے جہد مسلسل شرع ہوتا ہے، اسکول سے حیدرآباد کالج میں آتی ہیں، جس کی اس وقت آپا شمس عباسی پرنسپل ہوتی ہے، یہاں سے انیس ہارون اپنی ہنگامی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ اپنے ان دنوں کے بارے میں انیس ہارون لکھتی ہیں کہ گو ہماری دنیا کالج تک محدود تھی لیکن یہ دنیا اپنی نوعیت کی انوکھی وسعت رکھتی تھی، ڈیبیٹ، ڈرامے، اسپورٹس، کالج یونین کے انتخابات، مشاعرے، کیا کچھ نہیں ہوتا تھا اور ملکی سیاست میں یہ دور ایوب خان کی مارشل لاء کا تھا، جس کا ذکر انیس نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ ایوب خان 1962 کا دستور لاچکے تھے، جس کے نتیجے میں بنیادی جمہوریتوں کا قیام عمل میں آچکا تھا، مگر لوگوں میں بے چینی پیدا ہورہی تھی، سرسبز پاکستان کے خواب دکھائے جارہے تھے، دولت 22 خاندانوں میں جمع ہوچکی تھی، مہنگائی، خورونوش کی اشیا کی عدم دستیابی، رشوت ستانی اور صدارتی نظام کے نام پر آمریت کی جڑیں مضبوط کی جارہی تھیں، بائیں بازو کے کارکن، طلبا اور مزدور شدت سے اس تبدیلی کو محسوس کررہے تھے، ان ہی دنوں یونیورسٹی آرڈیننس آیا جس کی سب سے زیادہ قابل اعتراض شق یہ تھی کہ کسی بھی طالب علم کا تخریبی سرگرمیوں کے الزام پر کالج سے تین سال کے لیے نکالا جانا اور پھر کہیں پاکستان بھر میں داخلہ نہ ملنا تھا۔
یہ وہ حالات تھے جہاں سے گزر کر یہ لوگ تحریکوں کی جان بنے تھے۔ پر یہ بھی سچ ہے کہ سماجی لحاظ سے اس وقت لڑکا اور لڑکی میں کوئی خاص تفریق نہیں کی جاتی تھی، لڑکیاں سائیکلوں پر کالج آتی تھیں، تقریروں میں حصہ لینے کے لیے ملک بھر جاسکتی تھی۔ بنیادی طور پر تحریکیں پرواں دور تھا، انیس بھی ان ہی تحریکوں شامل تھی۔ اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی مدمقابل کھڑی تھیں، جس کا ذکر کرتے ہوئے انیس لکھتی ہیں کہ محترمہ تقریر کرتے ہوئے غصے سے ایوب خان کے بارے میں کہہ رہی تھیں کہ پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اس شخص نے۔ محترمہ کے چہرے سے کرب عیاں تھا۔
انیس لکھتی ہیں وہ دن اور آج کا دن، میں نے آمروں کے خلاف جدوجہد کو اپنی سیاست کا محور بنالیا۔ مجھے کرار حسن کا یہ جملا کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے، بہت اچھا لگا تھا۔ پاکستان میں آمر بدلے، پر آمریت بدستور قائم رہی، جس کا ذکر کرتے ہوئے انیس لکھتی ہیں کہ ضیاالحق نے ایوب خان کی وردی پہن لی تھی، اس بار آمریت کا چہرہ زیادہ مکروہ تھا۔
انیس نے اپنی اس سرگشتہ حیات میں اپنے ملک کے بدلتے ہوئے حالات بڑی ایمانداری سے بیان کیے ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی میں بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ خواتین ونگ میں کام کرتی تھیں۔ اس وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ بھٹو صاحب بنگلہ دیش پر ایکشن کے موضوع پر پریس کانفرنس کررہے تھے، جس میں، میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ بھٹو صاحب ہمیں آپریشن کی مخالفت کرنی ہوگی، یہ غیر جمہوری ہے اور تاریخ ہمیں زمیندار ٹھہرائے گی۔
اس سوال پر بھٹو ناراض ہوجاتے ہیں۔ انیس اس کا بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس کے بعد ایک دن میں بھٹو صاحب کے گھر گئی، بیگم بھٹو کے ساتھ میٹنگ میں جانا تھا، جیسے ہی ڈرائنگ روم میں پہنچی بھٹو صاحب نے کہا کہ وہ جاچکی ہیں، میں سمجھ گئی کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں، واپس جانے کے لیے مڑی ہی تھی تو آواز دی ادھر آؤ، تم اس دن میٹنگ میں کیا کہہ رہی تھیں؟ تم کل کی بچی، تمہیں سیاست اور آرمی ایکشن کا کیا پتا؟ بھٹو صاحب کا چہرہ اس وقت سرخ ہورہا تھا، تم لیفٹ کے لوگ ایک آئیڈیل کی دنیا میں رہتے ہو، پاکستان کے خوفناک حقائق نہیں جانتے، خود بھی مرو گے اور مجھے بھی مرواؤ گے۔
ڈر کے مارے میرے بدن میں کپکپی ہونے لگی، آپ کا لیڈر جسے آپ پسند کرتے ہوں، جس کی آپ عزت کرتے ہوں، وہ ناراض ہورہا ہو تو دل تو دکھے گا نا۔ میں روہانسی ہوگئی، انھیں مجھ پر ترس آگیا، کھھ نرمی سے بولے، تم میری لیڈر ہو یا میں تمھارا لیڈر ہوں۔ آپ، میں بمشکل بولی۔ تو پھر اسٹرٹیجی مجھ پر چھوڑو، غیرزمیندارانہ باتیں مت کیا کرو، کہاں جاؤگی؟ میں نے کہا پارٹی آفس۔ انھوں نے کہا چلو میں تمھیں چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ انھیں جتنی جلدی غصہ آتا ہے، اتنی جلدی ٹھنڈا بھی ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں بڑے لیڈر کی بڑی اور اخلاقی خوبیاں، جس کو انیس نے بیان کیا ہے۔
بیگم بھٹو کے ساتھ پہلی بار وہ بیرون ملک چین گئی تھیں، جس کا دلچسپ احوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ دورہ چین کے دوران ہمارے وفد کی خواتین سلک کے کپڑے کے تھان لے رہی تھیں تو ہماری وہاں پر مترجم نے مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان میں سلک بہت پسند کیا جاتا ہے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ان سے پوچھا کیا آپ کے ہاں نہیں پہنا جاتا؟ تو بڑی سادگی سے بولیں، ابھی ہماری غربت ختم نہیں ہوئی، چین ایک ترقی پذیر ملک ہے، ہم اتنا مہنگا کپڑا پہننے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا۔
بھٹو کا اقتدار ختم ہوا تو ضیاالحق نے جو بدترین آمریت قائم کی، اس کے خلاف بھی انیس ہارون نے جو بھرپور جدوجہد کی اس کا مختصر بیان بھی اس کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جیسے انیس بتاتی ہیں کہ ملک میں جس طرح ضیاالحق نے سیاسی دہشتگردی اور مذہب کے نام پر ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا، اس نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا، سرعام پھانسیاں لگ رہی تھیں، ٹکٹکی پر ملزموں کو باندھ کر کھلے میدان میں کوڑے لگائے جارہے تھے، بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نظر بند کردیا گیا، پھر بھٹو کو پھانسی چڑھا کر ضیاالحق اور زیادہ مضبوط ہوگیا اور اس نے اسلام کے نام پر نام نہاد قانون بنائے، جیسے 1979 میں حدودآرڈیننس جیسا قانون بھی شامل تھا۔
ان کی تفصیل بھی اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ یہ وہ قانون تھے جو عورتوں پر عذاب بن کر نازل ہوئے تھے، چادر چار دیواری سے لے کر خواتین کا سر ڈھانپ کر چلنا، اگر باہر جارہی ہیں تو نکاح نامہ ساتھ لے کر جانا، نہ صرف اتنا عورت کو سرعام سنگسار کرنے جیسے قانون لائے گئے، رقص موسیقی اور تفریحی پروگرام بند کروا دیے گئے۔ مطلب عوام کا جو سیاسی، سماجی اور معاشی قتل عام مذہب کا نام لے کر کیا گیا اس کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔
ان آمرانہ قانون کے خلاف وومن ایکشن فورم نے جو احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس کیے تھے ان میں انیس کا کردار کسی سپہ سالار سے کم نہیں تھا۔ اس جدوجہد کا بھی عملی پس منظر آپ کو اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ آخر میں، میں یہ کہوں گی کہ یہ داستان ہر اس عورت کی ہے، جو متحرک ہے۔
انیس ہارون نے جہد مسلسل سے اگر ابھی تک فتح حاصل نہ کی ہو، پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ دھاوا ضرور بول دیا ہے۔ یہ کتاب انیس کی آپ بیتی کم، جگ بیتی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب میں تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والے خاندان کی پاکستان میں بسر ہونے والی زندگی کی داستان ہے۔ ایک چھوٹی سی لڑکی جو اپنے اسکول کے زمانے سے دوسروں کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتی ہے اور اس طرح وہ اپنی زندگی کا آغاز ہی ایک مقصد لے کر کرتی ہے۔
یہاں سے جہد مسلسل شرع ہوتا ہے، اسکول سے حیدرآباد کالج میں آتی ہیں، جس کی اس وقت آپا شمس عباسی پرنسپل ہوتی ہے، یہاں سے انیس ہارون اپنی ہنگامی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ اپنے ان دنوں کے بارے میں انیس ہارون لکھتی ہیں کہ گو ہماری دنیا کالج تک محدود تھی لیکن یہ دنیا اپنی نوعیت کی انوکھی وسعت رکھتی تھی، ڈیبیٹ، ڈرامے، اسپورٹس، کالج یونین کے انتخابات، مشاعرے، کیا کچھ نہیں ہوتا تھا اور ملکی سیاست میں یہ دور ایوب خان کی مارشل لاء کا تھا، جس کا ذکر انیس نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ ایوب خان 1962 کا دستور لاچکے تھے، جس کے نتیجے میں بنیادی جمہوریتوں کا قیام عمل میں آچکا تھا، مگر لوگوں میں بے چینی پیدا ہورہی تھی، سرسبز پاکستان کے خواب دکھائے جارہے تھے، دولت 22 خاندانوں میں جمع ہوچکی تھی، مہنگائی، خورونوش کی اشیا کی عدم دستیابی، رشوت ستانی اور صدارتی نظام کے نام پر آمریت کی جڑیں مضبوط کی جارہی تھیں، بائیں بازو کے کارکن، طلبا اور مزدور شدت سے اس تبدیلی کو محسوس کررہے تھے، ان ہی دنوں یونیورسٹی آرڈیننس آیا جس کی سب سے زیادہ قابل اعتراض شق یہ تھی کہ کسی بھی طالب علم کا تخریبی سرگرمیوں کے الزام پر کالج سے تین سال کے لیے نکالا جانا اور پھر کہیں پاکستان بھر میں داخلہ نہ ملنا تھا۔
یہ وہ حالات تھے جہاں سے گزر کر یہ لوگ تحریکوں کی جان بنے تھے۔ پر یہ بھی سچ ہے کہ سماجی لحاظ سے اس وقت لڑکا اور لڑکی میں کوئی خاص تفریق نہیں کی جاتی تھی، لڑکیاں سائیکلوں پر کالج آتی تھیں، تقریروں میں حصہ لینے کے لیے ملک بھر جاسکتی تھی۔ بنیادی طور پر تحریکیں پرواں دور تھا، انیس بھی ان ہی تحریکوں شامل تھی۔ اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی مدمقابل کھڑی تھیں، جس کا ذکر کرتے ہوئے انیس لکھتی ہیں کہ محترمہ تقریر کرتے ہوئے غصے سے ایوب خان کے بارے میں کہہ رہی تھیں کہ پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اس شخص نے۔ محترمہ کے چہرے سے کرب عیاں تھا۔
انیس لکھتی ہیں وہ دن اور آج کا دن، میں نے آمروں کے خلاف جدوجہد کو اپنی سیاست کا محور بنالیا۔ مجھے کرار حسن کا یہ جملا کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے، بہت اچھا لگا تھا۔ پاکستان میں آمر بدلے، پر آمریت بدستور قائم رہی، جس کا ذکر کرتے ہوئے انیس لکھتی ہیں کہ ضیاالحق نے ایوب خان کی وردی پہن لی تھی، اس بار آمریت کا چہرہ زیادہ مکروہ تھا۔
انیس نے اپنی اس سرگشتہ حیات میں اپنے ملک کے بدلتے ہوئے حالات بڑی ایمانداری سے بیان کیے ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی میں بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ خواتین ونگ میں کام کرتی تھیں۔ اس وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ بھٹو صاحب بنگلہ دیش پر ایکشن کے موضوع پر پریس کانفرنس کررہے تھے، جس میں، میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ بھٹو صاحب ہمیں آپریشن کی مخالفت کرنی ہوگی، یہ غیر جمہوری ہے اور تاریخ ہمیں زمیندار ٹھہرائے گی۔
اس سوال پر بھٹو ناراض ہوجاتے ہیں۔ انیس اس کا بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اس کے بعد ایک دن میں بھٹو صاحب کے گھر گئی، بیگم بھٹو کے ساتھ میٹنگ میں جانا تھا، جیسے ہی ڈرائنگ روم میں پہنچی بھٹو صاحب نے کہا کہ وہ جاچکی ہیں، میں سمجھ گئی کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں، واپس جانے کے لیے مڑی ہی تھی تو آواز دی ادھر آؤ، تم اس دن میٹنگ میں کیا کہہ رہی تھیں؟ تم کل کی بچی، تمہیں سیاست اور آرمی ایکشن کا کیا پتا؟ بھٹو صاحب کا چہرہ اس وقت سرخ ہورہا تھا، تم لیفٹ کے لوگ ایک آئیڈیل کی دنیا میں رہتے ہو، پاکستان کے خوفناک حقائق نہیں جانتے، خود بھی مرو گے اور مجھے بھی مرواؤ گے۔
ڈر کے مارے میرے بدن میں کپکپی ہونے لگی، آپ کا لیڈر جسے آپ پسند کرتے ہوں، جس کی آپ عزت کرتے ہوں، وہ ناراض ہورہا ہو تو دل تو دکھے گا نا۔ میں روہانسی ہوگئی، انھیں مجھ پر ترس آگیا، کھھ نرمی سے بولے، تم میری لیڈر ہو یا میں تمھارا لیڈر ہوں۔ آپ، میں بمشکل بولی۔ تو پھر اسٹرٹیجی مجھ پر چھوڑو، غیرزمیندارانہ باتیں مت کیا کرو، کہاں جاؤگی؟ میں نے کہا پارٹی آفس۔ انھوں نے کہا چلو میں تمھیں چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ تو میں بھی جانتی تھی کہ انھیں جتنی جلدی غصہ آتا ہے، اتنی جلدی ٹھنڈا بھی ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں بڑے لیڈر کی بڑی اور اخلاقی خوبیاں، جس کو انیس نے بیان کیا ہے۔
بیگم بھٹو کے ساتھ پہلی بار وہ بیرون ملک چین گئی تھیں، جس کا دلچسپ احوال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ دورہ چین کے دوران ہمارے وفد کی خواتین سلک کے کپڑے کے تھان لے رہی تھیں تو ہماری وہاں پر مترجم نے مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان میں سلک بہت پسند کیا جاتا ہے؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ان سے پوچھا کیا آپ کے ہاں نہیں پہنا جاتا؟ تو بڑی سادگی سے بولیں، ابھی ہماری غربت ختم نہیں ہوئی، چین ایک ترقی پذیر ملک ہے، ہم اتنا مہنگا کپڑا پہننے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا۔
بھٹو کا اقتدار ختم ہوا تو ضیاالحق نے جو بدترین آمریت قائم کی، اس کے خلاف بھی انیس ہارون نے جو بھرپور جدوجہد کی اس کا مختصر بیان بھی اس کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جیسے انیس بتاتی ہیں کہ ملک میں جس طرح ضیاالحق نے سیاسی دہشتگردی اور مذہب کے نام پر ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا، اس نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا، سرعام پھانسیاں لگ رہی تھیں، ٹکٹکی پر ملزموں کو باندھ کر کھلے میدان میں کوڑے لگائے جارہے تھے، بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نظر بند کردیا گیا، پھر بھٹو کو پھانسی چڑھا کر ضیاالحق اور زیادہ مضبوط ہوگیا اور اس نے اسلام کے نام پر نام نہاد قانون بنائے، جیسے 1979 میں حدودآرڈیننس جیسا قانون بھی شامل تھا۔
ان کی تفصیل بھی اس کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ یہ وہ قانون تھے جو عورتوں پر عذاب بن کر نازل ہوئے تھے، چادر چار دیواری سے لے کر خواتین کا سر ڈھانپ کر چلنا، اگر باہر جارہی ہیں تو نکاح نامہ ساتھ لے کر جانا، نہ صرف اتنا عورت کو سرعام سنگسار کرنے جیسے قانون لائے گئے، رقص موسیقی اور تفریحی پروگرام بند کروا دیے گئے۔ مطلب عوام کا جو سیاسی، سماجی اور معاشی قتل عام مذہب کا نام لے کر کیا گیا اس کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔
ان آمرانہ قانون کے خلاف وومن ایکشن فورم نے جو احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس کیے تھے ان میں انیس کا کردار کسی سپہ سالار سے کم نہیں تھا۔ اس جدوجہد کا بھی عملی پس منظر آپ کو اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ آخر میں، میں یہ کہوں گی کہ یہ داستان ہر اس عورت کی ہے، جو متحرک ہے۔